• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
امام نسائی رحمہ اللہ کا مکمل قول ملاحظہ ہوں
وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن بحجة، لانه كان يلقن فيتلقن.

ميزان الاعتدال (2/ 233)
امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں جب یہ کسی متن کو نقل کرنے میں منفرد ہو‘تو یہ حجت نہیں ہوگا کیونکہ اسے تلقین کی جاتی تھی اور یہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا۔
اب یہاں اگر کوئی کہے کہ سماک صرف عکرمہ کی روایت مین تلقین قبول کرتے تھے تو پہلے انہیں امام نسائی کا قول غور سے پڑھ لینا چاہیے کہ کیا امام نسائی نے یہاں کوئی قید لگائی ہے کہ سماک صرف عکرمہ کی روایت میں تلقین قبول کرتے تھے ۔نہیں ! اور امام نسائی خود جرح والتعدیل کے فن کے ماہر ہیں اور ان کے اقوال کو محدثین نے جابجا قبول کیا ہے۔
امام نسائی نے سنن الکبری میں خود سماک کی غیر عکرمہ کی روایت پر کلام کیا ہے اور غیر عکرمہ کی روایت میں تلقین قبول کرنے والی بات کہی ہے ۔

وسماك بن حرب ليس ممن يعتمد عليه إذا انفرد بالحديث لأنه كان يقبل التلقين،(سنن الکبری لنسائی ج ٣ ص ٣٦٧)

امام نسائی کہتے ہیں سماک بن حرب پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا جب وہ حدیث بیان کرنے میں منفرد ہو اور وہ تلقین قبول کرتے تھے ۔

اور اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں ۔

سماك ليس بالقوي وكان يقبل التلقين (سن الكبري لنسائی ج٥ ص ١٠٥)
سماک قوی نہیں ہے اور وہ تلقین قبول کرتے تھے۔

امام نسائی کی جرح کہ جب وہ منفرد ہو تو ان سے حجت نہیں لی جائیگی اس کی تائید امام ترمذی اور ابن رجب حنبلی رحمہم اللہ نے بھی کی ہے ۔

چنانچہ ابن رجب حنبلی رح شرح علل الترمذی میں ایک باب قائم کرتے ہیں
"وممن يضطرب في حديثه "

اس عنوان کے تحت ابن رجب سب سے پہلے سماک اور عاصم بن بہدلہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں

وقد ذكر الترمذي أن هؤلاء وأمثالهم ممن تكلم فيه من قبل حفظه، وكثرة خطئه لا يحتج بحديث أحد منهم إذا انفرد. يعني في الأحكام الشرعية والأمور العلمية، وأن أشد ما يكون ذلك إذا اضطرب أحدهم في الإسناد

ترجمہ : ابن رجب فرماتے ہیں امام ترمذی نے ذکر کیا ہیکہ یہ اوران ہی کی طرح وہ جو حافظہ کی وجہ سے اور کثرتِ خطا کی وجہ سے متکلم فیہ ہین ان مین سے کسی کی بھی حدیث سے احکامِ شرعیہ اور امورِ علمیہ مین دلیل نہین لی جائیگی جب کہ وہ منفرد ہوں اور بات اس وقت اور بھی سخت ہو جائیگی جب ان مین سے کوئ سند مین مضطرب ہو۔(شرح علل الترمذی ج ١ ص ١٤١)

یعنی خود ابن رجب کہتے ہیں کہ سماک ان راویوں میں ہیں جن سے احکام شرعیہ اور امور علمیہ میں دلیل نہیں لی جائیگی جب وہ روایت کرنے میں منفرد ہو

اسی طرح ابن جریر الطبری بھی ایک جگہ محدثین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

وَهَذَا خبر - عندنَا - صَحِيح سَنَده، وَقد يجب أَن يكون على مَذْهَب الآخرين سقيما، غير صَحِيح، لعلل: -
إِحْدَاهَا: أَنه خبر لَا يعرف لَهُ عَن طَلْحَة، عَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - مخرج إِلَّا من هَذَا الْوَجْه. وَالْخَبَر انْفَرد بِهِ - عِنْدهم - مُنْفَرد، وَجب التثبت فِيهِ {
وَالثَّانيَِة: أَنه عَن سماك، عَن مُوسَى، وَمن رِوَايَة إِسْرَائِيل عَنهُ} وَسماك - عِنْدهم - وَإِسْرَائِيل: مِمَّن لَا يثبت بنقلهما فِي الدّين حجَّة!(تہذیب الآثار الجزء المفقود حدیث نمبر ٦٢٢)


یہ خبر ہمارے نزدیک صحیح ہے لیکن دوسروں کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے اور کچھ علل فرمائے ہیں اور کہا سماک نے موسی کی سند سے روایت کیا ہے اور سماک و اسرائیل ان کے نزدیک ایسے ہیں کہ ان دونوں کی نقل کردہ روایت دین میں کوئی حجت نہیں ہے۔
ساتھ ہی ابن جریر نے یہ بھی کہا کہ یہ اس میں تفرد ہے۔
اگر کوئی کہے کہ ابن جریر نے خود اس خبر کو صحیح کہا ہے تو ابن جریر کو شیخ البانی نے تصحیح میں متساہل کہا ہے وہ بھی ابن حبان کی طرح دیکھیے

أقول: لم أره في القسم المطبوع من كتاب ابن جرير "تهذيب الآثار"، وقد تبين
لي من مطالعتي إياه: أنه متساهل في التصحيح نحو تساهل ابن حبان (سلسلة أحاديث الضعيفه ج ١٣ ص ٣٣٩ )


اسی طرح ابن حبان رحمہ اللہ نے سماک کو یخطيء کثیرا کہا ہے یہ بھی ان کے نزدیک ایسا ہے کہ وہ اگر منفرد ہو تو اس سے حجت نہیں لی جائیگی اس پر تفصیلی بحث ابن حبان کی جرح کے تعلق سے کی جائیگی ان شاءاللہ

امام نووی بھی ایک روایت کے تحت لکھتے ہیں
وفى رواته سماك، وإذا تفرد بأصل لم يكن حجة اللغة.(مجموعہ شرح المھذب ج ٢٠ ص ١٤٤)
سماك جب کسی روایت میں تفرد کرے تو ان سے حجت نہیں قائم کی جا سکتی۔

معلوم ہوا امام نسائی کی تفرد کی جرح میں وہ اکیلے نہیں ہیں ان کے ساتھ اور بھی محدثین ہیں۔

لہذا جب سماک بن حرب کسی حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہو تو ان سے حجت نہیں قائم کی جاسکتی۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
ہم سماک بن حرب پر مضطرب کی جرح کو عن عکرمہ کی سند کے ساتھ قید کرتے ہیں
ہاں میں وہی کہے رہا ہوں سماک کے اضطراب کو آپ عکرمہ کی سند کے ساتھ خاص کرتے ہیں جبکہ محدثین ایسا نہیں کرتے جو ہم نے ہمارے اس سے پہلے کے مراسلات میں ثابت کیا ہے
اور آپ سماک بن حرب پر مضطرب کی جرح کو ہر سند کے پر گمان کرتے ہو
ہم گمان کرنے والے کون ہوتے ہیں یہ تو محدثین کرتے ہیں جن میں امام نسائی ،ابو عبدالرحمن، امام ذہبی ، امام دار قطنی،ابن ابی حاتم ،ابو بکر الجساس وغیرہ کرتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@احمد پربھنوی بھائی! آپ کی بات مکمل ہو جائے تو مطلع کیجئے گا!
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116

لا مذہب (بمعنیٰ غیر مقلد) نام نہاد اہلحدیث کے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے تمام دلائل کا دارومدار ’’علیٰ صدرہ‘‘ کے الفاظ پر ہے جس کا مفہوم ’’سامنے کی طرف‘‘ بھی ہے اور مناسب یہی ہے کہ جن احادیث میں ’’علیٰ صدرہ‘‘ آیا ہے اس سے یہی مفہوم لیا جائے کیونکہ خیر القرون کے محثین کرام اور فقہاء عظام میں سے کسی نے بھی سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات نہیں لکھی سوائے امام شافعی کے اور ان کا بھی بعد کا قول ’’فوق السرۃ‘‘ کا ہے۔
بہت افسوس ہوا یہ پڑھ کر کے آپ غیر مقلد کو لامذہب کہتے ہیں محترم میں نے ابھی تک جس جس حنفی بھائی کو جواب دیا کسی کو بھی بُرا بھلا نہیں کہا اور آپ نے ایک ہی بار میں سب کو لامذہب کہہ دیا کیا آپ کو حنفی مسلک یہ سکھاتا ہیں؟ آپ کی جانکاری کے لئے بتا دوں کے میں بھی پہلے حنفی تھا پر اب نہیں الحمدللہ اور آپ نے جس طرح لامذہب کہا ہے اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے یا تو آپ کو یہ سب حنفی مذہب نے سکھایا یا پھر آپ کی تربیت ہی ایسی ہے بہرحال اگر آپ اسی طرح بات کریں گے تو محترم میں آپ کو جواب نہیں دونگا اور ایک بات اچھی طرح جان لے کہ جیسے دن کا اُلَٹ رات ہوتا ہے نہ کے غیر دن اسی طرح مقلد کا اُلَٹ اطاعت رسول ہوتا ہے نہ کے غیر مقلد تو آپ عوام کو دھوکا نہ دیں
اتباع رسول میں ہے شان مسلم کی
اتباع رسول میں ہے آن مُسلم کی​
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@احمد پربھنوی بھائی! آپ کی بات مکمل ہو جائے تو مطلع کیجئے گا!
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ و مغفرتہ
بھائی ابھی مکمل نہیں ہوا اگر آپ میرے مراسلات پر اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کر سکتے ہیں۔
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ " محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی " ہے اور امام ذہبی نے انہیں صدوق کہا (تاریخ الاسلام ج ١٠ ص ٣٥٩) لہذا اس قول کی سند حسن ہے دیکھیے ( انوار البدر ص ١٢٦)

اور اگر کوئ کہے کہ ان کو ضعیف کہنے والوں کی تفسیر عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے تو ہم نے محدثین کے اقوال سے بتایا ہے کہ سماک غیر عکرمہ کی سند میں بھی اضطراب کا شکار ہوتے تھے ۔
أخبرني محمد بن على المقرئ أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال قال أبو على صالح بن محمد وسماك بن حرب يضعف.
{أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٩ ص٢١٦، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج٩ ص٢١٥، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١٠ ص٢٩٩، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف}
ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) لکھتے ہیں: صالح بن محمد البغدادی: ‘‘
يضعف’’ (تاریخ بغداد ۹/۲۱۶)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئ ہے جس کا تعین مطلوب ہے۔ ابومسلم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئ اور قاری
(قرأعليه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئ کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۱/۳۹۱ ت۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱) وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔ {دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۱ ص۴۲۹-۴۳۰، اورنماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص۴۱، وجدید ایڈیشن: ص۴۲-۴۳}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں: امام صالح بن محمد جزرۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۹۳) نے کہا: ‘‘
وسماك بن حرب يضعف’’
"سماک بن حرب کو ضعیف کہا جاتا ہے
أخبرني محمد بن على المقرئ أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال قال أبو على صالح بن محمد وسماك بن حرب يضعف.
{أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣
ھ) في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٩ ص٢١٦، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج٩ ص٢١٥، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١٠ ص٢٩٩، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف}
ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) لکھتے ہیں: صالح بن محمد البغدادی: ‘‘
يضعف’’ (تاریخ بغداد ۹/۲۱۶)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئ ہے جس کا تعین مطلوب ہے۔ ابومسلم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئ اور قاری
(قرأعليه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئ کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۱/۳۹۱ ت۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱) وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔
{ دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۱ ص۴۲۹-۴۳۰، اورنماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص۴۱، وجدید ایڈیشن: ص۴۲-۴۳}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں: امام صالح بن محمد جزرۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۹۳) نے کہا:
أخبرني محمد بن على المقرئ أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال قال أبو على صالح بن محمد وسماك بن حرب يضعف.
{أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣
ھ) في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٩ ص٢١٦، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج٩ ص٢١٥، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١٠ ص٢٩٩، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف}
ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) لکھتے ہیں: صالح بن محمد البغدادی: "
يضعف" (تاریخ بغداد ۹/۲۱۶)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئ ہے جس کا تعین مطلوب ہے۔ ابومسلم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئ اور قاری
(قرأعليه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئ کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۱/۳۹۱ ت۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱) وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔
{ دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۱ ص۴۲۹-۴۳۰، اورنماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص۴۱، وجدید ایڈیشن: ص۴۲-۴۳}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں: امام صالح بن محمد جزرۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۹۳) نے کہا: "
وسماك بن حرب يضعف"
"سماک بن حرب کو ضعیف کہا جاتا ہے"۔ [
تاريخ بغداد، مطبعة السعادة:٩/٢١٦، وسناده حسن
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ ‘‘محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی’’ ہیں۔ اور امام ذہیبی نے انہیں ‘‘
صدوق’’ کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار:١٠/٣٥٩] لہذا اس قول کی سند حسن ہے۔
{ دیکھئے کتاب: إزالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب: ص۸، اور انوار البدر في وضع اليدين علي الصدر: ص۱۲۶}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی سے اس راوی کے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔ اس راوی کا نام یہ ہے :
"أبو العلاء محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان الواسطي المقرئ"
{في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٣ ص٩٥-٩٩، ت١٠٩٤، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. ونسخة الثاني: ج٣ ص٣١٠-٣١٤، ت١٤١٠، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٤ ص١٦٢-١٦٧، ت١٣٥٨ بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٥١٠، ت٢٥، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٣٥٢-٣٥٤، ت٢٤، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

