- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
نماز میں خیالات یا وساوس کا آنا ایک عام بیماری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت میں سب سے پہلی چیز جو اٹھائی جائے گی، وہ خشوع ہے۔ خشوع سے مراد دل کی وہ نرمی، رقت، عاجزی اور انکساری ہے کہ جس کا اظہار انسان کے اعضاء سے بھی ہوتا ہو۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو نماز میں ڈاڑھی سے کھیلتے دیکھا تو کہا کہ اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء سے بھی اس کا اظہار ضرور ہوتا۔
خشوع دو قسم کا ہے؛ ایک اخلاص کا اور دوسرا ریاکاری کا۔ اخلاص کا خشوع وہ ہے کہ جس کا اظہار جلوت اور خلوت دونوں میں ایک جیسا ہو یعنی جو کیفیت مجلس میں پیدا ہو، تنہائی میں اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسی ہی کیفیات پیدا ہوتی ہوں جبکہ ریاکاری کا خشوع وہ ہے کہ جس کا اظہار صرف مجلس میں ہوتا ہے یعنی مجلس میں اللہ کے ڈر اور خوف کی جو کیفیت محسوس ہو، وہ تنہائی میں پیدا نہ ہو۔
بعض اوقات انسان نماز میں کسی ایسے شخص کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے کہ جو اس کا جاننے والا ہے تو اس کا دھیان اور اعضاء کا سکون نماز میں بڑھ جاتا ہے تو یہ ریاکاری کا خشوع ہی معلوم ہوتا ہے کہ جس کا مصدر شیطان ہوتا ہے۔ شیخ عبد المحسن العباد نے لکھا ہے کہ بعض اوقات گھر میں مہمان آئے ہوں تو انسان غیر ارادی طور تہجد پڑھنے یا انہیں لمبا کرنے لگ جاتا ہے تو یہ بھی ریاکاری کا خشوع ہے۔ ریاکاری کا خشوع یہ بھی ہے کہ جماعت کرواتے ہوئے امام صاحب کو رونا آئے یا رقت طاری ہو جبکہ تنہائی کی نماز میں نہ آنسو جاری ہوں اور نہ ہی دل کی نرمی حاصل ہوتی ہو۔
بہر حال ہمارا موضوع اس وقت اخلاص کا خشوع ہے جو نماز میں اصل مقصود ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((إنّ الرجل لينصرف وما كتب له إلا عشر صلاته، تسعها، ثمنها، سبعها، سدسها، خمسها، ربعها، ثلثها، نصفها)) أخرجه الترمذي وحسنه الألباني
لوگ نماز پڑھ کر جب واپس ہوتے ہیں تو ان میں سے بعض کے لیے نماز کے ثواب میں سے دسواں حصہ، بعض کے لیے نواں، بعض کے لیے آٹھواں، بعض کے لیے ساتواں، بعض کے لیے چھٹا، بعض کے لیے پانچواں، بعض کے لیے چوتھا، بعض کے لیے تیسرا اور بعض کے لیے آدھا لکھا جاتا ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ایک ہی جیسی ظاہری صورت، وقت اور مقام میں نماز پڑھنے کے باوجود ثواب میں فرق رہ جاتا ہے اور ثواب کا یہ فرق نماز میں انسان کی قلبی توجہ اور ذہنی یکسوئی میں اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تو خشوع وخضوع کی کمی سے ثواب کم اور زیادتی سے ثواب بڑھ ہو جاتا ہے۔
نماز میں خشوع کیسے حاصل ہو؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ بعض اہل علم نے اس کے جواب میں نماز میں خشوع وخضوع کے حصول کے طریقے بیان کر دیے ہیں۔ جو اگرچہ مفید ہیں لیکن ہماری رائے میں خشوع وخضوع کی تدابیر اختیار کرنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ غور کیا جائے کہ نماز میں خشوع وخضوع کے حصول میں موانع یعنی رکاوٹیں کیا ہیں، پہلے انہیں دور کیا جائے۔
نماز میں خشوع وخضوع کے موانع دو قسم کےمعلوم ہوتے ہیں: ایک خارجی اور دوسرے داخلی۔ خارجی موانع کی مثالوں میں جیسا کہ شیطان ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے نماز میں وساوس زیادہ آنے کی شکایت کی تو آپ نے کہا ہہ یہ خنزب شیطان ہے۔ بس نماز سے پہلے اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ تو اس کا علاج تو اللہ کے رسول صلی اللہ عیہ وسلم نے بتلا دیا اور ان صحابی کو اس کے بعد کوئی وسوسہ محسوس بھی نہ ہوا۔ جبکہ ہم میں سے اکثر کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ خنزب شیطان سے پناہ بھی مانگ لیتے ہیں اور دل پر پھونک بھی مار لیتے ہیں لیکن پھر بھی وساوس جاری رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے موانع ایک سے زائد یا دیگر نوعیتوں کے ہیں۔
