• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں خشوع: موانع اور تدابیر

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
نماز میں خیالات یا وساوس کا آنا ایک عام بیماری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت میں سب سے پہلی چیز جو اٹھائی جائے گی، وہ خشوع ہے۔ خشوع سے مراد دل کی وہ نرمی، رقت، عاجزی اور انکساری ہے کہ جس کا اظہار انسان کے اعضاء سے بھی ہوتا ہو۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو نماز میں ڈاڑھی سے کھیلتے دیکھا تو کہا کہ اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء سے بھی اس کا اظہار ضرور ہوتا۔

خشوع دو قسم کا ہے؛ ایک اخلاص کا اور دوسرا ریاکاری کا۔ اخلاص کا خشوع وہ ہے کہ جس کا اظہار جلوت اور خلوت دونوں میں ایک جیسا ہو یعنی جو کیفیت مجلس میں پیدا ہو، تنہائی میں اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسی ہی کیفیات پیدا ہوتی ہوں جبکہ ریاکاری کا خشوع وہ ہے کہ جس کا اظہار صرف مجلس میں ہوتا ہے یعنی مجلس میں اللہ کے ڈر اور خوف کی جو کیفیت محسوس ہو، وہ تنہائی میں پیدا نہ ہو۔

بعض اوقات انسان نماز میں کسی ایسے شخص کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے کہ جو اس کا جاننے والا ہے تو اس کا دھیان اور اعضاء کا سکون نماز میں بڑھ جاتا ہے تو یہ ریاکاری کا خشوع ہی معلوم ہوتا ہے کہ جس کا مصدر شیطان ہوتا ہے۔ شیخ عبد المحسن العباد نے لکھا ہے کہ بعض اوقات گھر میں مہمان آئے ہوں تو انسان غیر ارادی طور تہجد پڑھنے یا انہیں لمبا کرنے لگ جاتا ہے تو یہ بھی ریاکاری کا خشوع ہے۔ ریاکاری کا خشوع یہ بھی ہے کہ جماعت کرواتے ہوئے امام صاحب کو رونا آئے یا رقت طاری ہو جبکہ تنہائی کی نماز میں نہ آنسو جاری ہوں اور نہ ہی دل کی نرمی حاصل ہوتی ہو۔

بہر حال ہمارا موضوع اس وقت اخلاص کا خشوع ہے جو نماز میں اصل مقصود ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((إنّ الرجل لينصرف وما كتب له إلا عشر صلاته، تسعها، ثمنها، سبعها، سدسها، خمسها، ربعها، ثلثها، نصفها))
أخرجه الترمذي وحسنه الألباني

لوگ نماز پڑھ کر جب واپس ہوتے ہیں تو ان میں سے بعض کے لیے نماز کے ثواب میں سے دسواں حصہ، بعض کے لیے نواں، بعض کے لیے آٹھواں، بعض کے لیے ساتواں، بعض کے لیے چھٹا، بعض کے لیے پانچواں، بعض کے لیے چوتھا، بعض کے لیے تیسرا اور بعض کے لیے آدھا لکھا جاتا ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ ایک ہی جیسی ظاہری صورت، وقت اور مقام میں نماز پڑھنے کے باوجود ثواب میں فرق رہ جاتا ہے اور ثواب کا یہ فرق نماز میں انسان کی قلبی توجہ اور ذہنی یکسوئی میں اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تو خشوع وخضوع کی کمی سے ثواب کم اور زیادتی سے ثواب بڑھ ہو جاتا ہے۔

نماز میں خشوع کیسے حاصل ہو؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ بعض اہل علم نے اس کے جواب میں نماز میں خشوع وخضوع کے حصول کے طریقے بیان کر دیے ہیں۔ جو اگرچہ مفید ہیں لیکن ہماری رائے میں خشوع وخضوع کی تدابیر اختیار کرنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ غور کیا جائے کہ نماز میں خشوع وخضوع کے حصول میں موانع یعنی رکاوٹیں کیا ہیں، پہلے انہیں دور کیا جائے۔

نماز میں خشوع وخضوع کے موانع دو قسم کےمعلوم ہوتے ہیں: ایک خارجی اور دوسرے داخلی۔ خارجی موانع کی مثالوں میں جیسا کہ شیطان ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے نماز میں وساوس زیادہ آنے کی شکایت کی تو آپ نے کہا ہہ یہ خنزب شیطان ہے۔ بس نماز سے پہلے اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ تو اس کا علاج تو اللہ کے رسول صلی اللہ عیہ وسلم نے بتلا دیا اور ان صحابی کو اس کے بعد کوئی وسوسہ محسوس بھی نہ ہوا۔ جبکہ ہم میں سے اکثر کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ خنزب شیطان سے پناہ بھی مانگ لیتے ہیں اور دل پر پھونک بھی مار لیتے ہیں لیکن پھر بھی وساوس جاری رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے موانع ایک سے زائد یا دیگر نوعیتوں کے ہیں۔

خارجی موانع میں ایک مانع کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت بھی ہے۔ اس کا علاج بھی یہ ہے کہ انسان کو اگر کوئی دنیاوی ضرورت یا حاجت پریشان کر رہی ہو تو پہلے اسے پورا کرے اور پھر نماز پڑھے تو ان شاء اللہ نماز میں توجہ بہت بڑھ جائے گی۔ جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بول وبراز کی حاجت محسوس ہونے پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے یا نیند کی حالت میں پہلے نیند پوری کرنے اور پھر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح فرائض کے علاوہ نماز میں تو کم از کم ہم یہ اہتمام کر لیں کہ دنیاوی حاجات سے فراغت کے بعد ہی نماز پڑھنے کی کوشش کریں جیسا کہ اگر ہم نے عشاء کے وقت گھر والوں کے ساتھ کہیں آوٹنگ یا کھانا کھانے وغیرہ کے لیے جانا ہے تو فرض مسجد میں پڑھ کر نکل آئیں۔ پھر واپس گھر آ کر سونے سے پہلے فراغت کی حالت میں نماز کی سنت یا وتر وغیرہ ادا کریں۔

