• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے پہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث عام ہے ۔

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے پہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث عام ہے ۔
(احناف کے ایک شبہ کا رد)
مقبول احمدسلفی

بخاری ومسلم سمیت مختلف کتب احادیث میں موجود عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث موجود ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاجس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ حدیث اس طرح سے ہے ۔

حدثنا علي بن عبد الله قال حدثنا سفيان قال حدثنا الزهري عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب(صحيح البخاري:756، صحيح مسلم:394)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔
صحیحین کی یہ حدیث عام ہے اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے اپنی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی خواہ وہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی۔ اسی سبب امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ باب باندھا ہے ۔
باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها في الحضر والسفر وما يجهر فيها وما يخافت(امام ومقتدی کے لئے سب نمازوں میں سورہ فاتحہ کی قرات واجب ہے، نماز حضر والی ہو یا سفر والی ، جہری ہو یا سری)
چونکہ احناف کے یہاں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنا منع ہے اس وجہ سے وہ صحیح احادیث کا یاتو انکار کرتے ہیں یا ان میں من مانی تاویل کرتے ہیں ۔
عبادہ والی اس حدیث میں بھی احناف متعدد قسم کی تاویلیں کرتے ہیں ان میں سے ایک غلط تاویل یہ ہے کہ عبادہ والی حدیث کے تمام طرق جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف امام یا منفرد کے ساتھ خاص ہے مقتدیوں کو شامل نہیں ہے ۔ اور پھر دلیل میں یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔

پہلی دلیل : لاَ صلاةَ لمن لم يقرأ بفاتحةِ الْكتابِ فصاعدًا(صحيح النسائي:910)
ترجمہ: جو شخص سورۂ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اسکی نمازنہیں۔

دوسری دلیل: عن أبي هريرةَ قالَ أمَرَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ أن أناديَ أنَّهُ لا صلاةَ إلَّا بقراءةِ فاتحةِ الْكتابِ فما زادَ(صحيح أبي داود:820)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ قرآت فاتحہ اور کچھ مزید کے بغیر نماز نہیں ۔

تیسری دلیل : عن أبي سعيدٍ قالَ أُمِرنا أن نقرأَ بفاتحةِ الكتابِ وما تيسَّرَ(صحيح أبي داود:818)
ترجمہ: سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم ( نماز میں ) فاتحہ اور جو میسر ہو ( یعنی قرآن میں سے ) پڑھا کریں ۔

چوتھی دلیل : سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا صلاةَ لِمَن لم يقرَأْ في كلِّ رَكْعةٍ بِ الحَمْدُ للَّهِ وسورةٍ في فَريضةٍ أو غيرِها(ضعيف ابن ماجه:160)
ترجمہ:اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو فرض اور نفل نماز کی ہر رکعت میں(اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ) اور اس کے ساتھ کوئی اور سورت نہیں پڑھتا۔
٭ یہ حدیث ضعیف ہے ، اسے علامہ ناصرالدین البانی، علاء الدین مغلطائ، ابن الملقن ، حافظ ابن کثیر، حافظ ابن حجر عسقلانی اور الرباعی وغیرہم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں : (ضعيف ابن ماجه:160، ضعيف الجامع:5266، ضعيف الجامع:6299، شرح ابن ماجه لعلاء :3/395، البدر المنير:3/551،تفسير القرآن:1/26، التلخيص الحبير:1/380، فتح الغفار:333/1،الأحاديث الموضوعة للموصلي:88)