خارجی موانع میں ایک مانع کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت بھی ہے۔ اس کا علاج بھی یہ ہے کہ انسان کو اگر کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت پریشان کر رہی ہو تو پہلے اسے پورا کرے اور پھر نماز پڑھے تو ان شاء اللہ نماز میں توجہ بہت بڑھ جائے گی۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بول وبراز کی حاجت محسوس ہونے پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے یا نیند کی حالت میں پہلے نیند پوری کرنے اور پھر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح فرائض کے علاوہ نماز میں تو کم از کم ہم یہ اہتمام کر لیں کہ دنیاوی حاجات سے فراغت کے بعد ہی نماز پڑھنے کی کوشش کریں جیسا کہ اگر ہم نے عشاء کے وقت گھر والوں کے ساتھ کہیں آوٹنگ یا کھانا کھانے وغیرہ کے لیے جانا ہے تو فرض مسجد میں پڑھ کر نکل آئیں۔ پھر واپس گھر آ کر سونے سے پہلے فراغت کی حالت میں نماز کی سنت یا وتر وغیرہ ادا کریں۔
فرائض میں البتہ جماعت کے ساتھ پابندی ضروری ہے۔ اگر جماعت نکل گئی تو پھر اگر کام ایسا ہے کہ نماز میں وہی ذہن پر غالب رہے گا تو پہلے کام کر لے اور نماز کو لیٹ کرے لیکن منتہی اوقات سے باہر نہ جائے کہ نماز قضا ہو جائے کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ تو فرائض کی ادائیگی میں اگر کوئی کام ذہن پر چھایا ہوا ہو تو اس کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نماز میں اذان کے فورا بعد مسجد میں حاضر ہو جائے کہ اسے فرض نماز سے پہلے دس منٹ مل جائیں تو دو رکعت نقل پڑھے اور پانچ منٹ میں توجہ سے اذکار میں دل لگائے تو ان شاء اللہ نماز میں توجہ حاصل ہو گی۔ اور اگر فرض نماز کے لیے پہنچا ہی تاخیر سے ہو کہ جماعت کے ساتھ نماز کھڑی تھی تو اب تو اس کے پاس سوائے اس کے کوئی تدبیر نہیں ہے کہ ذہن کو حاضر رکھنے کے لیے اپنے نفس سے ممکن مجاہدہ کرے اس سے اگرچہ غالب توجہ نہ بھی حاصل ہو لیکن کسی قدر ضرور حاصل ہو جائے گی اور مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ میں اتنی توجہ نہ بھی ہو کہ جس سے نصف ثواب حاصل ہوتا ہو لیکن اس مجاہدے کی بدولت کم از کم دسویں حصے سے کسی بڑے درجے میں ثواب لینے والا تو بن
جائے گا۔
تو خارجی موانع میں تو یہی دو معلوم ہوتے ہیں: ایک شیطان اور دوسرا انسانی حاجات وضروریات، چاہے یہ جسمانی ہوں یا نفسانی، اور دونوں کے علاج کے بارے گفتگو کسی قدر ہو چکی۔ پہلے مانع کا تعین کریں اور پھر اس کا علاج کریں تو ان شاء اللہ فائدہ ضرور ہو گا۔ داخلی وجوہات کا ذکر ہم اگلی پوسٹ میں کریں گے۔خشوع دو قسم کا ہے؛ ایک اخلاص کا اور دوسرا ریاکاری کا۔ اخلاص کا خشوع وہ ہے کہ جس کا اظہار جلوت اور خلوت دونوں میں ایک جیسا ہو یعنی جو کیفیت مجلس میں پیدا ہو، تنہائی میں اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسی ہی کیفیات پیدا ہوتی ہوں جبکہ ریاکاری کا خشوع وہ ہے کہ جس کا اظہار صرف مجلس میں ہوتا ہے یعنی مجلس میں اللہ کے ڈر اور خوف کی جو کیفیت محسوس ہو، وہ تنہائی میں پیدا نہ ہو۔
بعض اوقات انسان نماز میں کسی ایسے شخص کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے کہ جو اس کا جاننے والا ہے تو اس کا دھیان اور اعضاء کا سکون نماز میں بڑھ جاتا ہے تو یہ ریاکاری کا خشوع ہی معلوم ہوتا ہے کہ جس کا مصدر شیطان ہوتا ہے۔ شیخ عبد المحسن العباد نے لکھا ہے کہ بعض اوقات گھر میں مہمان آئے ہوں تو انسان غیر ارادی طور تہجد پڑھنے یا انہیں لمبا کرنے لگ جاتا ہے تو یہ بھی ریاکاری کا خشوع ہے۔ ریاکاری کا خشوع یہ بھی ہے کہ جماعت کرواتے ہوئے امام صاحب کو رونا آئے یا رقت طاری ہو جبکہ تنہائی کی نماز میں نہ آنسو جاری ہوں اور نہ ہی دل کی نرمی حاصل ہوتی ہو۔
بہر حال ہمارا موضوع اس وقت اخلاص کا خشوع ہے جو نماز میں اصل مقصود ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((إنّ الرجل لينصرف وما كتب له إلا عشر صلاته، تسعها، ثمنها، سبعها، سدسها، خمسها، ربعها، ثلثها، نصفها)) أخرجه الترمذي وحسنه الألباني