امام خطیب بغدادی اپنے استاذ قاضی ابو العلاء الواسطی سے روایت اس طرح کی ہے:
أخبرنا القاضي أبو العلاء الواسطي أخبرنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سمعت أبا علي صالح بن محمد البغدادي {تاريخ بغداد: ج٨ ص٣٦١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل قال أنبأنا أبو مسلم بن مهران الحافظ قال أنبأنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال وسمعت أبا على صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج٢ ص٢٦٢، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سألت أبا علي صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج١٠ ص٤٤٠، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن علي المقرئ أنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سمعت أبا علي صالح بن محمد {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [باب ترك الاحتجاج بمن غلب على حديثه الشواذ ورواية المناكير والغرائب من الأحاديث] ج١ ص٤٢٠، ح٣٩٤، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن علي المقرئ، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب أبو العلاء الواسطي، وهو ضعيف سبق الكلام عليه في رقم (٢٩).}.

حدثنا محمد بن على المقرئ حدثنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣٠١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن احمد بن يعقوب قال أنبأنا محمد بن نعيم الضبي {تاريخ بغداد: ج٢ ص٨، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل حدثنا محمد بن عبد الله أبو عبد الله النيسابوري {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣١٧، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
حدثني محمد بن علي بن يعقوب المقرئ عن محمد بن عبد الله الحافظ {تاريخ بغداد: ج٥ ص٢٣٣، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم الضبي الحافظ {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [معرفة الخبر المتصل الموجب للقبول والعمل] ج١ ص٩٣، ح٢٩، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن أحمد بن يعقوب، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، أبو العلاء الواسطي، ضعيف،....}.وسماك بن حرب يضعف’’
‘‘سماک بن حرب کو ضعیف کہا جاتا ہے’’۔ [
تاريخ بغداد، مطبعة السعادة:٩/٢١٦، وسناده حسن
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ ‘‘محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی’’ ہیں۔ اور امام ذہیبی نے انہیں ‘‘
صدوق’’ کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار:١٠/٣٥٩] لہذا اس قول کی سند حسن ہے۔
{ دیکھئے کتاب: إزالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب: ص۸، اور انوار البدر في وضع اليدين علي الصدر: ص۱۲۶}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی سے اس راوی کے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔ اس راوی کا نام یہ ہے :
"أبو العلاء محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان الواسطي المقرئ"
{في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٣ ص٩٥-٩٩، ت١٠٩٤، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. ونسخة الثاني: ج٣ ص٣١٠-٣١٤، ت١٤١٠، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٤ ص١٦٢-١٦٧، ت١٣٥٨ بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٥١٠، ت٢٥، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٣٥٢-٣٥٤، ت٢٤، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

امام خطیب بغدادی اپنے استاذ قاضی ابو العلاء الواسطی سے روایت اس طرح کی ہے:
أخبرنا القاضي أبو العلاء الواسطي أخبرنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سمعت أبا علي صالح بن محمد البغدادي {تاريخ بغداد: ج٨ ص٣٦١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل قال أنبأنا أبو مسلم بن مهران الحافظ قال أنبأنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال وسمعت أبا على صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج٢ ص٢٦٢، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سألت أبا علي صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج١٠ ص٤٤٠، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن علي المقرئ أنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سمعت أبا علي صالح بن محمد {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [باب ترك الاحتجاج بمن غلب على حديثه الشواذ ورواية المناكير والغرائب من الأحاديث] ج١ ص٤٢٠، ح٣٩٤، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن علي المقرئ، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب أبو العلاء الواسطي، وهو ضعيف سبق الكلام عليه في رقم (٢٩).}.

حدثنا محمد بن على المقرئ حدثنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣٠١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن احمد بن يعقوب قال أنبأنا محمد بن نعيم الضبي {تاريخ بغداد: ج٢ ص٨، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل حدثنا محمد بن عبد الله أبو عبد الله النيسابوري {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣١٧، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
حدثني محمد بن علي بن يعقوب المقرئ عن محمد بن عبد الله الحافظ {تاريخ بغداد: ج٥ ص٢٣٣، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم الضبي الحافظ {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [معرفة الخبر المتصل الموجب للقبول والعمل] ج١ ص٩٣، ح٢٩، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن أحمد بن يعقوب، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، أبو العلاء الواسطي، ضعيف،....}.۔ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة:٩/٢١٦، وسناده حسن
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ ‘‘محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی’’ ہیں۔ اور امام ذہیبی نے انہیں ‘‘
صدوق’’ کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار:١٠/٣٥٩] لہذا اس قول کی سند حسن ہے۔
{ دیکھئے کتاب: إزالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب: ص۸، اور انوار البدر في وضع اليدين علي الصدر: ص۱۲۶}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی سے اس راوی کے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔ اس راوی کا نام یہ ہے :
"أبو العلاء محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان الواسطي المقرئ"
{في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٣ ص٩٥-٩٩، ت١٠٩٤، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. ونسخة الثاني: ج٣ ص٣١٠-٣١٤، ت١٤١٠، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٤ ص١٦٢-١٦٧، ت١٣٥٨ بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٥١٠، ت٢٥، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٣٥٢-٣٥٤، ت٢٤، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

