امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ»، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، ثُمَّ قَالَ: «اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ»، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ، ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ، فَقَالَ: «إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ» [سنن أبي داود 1/ 172 رقم 638 ]۔
ہمارے ناقص مطالعہ کی حد تک یہ حدیث صحیح ہے ۔تفصیل ملاحظ ہو:
یہ حدیث کئی سندوں سے منقول ہے اوربعض سندوں کے بیان میں بعض رواۃ سے چوک ہوئی ہے ، لیکن اوپر ابوداؤد کی جو سند پیش کی گئی ہے وہ محفوظ ہے اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں ،
اس کی سند پر دو اعتراض ہیں :
پہلااعتراض
سند میں یحیی بن کثیر مدلس ہیں اورانہوں نے عن سے روایت کیا ہے۔
جواب
یحیی بن کثیر نے دیگرطرق میں سماع کی صراحت کردی ہے لہٰذا تدلیس کا الزام باطل ہے۔
امام أبو محمد الحارث رحمه الله (المتوفى282)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ثنا هِشَامُ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَوَضَّأْ أَوْ أَحْسِنْ صَلَاتَكَ» فَرَفَعَ الرَّجُلُ إِزَارَهُ فَسَكَتَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ أَوْ يُحْسِنَ صَلَاتَهُ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ فَقَالَ: «إِنَّهُ كَانَ مُسْبِلًا فَلَمَّا رَفَعَهُ سَكَتُّ عَنْهُ» قُلْتُ: عَزَاهُ الْمِزِّيُّ إِلَى النَّسَائِيِّ وَلَمْ أَجِدْهُ فِي الصُّغْرَى[مسند الحارث: 1/ 260 رقم 138]۔
امام احمدبن منیع رحمہ اللہ نے کہا:
ثنا يَزِيدُ، أبنا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: "بَيْنَمَا النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - جَالِسٌ وَرَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلَ إِزَارِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: تَوَضَّأْ وَأَحْسِنْ صَلَاتَكَ. فَرَفَعَ الرَّجُلُ إِزَارَهُ، فَسَكَتَ عَنْهُ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ وَيُحْسِنَ صَلَاتَهُ. ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ كَانَ مُسْبِلًا إِزَارَهُ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ فَلَمَّا رفع سكت عنه".[إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة 4/ 514 نقلا عن مسند احمدبن منیع]۔
تنبیہ:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یحیی بن کثیرنے اس سند میں لازمی تدلیس کی ہے کیونکہ ایک سند میں ان کے اور ابوجعفرکے بیچ واسطہ ہے۔
عرض ہے کہ اول تو واسطہ والی سند شاذ ہے ، اوراگراسے صحیح مان لیں تو یہ المزید فی متصل الاسانید کے قبیل سے شمارہوگی کیونکہ امام یحیی بن کثیر نے ابوجعفرسے تحدیث کی صراحت کردی ہے۔
دوسرا اعتراض
ابوجعفر مجہول ہے۔
جواب
اولا:
مجہول کوئی جرح نہیں ہے ۔
اورمذکورہ سند میں اس سے روایت کرنے والے
يحيى بن أبي كثير ہیں اوریہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں:
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) فرماتے ہیں:
يحيى بن ابى كثير امام لا يحدث الا عن ثقة [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 9/ 142]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) امام ابوحاتم کا قول برضا ورغبت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قال أبو حاتم ثقة إمام لا يروي إلا عن ثقة [تذكرة الحفاظ وذيوله 1/ 97]۔
لہٰذا اس سند میں ان کا ابوجعفرسے روایت کرنا ابوجعفر کی توثیق ہے۔
یاد رہے کہ جن ناقدین کے بارے میں یہ مل جائے کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں تو ان کا اپنے کسی شیخ سے روایت کرنا ان کی توثیق شمارہوگی۔
علامہ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیاگیا:
ما القول فيمن قيل فيه لا يروي إلا عن ثقات ومن ينتقي في مشايخه ؟ [سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 10]۔
توعلامہ موصوف نے جواب دیا:
من قيل فيه لا يروي إلا عن ثقات فهذا توثيق لمشايخه ما لم يخالف نص إمام معتبر من أئمة الجرح والتعديل أما الانتقاء۔۔۔۔[سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 11 نسخۃ الشاملہ]۔
مطبوعہ نسخہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں :
الذي وصل اليه رائي ، أن نعتد به احتجاجا اذا لم يکن له مخالف في الراوي الذي وثق ، اعتمادا علي الراوي عنه الذي قيل عنه لايروي الا عن ثقه .[الدرر في مسائل المصطلح والأثر: ص ١٥].
تنبیہ :
ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ علامہ البانی رحمہ اللہ اگرصرف ثقہ سے روایت کرنے والوں کے مشائخ کو ثقہ مانتے ہیں تو پھر زیربحث حدیث کی سند میں انہوں نے ابوجعفر کو مجہول کہہ کرحدیث کو ضعیف کیوں قراردیا؟
توعرض ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ اپنی تحقیق میں یہ بات تسلیم ہی نہیں کررہے ہیں کہ اس سند میں یحی بن کثیر نے ابوجعفر سے روایت کیا ہے ، بلکہ علامہ موصوف کی تحقیق کے مطابق یحیی بن کثر نے اس حدیث کو
’’إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة‘‘ سے روایت کیا ہے اوریہ ثقہ ہے اورپھراسی نے ابوجعفر سے زیربحث حدیث روایت کی ،لہٰذا ایسی صورت میں جب یحیی بن کثیر ، ابوجعفرسے روایت ہی نہیں کررہے تو پھر ابوجعفرکی توثیق کیسے ہوگی ، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی درج ذیل عبارت سے یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے :
ويحيى بن أبي كثير مدلس، وقد عنعنه عن أبي جعفر في رواية أبان العطار وهشام الدستوائي عنه. وأما في رواية حرب بن شداد عنه؛ فقد صرح بأن بينه وبين أبي جعفر: إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، وهو ثقة من رجال الشيخين.وبالجملة؛ فعلة الحديث جهالة حال أبي جعفر هذا. والله أعلم. [ضعيف أبي داود (الام) للالباني: 1/ 221]۔
لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہ ماننا کہ یحیی بن کثیر نے ابوجعفر سے روایت نہیں کیا ، قطعا درست نہیں کہ کیونکہ بعض دیگرطرق میں یحیی بن کثیر نے ابوجعفرسے تحدیث کی صراحت کردی ہے۔ اوریہ بات شیخ البانی رحمہ اللہ کی مستدل روایت کے بھی خلاف نہیں کیونکہ اگروہ روایت محفوظ مان لیں تو پھر المزید فی متصل الاسانید کی بات کہی جائے گی۔
ایک شبہہ کا ازالہ
بعض حضرات کا خیال ہے کہ مخصوص محدثین کےبارے میں جو یہ ملتاہے کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں تو یہ اکثر حالات پر محمول ہے ، کیونکہ بسااوقات وہ ضعیف سے بھی روایت کرتے ہیں۔
ازالہ
يحيى بن أبي كثير کے بارے میں ہمیں کوئی ایسال مثال نہیں مل سکی جہاں انہوں نے ضعیف رواۃ سے روایت کیا ہو اورخود اس کی تضعیف بھی کسی مقام پر کی ہو۔
یادرے کہ کسی روایت میں ان کے کسی شیخ کے بارے میں دیگرلوگوں کی جرح کا ملنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یحیی بن کثیر کے نزدیک بھی وہ ضعیف ہے ، کیونکہ ایک ہی روای سے متعلق ناقدین کے اقوال میں اختلاف معروف بات ہے ، اس لئے اگرکسی کو چند ایسی روایت مل گئیں جن میں یحیی بن کثیر کے بعض شیوخ مجروح ہیں تو یہ جرح دیگرلوگوں کے نزدیک ہے نہ کی یحیی بن کثیر کے نزدیک ۔
لہٰذا دیگرلوگوں کی جرح کے سبب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یحیی بن کثیر مجروح سے بھی روایت کرتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے گا کہ دیگرلوگوں کی جرح کے خلاف یحیی بن کثیر اس راوی کوثقہ کہتے ہیں ، اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
''ابوصدقة ،توبة بن عبدالله'' کوامام ازدی نے
''لایحتج به'' کہا یعنی جرح کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی تردیدکرتے ہوئے کہا:
قلت: ثقة، روی عنه شعبة [میزان الاعتدال للذہبی: ١ ٦١ ٣]۔
یعنی: یہ راوی ثقہ ہے کیونکہ امام شعبہ نے اس سے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وقرأت بخط الذہبی: بل هو ثقة روی عنه شعبة یعنی وروایته عنه توثیق له .[تہذیب التہذیب لابن حجر:٥١٦١]۔
یعنی :میں نے امام ذہبی کی تحریرپڑھی جس میں امام ذہبی نے مذکورہ راوی کے بارے میں کہا کہ وہ ثقہ ہے کیونکہ امام شعبہ نے اس سے روایت کیا ہے ، یعنی امام شعبہ کا ان سے روایت کرنا ان کی توثیق ہے [تہذیب التہذیب لابن حجر:٥١٦١]۔
غورفرمائیں کہ یہاں امام ذہبی و حافظ ابن حجرنے یہ نہیں کہا کہ شعبہ مجروح سے بھی رویات کرتے ہیں بلکہ یوں کہا کہ جرح کرنے والوں کے خلاف شعبہ کے نزدیک یہ راوی ثقہ ہے۔
ثانیا:
امام ترمذی وامام ابن حبان نے اس کی روایت کو صحیح کہا ہے اور ناقد امام کی طرف سے کسی راوی کی روایت کی تصحیح اس راوی کی توثیق ہوتی ہے۔
امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628)نے کہا:
وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17]۔
امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا:
وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته.[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة [تعجيل المنفعة ص: 204]۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن ضبة هذا قد وثقه ابن حبان، وقال الحافظ ابن خلفون الأندلسي: "ثقة مشهور"، وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي. [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16]۔
معلوم ہوا کہ ابوجعفر ثقہ ہیں اس کے متعدد دلائل ہیں ۔
خلاصہ بحث
اس پوری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