احناف کا غلط استدلال : مذکورہ بالا احادیث سے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ ان حادیث سے سورہ فاتحہ اور قرآن کی دوسری سورتوں کی قرات کا وجوب ثابت ہوتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے "لاصلاۃ لمن یقرا بفاتحہ الکتاب " کا مخاطب مقتدی نہیں بلکہ امام اور منفرد ہیں ۔
دراصل یہ احناف کا ایک شبہ اور ایک اشکال ہے جس کا کئی طریقے سے جواب تحریر کررہاہوں ۔
پہلا جواب : عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہی مروی دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو بھی اپنے نفس میں سورہ فاتحہ پڑھنا ہے ۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔(سنن نسائی:921، دارقطنی:1207، جزءالقراءۃ:65)
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم میں سے کوئی آدمی سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔
٭اس حدیث کو بیہقی نے صحیح اور دارقطنی نے حسن کہا ہے ۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كنَّا خلفَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في صلاةِ الفجرِ فقرأَ فثقُلتْ عليهِ القراءةُ فلمَّا فرغَ قالَ : لعلَّكم تقرؤون خلفَ إمامِكم ؟ قلنا : نعم هذا يا رسولَ اللَّهِ . قالَ : لا تفعلوا إلَّا أن يقرأَ أحدُكم بفاتحةِ الكتابِ فإنَّهُ لا صلاةَ لمن لم يقرأ بِها(أصل صفة الصلاة للالبانی:1/327)
ترجمہ: ہم لوگ نبی ﷺ کے پیچھے فجر کی نماز میں تھے تو آپ نے قراءت کی اور آپ پہ قراءت بوجھل ہوگئی ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا :شاید تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو صحابہ نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول ۔ تو آپ نے فرمایا: فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ نہیں پڑھتا۔
٭ترمذی ، دارقطنی نے اس کی سند کو حسن اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے ۔شیخ البانی نے جید اورحافظ ابن حجر نے ثابت کہا ہے ۔ اور بھی کئی محدثین اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں جیسے ابن حبان، ابن خزیمہ اور خطابی وغیرہ۔
یہ دونوں احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ عبادہ والی حدیث میں مقتدی بھی شامل ہےلہذا بغیر سورہ فاتحہ کے کسی کی نماز نہیں ہوگی مقتدی کی بھی نہیں ۔

دوسرا جواب : سورہ فاتحہ کے ساتھ قرآن کی دوسری سورت ملانا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ۔ عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے:
في كلِّ صلاةٍ يقرأُ ، فما أسْمَعَنا رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم أسْمَعْناكم ، وما أخْفَى عنا أخفيْنا عنكم ، وإن لم تزدْ على أمِّ القرآنِ أَجْزَأْتْ ، إن زدتْ فهو خيرٌ.(صحيح البخاري:772)
ترجمہ: ہر نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے گی۔ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن سنایا تھا ہم بھی تمہیں ان میں سنائیں گے اور جن نمازوں میں آپ نے آہستہ قرات کی ہم بھی ان میں آہستہ ہی قرات کریں گے اور اگر سورہ فاتحہ ہی پڑھو جب بھی کافی ہے، لیکن اگر زیادہ پڑھ لو تو اور بہتر ہے۔
یہی روایت مسلم شریف میں اس طرح سے آئی ہے ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
في كلِّ صلاةٍ قراءةٌ ، فما أَسْمَعَنَا النبيُّ صلى الله عليه وسلم أَسْمَعْناكم ، وما أخفى منا أَخْفَيْناه منكم ، ومَن قرَأَ بأمِّ الكتابِ فقد أَجْزَأَتْ عنه ، ومَن زادَ فهو أفضلُ .(صحيح مسلم:396)
ترجمہ: ہر نماز میں قراءت ہے۔ تو جو (قراءت) نبی ﷺ نے ہمیں سنائی ہم نے تمہیں سنائی اور جو انہوں نے ہم سے پوشیدہ رکھی، ہم نے وہ تم سے پوشیدہ رکھی اور جس نے ام الکتاب پڑھ لی تو اس کے لیے وہ کافی ہے اور جس نے (اس سے) زائد پڑھا تو وہ بہتر ہے۔
بخاری ومسلم کی ان دونوں حدیث کی روشنی میں معلوم یہ ہوا کہ سورہ فاتحہ کے علاوہ پڑھنا بہتر وافضل ہے ، اگر کوئی نہ پڑھے تو نماز ہوجائے لیکن سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو نماز نہیں ہوگی یعنی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری اورکافی ہے ۔

تیسرا جواب : بسااوقات رسول اللہ ﷺ نے نماز میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن خزیمہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔
عن بن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قام فصلى ركعتين لم يقرأ فيهما إلا بفاتحة الكتاب(فتح الباری :2/243)
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی ،ان دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی لیکن سورہ فاتحہ کے علاوہ نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی اس کا مطلب یہ ہوا کہ عبادہ کی روایت عام ہے اور امام ومقتدی سب کو شامل ہے ۔

چوتھا جواب : نحو کے امام سیبویہ نے لکھا ہے کہ فاء کے بعد جولفظ ذکر ہو وہ ضروری نہیں ہوتا ، اس کی مثال بخاری شریف کی یہ روایت ہے ۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تقطعُ اليدُ في ربعِ دينارٍ فصاعدًا(صحيح البخاري:6789)
ترجمہ: چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹ لیا جائے گا۔
جس طرح فصاعدا کا لفظ یہاں غیرضروری کے لئے استعمال ہوا ہے اسی طرح سورہ فاتحہ والی روایت بھی استعمال ہوا ہے یعنی سورہ فاتحہ پڑھنا تو ضروری ہے مگر اس سے زیادہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔

پانچواں جواب : امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے متعلق ساری روایات بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ عبادہ والی روایت عام ہونے کے سبب اس میں مقتدی بھی شامل ہے ۔ یہی اکثر صحابہ ،اکثر تابعین اور اکثر علماء کا موقف ہے چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے متعلق لکھا ہے ۔
وَهَذَا أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق يَرَوْنَ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ.
ترجمہ: یہ سب سے صحیح روایت ہے،صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا امام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے پہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث عام ہے ۔
(احناف کے ایک شبہ کا رد)
مقبول احمدسلفی

بخاری ومسلم سمیت مختلف کتب احادیث میں موجود عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث موجود ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاجس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ حدیث اس طرح سے ہے ۔
حدثنا علي بن عبد الله قال حدثنا سفيان قال حدثنا الزهري عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب(صحيح البخاري:756، صحيح مسلم:394)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔
صحیحین کی یہ حدیث عام ہے اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے اپنی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی خواہ وہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی۔ اسی سبب امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ باب باندھا ہے ۔
باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها في الحضر والسفر وما يجهر فيها وما يخافت(امام ومقتدی کے لئے سب نمازوں میں سورہ فاتحہ کی قرات واجب ہے، نماز حضر والی ہو یا سفر والی ، جہری ہو یا سری)
چونکہ احناف کے یہاں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنا منع ہے اس وجہ سے وہ صحیح احادیث کا یاتو انکار کرتے ہیں یا ان میں من مانی تاویل کرتے ہیں ۔
عبادہ والی اس حدیث میں بھی احناف متعدد قسم کی تاویلیں کرتے ہیں ان میں سے ایک غلط تاویل یہ ہے کہ عبادہ والی حدیث کے تمام طرق جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف امام یا منفرد کے ساتھ خاص ہے مقتدیوں کو شامل نہیں ہے ۔ اور پھر دلیل میں یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔

پہلی دلیل : لاَ صلاةَ لمن لم يقرأ بفاتحةِ الْكتابِ فصاعدًا(صحيح النسائي:910)
ترجمہ: جو شخص سورۂ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اسکی نمازنہیں۔
دوسری دلیل: عن أبي هريرةَ قالَ أمَرَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ أن أناديَ أنَّهُ لا صلاةَ إلَّا بقراءةِ فاتحةِ الْكتابِ فما زادَ(صحيح أبي داود:820)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ قرآت فاتحہ اور کچھ مزید کے بغیر نماز نہیں ۔
تیسری دلیل : عن أبي سعيدٍ قالَ أُمِرنا أن نقرأَ بفاتحةِ الكتابِ وما تيسَّرَ(صحيح أبي داود:818)
ترجمہ: سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم ( نماز میں ) فاتحہ اور جو میسر ہو ( یعنی قرآن میں سے ) پڑھا کریں ۔
چوتھی دلیل : سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا صلاةَ لِمَن لم يقرَأْ في كلِّ رَكْعةٍ بِ الحَمْدُ للَّهِ وسورةٍ في فَريضةٍ أو غيرِها(ضعيف ابن ماجه:160)
ترجمہ:اس شخص کی کوئی نماز نہیں جو فرض اور نفل نماز کی ہر رکعت میں(اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ) اور اس کے ساتھ کوئی اور سورت نہیں پڑھتا۔
٭ یہ حدیث ضعیف ہے ، اسے علامہ ناصرالدین البانی، علاء الدین مغلطائ، ابن الملقن ، حافظ ابن کثیر، حافظ ابن حجر عسقلانی اور الرباعی وغیرہم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں : (ضعيف ابن ماجه:160، ضعيف الجامع:5266، ضعيف الجامع:6299، شرح ابن ماجه لعلاء :3/395، البدر المنير:3/551،تفسير القرآن:1/26، التلخيص الحبير:1/380، فتح الغفار:333/1،الأحاديث الموضوعة للموصلي:88)

