- شمولیت
- مارچ 07، 2012
- پیغامات
- 679
- ری ایکشن اسکور
- 743
- پوائنٹ
- 301
حق اور باطل کو پہچان کر فرق کیجیئے
نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
حدثنا ابو توبة، حدثنا الهيثم يعني ابن حميد، عن ثور، عن سليمان بن موسى، عن طاوس، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بينهما على صدره وهو في الصلاة".
طاؤس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے، اور آپ نماز میں ہوتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18829) (صحیح)» (دو صحابہ وائل اور ہلب رضی اللہ عنہما کی صحیح مرفوع روایات سے تقویت پاکر یہ مرسل حدیث بھی صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
وللحديث شاھد عند أحمد (5/226 وسنده حسن)
● سنن أبي داود 759 موضع إرسال يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بينهما على صدره وهو في الصلاة
نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا
طاؤس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے، اور آپ نماز میں ہوتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 759]
اردو حاشیہ:
علامہ مزی نے الاطراف میں کتاب المراسیل میں حرف ”طاء“ میں لکھا ہے: ”اس روایت کو ابوداؤد نے (کتاب المراسیل، باب ماجاء فی الاستفتاح، حدیث: 33 بتحقیق شعیب الارناؤوط) میں ذکر کیا ہے اور ایسے ہی امام بیہقی نے المعرفۃ میں لکھا ہے۔“ [عون المعبود]
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے مگر صحیح السند ہے۔
اور احناف کے نزدیک ویسے بھی مرسل، صحیح اور حجت ہوتی ہے۔ اور اس کی تائید صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے:
«كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ» [صحيح بخاري، حديث: 740]
یعنی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو پر رکھے۔
جناب ہلب سے مروی ہے کہ «رايت النبى صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورايته قا ل يضع هذا على صدره» [مسند احمد: 5؍ 226]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز سے فارغ ہو کر دائیں بائیں دونوں اطراف سے پھرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔“
◈ علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے غنیۃ الالمعی میں مسند احمد کی سند کو قو ی لکھا ہے اور یہ کہ ا س میں کوئی علت قادحہ نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت وائل بن حجر سے مروی ہے کہ «صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمني على يده اليسري على صدره» [صحيح ابن خزيمه: 1؍ 243]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھی تو (دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا اور سینے پر رکھا۔“
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ کا تبصرہ یہ ہے کہ ”یہ حدیث دیگر احادیث کی روشنی میں صحیح ہے اور سینے پرہاتھ رکھنے کی دوسری احادیث اس کی شاہد ہیں۔“
نیز صحیح بخاری کی روایت پر کوئی غبار نہیں اور ہر منصف مزاج مسلمان عملاً یہ دیکھ سکتا ہے کہ ہاتھ بازو (یعنی کلائی اور کہنی کے درمیانی حصے) پر رکھنے سے ہاتھ کہاں تک جاتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ ناف سے اوپر ہی رہیں گے، لہٰذا سینے پر ہاتھ رکھنا ہی صحیح ہے یا زیادہ سے زیادہ ناف سے اوپر رہیں۔ ناف سے نیچے والی روایات ازحد ضعیف ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 759
Last edited: