• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں باواز بلند آمین کہنا

شمولیت
نومبر 06، 2013
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
19
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ‏"‏ ‏
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام آمیں کہے تو تم (مقتدی) بھی آمین کہو اسلئے کہ جسکی آمیں فرشتوًں کی آمیں سے موافقت کر گئی کے متقدم گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

حدیث مذکور میں امام کے ساتھ مقتدیوں کے بھی بلند آواز سے آمیں کہنے کا ذکر ہے اسلئے ہمیں اس پہ عمل کرنا چاہئے جب کہ اس کے بر خلاف بہت سےلوگ اس عمل کو ترک کئے ہوئے ہیں

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولی ہمیں دین کی صحیح سمجہ عطا فرمائے آمین
تقبل یا رب العالمینِ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ‏[/ARB]"‏ ‏
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام آمیں کہے تو تم (مقتدی) بھی آمین کہو اسلئے کہ جسکی آمیں فرشتوًں کی آمیں سے موافقت کر گئی کے متقدم گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
حدیث مذکور میں امام کے ساتھ مقتدیوں کے بھی بلند آواز سے آمیں کہنے کا ذکر ہے اسلئے ہمیں اس پہ عمل کرنا چاہئے جب کہ اس کے بر خلاف بہت سےلوگ اس عمل کو ترک کئے ہوئے ہیں
محترم! حدیث مذکور میں بلندآواز سے آمین کہنے کا کہاں ذکر ہے ذرا نشاندہی فرمادیں۔
 
شمولیت
مارچ 18، 2018
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
11
سر جی احناف کہتے ہیں اس سے مراد ہے کے جب امام ولضالین کہے تب وہ امین کہے گا سو تم بھی کھو آہستہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سر جی احناف کہتے ہیں اس سے مراد ہے کے جب امام ولضالین کہے تب وہ امین کہے گا سو تم بھی کھو آہستہ
محترم بھائی اس حدیث کو غور سے دیکھیں :
امام بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
باب جھر الإمام بالتأمین، (یعنی یہ باب ہے امام کے آمین بالجہر کہنے کا )
آگے حدیث نقل فرماتے ہیں :
( عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ ﷺ قال إذا أمن الإمام فأمنوا، فانہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (صحیح بخاری مع الفتح 2 / 262)
اس کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگا اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

اس حدیث سے امام کے آمین بالجہر کہنے پر اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ اس کے آمین کہنے پر مقتدی کو آمین کہنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جب امام زور سے آمین نہیں کہے گا تب تک مقتدی کو اس کا علم کیسے ہوگا؟ لہذا اس سے امام کا بآواز بلند آمین کہنا ثابت ہوا۔
صحیح بخاری کے عظیم شارح امام حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں (2 / 264)​
"وجہ الدلالۃ من الحدیث انہ اذا لم یکن التأمین مسموعا للمأموم لم یعلم بہ وقد علق تأمینہ بتأمینہ۔"
یعنی اس حدیث سے امام کے اونچی آواز سے آمین کہنے پر اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ "جب تک امام اونچی آواز سے آمین نہیں کہے گا مقتدی کو کیسے پتا چلے گا کہ امام نے آمین کہی ہے ، جبکہ اس حدیث میں مقتدی کی آمین کو امام کی آمین سے معلق یعنی مشروط کیا گیا ہے "