احناف کا غلط استدلال : مذکورہ بالا احادیث سے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ ان حادیث سے سورہ فاتحہ اور قرآن کی دوسری سورتوں کی قرات کا وجوب ثابت ہوتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے "لاصلاۃ لمن یقرا بفاتحہ الکتاب " کا مخاطب مقتدی نہیں بلکہ امام اور منفرد ہیں ۔
دراصل یہ احناف کا ایک شبہ اور ایک اشکال ہے جس کا کئی طریقے سے جواب تحریر کررہاہوں ۔
پہلا جواب : عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہی مروی دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو بھی اپنے نفس میں سورہ فاتحہ پڑھنا ہے ۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔(سنن نسائی:921، دارقطنی:1207، جزءالقراءۃ:65)
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم میں سے کوئی آدمی سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔
٭اس حدیث کو بیہقی نے صحیح اور دارقطنی نے حسن کہا ہے ۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كنَّا خلفَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في صلاةِ الفجرِ فقرأَ فثقُلتْ عليهِ القراءةُ فلمَّا فرغَ قالَ : لعلَّكم تقرؤون خلفَ إمامِكم ؟ قلنا : نعم هذا يا رسولَ اللَّهِ . قالَ : لا تفعلوا إلَّا أن يقرأَ أحدُكم بفاتحةِ الكتابِ فإنَّهُ لا صلاةَ لمن لم يقرأ بِها(أصل صفة الصلاة للالبانی:1/327)
ترجمہ: ہم لوگ نبی ﷺ کے پیچھے فجر کی نماز میں تھے تو آپ نے قراءت کی اور آپ پہ قراءت بوجھل ہوگئی ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا :شاید تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو صحابہ نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول ۔ تو آپ نے فرمایا: فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ نہیں پڑھتا۔
٭ترمذی ، دارقطنی نے اس کی سند کو حسن اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے ۔شیخ البانی نے جید اورحافظ ابن حجر نے ثابت کہا ہے ۔ اور بھی کئی محدثین اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں جیسے ابن حبان، ابن خزیمہ اور خطابی وغیرہ۔
یہ دونوں احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ عبادہ والی حدیث میں مقتدی بھی شامل ہےلہذا بغیر سورہ فاتحہ کے کسی کی نماز نہیں ہوگی مقتدی کی بھی نہیں ۔

دوسرا جواب : سورہ فاتحہ کے ساتھ قرآن کی دوسری سورت ملانا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ۔ عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے:
في كلِّ صلاةٍ يقرأُ ، فما أسْمَعَنا رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم أسْمَعْناكم ، وما أخْفَى عنا أخفيْنا عنكم ، وإن لم تزدْ على أمِّ القرآنِ أَجْزَأْتْ ، إن زدتْ فهو خيرٌ.(صحيح البخاري:772)
ترجمہ: ہر نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے گی۔ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن سنایا تھا ہم بھی تمہیں ان میں سنائیں گے اور جن نمازوں میں آپ نے آہستہ قرات کی ہم بھی ان میں آہستہ ہی قرات کریں گے اور اگر سورہ فاتحہ ہی پڑھو جب بھی کافی ہے، لیکن اگر زیادہ پڑھ لو تو اور بہتر ہے۔
یہی روایت مسلم شریف میں اس طرح سے آئی ہے ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
في كلِّ صلاةٍ قراءةٌ ، فما أَسْمَعَنَا النبيُّ صلى الله عليه وسلم أَسْمَعْناكم ، وما أخفى منا أَخْفَيْناه منكم ، ومَن قرَأَ بأمِّ الكتابِ فقد أَجْزَأَتْ عنه ، ومَن زادَ فهو أفضلُ .(صحيح مسلم:396)
ترجمہ: ہر نماز میں قراءت ہے۔ تو جو (قراءت) نبی ﷺ نے ہمیں سنائی ہم نے تمہیں سنائی اور جو انہوں نے ہم سے پوشیدہ رکھی، ہم نے وہ تم سے پوشیدہ رکھی اور جس نے ام الکتاب پڑھ لی تو اس کے لیے وہ کافی ہے اور جس نے (اس سے) زائد پڑھا تو وہ بہتر ہے۔
بخاری ومسلم کی ان دونوں حدیث کی روشنی میں معلوم یہ ہوا کہ سورہ فاتحہ کے علاوہ پڑھنا بہتر وافضل ہے ، اگر کوئی نہ پڑھے تو نماز ہوجائے لیکن سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو نماز نہیں ہوگی یعنی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری اورکافی ہے ۔

