جنازہ کے آگے یا پیچھے بلند آواز سے ذکر وغیرہ کرنا
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری
جنازہ کے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر وغیرہ کرنا “قبیح بدعت” ہے ،قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، یہ رسول اللہ ﷺ ، خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعینِ عظام ، ائمہ دین اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے ۔
اس کے باوجود “قبوری فرقہ” اس کو جائز سمجھتا ہے ، جنازہ کے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر یا قرآن خوانی کرنا نیکی کا کام ہوتا یا شریعت کی روسے میت کو کوئی فائدہ پہنچتا تو صحابہ کرام اور سلف صالحین جو سب سے بڑھ کر قرآن و حدیث کے معانی ، مفاہیم و مطالب اور تقاضوں کو سمجھنے والے اوران کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنے والے تھے، وہ ضرور اس کا اہتمام کرتے۔
چاروں اماموں سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں ہے ، احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں:
“ہم مسائلِ شرعیہ میں امام صاحب (ابوحنیفہ) کا قول و فعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائلِ شرعیہ پر نظر نہیں کرتے ۔” (جاء الحق از احمد یار خان بریلوی : ۱۵/۱)
اب بریلویوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام ابوحنیفہ سے باسندِ صحیح اس کا استحباب ثابت کریں ، ورنہ ماننا پڑے گا کہ اس فرقہ کا امام ابوحنیفہ سے کوئی تعلق نہیں اور “اجلی الاعلام بان الفتویٰ مطلقا علی قول الامام” کے نام سے رسالے لکھنے والوں کو شعرانی جو انتہائی گمراہ کن انسا ن تھا ، اس کے خلافِ شرع اقوال پیش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ بعض حنفیوں اماموں نے جنازہ کے ساتھ بآوازِ بلند ذکر کے عدمِ جواز اور بدعتِ قبیحہ ہونے کی صراحت بیان کی ہے :
۱٭ طحطاوی حنفی لکھتے ہیں: ولا یرفع صوتہ بالقرائۃ ولا بالذّکر، ولا یغتر بکثرۃ من یفعل ذلک، وامّا ما یفعلہ الجھّال فی القرائۃ علی الجنازۃ من رفع الصّوت و التّمطیط فیہ فلا یجوز بالاجماع، ولا یسع أحدا یقدر علی انکارہ أن یسکت عنہ ولا ینکر علیہ، وعلیھم الصّمت و نحو ذلک کالأذکار المتعارفۃ بدعۃ قبیحۃ.
“جنازہ کے ساتھ قراءت اور ذکر کے وقت آواز بلند نہ کرے ، جو لوگ یہ بلند آواز سے ذکر کرتے ہیں، ان کی کثرت دیکھ کر دھوکے میں نہ آجائے ، جنازہ کے ساتھ جاہل لوگ اونچی آواز سے اور کھینچ کھینچ کر کرتے ہیں ، یہ بالاجماع جائز نہیں ہے ، کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ اس کے انکار پر قدرت و طاقت رکھتا ہو ، پھر خاموش رہے اور اس پر انکار نہ کرے ، لوگوں پر خاموشی لازم ہے ، اسی طرح جنازہ کے ساتھ اذکارِ متعارفہ بدعتِ قبیحہ ہیں۔” (حاشیۃ الطحطاوی ::۳۳۲)
۲٭ ترکمانی حنفی لکھتے ہیں: ومن البدع ما یفعل بین یدی المیّت من قرائۃ و ذکر و حمل خبز و خرفان، الکلّ لا یرضی الواحد الدّیّان.
“میت کے آگے قراءت و ذکر کرنا، روٹیاں اور بکری کا بچہ اٹھانا، بدعت کے کاموں میں سے ہے، ان ساری چیزوں پر کوئی ایک بھی دیندار انسان راضی نہیں ہوسکتا ۔” (کتاب اللمع فی الحوادث و البدع از ترکمانی” ۲۳۲)
نیز لکھتے ہیں: وکذلک الذّکر جھرا یکرہ فعلہ خلف الجنازۃ ، ولیس فیہ أجر للذّاکر ولا للمیّت.
“اسی طرح جنازہ کے پیچھے اونچی آواز سے ذکر کرنا مکروہ ہے ، اس میں ذاکر (ذکر کرنے والے) اور میت کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔” (کتاب اللمع: ۲۱۶)
۳٭ حنفی مذہب کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے:
“جنازے کے ساتھ جانے والوں کو خاموش رہنا واجب ہے اور بلند آواز ذکر کرنا اور قرآن پڑھنا مکروہ ہے ،اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں تو اپنے دل میں کریں۔” (فتاویٰ عالمگیری: ۱۶۲/۱ ، فتاویٰ قاضی خان : ۹۲/۱، بحوالہ جاء الحق از نعیمی: ۴۰۸/۱)
ایک حنفی امام لکھتے ہیں: رفع الصّوت بالذّکر وقرائۃ القرآن وقولھم کلّ حیّ یموت و نحو ذلک خلف الجنازۃ بدعۃ.
“جنازہ کےساتھ بآوازِ بلند ذکر اور قراءتِ قرآن اور لوگوں کا یہ کہنا کہ ہر زندہ مرے گا، اور اس طرح کی باتیں بدعت ہیں۔” (فتاویٰ سراجیہ: ۲۳)
محمد رکن دین بریلوی لکھتے ہیں:
“سوال : جولوگ جنازہ کے ہمراہ ہوں ان کوکلمہ طیبہ راستہ میں پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب: پکار کر پڑھنا تو مکروہ ہے ، دل میں اگر پڑھیں تو مضائقہ نہیں ، بہتر خاموشی ہے ۔(عالمگیری)” (رکن دین : ۲۰۶)
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
احمد یار نعیمی گجراتی صاحب لکھتے ہیں:
“جن فقہاء نے میت کے ساتھ ذکر بالجہر کو مکروہ فرمایا، ان کی مراد مکروہ تنزیہی ہے ۔” (جاء الحق ؛ ۴۱۰/۱)
جناب بریلوی صاحب دھینگا مشتی کرتے ہوئے اپنے “فقہاء ” کی عبارت کا مفہوم بگاڑنے میں سرگرداں ہیں کہ مکروہ سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے ، جبکہ بعض”فقہاء” نے اس کو بدعتِ قبیحہ کہا ہے، ابن نجیم حنفی ج کو ابوحنیفہ ثانی کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
وینبغی لمن تبع الجنازۃ أن یطیل الصّمت ویکرہ رفع الصّوت بالذّکر وقرائۃ القرآن وغیرھما فی الجنازۃ و الکراھۃ فیھا کراھۃ تحریم.
“جنازہ کے پیچھے چلنے والوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ لمبی خاموشی اختیار کریں ، جنازہ کے ساتھ اونچی آواز سے ذکر اور قراءتِ قرآن وغیرہ مکروہ ہے ، اس میں کراہت تحریمی ہے ۔” (البحر الرائق : ۱۹۹/۲)
ثابت ہوا کہ “مفتی ” صاحب کی توجیہ باطل ہے اور محض بدعت کو کمزور سہارا دینے والی بات ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “جان لو ! درست اور مختار مذہب یہ ہے کہ جس پرسلف رضی اللہ عنہم کا عمل رہا ہے کہ جنازہ کے ساتھ چلتے وقت سکوت اختیار کیا جائے ، قرآءت اور ذکر وغیرہ میں آواز بلند نہ کی جائے ، اس میں حکمت ظاہر ہے کہ خاموشی انسان کے دل کو مطمئن اور جنازے کے متعلق چیزوں کے بارے میں اس کی فکر کو جمع کردیتی ہے ، اس حالت سے یہی مطلوب ہے اور یہی حق بھی ہے ، اس کی مخالفت کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر دھوکہ مت کھا۔” (الاذکار از نووی : ۱۳۶)
اسی طرح جب حافظ نووی سے سوال کیا گیا کہ دمشق میں بعض جاہل جنازے پر بری طرح کھینچ کھینچ کر ، حد سے زیادہ سر اور کلمات سے زائد حروف داخل کرکے قراءت کرتے ہیں، کیا ایساکرنا مذموم چیز ہے یا نہیں ؟
