• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ( ضروری ہے )

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ( ضروری ہے )

وقال الحسن يقرأ على الطفل بفاتحة الكتاب ويقول اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا‏.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورئہ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے اللہم اجعلہ لنا فرطا وسلفا واجرا یا اللہ! اس بچے کو ہمارا امیر سامان کردے اور آگے چلنے والا‘ ثواب دلانے والا۔

حدیث نمبر : 1335
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن طلحة، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏ حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة‏.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداءمیں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔

تشریح : جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب ہر نماز کو شامل ہے۔

اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے۔ والحق والصواب ان قراۃ الفاتحۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ واجبۃ کما ذہب الیہ الشافعی واحمد واسحاق وغیرہم لانہم اجمعواعلی انہا صلوٰۃ وقد ثبت حدیث لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب فہی داخلۃ تحت العموم واخراجہا منہ یحتاج الی دلیل ولا نہا صلوٰۃ یجب فیہا القیام فوجبت فیہا القراۃ کسائر الصلوات ولانہ وردالامر بقراتہا فقدروی ابن ماجۃ باسناد فیہ ضعف یسیر عن ام شریک قالت امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقراءعلی میتنا بفاتحۃ الکتاب وروی الطبرانی فی الکبیر من حدیث ام عفیف قالب امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقرا علی میتنا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ عبدالمنعم ابوسعید وہو ضعیف انتہی۔

والا مر من ادلۃ الوجوب وروی الطبرانی فی الکبیر ایضا من حدیث اسماءبنت یزید قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم علی الجنازۃ فاقر ؤا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ معلیٰ بن حمران ولم اجد من ذکرہ وبقیۃ رجالہ موثقون وفی بعضہم کلام ہذا وقد صنف حسن الشر نبلانی من متاخری الحنفیۃ فی ہذہ المسئلۃ رسالۃ اسمہا النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ ام الکتاب وحقق فیہا ان القراءۃ اولیٰ من ترک القراءۃ ولا دلیل علی الکراہۃ وہوالذی اختارہ الشیخ عبدالحی اللکہنوی فی تصانیفہ لعمدۃ الرعایۃ والتعلیق الممجد وامام الکلام ثم انہ استدل بحدیث ابن عباس علی الجہر بالقراءۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ لا نہ یدل علی انہ جہر بہا حتی سمع ذالک من صلی معہ واصرح من ذلک ماذکر ناہ من روایۃ النسائی بلفظ صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیدہ فسالتہ فقال سنۃ وحق وفی روایۃ اخریٰ لہ ایضا صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فسمعتہ یقرا بفاتحۃ الکتاب الخ ویدل علی الجہر بالدعاءحدیث عوف بن مالک الاتی فان الظاہر انہ حفظ الدعاءالمذکور لما جہربہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلوٰہ علی الجنازۃ اصرح منہ حدیث واثلۃ فی الفصل الثانی۔

واختلف العلماءفی ذلک فذہب بعضہم الی انہ یستحب الجہر بالقراءۃ والدعاءفیہا واستدلوا بالروایات التی ذکرناہا انفا و ذہب الجمہور الی انہ لا یندب الجہربل یندب الاسرار قال ابن قدامۃ ویسر القراءۃوالدعاءفی صلوٰۃ الجنازۃ لا نعلم بین اہل العلم فیہ خلا فا انتہی۔
واستدلوا لذلک بما ذکرنا من حدیث ابی امامۃ قال السنۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ ان یقرا فی التکبیرۃ الاولیٰ بام القرآن مخافتۃ لحدیث اخرجہ النسائی ومن طریقہ ابن حزم فی المحلیٰ ( ص:129ج:5 ) قال النووی فی شرح المہذب رواہ النسائی باسناد علی شرط الصحیحین وقال ابوامامۃ ہذا صحابی انتہی وبما روی الشافعی فی الام ( ص:239ج:1 والبیہقی ص:39ج:4 ) من طریقہ عن مطرف بن مازن عن معمرعن الزہری قال اخبرنی ابوامامۃ بن سہل انہ اخبرہ رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان السنۃ فی الصلوۃ علی الجنازہ ان یکبر الامام ثم یقرا بفاتحۃ الکتاب بعدالتکبیرۃ الاولیٰ سرا فی نفسہ الحدیث وضعفت ہذہ الروایۃ بمطرف لکن قواہا البیہقی بمارواہ فی المعرفۃ والسنن من طریق عبیداللہ بن ابی زیاد الرصا فی عن الزہری بمعنی روایۃ مطرف وبما روی الحاکم ( ص:359،ج:1 ) والبیہقی من طریقہ ( ص:42ج:4 ) عن شرحبیل بن سعدقال حضرت عبداللہ بن مسعود صلی علی جنازۃ بالابواءفکبر ثم قرا بام القرآن رافعاً صوتہ بہا ثم صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم قال اللہم عبدک وابن عبدک الحدیث وفی آخرہ ثم انصرف فقال یا ایہا الناس انی لم اقرا علنا ( ای جہرا ) الا لتعلموا انہا سنۃ قال الحافظ فی الفتح وشرحبیل مختلف فی توثیقہ انتہی۔

