بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نماز میں صف بندی کی اہمیت :
۱: صفوں میں مل کر کھڑے ہونا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صف ملائے گا اللہ بھی (اپنی رحمت سے) اس ملائے گا ”
(ابوداود : ۶۶۶ و سندہ حسن، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۹) حاکم (۲۱۳/۱) اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)
۲: صفوں کو برابر کرنا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوواصفولکم ” تم اپنی صفوں کو برابر کر(”صحیح بخاری : ۷۲۳، صحیح مسلم ۴۳۳)
۳: صفوں کو سیدھا کرنا چاہئے :
سیدنا نعمان بن بشیرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا : “لوگو! اپنی صفوں کو سیدھا کرو، لوگوں اپنی صفیں درست کرو، لوگوں اپنی صفیں برابر کرو، سنو اگر تم نے صفیں سیدھی نہ کیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا” پھر تو یہ حالت ہوگئی کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا ، گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا چپکا دیتا تھا۔ (صحیح بخاری: ۱۸)
۴: صف کو ملاتے وقت :
ٹخنے سے ٹخنا، گھٹنے سے گھٹنا ، کندھے سے کندھا ملا ہوا ہو (ابوداود : ۶۶۲ وھو حدیث صحیح)
سینے سے سینہ اور کندھے سے کندھا (ساتھ والے مقتدی کے) برابر ہونا چاہئے (ابوداود : ۶۶۴ وسندہ صحیح، اسے ابن خزیمہ (۱۵۵۱) اور ابن حبان (۳۸۶) نے صحیح کہا ہے)
گردنیں بھی ایک دوسرے کے برابر ہونی چاہئیں۔ (ابوداود: ۶۶۷ و سندہ صحیح، اسے ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور ابن حبان (۳۸۷) نے صحیح کہا ہے۔
اور دوسرے (ساتھی) کے قدم سے قدم ملانا چاہئے ۔ (صحیح بخاری: ۷۲۵)
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “صفوں کو قائم کرو مونڈھوں کو برابر کرو اور خالی جگہوں (جو صفوں کے درمیان رہ جائیں) کو بند کرو، اپنے بھائیوں (نمازیوں) کے لئے نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لئے صفوں میں جگہ نہ چھوڑو، جو شخص صف ملائے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو (اپنی رحمت سے) ملائے گا ۔ اور جو شخص صف کو کاٹے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو (اپنی رحمت سے) کاٹے گا۔ ” (ابوداود : ۶۶۶ و سندہ حسن، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۹) حاکم (۲۱۳/۱) اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)
۵: صف میں مل کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہونا چاہئے :
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”رصوا صفو فکم” سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنی صفوں کو ملاؤ۔(ابوداود :۶۶۷ و سندہ صحیح، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور ابن حبان (۳۸۷) نے صحیح کہا ہے )
تنبیہ :
(۱): اگر صفوں میں خلا ہو تو وہاں شیطان سیاہ بکری کے بچے کی شکل اختیار کرکے داخل ہوجاتا ہے ۔ (ابوداود : ۶۶۷ و سندہ صحیح، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور ابن حبان (۳۸۷) نے صحیح کہا ہے )
(۲): بعض لوگ صفوں میں ایک دوسرے سے ہٹ کر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں کہ ہر دو آدمیوں کے درمیان کم از کم چار انچ یا اس سے زیادہ جگہ خالی ہوتی ہے۔ اس طریقے سے نہ تو نمازیوں کے کندھے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور نہ قدم بلکہ ایک بکھری ہوئی، ٹوٹی پھوٹی صف کا نظارہ ہوتا ہے گویا زبانِ حال سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ جیسے وہ ایک دوسرے سے دور کھڑے ہیں اسی طرح ان کے دل بھی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ صفوں کے درمیان ایک دوسرے سے ہٹ کر کھڑے ہونے کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں قطعاً نہیں ہے ۔
۶: صف کی دائیں جانب کھڑا ہونا زیادہ پسندیدہ عمل ہے:
سیدنا براء بن عازبؓ فرماتے ہیں :”جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ (ﷺ) کی داہنی جانب کھڑا ہونا پسند کرتے تھے ۔” (صحیح مسلم: ۷۰۹)
صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ “لأنہ کان یبدأ بالسلام عن یمینہ” (ہم رسول اللہ ﷺ کی دائیں طرف کھڑا ہونا اس لئے زیادہ پسند کرتے تھے) کیونکہ آپ ﷺ سلام پہلے دائیں طرف کہتے تھے (ح۱۵۶۴)
۷: صفوں کی ترتیب:
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “پہلی صف کو پورا کرو پھرا س کو جو پہلی کے نزدیک ہے ”(ابوداود : ۶۷۱ و ھو حدیث صحیح ، اسے ابن خزیمہ (۱۵۴۶) اور ابن حبان (۳۹۰) نے صحیح کہا ہے )
۸: پہلئ صف سے ہمیشہ پیچھے رہنے پر وعید:
سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
“ہمیشہ لوگ (پہلے صف سے) پیچھے ہٹتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو (اپنی رحمت میں) پیچھے ڈال دے گا ” (صحیح مسلم: ۴۳۸)
۹: پہلی صف میں نماز پڑھنے کی فضیلت :
سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں” (ابن ماجہ : ۹۹۷ و سندہ صحیح)
سیدنا عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف کے لئے تین دفعہ مغفرت کی دعا کرتے تھے اور دوسری صف کے لئے ایک دفعہ” (سنن النسائی: ۸۱۸ و احمد ۱۲۸/۴، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۵۸) ابن حبان (الاحسان ۳۹۶/۳) اور حاکم (۲۱۷/۱) نے صحیح کہا ہے )
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف کے ثواب کا پتہ چل جائے پھر ان کے لئے قرعہ اندازی کے بغیر کوئی چارہ نہ رہے تو وہ ضرور قرعہ اندازی کریں۔” (صحیح بخاری: ۶۱۵ و صحیح مسلم: ۴۳۷)
۱۰: عورتوں اور مردوں کی سب سے بہترین صف :
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “مردوں کی پہلی صف سب سے افضل ہے اور آخری صف بدتر ہے اور عورتوں کی آخری صف سب سے افضل ہے اور پہلی بدتر ہے ” (صحیح مسلم: ۴۴۰)
۱۱: پہلی صف میں نقص نہیں ہونا چاہئے آخری صف میں نقص رہ جائے مکمل نہ ہو تو خیر ہے :
سیدنا انسؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “پہلی صف کو مکمل کرو اگر آخری صف میں نقص رہ جائے تو کوئی حرج نہیں ” (صحیح ابن خزیمہ: ۱۵۴۶، ۱۵۴۷ و سنن ابی داود: ۶۷۱ وھو حدیث صحیح)
۱۲: صف بندی کے مراتب :
① پہلی صف میں امام کے قریب بالغ اور عقلمند لوگ کھڑے ہونے چاہئیں :
سیدنا ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”میرے قریب (صف میں) وہ لوگ رہیں جو بالغ اور عقل مند ہیں پھر جو ان کے قریب ہیں جو ان کے قریب ہیں” (صحیح مسلم: ۴۳۲)
② کم عمر لڑکے پچھلی صف میں کھڑے ہوں :
سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے، پہلے مردوں نے صف باندھی پھرلڑکوں نے اس کے بعد آپ (ﷺ) نے نماز پڑھائی پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا : یہ میری امت کی نماز ہے ” (ابوداود: ۶۷۷ و سندہ حسن، و حسنہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج : ۵۴۸)
③ عورت اگر باجماعت نماز پڑھے تو سب سے آخری صف میں کھڑی ہوگی :
سیدنا انسؓ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ “میں نے اور ایک بچے نے اکٹھے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے صف بنائی اور ایک بڑھیا اکیلی ہی صف میں ہمارے پیچھے کھڑی ہوگئی ” (صحیح بخاری: ۴۲۷، ۳۸۰ و صحیح مسلم: ۶۵۸)
فائدہ (۱): اگر ایک بچہ ہے تو مردوں کے ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے ۔
فائدہ (۲): اگر عورت صف میں اکیلی ہی کھڑی ہو تو اس کی نماز درست ہے ۔
۱۳: صف میں پیچھے اکیلے کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھنی چاہئے :
سیدنا وابصہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ (ﷺ) نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔
(ابوداود : ۶۸۲ و سندہ صحیح، اس حدیث کو امام ترمذیؒ (۲۳۰) نے “حسن” اور ابن حبان (۵۷۵/۵- ۵۷۶) نے صحیح کہا ہے )
ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((لا صلوۃ للذي خلف الصف)) جو آدمی صف کے پیچھے (اکیلے ) نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
(سنن ابن ماجہ:۱۰۰۳، وسندہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ : ۱۵۶۹، وابن حبان ، الموارد:۴۰۱،۴۰۲)
تنبیہ: اگلی صف سے کھینچنے والی تمام روایات ضعیف ہیں۔
(لیکن ایک امام اور ایک مقتدی پر قیاس کرتے ہوئے اگلی صف سے آدمی کھینچ لینا جائز ہے ۔ واللہ اعلم)
۱۴: جب صرف دو نمازی ہوں :