فرائض میں البتہ جماعت کے ساتھ پابندی ضروری ہے۔ اگر جماعت نکل گئی تو پھر اگر کام ایسا ہے کہ نماز میں وہی ذہن پر غالب رہے گا تو پہلے کام کر لے اور نماز کو لیٹ کرے لیکن منتہی اوقات سے باہر نہ جائے کہ نماز قضا ہو جائے کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ تو فرائض کی ادائیگی میں اگر کوئی کام ذہن پر چھایا ہوا ہو تو اس کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نماز میں اذان کے فورا بعد مسجد میں حاضر ہو جائے کہ اسے فرض نماز سے پہلے دس منٹ مل جائیں تو دو رکعت نقل پڑھے اور پانچ منٹ میں توجہ سے اذکار میں دل لگائے تو ان شاء اللہ نماز میں توجہ حاصل ہو گی۔ اور اگر فرض نماز کے لیے پہنچا ہی تاخیر سے ہو کہ جماعت کے ساتھ نماز کھڑی تھی تو اب تو اس کے پاس سوائے اس کے کوئی تدبیر نہیں ہے کہ ذہن کو حاضر رکھنے کے لیے اپنے نفس سے ممکن مجاہدہ کرے اس سے اگرچہ غالب توجہ نہ بھی حاصل ہو لیکن کسی قدر ضرور حاصل ہو جائے گی اور مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ میں اتنی توجہ نہ بھی ہو کہ جس سے نصف ثواب حاصل ہوتا ہو لیکن اس مجاہدے کی بدولت کم از کم دسویں حصے سے کسی بڑے درجے میں ثواب لینے والا تو بن
جائے گا۔
تو خارجی موانع میں تو یہی دو معلوم ہوتے ہیں: ایک شیطان اور دوسرا انسانی حاجات وضروریات، چاہے یہ جسمانی ہوں یا نفسانی، اور دونوں کے علاج کے بارے گفتگو کسی قدر ہو چکی۔ پہلے مانع کا تعین کریں اور پھر اس کا علاج کریں تو ان شاء اللہ فائدہ ضرور ہو گا۔ داخلی وجوہات کا ذکر ہم اگلی پوسٹ میں کریں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
نماز کا داخلی مانع ایک ہی ہے بلکہ یہ ام الموانع ہے یعنی تمام موانع کی ماں۔ نماز میں جو چیز خشوع وخضوع میں انسان کے داخل یا باطن سے رکاوٹ بنتی ہے، وہ اس کی سوچ یا فکر ہے۔ نماز میں ایسے خیال کا آنا جو انسان کو اللہ کے حضور یعنی سامنے کھڑے ہونے کے تصور سے نکال دے، احسان کے منافی ہے۔ حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی ایسے عبادت کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو یا ایسے جیسے اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہے ہوں۔ اللہ کو دیکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان اللہ کے بارے کوئی تصویر اپنے ذہن میں قائم کر لے اور اسے اپنا رب سمجھ لے۔ ایسا خدا جو انسان کی سوچ میں آ جائے، انسانی ذہن کی اپنی تخلیق ہو گا۔ اس حدیث سے مراد صرف اتنی ہے کہ ایسے عبادت کرے جیسے اپنے رب کے حضور میں، اس کے دربار میں کھڑا ہو یعنی اس کا دل اور دماغ دونوں اللہ کی طرف یکسو ہوں کیونکہ اس سے خشیت اور محبت دونوں پیدا ہوتی ہیں۔ پس ان دو کیفیات کے علاوہ کسی کیفیت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز، احسان والی نماز نہیں ہے۔ احسان والی نماز وہ ہے جو نماز کی بہترین قسم اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ یہی وہ نماز ہے جو انسان کے ایمان میں اضافے، اس کی زندگی میں زہد اور منکرات سے دوری کا وسیلہ ہے۔

سوچ کو کنٹرول کرنے پر کچھ بات کرنے سے پہلے ہم اپنی سوچ کا کچھ تجزیہ کر لیں۔ نماز میں انسان کو اللہ کے سوا جو سوچ آتی ہے، وہ اپنے موضوع کے اعتبار سے دو قسم کی ہے۔ ایک دینی اور دوسری دنیاوی۔ احسان کی اعلی ترین صورت تو یہی ہے کہ انسان نماز میں دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی سوچ سے دور رہے اور اس کی سوچ صرف اللہ عزوجل کی طرف یکسو ہو جیسا کہ منافقین کے بارے قران مجید کا ارشاد ہے:
وَإذَا قَامُوا إِلَى الصَّلاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللهَ إِلَّا قَلِيلَا
( النساء : 142 )
اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو انتہائی سستی سے اور لوگوں کو دکھلانے کے لیے نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اور وہ، نماز میں، اللہ کو بہت ہی تھوڑا یاد کرتے ہیں۔