واخرج ابن الجارود فی المنتقیٰ من طریق زید بن طلحۃ التیمی قال سمعت ابن عباس قرا علی جنازۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر بالقراءۃ وقال انما جہرت لاعلمکم انہا سنۃ۔

وذہب بعضہم الی انہ یخیربین الجہر والاسرار وقال بعض اصحاب الشافعی انہ یجہر باللیل کاللیلۃ ویسربالنہار۔ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول ابن عباس انما جہرت لتعلموا انہا سنۃ یدل علی ان جہرہ کان للتعلیم ای لالبیان ان الجہر بالقراءۃ سنۃ قال واما قول بعض اصحاب الشافعی یجہر باللیل کاللیلۃ فلم اقف علی روایۃ تدل علی ہذا انتہی۔ وہذا یدل علی ان الشیخ مال الی قول الجمہور ان الاسرار بالقرا ءۃ مندوب ہذا وروایۃ ابن عباس عندالنسائی بلفظ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ تدل علی مشروعیۃ قرا ءۃ سورۃ مع الفاتحۃ فی الصلوٰۃ الجنازۃ قال الشوکانی لامحیص عن المصیر الی ذلک لانہا زیادۃ خارجۃ من مخرج صحیح قلت ویدل علیہ ایضا ما ذکرہ ابن حزم فی المحلیّٰ ( ص:129ج:5 ) معلقا عن محمدبن عمروبن عطاءان المسور بن مخرمۃ صلی علی الجنازۃ فقرا فی التکبیر الاولیٰ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ قصیرۃ رفع بہاصوتہ فلما فرغ قال لا اجہل ان تکون ہذہ الصلوۃ عجماءولکن اردت ان اعلمکم ان فیہا قرا ءۃ۔
( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص:478 )
حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جمازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماءبنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔
متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ بام الکتاب کہا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف عمدۃ الرعایہ اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔
پھر حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔
اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے اخرجہ النسائی۔ علامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔
شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواءشریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔
اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمتہ اللہ علیہ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قرات والی ) نہیں ہے۔ انتہی مختصرا
خلاصتہ المرام یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنہ میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔

علمائے احناف کا فتوی!
فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ ( تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 )
فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔
روایات بالا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے یوں فرمائی ہے۔
والمراد بالسنۃ الطریقۃ المالوفۃ عنہ صص لا مایقابل الفریضۃ فانہ اصطلاح عرفی حادث فقال الاشرف الضمیر المونث لقراءۃ الفاتحۃ ولیس المراد بالسنۃ انہا لیست بواجبۃ بل مایقابل البدعۃ ای انہا طریقۃ مرویۃ وقال القسطلانی انہا ای قراءۃ الفاتحۃ فی الجنازۃ سنۃ ای طریقۃ الشارع فلا ینا فی کونہا واجبۃ وقد علم ان قول الصحابی من السنۃ کذا حدیث مرفوع عند الاکثر قال الشافعی فی الام واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون السنۃ الالسنۃ رسول اللہ علیہ وسلم ان شاءاللہ تعالیٰ انتہٰی ( مرعاۃ المفاتیح، ص:477 ) یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤
 
Top