تیسرا جواب : بسااوقات رسول اللہ ﷺ نے نماز میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن خزیمہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔
عن بن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قام فصلى ركعتين لم يقرأ فيهما إلا بفاتحة الكتاب(فتح الباری :2/243)
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی ،ان دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی لیکن سورہ فاتحہ کے علاوہ نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی اس کا مطلب یہ ہوا کہ عبادہ کی روایت عام ہے اور امام ومقتدی سب کو شامل ہے ۔

چوتھا جواب : نحو کے امام سیبویہ نے لکھا ہے کہ فاء کے بعد جولفظ ذکر ہو وہ ضروری نہیں ہوتا ، اس کی مثال بخاری شریف کی یہ روایت ہے ۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تقطعُ اليدُ في ربعِ دينارٍ فصاعدًا(صحيح البخاري:6789)
ترجمہ: چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹ لیا جائے گا۔
جس طرح فصاعدا کا لفظ یہاں غیرضروری کے لئے استعمال ہوا ہے اسی طرح سورہ فاتحہ والی روایت بھی استعمال ہوا ہے یعنی سورہ فاتحہ پڑھنا تو ضروری ہے مگر اس سے زیادہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔

پانچواں جواب : امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے متعلق ساری روایات بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ عبادہ والی روایت عام ہونے کے سبب اس میں مقتدی بھی شامل ہے ۔ یہی اکثر صحابہ ،اکثر تابعین اور اکثر علماء کا موقف ہے چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے متعلق لکھا ہے ۔
وَهَذَا أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق يَرَوْنَ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ.
ترجمہ: یہ سب سے صحیح روایت ہے،صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا امام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں۔

جزاک اللہ خیرا شیخ۔ شیخ محترم یہ پرانا موضوع ہے۔ تیرہ سو سالوں میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ اس پر لکھا جاتا رہا ہے۔ اثبات اور رد سب کچھ ہوتے رہے ہیں۔
میں آپ کی تحریر پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں:
پہلا جواب : عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہی مروی دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو بھی اپنے نفس میں سورہ فاتحہ پڑھنا ہے ۔
یہ "اپنے نفس میں" اگلی دونوں روایات میں نہیں ہے۔ یہ ان سے کیسے ثابت ہو گیا؟
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔(سنن نسائی:921، دارقطنی:1207، جزءالقراءۃ:65)
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم میں سے کوئی آدمی سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔
٭اس حدیث کو بیہقی نے صحیح اور دارقطنی نے حسن کہا ہے ۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كنَّا خلفَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ في صلاةِ الفجرِ فقرأَ فثقُلتْ عليهِ القراءةُ فلمَّا فرغَ قالَ : لعلَّكم تقرؤون خلفَ إمامِكم ؟ قلنا : نعم هذا يا رسولَ اللَّهِ . قالَ : لا تفعلوا إلَّا أن يقرأَ أحدُكم بفاتحةِ الكتابِ فإنَّهُ لا صلاةَ لمن لم يقرأ بِها(أصل صفة الصلاة للالبانی:1/327)
ترجمہ: ہم لوگ نبی ﷺ کے پیچھے فجر کی نماز میں تھے تو آپ نے قراءت کی اور آپ پہ قراءت بوجھل ہوگئی ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا :شاید تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو صحابہ نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول ۔ تو آپ نے فرمایا: فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ نہیں پڑھتا۔
٭ترمذی ، دارقطنی نے اس کی سند کو حسن اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے ۔شیخ البانی نے جید اورحافظ ابن حجر نے ثابت کہا ہے ۔ اور بھی کئی محدثین اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں جیسے ابن حبان، ابن خزیمہ اور خطابی وغیرہ۔
یہ دونوں احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ عبادہ والی حدیث میں مقتدی بھی شامل ہےلہذا بغیر سورہ فاتحہ کے کسی کی نماز نہیں ہوگی مقتدی کی بھی نہیں ۔
اصلاً تو یہ کہنا چاہیے کہ جس طرح امام آواز سے قراءت کرتا ہے اسی طرح مقتدی بھی آواز سے قراءت کرے۔ نیز نبی کریم ﷺ پر قراءت جو بوجھل ہوئی تھی اس سے بھی ظاہر یہی ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رض نے آواز سے قراءت کی تھی اسی لیے بوجھل ہوئی۔ کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: شاید تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو صحابہ کرام رض کا جواب تھا نعم۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ان کا عام معمول تھا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر نبی کریم ﷺ پر اس سے پہلے قراءت کیوں بوجھل نہیں ہوئی؟ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس دن تھوڑی آواز سے پڑھ دی ہوگی۔ آگے نبی کریم ﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی۔ ظاہر ہے کہ آواز سے پڑھنے سے ممانعت فرمائی جو کام صحابہ کرام رض نے اس وقت کیا تھا اور پھر اس سے سورہ فاتحہ کا استثناء کیا۔ اس لیے سورہ فاتحہ امام کے پیچھے بلند آواز میں پڑھنی چاہیے نہ کہ دل میں۔
دوسرا جواب : سورہ فاتحہ کے ساتھ قرآن کی دوسری سورت ملانا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ۔
عجیب سا معاملہ ہے:
ایک جانب حدیث میں واضح اور صریح نہی آتی ہے:
فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھو
جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم میں سے کوئی آدمی سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔

دوسری جانب حدیث میں کھلی اجازت بھی آتی ہے:
"پہلی دلیل : لاَ صلاةَ لمن لم يقرأ بفاتحةِ الْكتابِ فصاعدًا(صحيح النسائي:910)
ترجمہ: جو شخص سورۂ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اسکی نمازنہیں۔

دوسری دلیل: عن أبي هريرةَ قالَ أمَرَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ أن أناديَ أنَّهُ لا صلاةَ إلَّا بقراءةِ فاتحةِ الْكتابِ فما زادَ(صحيح أبي داود:820)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ قرآت فاتحہ اور کچھ مزید کے بغیر نماز نہیں ۔

تیسری دلیل : عن أبي سعيدٍ قالَ أُمِرنا أن نقرأَ بفاتحةِ الكتابِ وما تيسَّرَ(صحيح أبي داود:818)
ترجمہ: سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم ( نماز میں ) فاتحہ اور جو میسر ہو ( یعنی قرآن میں سے ) پڑھا کریں ۔"

دونوں حدیثوں کو صحیح کہا جاتا ہے۔ اب عمل پہلی پر کریں اور فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھیں یا دوسری پر کریں اور فاتحہ کے علاوہ کچھ پڑھ لیں؟؟؟

نیز پہلی روایت کو صحیح سمجھیں تو حضرت ابو ہریرہ رض کی "ومَن زادَ فهو أفضلُ" والی روایت باطل ہو جاتی ہے اور اگر پہلی کو غلط سمجھیں اور دوسری کو صحیح سمجھیں تو ابو ہریرہ رض کی ہی "
أنَّهُ لا صلاةَ إلَّا بقراءةِ فاتحةِ الْكتابِ فما زادَ" والی حدیث کے خلاف ہوتا ہے۔
اس تعارض در تعارض کا کیا حل ہو؟
تیسرا جواب : بسااوقات رسول اللہ ﷺ نے نماز میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن خزیمہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے ۔
عن بن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قام فصلى ركعتين لم يقرأ فيهما إلا بفاتحة الكتاب(فتح الباری :2/243)
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی ،ان دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا۔

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوگی لیکن سورہ فاتحہ کے علاوہ نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی اس کا مطلب یہ ہوا کہ عبادہ کی روایت عام ہے اور امام ومقتدی سب کو شامل ہے ۔

ویسے تو اس کی سند کو البانیؒ نے ضعیف کہا ہے اور نبی کریم ﷺ کی ایسی نماز غالباً اور کسی سند سے مروی نہیں ہے۔ لیکن بالفرض اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی اس کا یہ مطلب کیسے ہوا کہ "عبادہ رض کی روایت عام ہے اور امام و مقتدی سب کو شامل ہے"؟ اس روایت میں مقتدی کا ذکر کہاں ہے؟

چوتھا جواب : نحو کے امام سیبویہ نے لکھا ہے کہ فاء کے بعد جولفظ ذکر ہو وہ ضروری نہیں ہوتا ، اس کی مثال بخاری شریف کی یہ روایت ہے ۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تقطعُ اليدُ في ربعِ دينارٍ فصاعدًا(صحيح البخاري:6789)
ترجمہ: چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹ لیا جائے گا۔

جس طرح فصاعدا کا لفظ یہاں غیرضروری کے لئے استعمال ہوا ہے اسی طرح سورہ فاتحہ والی روایت بھی استعمال ہوا ہے یعنی سورہ فاتحہ پڑھنا تو ضروری ہے مگر اس سے زیادہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔

یہاں فصاعداً "غیر ضروری" کے لیے کیسے استعمال ہوا ہے؟ اس بات کا مطلب تو یہ ہوا کہ چوتھائی دینار پر ہاتھ کاٹنا تو ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹنا ضروری نہیں؟ یعنی جس نے بھی چوری کرنی ہو وہ زیادہ کی چوری کرے اور پھر قاضی کے سامنے رو دے کہ میں معذور ہو جاؤں گا اور یہ ضروری نہیں ہے اس لیے میرا ہاتھ نہ کاٹو؟
یہ "فصاعدا" تو اولی اور احری پر دلالت کرتا ہے کہ چوتھائی پر تو ضروری ہے اور اس سے زیادہ پر تو بطریق اولی ضروری ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

پانچواں جواب : امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے متعلق ساری روایات بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ عبادہ والی روایت عام ہونے کے سبب اس میں مقتدی بھی شامل ہے ۔ یہی اکثر صحابہ ،اکثر تابعین اور اکثر علماء کا موقف ہے چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کے متعلق لکھا ہے ۔
وَهَذَا أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق يَرَوْنَ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ.
ترجمہ: یہ سب سے صحیح روایت ہے،صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا امام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں۔

اور جو صحابہ کرام رض امام کے پیچھے قراءت کے قائل نہیں ہیں جیسے مسند ابن الجعد میں عبد اللہ بن عمر رض کی صحیح روایت ہے اور شرح معانی الآثار میں کئی صحابہ کرام رض کی روایات ہیں جن کی سند کی تحقیق میں فی الحال نہیں کر سکا، تو ان کا کیا ہوگا؟
اگر صحابہ رض کا موقف ہونا مقتدی کو اس روایت کے عموم میں شامل کرتا ہے تو پھر صحابہ کرام رض کا ہی موقف نہ ہونا مقتدی کو نکالے گا بھی۔

 

umaribnalkhitab

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2017
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
18
مقبول احمد سلفی بھائی اللہ عزوجل آپ کو اجر عظیم نصیب کرے۔آمین

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290

جزاک اللہ خیرا شیخ۔ شیخ محترم یہ پرانا موضوع ہے۔ تیرہ سو سالوں میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ اس پر لکھا جاتا رہا ہے۔ اثبات اور رد سب کچھ ہوتے رہے ہیں۔
میں آپ کی تحریر پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں:

یہ "اپنے نفس میں" اگلی دونوں روایات میں نہیں ہے۔ یہ ان سے کیسے ثابت ہو گیا؟

اصلاً تو یہ کہنا چاہیے کہ جس طرح امام آواز سے قراءت کرتا ہے اسی طرح مقتدی بھی آواز سے قراءت کرے۔ نیز نبی کریم ﷺ پر قراءت جو بوجھل ہوئی تھی اس سے بھی ظاہر یہی ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رض نے آواز سے قراءت کی تھی اسی لیے بوجھل ہوئی۔ کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: شاید تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو صحابہ کرام رض کا جواب تھا نعم۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ان کا عام معمول تھا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر نبی کریم ﷺ پر اس سے پہلے قراءت کیوں بوجھل نہیں ہوئی؟ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس دن تھوڑی آواز سے پڑھ دی ہوگی۔ آگے نبی کریم ﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی۔ ظاہر ہے کہ آواز سے پڑھنے سے ممانعت فرمائی جو کام صحابہ کرام رض نے اس وقت کیا تھا اور پھر اس سے سورہ فاتحہ کا استثناء کیا۔ اس لیے سورہ فاتحہ امام کے پیچھے بلند آواز میں پڑھنی چاہیے نہ کہ دل میں۔

عجیب سا معاملہ ہے:
ایک جانب حدیث میں واضح اور صریح نہی آتی ہے:
فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھو
جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم میں سے کوئی آدمی سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔

دوسری جانب حدیث میں کھلی اجازت بھی آتی ہے:
"پہلی دلیل : لاَ صلاةَ لمن لم يقرأ بفاتحةِ الْكتابِ فصاعدًا(صحيح النسائي:910)
ترجمہ: جو شخص سورۂ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اسکی نمازنہیں۔

دوسری دلیل: عن أبي هريرةَ قالَ أمَرَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ أن أناديَ أنَّهُ لا صلاةَ إلَّا بقراءةِ فاتحةِ الْكتابِ فما زادَ(صحيح أبي داود:820)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ قرآت فاتحہ اور کچھ مزید کے بغیر نماز نہیں ۔

تیسری دلیل : عن أبي سعيدٍ قالَ أُمِرنا أن نقرأَ بفاتحةِ الكتابِ وما تيسَّرَ(صحيح أبي داود:818)
ترجمہ: سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم ( نماز میں ) فاتحہ اور جو میسر ہو ( یعنی قرآن میں سے ) پڑھا کریں ۔"

دونوں حدیثوں کو صحیح کہا جاتا ہے۔ اب عمل پہلی پر کریں اور فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھیں یا دوسری پر کریں اور فاتحہ کے علاوہ کچھ پڑھ لیں؟؟؟

نیز پہلی روایت کو صحیح سمجھیں تو حضرت ابو ہریرہ رض کی "ومَن زادَ فهو أفضلُ" والی روایت باطل ہو جاتی ہے اور اگر پہلی کو غلط سمجھیں اور دوسری کو صحیح سمجھیں تو ابو ہریرہ رض کی ہی "
أنَّهُ لا صلاةَ إلَّا بقراءةِ فاتحةِ الْكتابِ فما زادَ" والی حدیث کے خلاف ہوتا ہے۔
اس تعارض در تعارض کا کیا حل ہو؟

ویسے تو اس کی سند کو البانیؒ نے ضعیف کہا ہے اور نبی کریم ﷺ کی ایسی نماز غالباً اور کسی سند سے مروی نہیں ہے۔ لیکن بالفرض اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی اس کا یہ مطلب کیسے ہوا کہ "عبادہ رض کی روایت عام ہے اور امام و مقتدی سب کو شامل ہے"؟ اس روایت میں مقتدی کا ذکر کہاں ہے؟


یہاں فصاعداً "غیر ضروری" کے لیے کیسے استعمال ہوا ہے؟ اس بات کا مطلب تو یہ ہوا کہ چوتھائی دینار پر ہاتھ کاٹنا تو ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹنا ضروری نہیں؟ یعنی جس نے بھی چوری کرنی ہو وہ زیادہ کی چوری کرے اور پھر قاضی کے سامنے رو دے کہ میں معذور ہو جاؤں گا اور یہ ضروری نہیں ہے اس لیے میرا ہاتھ نہ کاٹو؟
یہ "فصاعدا" تو اولی اور احری پر دلالت کرتا ہے کہ چوتھائی پر تو ضروری ہے اور اس سے زیادہ پر تو بطریق اولی ضروری ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟


اور جو صحابہ کرام رض امام کے پیچھے قراءت کے قائل نہیں ہیں جیسے مسند ابن الجعد میں عبد اللہ بن عمر رض کی صحیح روایت ہے اور شرح معانی الآثار میں کئی صحابہ کرام رض کی روایات ہیں جن کی سند کی تحقیق میں فی الحال نہیں کر سکا، تو ان کا کیا ہوگا؟
اگر صحابہ رض کا موقف ہونا مقتدی کو اس روایت کے عموم میں شامل کرتا ہے تو پھر صحابہ کرام رض کا ہی موقف نہ ہونا مقتدی کو نکالے گا بھی۔

@خضر حیات
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میرے بھائی یہ کوئی بحث نہیں ہے. میں جانتا ہوں کہ مسئلہ پر دونوں جانب دلائل موجود ہیں اور اگر سری نمازوں میں فاتحہ کے پڑھنے کو دیکھا جائے تو روایات کے لحاظ سے پڑھنے کے دلائل مضبوط معلوم ہوتے ہیں.
یہ تو شیخ سے ان کی تحریر پر کچھ اشکالات ہیں کہ ان کی بات میں کچھ ابہام رہ گیا ہے اور وہ وضاحت فرما دیں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
میرے بھائی یہ کوئی بحث نہیں ہے. میں جانتا ہوں کہ مسئلہ پر دونوں جانب دلائل موجود ہیں اور اگر سری نمازوں میں فاتحہ کے پڑھنے کو دیکھا جائے تو روایات کے لحاظ سے پڑھنے کے دلائل مضبوط معلوم ہوتے ہیں.
یہ تو شیخ سے ان کی تحریر پر کچھ اشکالات ہیں کہ ان کی بات میں کچھ ابہام رہ گیا ہے اور وہ وضاحت فرما دیں.
ان شاء اللہ جواب دیں گےشیخ شاید مصروف ییں. رمضان قریب ہے اس لئے مصروف ہیں. ابھی جلدی ہی بات ہوئی تھی (کسی اور چیز کے متعلق)
 
Top