امام خطیب بغدادی اپنے استاذ قاضی ابو العلاء الواسطی سے روایات اس طرح کی ہے:
أخبرنا القاضي أبو العلاء الواسطي أخبرنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سمعت أبا علي صالح بن محمد البغدادي {تاريخ بغداد: ج٨ ص٣٦١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل قال أنبأنا أبو مسلم بن مهران الحافظ قال أنبأنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال وسمعت أبا على صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج٢ ص٢٦٢، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سألت أبا علي صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج١٠ ص٤٤٠، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن علي المقرئ أنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سمعت أبا علي صالح بن محمد {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [باب ترك الاحتجاج بمن غلب على حديثه الشواذ ورواية المناكير والغرائب من الأحاديث] ج١ ص٤٢٠، ح٣٩٤، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن علي المقرئ، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب أبو العلاء الواسطي، وهو ضعيف سبق الكلام عليه في رقم (٢٩).}.

حدثنا محمد بن على المقرئ حدثنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣٠١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن احمد بن يعقوب قال أنبأنا محمد بن نعيم الضبي {تاريخ بغداد: ج٢ ص٨، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل حدثنا محمد بن عبد الله أبو عبد الله النيسابوري {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣١٧، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
حدثني محمد بن علي بن يعقوب المقرئ عن محمد بن عبد الله الحافظ {تاريخ بغداد: ج٥ ص٢٣٣، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم الضبي الحافظ {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [معرفة الخبر المتصل الموجب للقبول والعمل] ج١ ص٩٣، ح٢٩، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن أحمد بن يعقوب، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، أبو العلاء الواسطي، ضعيف،....}.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی ابھی مکمل نہیں ہوا اگر آپ میرے مراسلات پر اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کر سکتے ہیں۔
آپ مکمل کرلیں، پھر آپ لکھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے گی!
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ " محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی " ہے اور امام ذہبی نے انہیں صدوق کہا (تاریخ الاسلام ج ١٠ ص ٣٥٩) لہذا اس قول کی سند حسن ہے دیکھیے ( انوار البدر ص ١٢٦)

اور اگر کوئ کہے کہ ان کو ضعیف کہنے والوں کی تفسیر عکرمہ والی سند کے ساتھ خاص ہے تو ہم نے محدثین کے اقوال سے بتایا ہے کہ سماک غیر عکرمہ کی سند میں بھی اضطراب کا شکار ہوتے تھے ۔
أخبرني محمد بن على المقرئ أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال قال أبو على صالح بن محمد وسماك بن حرب يضعف.
{أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٩ ص٢١٦، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج٩ ص٢١٥، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١٠ ص٢٩٩، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف}
ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) لکھتے ہیں: صالح بن محمد البغدادی: "
يضعف" (تاریخ بغداد ۹/۲۱۶)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئ ہے جس کا تعین مطلوب ہے۔ ابومسلم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئ اور قاری
(قرأعليه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئ کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۱/۳۹۱ ت۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱) وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔
{ دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۱ ص۴۲۹-۴۳۰، اورنماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص۴۱، وجدید ایڈیشن: ص۴۲-۴۳}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں: امام صالح بن محمد جزرۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۹۳) نے کہا: "
وسماك بن حرب يضعف"
"سماک بن حرب کو ضعیف کہا جاتا ہے"۔ [
تاريخ بغداد، مطبعة السعادة:٩/٢١٦، وسناده حسن
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ ‘‘محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی’’ ہیں۔ اور امام ذہیبی نے انہیں ‘‘
صدوق’’ کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار:١٠/٣٥٩] لہذا اس قول کی سند حسن ہے۔
{ دیکھئے کتاب: إزالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب: ص۸، اور انوار البدر في وضع اليدين علي الصدر: ص۱۲۶}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی سے اس راوی کے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔ اس راوی کا نام یہ ہے :
"أبو العلاء محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان الواسطي المقرئ"
{في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٣ ص٩٥-٩٩، ت١٠٩٤، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. ونسخة الثاني: ج٣ ص٣١٠-٣١٤، ت١٤١٠، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٤ ص١٦٢-١٦٧، ت١٣٥٨ بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٥١٠، ت٢٥، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٣٥٢-٣٥٤، ت٢٤، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

