اسلام عليكم * اگر ہم قرآن کے سورتے آگے پیچھے پڑھے(جیسے پہلے رکعت میں سورت الناس اور دوسری رکعت میں سورت ال اخلاص) تو سجدہ سہو کرنا جائز ہے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
نماز میں افضل تو یہی ہے کہ سورتوں کو ترتیب سے پڑھا جائے ،
تاہم ترتیب کے خلاف پڑھنا بھی جائز ہے ، اور خلاف ترتیب پڑھنے پر سجدہ سہو لازم نہ ہوگا
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوران نماز سورتوں کی ترتیب کا خیال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دوران نماز قراءت کےلئے کیا قرآنی سورتوں کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز یا غیر نماز میں قرآن مجید کو موجودہ ترتیب کے برعکس پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں آخری مرتبہ جو حضرت جبرائیل علییہ السلام سے قرآن مجید کا دور کیا تھا وہ اس موجودہ ترتیب کے مطابق تھا تاہم قراءت کے وقت اس کالحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔مجتہد مطلق اور فقیہہ کامل حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ ''
دو سورتوں کا ایک رکعت میں پڑھنا''سورتوں کی آخری آیات کی تلاوت موجودہ ترتیب کے برعکس سورتوں کا پڑھنا یا سورتوں کی ابتدائی آیات کا پڑھنا''پھر آپ نے اپن دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل دیئے ہیں جو حسب زیل ہیں:
©
مشہور تابعی جناب احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری رکعت میں سورہ یوسف یا سورہ یونس کو تلاوت کیا پھر وضاحت فرمائی کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں صبح کی نماز اداکی تو آپ نے اسی طرح پہلی رکعت میں پہلی میں کہف اور دوسری میں سورہ یوسف یا یونس کو تلاوت فرمایا۔
وقرأ الأحنف: بالكهف في الأولى، وفي الثانية بيوسف - أو يونس - وذكر أنه صلى مع عمر رضي الله عنه الصبح بهما
(صحیح بخاری)
© حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے ان دو سورتوں کا بخوبی علم ہے جنھیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر نماز میں پڑھا کرتے تھے۔(صحیح بخاری)
ان سورتوں کی تفصیل سنن ابی دائود میں موجودہے ان میں متعددد سورتوں کے جوڑے موجود ترتیب کے خلاف ہیں۔مثلاً سورۃ طور اور ذاریات سورۃ تطفیف اور عبس سورۃ نبا اور مرسلات سورۃ دھر اور قیامہ و غیرہ۔
© حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ ایک انصاری مسجد قباء میں امامت کے فرائض سرانجام دیتا تھا اور وہ سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص پڑھ کر پھر کوئی اور سورت ساتھ ملا تا اسی طرح دوسری رکعت میں کرتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کاتذکرہ ہوا تو آپ نے اس عمل کی تصویب فرمائی۔''(صحیح بخاری)
© ان دلائل کے علاوہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رکعت میں سورہ بقرۃ سورہ نساء پھر سورۃ آل عمران تلاوت فرمائی۔(صحیح مسلم حدیث نمبر :7721)
ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ ترتیب کے برعکس پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص112
محدث فتویٰ
________________________
نماز میں قراءت کرتے وقت قرآنی سورتوں کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملتان سے بیگم عبد الاحد لکھتی ہیں کہ :
نماز میں قراءت کرتے وقت قرآنی سورتوں کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے یا اسے بلا ترتیب بھی پڑھا جاسکتا ہے نیز عصر یا ظہر کی آخری دو رکعت میں فاتحہ کے علاوہ قراءت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں قراءت کرتے وقت قرآنی سورتوں کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری نہیں ہے تاہم بہتر ہے اس کا خیال رکھا جائے۔کیوں کہ عام طور پر جن سورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں پڑھا ہے ان میں ترتیب کا خیال رکھا ہے البتہ بعض اوقات ب لا ترتیب پڑھنا بھی منقول ہے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز میں پہلے سورۃ البقرہ پھر سورۃ النساء اور پھر آل عمران پڑھی۔(مسند امام احمد :ج5 ص 382)