حافظ نووی جواب دیتے ہیں: “یہ واضح برائی اور انتہائی قابلِ مذمت چیز ہے ، اس کے حرام ہونے پر علماء کا اجماع ہے ، ماوردی اور دوسرے کئی ایک اماموں نے اس کے حرام ہونے پر اجماع نقل کیا ہے ، حاکمِ وقت اس فعل پر ان کو ڈانٹے اور تعزیرقائم کرے اور اس فعل سے توبہ کرائے ، ہر مکلّف جو اس کے انکار پر قدرت و طاقت رکھتا ہے ، اس پر انکار لازم ہے ۔” (فتاویٰ النووی : ۳۶)
۵٭ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “جنازے کے ساتھ بآوازِ بلند ذکروغیرہ کرنا، یہ اہل کتاب اور عجمیوں کی عادت تھی ،لیکن اس امت کے بہت سارے لوگ بھی اس میں مبتلا ہوگئے ہیں۔” (اقتضاء الصراط المستقیم : ۳۱۶/۱)
نیز فرماتے ہیں: “جنازے کے ساتھ آواز بلند کرنا بالاتفاق مکروہ ہے ، خواہ قراءت ہی ہو۔” (الاختیارات الفقھیہ:۸۸)
۶٭ ابن النحاس (م ۸۱۴ ھ ) لکھتے ہیں: “اگر قراءت میں کھینچاؤ اور الحان نہ بھی ہو ، پھر بھی یہ مکروہ بدعت ہے ،کیونکہ نبیٔ کریم ﷺ اور سلف میں سے کسی انسان سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے ، اسی طرح جنازے کے ساتھ ذکر بھی مکروہ بدعت ہے ۔” (تنبیہ الغافلین عن اعمال الجاھلین و تحذیر السالکین من افعال الھالکین: ۴۸۱)
اہل بدعت کے دلائل
۱٭ اہل بدعت کا عمومی دلائل سے اس کا ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ بدعات یا تو عمومی دلائل کے تحت آتی ہی نہیں یا ان سے مستثنیٰ ہوتی ہے ۔
۲٭ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، کہتے ہیں:
لم یکن یسمع من رسول اللہ ﷺ وھو یمشی خلف الجنازۃ الا قول لا الہ الا اللہ مبدیا وراجعا.
“جب رسول اللہ ﷺ جنازے کے پیچھے چلنا شروع کرتے اور جب واپس لوٹتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما آپ سے لا الہ الا اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں سنتے تھے۔” (الکامل لابن عدی : ۲۶۹/۱ ، ۱۶۰۸/۴)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے ، اس کے راوی ابراہیم بن احمد الحرانی کے بارے میں امام ابوعروبہ فرماتے ہیں: کان یضع الحدیث. “یہ حدیثیں گھڑتا تھا ۔” (الکامل لابن عدی : ۲۶۹/۱)
اس کے بارے میں تعدیل ثابت نہیں ہے لہٰذا ایسی موضوع (من گھڑت) روایت بدعت کے ثبوت میں پیش کرنا سراسر دھوکہ اور ظلم ہے ۔
احمد یار نعیمی لکھتے ہیں: “اگر یہ حدیث ضعیف بھی ہو ، پھر بھی فضائلِ اعمال میں معتبر ہے ۔” (جاء الحق: ۴۰۴/۱)
اولاً : یہ روایت من گھڑت ہے۔ ثانیاً: اس میں جنازے کے ساتھ بآوازِ بلند اجتماعی ذکر کا وجود نہیں ملتا ۔ ثالثاً: اس مسئلہ کا تعلق احکام کے ساتھ ہے نہ کہ فضائل کے ساتھ، چونکہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ جنازے کے آگے یا پیچھے ذکر کرنا جائز ہے یا ناجائز ، نہ کہ اس کی فضیلت کے بارے میں۔
۳٭ عن عبداللہ بن محمد بن وھب، حدّثنی یحیی بن محمد بن صالح ، حدّثنا خالد بن مسلم القرشی ، حدّثنا یحیی بن أیوب عن یزید بن أبی حبیب عن سنان بن سعد عن أنس ، قال ؛ قال رسول اللہ ﷺ ؛ أکثروا فی الجنازۃ قول لا الہ اّلا اللہ.