امام خطیب بغدادی اپنے استاذ قاضی ابو العلاء الواسطی سے روایت اس طرح کی ہے:
أخبرنا القاضي أبو العلاء الواسطي أخبرنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سمعت أبا علي صالح بن محمد البغدادي {تاريخ بغداد: ج٨ ص٣٦١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل قال أنبأنا أبو مسلم بن مهران الحافظ قال أنبأنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال وسمعت أبا على صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج٢ ص٢٦٢، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سألت أبا علي صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج١٠ ص٤٤٠، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن علي المقرئ أنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سمعت أبا علي صالح بن محمد {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [باب ترك الاحتجاج بمن غلب على حديثه الشواذ ورواية المناكير والغرائب من الأحاديث] ج١ ص٤٢٠، ح٣٩٤، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن علي المقرئ، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب أبو العلاء الواسطي، وهو ضعيف سبق الكلام عليه في رقم (٢٩).}.

حدثنا محمد بن على المقرئ حدثنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣٠١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن احمد بن يعقوب قال أنبأنا محمد بن نعيم الضبي {تاريخ بغداد: ج٢ ص٨، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل حدثنا محمد بن عبد الله أبو عبد الله النيسابوري {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣١٧، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
حدثني محمد بن علي بن يعقوب المقرئ عن محمد بن عبد الله الحافظ {تاريخ بغداد: ج٥ ص٢٣٣، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم الضبي الحافظ {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [معرفة الخبر المتصل الموجب للقبول والعمل] ج١ ص٩٣، ح٢٩، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن أحمد بن يعقوب، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، أبو العلاء الواسطي، ضعيف،....}.
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
أخبرني محمد بن على المقرئ أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال قال أبو على صالح بن محمد وسماك بن حرب يضعف.
{أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣
ھ) في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٩ ص٢١٦، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج٩ ص٢١٥، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١٠ ص٢٩٩، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف}
ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) لکھتے ہیں: صالح بن محمد البغدادی: ‘‘
يضعف’’ (تاریخ بغداد ۹/۲۱۶)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئ ہے جس کا تعین مطلوب ہے۔ ابومسلم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئ اور قاری
(قرأعليه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئ کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۱/۳۹۱ ت۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱) وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔ {دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۱ ص۴۲۹-۴۳۰، اورنماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص۴۱، وجدید ایڈیشن: ص۴۲-۴۳}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں: امام صالح بن محمد جزرۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۹۳) نے کہا: ‘‘
وسماك بن حرب يضعف’’
"سماک بن حرب کو ضعیف کہا جاتا ہے
أخبرني محمد بن على المقرئ أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال قال أبو على صالح بن محمد وسماك بن حرب يضعف.
{أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣
ھ) في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٩ ص٢١٦، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج٩ ص٢١٥، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١٠ ص٢٩٩، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف}
ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) لکھتے ہیں: صالح بن محمد البغدادی: ‘‘
يضعف’’ (تاریخ بغداد ۹/۲۱۶)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئ ہے جس کا تعین مطلوب ہے۔ ابومسلم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئ اور قاری
(قرأعليه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئ کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۱/۳۹۱ ت۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱) وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔
{ دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۱ ص۴۲۹-۴۳۰، اورنماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص۴۱، وجدید ایڈیشن: ص۴۲-۴۳}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں: امام صالح بن محمد جزرۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۹۳) نے کہا:
أخبرني محمد بن على المقرئ أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال قال أبو على صالح بن محمد وسماك بن حرب يضعف.
{أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣
ھ) في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٩ ص٢١٦، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج٩ ص٢١٥، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١٠ ص٢٩٩، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف}
ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) لکھتے ہیں: صالح بن محمد البغدادی: "
يضعف" (تاریخ بغداد ۹/۲۱۶)
اس قول کا راوی محمد بن علی المقرئ ہے جس کا تعین مطلوب ہے۔ ابومسلم عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ بن مہران بن سلمہ الثقہ الصالح کے شاگردوں میں خطیب بغدادی کا استاد قاضی ابو العلاء الواسطی ہے (تاریخ بغداد ۲۹۹/۱۰) یہ ابوالعلاء محمد بن علی (القاری) ہے۔ (تاریخ بغداد ۹۵/۳) المقرئ اور قاری
(قرأعليه القرآن بقراءت جماعة) ایک ہی شخص کے مختلف القاب ہوتے ہیں، ابوالعلاء المقرئ کے حالات (معرفۃ القراء الکبار للذہبی ۱/۳۹۱ ت۳۲۸) وغیرہ میں موجود ہیں اور یہ شخص مجروح ہے۔ دیکھے میزان الاعتدال (۶۵۴/۳ت۷۹۷۱) وغیرہ لہذا اس قول کے ثبوت میں نظر ہے۔
{ دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۱ ص۴۲۹-۴۳۰، اورنماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص۴۱، وجدید ایڈیشن: ص۴۲-۴۳}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں: امام صالح بن محمد جزرۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۹۳) نے کہا: "
وسماك بن حرب يضعف"
"سماک بن حرب کو ضعیف کہا جاتا ہے"۔ [
تاريخ بغداد، مطبعة السعادة:٩/٢١٦، وسناده حسن
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ ‘‘محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی’’ ہیں۔ اور امام ذہیبی نے انہیں ‘‘
صدوق’’ کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار:١٠/٣٥٩] لہذا اس قول کی سند حسن ہے۔
{ دیکھئے کتاب: إزالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب: ص۸، اور انوار البدر في وضع اليدين علي الصدر: ص۱۲۶}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی سے اس راوی کے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔ اس راوی کا نام یہ ہے :
"أبو العلاء محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان الواسطي المقرئ"
{في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٣ ص٩٥-٩٩، ت١٠٩٤، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. ونسخة الثاني: ج٣ ص٣١٠-٣١٤، ت١٤١٠، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٤ ص١٦٢-١٦٧، ت١٣٥٨ بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٥١٠، ت٢٥، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٣٥٢-٣٥٤، ت٢٤، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