حالانکہ سورہ نساء ـــــــــــــ سورہ آل عمران کے بعد ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق اپنی صحیح میں مستقل عنوان قائم کیا ہے کہ دوران نماز قراءت کرتے وقت تقدیم وتاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے۔نیز ظہر اور عصر کی آخری دو رکعات میں بھی فاتحہ کے علاوہ قر اءت کی جاسکتی ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی آخری دو رکعات میں پندرہ آیات کے برابر قراءت کرتے تھے۔(ابودائود الصواۃ 805)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخری دو رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد قراءت کرنا مسنون عمل ہے اگر کوئی آخری دو رکعات میں صرف فاتحہ پڑھتا ہے۔تو بھی جائز ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات آخری دو رکعت میں صرف سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے تھے۔(صحیح بخاری نصفۃ الصلاۃ 776)
لہذا ان میں وسعت ہے دونوں طرح عمل کیا جاسکتا ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص112
محدث فتویٰ
___________________________
نماز میں سورتوں کی ترتیب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نماز کے اندر ترتیب قران کے مطابق سورتیں پڑھنی چاہئیے یا آگے پیچھے کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں ؟ ہمارے اما م صاحب نماز میں ترتیب قرآن کا لحاظ نہیں رکھتے۔ سورتوں میں تقدیم وتاخیر کر جاتے ہیں ، کیا یہ درست ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام کا موجودہ ترتیب قرآن سے ہٹ کر سورتوں کو نماز میں تقدیم و تاخیر سے پڑھنا درست ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین رحمہ اللہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح '' باب الجمع بین السورتین فی الرکعة والقراةبالخواتیم و بسورة قبل سورة و باوّل سورة ''کا عنوان قائم کیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھنا یا سورتوں کی آخری آیات یا سورتوں کی پہلی آیات پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے جواز کیلئے کچھ آثار و احادیث نقل کی ہیں۔
((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ، وَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ بِهَا لَهُمْ فِي الصَّلاَةِ مِمَّا يَقْرَأُ بِهِ افْتَتَحَ: بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، ثُمَّ يَقْرَأُ سُورَةً أُخْرَى مَعَهَا، وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ،))الحديث
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا میں ان کی امامت کراتا تھا ۔ وہ جب بھی کوئی سورۃ پڑھتا تو پہلے قل ھو اللہ احد پڑھتا پھر اس کے بعد کوئی اور سورۃ اس کے ساتھ ملاتا اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتا تو اس کی قوم نے اسے کہا تم قل ھو اللہ پر اکتفا کیوں نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد اور سورۃ ملاتے ہو تو صرف قل ھو اللہ پڑھ لیا کرو یا اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سور ۃپڑھا کرو تو اس نے جواب دیا کہ میں یہ کام ترک نہیں کروں گا۔ اگر تم پسند کرو گے تو تمہاری امامت کروں گا ۔ اور اگر تم نا پسند کرتے ہو تو امامت چھوڑ دیتا ہوں ۔ قو م نے ان کے علاوہ کسی کی امامت کو پسند نہ کیا کیونکہ وہ ان تمام سے افضل تھا ۔ جب اس قوم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ نے اس سے کہا تجھے اپنےساتھیوں کی بات ماننے سے کونسی چیز روکتی ہے اور ہر رکعت میں اس سورۃ کے لازمی پڑھنے پر تجھے کس چیز سے ابھارا ہے ، توا سنے کہا ، مجھے اس سورۃ سے محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیری اس سورۃ کے ساتھ محبت تجھے جنت میں داخل کردے گی ۔
مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ سورتوں کی تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ درست نہ ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منع کر دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسے امت سے علیحدہ کیا ۔
اسی طرح مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کےا ندر پہلے سورۃ بقرہ پڑھی پھر نساء اور پھر آل عمران۔ حالانکہ آل عمران سورۃ نساء سے پہلے آتی ہے۔ بخاری شریف میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۃ کہف اور دوسری میں سورۃ یوسف یا یونس پڑھی ۔
مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ترتیب قرآنی ضروری نہیں اس میں تقدیم و تاخیر درست ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
ج 1
محدث فتویٰ
_____________________________