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس حدیث کے آخر میں یوں بھی آیا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ وقد روی روح بن عبادۃ عن مالک في ھذا الحدیث: قال ابن شھاب کان رسول اللہ ﷺ إذا قال: ولا الضآلین جھر بآمین " أخرجہ السراج ولابن حبان في روایۃ الزبیدي في حدیث الباب عن ابن شھاب کان إذا فرغ من قراء ۃ أم القرآن رفع صوتہ وقال آمین۔ (الفتح: 2 / 264)
اس کا حاصل یہ ہے کہ محدث امام سراجؒ اور امام ابن حبان ؒ نے اس حدیث کا متن یوں روایت کیا ہے کہ : جب نبی کریم ﷺ سورہ فاتحہ کی قراء ت سے فارغ ہوتے تو بآواز بلند آمین کہتے ۔"
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسری حدیث : قال الإمام ابوداود رحمه الله : ”حد ثنا محمد بن كثير : أخبرنا سفيان عن سلمة عن حجرأبي العنبس الحضر مي عن وائل بن حجر قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذاقرأ ولاالضالين قال : آمين ورفع بها صوته“
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ولاالضالين کی قرأت کے بعد آمین کہتے اور اپنی آواز اس کے ساتھ بلند فرماتے۔ [سنن ابي داودج اص 141، 142ح : 932باب التامين وراءالامام]
یہ روایت مسند الدارمی [ج ا ص 284ح : 1250] پر بھی اسی سند سے موجود ہے وہاں ويرفع بها صوته کے الفاظ ہیں اور ترجمہ انہی الفاظ کے مطابق لکھا گیا ہے۔
سند کا تعارف
محمد بن کثیر العبدی البصری، صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی ہے۔
اس کی صحیح بخاری میں ساٹھ
[60] سے اوپر روایتیں ہیں۔ [مفتاح صحيح البخاري 156]
صحیح مسلم میں اس کی حدیث [ج 2ص244ح 2269 كتاب الرؤيا، باب فى تأويل الرؤيا] میں موجود ہے۔
اس پر امام یحییٰ بن معین کی جرح مردود ہے۔
قال ابن حجر ثقة ولم يصب من ضعفه [تقريب التهذيب ص 468]
ابن معین کی جرح محمد بن کثیر المصیصی کے بارے میں ہے۔ [حاشيه ميزان الاعتدال ج4ص18] المصیصی دوسرا شخص تھا۔
محمد بن کثیر العبدی کی متابعت ابوداود الحفری
[السنن الكبري للبيهقي ج4ص57] اور الفریابی [سنن دار قطني ج ا ص333] نے کر دی ہے والحمدلله
سفیان بن سعید الثوری، صحیح بخاری و صحیح مسلم کے مرکزی راوی ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی تدلیس کی بحث آگے آ رہی ہے۔
سلمۃ بن کھیل، صحیح بخاری و صحیح مسلم کے مرکزی راوی ہیں اور
ثقه ہیں۔ [تقريب ص 202]
حجر ابوالعنبس ثقه ہیں۔ [الكاشف للذهمي ج ا ص 150] انہیں خطیب بغدادی وغیرہ نے ثقه کہا ہے۔
وائل بن حجر مشہور صحابی ہیں۔
معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
والحمدلله
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث : امام ابن ماجہ القزوینی نے کہا :
حدثنا أسحاق بن منصور : أخبرنا عبدالصمد بن عبدالوارث : ثنا حماد بن سلمة : ثنا سهيل بن أبى صالح عن أبيه عن عائشه رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم قال بما حسدتكم اليهود على شيء، ماحسدتكم على السلام و التامين [سنن ابن ماجه ج ا ص 278ح 856]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہود قوم (تمہارے آپس میں) سلام کرنے اور (امام کے پیچھے) آمین بولنے پر جس قدر حسد کرتی ہے اس قدر کسی اور چیز پر حسد نہیں کرتی۔“
اسے منذری (متوفی 656ھ) اور بوصیری دونوں نے صحیح کہا ہے
[الترغيب و الترهيب ج ا ص 368 وزوائد سنن ابن ماجه للبوصيري]
سند کا تعارف
اسحاق بن منصور بن بہرام الکوسج ابویعقوب التمیمی المروزی نزیل نیسابور [تهذيب الكمال للمزي ج 2 ص 74، 75] صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی اورثقه ثبت ہے [تقريب ص38]
عبدالصمد بن عبدالوارث بن سعید العنبری، صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی اور صدوق ثبت فى شعبه تھا [تقريب 322] اس کے بارے میں عبدالباقی بن قانع (ضعیف) نے کہا : ثقه يخطئي [تهذيب التهذيب ج 6ص292] یہ جرح مردود ہے۔
حماد بن سلمہ صحیح مسلم کا راوی ہے۔ جمہور محدثین نے اسے
ثقه قرار دیا ہے۔ اس پر جرح مردود ہے۔ حماد بن سلمہ سے عبدالصمد کی روایت صحیح مسلم [كتاب الجهاد باب استحباب الدعاء عند لقاء العدوح 1743] میں موجود ہے لہذا ثابت ہوا کہ عبدالصمد کا حماد سے سماع قبل از اختلاط و تغیر ہے۔ دیکھیئے : [مقدمة ابن الصلاح مع شرح العراقي ص 366، النوع : 26 ] لہٰذا اختلاط و تغیر کا الزام بھی مردود ہے۔ خالد بن عبداللہ الطحان نے یہی حدیث سہیل سے بیان کر رکھی ہے۔ [صحيح ابن خزيمة ج ا ص 288ح574]
سہیل بن ابی صالح، صحیح مسلم کا راوی صدوق تغير حفظه بأخره، روي له البخاري مقرونا و تعليقا ہے۔ [تقريب ص 215]
سہیل بن ابی صالح سے حماد بن سلمہ کی روایت صحیح مسلم [كتاب البروالصله، باب النهي عن قول : هلك الناس ح 2623] پر موجود ہے جو اس کی دلیل ہے کہ حماد کا سہیل سے سماع قبل از اختلاط ہے۔ لہذا سہیل پر تغير حفظه بأخره والی جرح یہاں مردود ہے۔
ابوصالح ذکوان، صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی اور
ثقه ثبت ہے۔ [تقريب ص 151]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔
ثابت ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہودی لوگ، مسلمانوں سے دو (اہم) باتوں پر حسد کرتے ہیں۔ (۱) ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا (۲) آمین کہنا۔
یہ ظاہر ہے کہ وہ سلام اور آمین سنتے ہیں لہٰذا اسی وجہ سے حسد کرتے ہیں۔