امام خطیب بغدادی اپنے استاذ قاضی ابو العلاء الواسطی سے روایت اس طرح کی ہے:
أخبرنا القاضي أبو العلاء الواسطي أخبرنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سمعت أبا علي صالح بن محمد البغدادي {تاريخ بغداد: ج٨ ص٣٦١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل قال أنبأنا أبو مسلم بن مهران الحافظ قال أنبأنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال وسمعت أبا على صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج٢ ص٢٦٢، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سألت أبا علي صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج١٠ ص٤٤٠، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن علي المقرئ أنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سمعت أبا علي صالح بن محمد {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [باب ترك الاحتجاج بمن غلب على حديثه الشواذ ورواية المناكير والغرائب من الأحاديث] ج١ ص٤٢٠، ح٣٩٤، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن علي المقرئ، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب أبو العلاء الواسطي، وهو ضعيف سبق الكلام عليه في رقم (٢٩).}.

حدثنا محمد بن على المقرئ حدثنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣٠١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن احمد بن يعقوب قال أنبأنا محمد بن نعيم الضبي {تاريخ بغداد: ج٢ ص٨، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل حدثنا محمد بن عبد الله أبو عبد الله النيسابوري {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣١٧، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
حدثني محمد بن علي بن يعقوب المقرئ عن محمد بن عبد الله الحافظ {تاريخ بغداد: ج٥ ص٢٣٣، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم الضبي الحافظ {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [معرفة الخبر المتصل الموجب للقبول والعمل] ج١ ص٩٣، ح٢٩، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن أحمد بن يعقوب، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، أبو العلاء الواسطي، ضعيف،....}.وسماك بن حرب يضعف’’
‘‘سماک بن حرب کو ضعیف کہا جاتا ہے’’۔ [
تاريخ بغداد، مطبعة السعادة:٩/٢١٦، وسناده حسن
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ ‘‘محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی’’ ہیں۔ اور امام ذہیبی نے انہیں ‘‘
صدوق’’ کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار:١٠/٣٥٩] لہذا اس قول کی سند حسن ہے۔
{ دیکھئے کتاب: إزالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب: ص۸، اور انوار البدر في وضع اليدين علي الصدر: ص۱۲۶}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی سے اس راوی کے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔ اس راوی کا نام یہ ہے :
"أبو العلاء محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان الواسطي المقرئ"
{في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٣ ص٩٥-٩٩، ت١٠٩٤، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. ونسخة الثاني: ج٣ ص٣١٠-٣١٤، ت١٤١٠، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٤ ص١٦٢-١٦٧، ت١٣٥٨ بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٥١٠، ت٢٥، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٣٥٢-٣٥٤، ت٢٤، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

امام خطیب بغدادی اپنے استاذ قاضی ابو العلاء الواسطی سے روایت اس طرح کی ہے:
أخبرنا القاضي أبو العلاء الواسطي أخبرنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سمعت أبا علي صالح بن محمد البغدادي {تاريخ بغداد: ج٨ ص٣٦١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل قال أنبأنا أبو مسلم بن مهران الحافظ قال أنبأنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال وسمعت أبا على صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج٢ ص٢٦٢، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سألت أبا علي صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج١٠ ص٤٤٠، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن علي المقرئ أنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سمعت أبا علي صالح بن محمد {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [باب ترك الاحتجاج بمن غلب على حديثه الشواذ ورواية المناكير والغرائب من الأحاديث] ج١ ص٤٢٠، ح٣٩٤، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن علي المقرئ، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب أبو العلاء الواسطي، وهو ضعيف سبق الكلام عليه في رقم (٢٩).}.

حدثنا محمد بن على المقرئ حدثنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣٠١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن احمد بن يعقوب قال أنبأنا محمد بن نعيم الضبي {تاريخ بغداد: ج٢ ص٨، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل حدثنا محمد بن عبد الله أبو عبد الله النيسابوري {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣١٧، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
حدثني محمد بن علي بن يعقوب المقرئ عن محمد بن عبد الله الحافظ {تاريخ بغداد: ج٥ ص٢٣٣، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم الضبي الحافظ {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [معرفة الخبر المتصل الموجب للقبول والعمل] ج١ ص٩٣، ح٢٩، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن أحمد بن يعقوب، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، أبو العلاء الواسطي، ضعيف،....}.۔ [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة:٩/٢١٦، وسناده حسن
اس قول کی سند میں خطیب بغدادی کے استاذ محمد بن علی المقری یہ ‘‘محمد بن محمد بن علی المقری العکبری الجوزرانی’’ ہیں۔ اور امام ذہیبی نے انہیں ‘‘
صدوق’’ کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار:١٠/٣٥٩] لہذا اس قول کی سند حسن ہے۔
{ دیکھئے کتاب: إزالة الكرب عن توثيق سماك بن حرب: ص۸، اور انوار البدر في وضع اليدين علي الصدر: ص۱۲۶}۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی سے اس راوی کے تعین میں غلطی ہوئی ہے۔ اس راوی کا نام یہ ہے :
"أبو العلاء محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان الواسطي المقرئ"
{في الكتاب: تاريخ مدينة السلام المعروف بتاريخ بغداد: ج٣ ص٩٥-٩٩، ت١٠٩٤، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان. ونسخة الثاني: ج٣ ص٣١٠-٣١٤، ت١٤١٠، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٤ ص١٦٢-١٦٧، ت١٣٥٨ بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٥١٠، ت٢٥، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف. ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٣٥٢-٣٥٤، ت٢٤، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

امام خطیب بغدادی اپنے استاذ قاضی ابو العلاء الواسطی سے روایات اس طرح کی ہے:
أخبرنا القاضي أبو العلاء الواسطي أخبرنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سمعت أبا علي صالح بن محمد البغدادي {تاريخ بغداد: ج٨ ص٣٦١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل قال أنبأنا أبو مسلم بن مهران الحافظ قال أنبأنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال وسمعت أبا على صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج٢ ص٢٦٢، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي أخبرنا أبو مسلم بن مهران أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال سألت أبا علي صالح بن محمد {تاريخ بغداد: ج١٠ ص٤٤٠، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن علي المقرئ أنا أبو مسلم عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن مهران أنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سمعت أبا علي صالح بن محمد {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [باب ترك الاحتجاج بمن غلب على حديثه الشواذ ورواية المناكير والغرائب من الأحاديث] ج١ ص٤٢٠، ح٣٩٤، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن علي المقرئ، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب أبو العلاء الواسطي، وهو ضعيف سبق الكلام عليه في رقم (٢٩).}.

حدثنا محمد بن على المقرئ حدثنا محمد بن عبد الله النيسابوري الحافظ {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣٠١، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن احمد بن يعقوب قال أنبأنا محمد بن نعيم الضبي {تاريخ بغداد: ج٢ ص٨، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن على بن يعقوب المعدل حدثنا محمد بن عبد الله أبو عبد الله النيسابوري {تاريخ بغداد: ج٣ ص٣١٧، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
حدثني محمد بن علي بن يعقوب المقرئ عن محمد بن عبد الله الحافظ {تاريخ بغداد: ج٥ ص٢٣٣، الطبعة السعادة ودار الكتب العلمية بيروت لبنان}.
أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب أخبرنا محمد بن نعيم الضبي الحافظ {أخرجه: أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (م٤٦٣ھ) في الكتاب: الكفاية في معرفة أصول علم الرواية المعروف بالكفاية في علم الرواية: [معرفة الخبر المتصل الموجب للقبول والعمل] ج١ ص٩٣، ح٢٩، بتحقيق أبي إسحاق إبراهيم بن مصطفي آل بجح الدمياطي، وقال المحقق: إسناده ضعيف: فيه محمد بن أحمد بن يعقوب، وهو محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، أبو العلاء الواسطي، ضعيف،....}.
یہ غلطی سے ہوگیا ہے
 
Top