لیکن بعض اوقات اللہ کے غیر کی سوچ کا آجانا جبکہ وہ سوچ دینی بھی ہو، خشوع وخضوع کے منافی نہیں ہوتا ہے جیسا کہ نماز میں قرآن مجید کے معانی پر غور کرنا وغیرہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے کئی ایک احادیث میں مروی ہے کہ آپ کو حالت نماز میں جنت یا جہنم کا مشاہدہ کروایا گیا۔ جب یہ مشاہدہ خود حق سبحانہ وتعالی کی طرف سے کروایا گیا تھا تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے غیر کی سوچ کی ہر صورت خشوع وخضوع کے منافی نہیں ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں نقل کیا ہے:
إني لأجهِّز جيْشيَ وأنا في الصلاة
میں نماز کے دوران مجاہدین کے لشکر تیار کرتا ہوں۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز اور جہاد کو جمع کر لیتے تھے۔ جو لشکر انہوں نے جہاد کی غرض سے بھیجنے ہوتے تھے، ان کی ترتیب نماز میں قائم کر لیتے تھے۔ شاید اس سے مقصود یہ بھی ہو کہ جہاد جیسے بابرکت کام کے فیصلے مقام قرب میں یعنی نماز میں ہوں تا کہ اللہ کی رہنمائی موجود رہے اور استخارے کا جو مقصود ہے، وہ بھی حاصل رہے۔ تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ وہ نماز میں تبلیغی جماعتوں کی تشکیل کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اپنے لیے اس چیز کو اولی نہ سمجھا اور اس کا حل یہ نکالا کہ نماز سے پہلے کچھ دیر کا مراقبہ ہو جائے تا کہ نماز میں یکسوئی حاصل ہو سکے۔ شیخ بن باز رحمہ اللہ سے اس بارے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص جنت، جہنم، اپنی قبر یا موت کے بارے نماز میں سوچے تو کیا اس کا جواز ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ دینی سوچ جو اللہ کے حضور میں رہنے میں رکاوٹ نہ بنے تو اس کا نماز میں آنا جائز ہے اور ایسی سوچ خشوع وخضوع کے منافی بھی نہیں ہے۔ نماز میں جنت اور جہنم، موت اور قبر، قرآن مجید کی آیات میں تذکر وتدبر یا تسبیح ومناجات میں غور وفکر وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو اللہ کے حضور میں ہی رکھتی ہیں۔ البتہ اگر کوئی ایسا دینی تصور یا سوچ جو انسان کو اللہ کے حضور سے نکال کر دنیا کی طرف لے آئے تو یہ خشوع وخضوع کے منافی ہو گا اور اس کا ازالہ بھی ضروری ہو گا۔ مثلا اگر کوئی مناظر کسی جگہ مناظرہ کے لیے گئے ہیں اور نماز کے بعد مناظرہ متوقع ہے۔ یا کوئی بھائی کسی دینی فورم یا فیس بک سے اٹھ کر نماز کے لیے گئے ہیں۔ اب اگر نماز میں انہیں فریق مخالف کو زیر کرنے کی دلیلیں ہی سوجھتی رہیں تو یہ ایسی سوچ ہے جو اگرچہ دینی تو ہے لیکن انسان کو اللہ کے حضور میں رہنے نہیں دیتی بلکہ فریق مخالف کے تصور میں ہی الجھائے رکھتی ہے لہذا نماز میں ایسی سوچ کے ازالے کے بارے متذبذب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بظاہر دینی لیکن اپنی حقیقت میں دنیاوی سوچ ہی ہے۔

جہاں تک دنیاوی سوچ کا معاملہ ہے تو دنیا اور دنیا کے مال واسباب کے بارے نماز میں سوچنا خشوع وخضوع کے منافی ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فَإِنْ هُوَ قَامَ فَصَلَّى، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَمَجَّدَهُ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ، وَفَرَّغَ قَلْبَهُ لِلَّهِ إِلاَّ انْصَرَفَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔
کہ جو اچھی طرح وضو کر کے نماز کے لیےکھڑا ہوا۔ اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور اس کی ایسے بزرگی بیان کیے جیسے اس کے لائق ہے۔ اور اس نے اپنا دل اللہ ہی کے لیے فارغ کر لیا تو ایسی نماز کے بعد نمازی اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہو گا جیسے اس کی ماں نے اسے گناہوں سے پاک جنا تھا۔