لوگ نماز پڑھ کر جب واپس ہوتے ہیں تو ان میں سے بعض کے لیے نماز کے ثواب میں سے دسواں حصہ، بعض کے لیے نواں، بعض کے لیے آٹھواں، بعض کے لیے ساتواں، بعض کے لیے چھٹا، بعض کے لیے پانچواں، بعض کے لیے چوتھا، بعض کے لیے تیسرا اور بعض کے لیے آدھا لکھا جاتا ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ایک ہی جیسی ظاہری صورت، وقت اور مقام میں نماز پڑھنے کے باوجود ثواب میں فرق رہ جاتا ہے اور ثواب کا یہ فرق نماز میں انسان کی قلبی توجہ اور ذہنی یکسوئی میں اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تو خشوع وخضوع کی کمی سے ثواب کم اور زیادتی سے ثواب بڑھ ہو جاتا ہے۔
نماز میں خشوع کیسے حاصل ہو؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ بعض اہل علم نے اس کے جواب میں نماز میں خشوع وخضوع کے حصول کے طریقے بیان کر دیے ہیں۔ جو اگرچہ مفید ہیں لیکن ہماری رائے میں خشوع وخضوع کی تدابیر اختیار کرنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ غور کیا جائے کہ نماز میں خشوع وخضوع کے حصول میں موانع یعنی رکاوٹیں کیا ہیں، پہلے انہیں دور کیا جائے۔
نماز میں خشوع وخضوع کے موانع دو قسم کےمعلوم ہوتے ہیں: ایک خارجی اور دوسرے داخلی۔ خارجی موانع کی مثالوں میں جیسا کہ شیطان ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے نماز میں وساوس زیادہ آنے کی شکایت کی تو آپ نے کہا ہہ یہ خنزب شیطان ہے۔ بس نماز سے پہلے اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ تو اس کا علاج تو اللہ کے رسول صلی اللہ عیہ وسلم نے بتلا دیا اور ان صحابی کو اس کے بعد کوئی وسوسہ محسوس بھی نہ ہوا۔ جبکہ ہم میں سے اکثر کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ خنزب شیطان سے پناہ بھی مانگ لیتے ہیں اور دل پر پھونک بھی مار لیتے ہیں لیکن پھر بھی وساوس جاری رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے موانع ایک سے زائد یا دیگر نوعیتوں کے ہیں۔
خارجی موانع میں ایک مانع کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت بھی ہے۔ اس کا علاج بھی یہ ہے کہ انسان کو اگر کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت پریشان کر رہی ہو تو پہلے اسے پورا کرے اور پھر نماز پڑھے تو ان شاء اللہ نماز میں توجہ بہت بڑھ جائے گی۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بول وبراز کی حاجت محسوس ہونے پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے یا نیند کی حالت میں پہلے نیند پوری کرنے اور پھر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح فرائض کے علاوہ نماز میں تو کم از کم ہم یہ اہتمام کر لیں کہ دنیاوی حاجات سے فراغت کے بعد ہی نماز پڑھنے کی کوشش کریں جیسا کہ اگر ہم نے عشاء کے وقت گھر والوں کے ساتھ کہیں آوٹنگ یا کھانا کھانے وغیرہ کے لیے جانا ہے تو فرض مسجد میں پڑھ کر نکل آئیں۔ پھر واپس گھر آ کر سونے سے پہلے فراغت کی حالت میں نماز کی سنت یا وتر وغیرہ ادا کریں۔
فرائض میں البتہ جماعت کے ساتھ پابندی ضروری ہے۔ اگر جماعت نکل گئی تو پھر اگر کام ایسا ہے کہ نماز میں وہی ذہن پر غالب رہے گا تو پہلے کام کر لے اور نماز کو لیٹ کرے لیکن منتہی اوقات سے باہر نہ جائے کہ نماز قضا ہو جائے کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ تو فرائض کی ادائیگی میں اگر کوئی کام ذہن پر چھایا ہوا ہو تو اس کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نماز میں اذان کے فورا بعد مسجد میں حاضر ہو جائے کہ اسے فرض نماز سے پہلے دس منٹ مل جائیں تو دو رکعت نقل پڑھے اور پانچ منٹ میں توجہ سے اذکار میں دل لگائے تو ان شاء اللہ نماز میں توجہ حاصل ہو گی۔ اور اگر فرض نماز کے لیے پہنچا ہی تاخیر سے ہو کہ جماعت کے ساتھ نماز کھڑی تھی تو اب تو اس کے پاس سوائے اس کے کوئی تدبیر نہیں ہے کہ ذہن کو حاضر رکھنے کے لیے اپنے نفس سے ممکن مجاہدہ کرے اس سے اگرچہ غالب توجہ نہ بھی حاصل ہو لیکن کسی قدر ضرور حاصل ہو جائے گی اور مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ میں اتنی توجہ نہ بھی ہو کہ جس سے نصف ثواب حاصل ہوتا ہو لیکن اس مجاہدے کی بدولت کم از کم دسویں حصے سے کسی بڑے درجے میں ثواب لینے والا تو بن
جائے گا۔