“سیدنا انس عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا، جنازے کے ساتھ کثرت سے لاالہ الا اللہ پڑھو۔” (مسند الدیلمی : رضی اللہ۳۲/۱/۱، بحوالہ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۲۸۸/۱)
تبصرہ:
یہ روایت “ضعیف” ہے ، اس کے بعض راوی نامعلوم و مجہول ہیں ، محدث البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یحییٰ بن ایوب سے نیچے راویوں کا مجھے ذکر نہیں مل سکا۔
مجہول اور نامعلوم راویوں کی روایت سے استدلال اہل حق کو زیب نہیں دیتا ، دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں ذکر بالجہر کا وجود تک نہیں ملتا۔
تنبیہ:
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی کہتے ہیں:
“ہمارے حضرت حاجی (امداد اللہ) صاحب قبلہ نے انتقال کے وقت مولوی اسماعیل صاحب سے فرمایا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میرے جنازے کے ساتھ ذکر بالجہر کیا جائے ، انہوں نے کہا ، حضرت یہ تو نامناسب معلوم ہوتا ہے ، ایک نئی بات ہے ، جس کو فقہاء نے اس خیال سے کہ عوام سنت نہ سمجھ لیں ، پسند نہیں فرمایا ، فرمایا بہت اچھا ، جو مرضی ہو ، خیر بات آئی گئی ہو ئی اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی ، کیونکہ خلوت میں گفتگو ہوئی تھی، مگر جب جنازہ اٹھا تو ایک عرب کی زبان سے نکلا، اذکروا اللہ بس پھر کیا تھا، سب لوگ باساختہ ذکر کرنے لگے اور لا الہ الا اللہ کی صدائیں برابر قبرستان میں بلند رہیں ، بعد میں مولوی اسماعیل صاحب اس گفتگو کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت (امداد اللہ) کو تو منوا دیا ، مگر اللہ تعالیٰ کو کیونکر منوائیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت کی تمنا پوری کردی ۔” (قصص الاکابراز تھانوی : ۱۱۹، الافاضات الیومیۃ از تھانوی : ۲۷۷/۳، امداد المشتاق از تھانوی : ۲۰۴)
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں:
۱٭ دیوبندیوں کے عقیدہ وحدت الوجود کے امام اور ان کے پیرو مرشد حاجی امداداللہ کے نزدیک بدعت اور بےاصل کام کی خواہش کرنا بھی صحیح ہے اور خلافِ شرع کام کی وصیت بھی۔
۲٭ جنازے کے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر وغیرہ کی بدعت پر عمل کرنے میں تمام تقلید پرست متفق ہیں ، حالانکہ میت کے ساتھ اونچی آواز سے پڑھنا ہندؤوں کی رسمِ بد ہے ۔
۳٭ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے ۔
الحاصل:
جناز ےکے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر اور نعت خوانی وغیرہ بدعتِ قبیحہ، سیئہ اور مذمومہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭
شکریہ
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من لم یشکر القلیل لم یشکر الکثیر ، ومن لم یشکر الناس لم یشکر اللہ عزوجل، والتحدیث بنعمۃ اللہ شکر ، وترکھا کفر، والجماعۃ رحمۃ ، والفرقۃ عذاب.
“جو تھوڑی نعمت کا شکریہ ادانہیں کرتا، وہ زیادہ کابھی شکریہ ادا نہیں کرتا، جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا، اللہ کی نعمت دوسرے سے بیان کرنا شکریہ ہے اور ایسانہ کرنا کفرانِ نعمت ہے ، جماعت رحمت ہے اور تفرقہ بازی عذاب ہے ۔” (مسند الامام احمد : ۲۸۷/۴، ۳۷۵، زوائد مسند الامام احمد : ۳۷۵/۴ ، السنۃ لا بن ابی عاصم : ۹۳، الشکر لا بن ابی الدنیا: ۶۴، وسندہ حسن)