احمد پربھنوی
رکن
- شمولیت
- دسمبر 17، 2016
- پیغامات
- 97
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 48
اب یہاں اگر کوئی کہے کہ سماک صرف عکرمہ کی روایت مین تلقین قبول کرتے تھے تو پہلے انہیں امام نسائی کا قول غور سے پڑھ لینا چاہیے کہ کیا امام نسائی نے یہاں کوئی قید لگائی ہے کہ سماک صرف عکرمہ کی روایت میں تلقین قبول کرتے تھے ۔نہیں ! اور امام نسائی خود جرح والتعدیل کے فن کے ماہر ہیں اور ان کے اقوال کو محدثین نے جابجا قبول کیا ہے۔امام نسائی رحمہ اللہ کا مکمل قول ملاحظہ ہوں
وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن بحجة، لانه كان يلقن فيتلقن.
ميزان الاعتدال (2/ 233)
امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں جب یہ کسی متن کو نقل کرنے میں منفرد ہو‘تو یہ حجت نہیں ہوگا کیونکہ اسے تلقین کی جاتی تھی اور یہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا۔
امام نسائی نے سنن الکبری میں خود سماک کی غیر عکرمہ کی روایت پر کلام کیا ہے اور غیر عکرمہ کی روایت میں تلقین قبول کرنے والی بات کہی ہے ۔
وسماك بن حرب ليس ممن يعتمد عليه إذا انفرد بالحديث لأنه كان يقبل التلقين،(سنن الکبری لنسائی ج ٣ ص ٣٦٧)
امام نسائی کہتے ہیں سماک بن حرب پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا جب وہ حدیث بیان کرنے میں منفرد ہو اور وہ تلقین قبول کرتے تھے ۔
اور اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔
سماك ليس بالقوي وكان يقبل التلقين (سن الكبري لنسائی ج٥ ص ١٠٥)
سماک قوی نہیں ہے اور وہ تلقین قبول کرتے تھے۔
امام نسائی کی جرح کہ جب وہ منفرد ہو تو ان سے حجت نہیں لی جائیگی اس کی تائید امام ترمذی اور ابن رجب حنبلی رحمہم اللہ نے بھی کی ہے ۔
چنانچہ ابن رجب حنبلی رح شرح علل الترمذی میں ایک باب قائم کرتے ہیں
"وممن يضطرب في حديثه "
اس عنوان کے تحت ابن رجب سب سے پہلے سماک اور عاصم بن بہدلہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وقد ذكر الترمذي أن هؤلاء وأمثالهم ممن تكلم فيه من قبل حفظه، وكثرة خطئه لا يحتج بحديث أحد منهم إذا انفرد. يعني في الأحكام الشرعية والأمور العلمية، وأن أشد ما يكون ذلك إذا اضطرب أحدهم في الإسناد
ترجمہ : ابن رجب فرماتے ہیں امام ترمذی نے ذکر کیا ہیکہ یہ اوران ہی کی طرح وہ جو حافظہ کی وجہ سے اور کثرتِ خطا کی وجہ سے متکلم فیہ ہین ان مین سے کسی کی بھی حدیث سے احکامِ شرعیہ اور امورِ علمیہ مین دلیل نہین لی جائیگی جب کہ وہ منفرد ہوں اور بات اس وقت اور بھی سخت ہو جائیگی جب ان مین سے کوئ سند مین مضطرب ہو۔(شرح علل الترمذی ج ١ ص ١٤١)
یعنی خود ابن رجب کہتے ہیں کہ سماک ان راویوں میں ہیں جن سے احکام شرعیہ اور امور علمیہ میں دلیل نہیں لی جائیگی جب وہ روایت کرنے میں منفرد ہو
اسی طرح ابن جریر الطبری بھی ایک جگہ محدثین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
وَهَذَا خبر - عندنَا - صَحِيح سَنَده، وَقد يجب أَن يكون على مَذْهَب الآخرين سقيما، غير صَحِيح، لعلل: -
إِحْدَاهَا: أَنه خبر لَا يعرف لَهُ عَن طَلْحَة، عَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - مخرج إِلَّا من هَذَا الْوَجْه. وَالْخَبَر انْفَرد بِهِ - عِنْدهم - مُنْفَرد، وَجب التثبت فِيهِ {
وَالثَّانيَِة: أَنه عَن سماك، عَن مُوسَى، وَمن رِوَايَة إِسْرَائِيل عَنهُ} وَسماك - عِنْدهم - وَإِسْرَائِيل: مِمَّن لَا يثبت بنقلهما فِي الدّين حجَّة!(تہذیب الآثار الجزء المفقود حدیث نمبر ٦٢٢)
یہ خبر ہمارے نزدیک صحیح ہے لیکن دوسروں کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے اور کچھ علل فرمائے ہیں اور کہا سماک نے موسی کی سند سے روایت کیا ہے اور سماک و اسرائیل ان کے نزدیک ایسے ہیں کہ ان دونوں کی نقل کردہ روایت دین میں کوئی حجت نہیں ہے۔
ساتھ ہی ابن جریر نے یہ بھی کہا کہ یہ اس میں تفرد ہے۔
اگر کوئی کہے کہ ابن جریر نے خود اس خبر کو صحیح کہا ہے تو ابن جریر کو شیخ البانی نے تصحیح میں متساہل کہا ہے وہ بھی ابن حبان کی طرح دیکھیے
أقول: لم أره في القسم المطبوع من كتاب ابن جرير "تهذيب الآثار"، وقد تبين
لي من مطالعتي إياه: أنه متساهل في التصحيح نحو تساهل ابن حبان (سلسلة أحاديث الضعيفه ج ١٣ ص ٣٣٩ )
اسی طرح ابن حبان رحمہ اللہ نے سماک کو یخطيء کثیرا کہا ہے یہ بھی ان کے نزدیک ایسا ہے کہ وہ اگر منفرد ہو تو اس سے حجت نہیں لی جائیگی اس پر تفصیلی بحث ابن حبان کی جرح کے تعلق سے کی جائیگی ان شاءاللہ
امام نووی بھی ایک روایت کے تحت لکھتے ہیں
وفى رواته سماك، وإذا تفرد بأصل لم يكن حجة اللغة.(مجموعہ شرح المھذب ج ٢٠ ص ١٤٤)
سماك جب کسی روایت میں تفرد کرے تو ان سے حجت نہیں قائم کی جا سکتی۔
معلوم ہوا امام نسائی کی تفرد کی جرح میں وہ اکیلے نہیں ہیں ان کے ساتھ اور بھی محدثین ہیں۔
لہذا جب سماک بن حرب کسی حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہو تو ان سے حجت نہیں قائم کی جاسکتی۔