اور ایسی ہی سوچ کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے نماز کے ثواب میں بھی فرق پڑ جاتا ہے جیسا کہ اس بارے اوپر روایت نقل ہو چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں ہم اپنی دنیاوی سوچ کو اللہ کی طرف یکسو کیسے کریں؟ تو اس بارے ہم ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں گفتگو کریں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
انسان اپنی سوچ کے اعتبار سے یا تو منتشر خيال ہوتے ہیں یا یکسو۔ منتشر خیال وہ ہے کہ ایک خیال ذہن میں آئے اور دوسرا جائے۔ کبھی ادھر کی بات یاد آئی کبھی ادھر کی۔ کبھی خیالوں میں یہاں اور کبھی وہاں۔ اور یکسو اسے کہتے ہیں کہ جس کے ذہن پر ایک وقت میں ایک ہی خیال حاوی اور غالب رہتا ہو۔ منتشر خيال کے کرنے کے تو دو کام ہیں کہ ایک تو مجاہدے کے ساتھ اپنی سوچ کو یکسو کرے یعنی ایک نقطہ پر مرکوز کرے اور دوسرا یہ کہ اللہ کی طرف یکسو کرے۔ اور یکسو شخص کے کرنے کا ایک ہی کام ہے کہ اپنی یکسوئی کو مجاہدے کے ساتھ اللہ کی طرف منتقل کر دے۔

انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والی سوچ کا اس کے دل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ انسانی ذہن میں اسی چیز کی سوچ پیدا ہوتی ہے کہ جس کا اس کا دل طلبگار ہوتا ہے۔ اگر دل دنیا کا طالب ہے تو دنیا کی سوچ پیدا ہو گی، علم کا طالب ہے تو علم کی سوچ آئے گی۔ اسی طرح مال، مقام، عزت، جاہ میں جس چیز کا طلبگار ہو گا، وہ اس کے ذہن پر چھائی رہے گی۔ اگر اللہ کا طالب ہے تو اللہ کی سوچ غالب رہے گی۔ خارجی موانع یا روکاوٹیں کہ جن کا ذکر اوپر گزر چکا، کو دور کرنے کے باوجود اگر نماز میں توجہ اور یکسوئی حاصل نہ ہو تو پھر مسئلہ طلب کا ہے۔ انسان اپنی طلب کو درست کرے کیونکہ پروردگار کا ارشاد ہے:
﴿ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ ٱللَّهِ إِنَّ ٱللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴾ [سورة البقرة آية 115]
تم جس طرف بھی رخ کر لو، اس طرف اللہ ہی کو پاو گے۔ بلاشبہ اللہ عزوجل وسعت والا، علم والا ہے۔

تو پروردگار تو یہ کہے کہ جس طرف بھی چلے جاو، رب کو پا لو گے اور ہم قبلہ رخ ہو کر بھی رب کو نہ پا سکیں تو اس میں سوائے اس کے اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے رب کے پانے کے سچے طلبگار نہیں ہیں۔ جس میں سچی طلب ہے، اسے دکان، کاروبار اور بازار میں بھی رب کا دھیان حاصل رہے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
(( رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ )) (النور: 37)
یہ ایسے لوگ ہیں کہ انہیں نہ تو تجارت اور نہ ہی خرید وفروخت اللہ کی یاد، نماز پڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل کر سکتی ہے۔ یہ لوگ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں کہ جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔

اب اگر انسان کو مسجد میں بھی رب نہ ملے یا وہ حالت نماز میں اللہ کی یاد سے غافل رہے تو اس کا لازما مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے رب کا سچا طالب نہیں ہے۔ اور کسی چیز کے لیے سچی طلب جب دل میں ہوتی ہے تو انسان اسے اپنے سینے میں محسوس کر سکتا ہے۔ اگر انسان کو نئے موبائل یا گاڑی کی طلب ہو اور وہ اس طلب یا خواہش کی موجودگی یا شدت کو محسوس کر سکے تو کیا رکاوٹ ہے کہ پروردگار کی سچی طلب ہو اور وہ اپنی موجودگی کا احساس نہ دلوائے؟ پس نماز میں توجہ اور یکسوئی اس وقت تک حاصل نہیں ہو گی جب تک کہ اپنے رب سے ملاقات، مناجات اور کلام کی سچی طلب دل میں نہ ہو گی۔ دل میں طلب دنیا کی ہو اور نماز میں رب یاد آ جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔

ہم بعض اوقات اپنے ظاہری دینی حلیے یا اعمال سے دھوکہ کھا جاتے ہیں کہ ہم اللہ کے طلبگار ہیں۔ یہ دھوکہ ایک عالم دین، خطیب، واعظ، مدرس قرآن، مدرسہ کے ناظم اعلی، مجاہد، صوفی، مرشد، کسی انقلابی تحریک کے رکن، مذہبی رہنما یا مفتی کو بھی لگ جاتا ہے۔ انسان میں حقیقی دینداری اتنی ہی ہے جتنی کہ نماز میں اسے اللہ کے حضور میں حاضری نصیب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اپنے وجود یا اردگرد میں کچھ دینداری نظر آئے تو اس دینداری کی اصلاح کی فکر کرے۔ مفتی، عالم، مجاہد، صوفی، واعظ، خطیب، مرشد، لیڈر اور مدرس بننے سے پہلے کہیں یہ ضروری ہے کہ اللہ کا ایک عاجز بندہ بن جائے اور یہی مقصود زندگی ہے۔ باقی بندگی کے ساتھ اضافی طور اللہ تعالی اگر کسی کو اچھا عالم یا مجاہد یا مدرس یا مرشد بنا دیں تو یہ اللہ کی ایک نعمت ہے جس پر اللہ کا شکر ادا کریں لیکن یہ ہمیشہ ذہن میں مستحضر رہے کہ اس کے حصے کا کام عالم، مجاہد، مدرس یا مرشد بننے سے زیادہ بندہ بننے کا ہے، اور اس نے اصل محنت اسی مقصد کے حصول کے لیے کرنی ہے۔

ایک سالک اپنے دل میں اللہ کی سچی طلب کیسے بیدار کرے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اب یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ ہمیں یہ طلب پیدا نہیں کرنی۔ اللہ نے یہ ہمارے دل میں پیدا کی ہوئی ہے، ہم نے اسے صرف بیدار کرنا ہے کیونکہ دنیا کی طلب میں ہم مالک کی طلب کو سلا دیتے ہیں۔ اس طلب کو بیدار کرنے کی کئی تدابیر ہو سکتی ہیں۔ ایک تدبیر تو یہ ہے کہ صبح کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کریں اور اس کے بعد اشراق تک دعا ومناجات میں وقت گزاریں اور اشراق پڑھ کر گھر تشریف لائیں۔ صبح کی بیداری کے بغیر اپنے دل میں سوئی ہوئی طلب کو بیدار کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر اشراق تک دعا ومناجات میں مشغول رہنا مشکل محسوس ہو تو شام کے اوقات میں مثلا عصر کے بعد قبرستان کی زیارت کر لیا کریں اور وہاں کم از کم دس منٹ کسی عزیز کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر قبرستان والوں کے حق میں دعائے مغفرت کر لیا کریں۔ ان شاء اللہ ان دو تدابیر میں سے ایک تدبیر پر بھی باقاعدگی سے عمل کرنے سے پروردگار کی طلب نہ صرف بیدار ہو جائے گی بلکہ اس کے سینے میں روشن بھی ہو جائے گی۔ باقی بندگی کی منازل طے کرنے کے لیے مجاہدہ تو شرط ہے۔

حضرت شیخ الکل فی الکل علامہ نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ نماز لطائف خمسہ اور تلاوت قرآن مجید سلطان الاذکار ہے۔ اس میں اگر ایک اور اضافہ کر دیا جائے کہ دعا ومناجات ہی مراقبہ ہے تو یہ سلفی سلوک کا جامع منہج ہے۔ جس نے اپنے لطائف روشن کرنے ہیں، وہ نماز پر توجہ کرے۔ جسے مراقبہ کا شوق ہے، وہ خلوت میں دعا ومناجات میں کثرت کرے۔ اور جسے ذکر کا شوق ہے، وہ قرآن مجید کو سلطان الاذکار کا مقام دے۔
 
Last edited:
Top