ایک امام اور ایک مقتدی مرد ہو تو مقتدی کوامام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے ۔ امام بائیں طرف ہوگا۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی خالہ (سیدہ میمونہؓ) کے ہاں رات بسر کی ۔ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ بائیں جانب کھڑا ہوگیا آپ (ﷺ) نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا” (صحیح بخاری: ۶۹۹)
سیدنا جابرؓ بھی رسول اللہ ﷺ کی بائیں طرف کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہاتھ سے پکڑ کر گھمایا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ (صحیح مسلم: ۳۰۱۰)
امام الائمہ امام ابن خزیمہ نے کہا: “والمأ موم من الرجال إن کان واحدًا فسنتہ أن یقوم عن یمین إما مہ” اگر مقتدی مرد اکیلا ہو تو سنت یہ ہے کہ وہ امام (کے ساتھ اس ) کی دائیں طرف (نماز پڑھنے کے لئے ) کھڑا ہو ۔ (صحیح ابن خزیمہ ۳۱/۳ ح ۱۵۷۰)
فائدہ:ان دونوں احادیث سے یہ بھی ثابت ہواکہ اگر ایک آدمی نماز ادا کررہا ہو تو بعد میں آنے والا اگر اس کے ساتھ نماز میں مل جائے تو جماعت ہو سکتی ہے ۔
امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا کہ “إذا لم ینو الإمام أن یؤم ثم جاء قوم فأمھم” جب امام نے امامت کرانے کی نیت نہ کی ہو پھر کوئی قوم آجائے تو وہ ان کی امامت کرا دے ۔ (ح ۱۹۹)
۱۵: جب دو مقتدی ہوں تو امام کے پیچھے کھڑے ہوں :
سیدنا جابر بن عبداللہؓ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، پھر میں (جابرؓ) آیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا ، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا۔ پھر جبار بن صخرؓ آئے ، انہوں نے وضو کیا، پھر آکر رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے جابر بن عبداللہ اور جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کو پکڑ کر پیچھے دھکیل دیا حتیٰ کہ ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے ۔” (دیکھئے صحیح مسلم : ۳۰۱۰)
اس حدیث پر امام ابن خزیمہ (۱۵۳۵) نے یہ باب باندھا ہے “:
“باب قیام الإثنین خلف الإمام” دو آدمیوں کا امام کے پیچھے کھڑے ہونے کا بیان۔
فائدہ (۱): مذکورہ حدیث میں امام کا مقتدی کو پیچھے کرنے کا ذکر ہے ۔
فائدہ(۲): اگر امام اور ایک مقتدی دونوں اکٹھے نماز پڑھ رہے ہیں، کوئی تیسرا بھی جماعت میں شامل ہوگیا تو امام خوف اگلی صف میں بھی جا سکتا ہے ۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: ۱۵۳۶ وسندہ صحیح، سعیدبن ابی ہلال حدّث بہ قبل اختلاطہ)
فائدہ(۳): اگر امام کے علاوہ ایک مرد ہو اور ایک عورت تو مرد امام کی دائیں طرف کھڑا اور عورت پیچھے کھڑی ہو۔ (صحیح مسلم: ۶۶۰/۲۶۹ و ترقیم دارالسلام: ۱۵۰۲)
۱۶: عورت اگر عورتوں کی امامت کرائے تو وہ صف میں کھڑی ہوگی :
سیدہ عائشہؓ نے فرض نماز پڑھائی اور آپ عورتوں کے درمیان (صف میں) کھڑی ہوئیں۔ (سنن دارقطنی ۴۰۴/۱ ح ۱۴۲۹، و سندہ حسن، ماہنامہ الحدیث: ۱۵ ص ۲۲)
۱۷: دو ستونوں کے درمیان صف نہیں بنانی چاہئے :
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ “ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں (ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے ) بچتے تھے”
(ابوداود : ۶۷۳ و سندہ صحیح، ترمذی (۲۲۹) نے اس کو حسن کہا ہے ) (حاکم (۲۱۸/۱) اورذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
۱۸: صفیں ایک دوسرے کے قریب ہونی چاہئیں :
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “…. صفوں کے درمیان تم قربت کرو۔ ” (ابوداود : ۶۶۷ و سندہ صحیح، النسائی: ۸۱۶، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۹) ابن حبان (الموارد ۳۸۷) نے صحیح کہا ہے)
۱۹: امام کی ذمہ داریاں :
① امام اس وقت تک نماز پڑھانا نہ شروع کرے جب تمام صفیں سیدھی نہ ہوجائیں۔
سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو برابر کرتے تھے جب ہم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے۔ جب صفیں برابر ہوجاتیں تو (پھر) آپ (ﷺ) تکبیر کہتے۔ (ابوداود : ۶۶۵ و سندہ صحیح)
② امام کو چاہئے کہ خود بھی صفوں کو سیدھا کرے اور خوب مبالغہ کے ساتھ کرے۔
③ امام کو صفوں میں پھرنا چاہئے اور مقتدیوں کے کندھوں اور سینوں پر ہاتھ رکھے اور ان سے کہے کہ سیدھے ہوجاؤ، آگے پیچھے نہ رہو۔
اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب مسلمانوں کی اصلاح فرما دے :
آمین یا رب العالمین !