تیسری حدیث : خطیب بغدادی نے تاریخ [11؍43] اور ضیاء المقدسی نے ”المختارۃ“ [5؍107ح17129، 1730] میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ (الفاظ خطیب کے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن اليهود ليحسد و نكم على السلام و التأمين ”بے شک یہود تم سے سلام اور آمین پر حسد کرتے ہیں۔“
اس کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں اور اس کی سند صحیح ہے۔
ان روایات کی تایید میں عرض ہے کہ ایک روایت میں اس حسد کی وجہ مسلمانوں کا
وقولهم خلف إمامهم فى المكتوبة : آمين ”امام کے پیچھے آمین کہنا ہے۔“ [الترغيب و الترهيب ج ا ص 328، 329 ”وقال : بإسناد حسن“ مجمع الزوائد ج 2ص113 ”وقال : اسناده حسن“]
اس طرح آمین بالجہر کی اور بھی بہت ساری روایات ہیں دیکھئے کتاب ”القول المتین فی الجہر بالتامین“ وغیرہ، ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ کا یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین بالجہر کہنا متواتر احادیث کے ساتھ ثابت ہے۔“ مانعین کے پیش کردہ دلائل غیر صریح، مبہم، ضعیف اور بلاسند ہیں لہذا صحیح و متوتر احادیث کے مقابلے میں مردود و باطل ہیں۔

صحابہ کرام کا عمل
عبدالرزاق نے اپنی کتاب ”المنصف“ میں کہا :
عن ابن جريج عن عطاء قال قلت له : أكان ابن الزبير يؤمن عليٰ إثرأم القرآن ؟ قال : نعم، و يؤمن من وراء ه حتي أن للمسجد للجة، ثم قال : إنما آمين دعاء، وكان أبو هريرة يدخل المسجد وقد قام الإمام قبله فيقول : لا تسبقني بآمين [ج2ص96، 97ح2640وعلقه البخاري فى صحيحه مع الفتح 2؍26قبل ح780، كتاب الأذان باب 111]
ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے مشہور تابعی جناب عطاءؒ (بن ابی رباح) سے پوچھا : کیا سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : جی ہاں اور ان کے مقتدی بھی آمین کہتے تھے حتی کہ مسجد گھونج اٹھتی تھی۔ پھر فرمایا : آمین تو دعا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے اور امام (اقامت کے بعد) پہلے کھڑا ہو چکا ہوتا تو اسے کہتے : مجھ سے پہلے آمین نہ کہنا۔
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:
Top