• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ذرا سا زحمت هوگی لیکن مودبانہ گذارش هیکہ آپ تحریر دے دیں آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ مکمل کر چکے ہیں ۔
مداخلت کی معافی ۔ یقینا آپ کی طبیعت پر مداخلت ناگوار گذری هوگی لیکن یہ تقاضا آپ سے ابن داود بهائی دو بار کر چکے ہیں ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
کیوں زبیر علی زائی کی کتاب کا یونیکوڈ کیا حرف آخر ہے ؟؟۔جہاں لوگ اس کتاب کو پڑھیں گے وہیں اس پر نقد بھی پڑھیں گے
ہم نے بہت رسانیت سے بھائی سمجھ کر آپ کو سمجھانا چاہا تھا کہ فورم کے کچھ مروجہ اصول و ضوابط ہیں ۔ یونکیوڈ کا ذمرہ اس لئے نہیں ہے کہ وہیں پر نقد و تبصرے ہوں اسکے لئے عمومی طریقہ یہی ہے (چاہے تو اس زمرے میں ملاحظہ کرلیں) کہ یونکیوڈ کتاب یا تحریر پر نقد کرنا ہو تو الگ تھریڈ میں کیا جاتا ہے ۔ یونیکوڈ تحریریں ریفرینس کے لئے ہوتی ہیں اور اس سے اقتباس لیا جاتا ہے ۔
ہم سب آپ کی جرح کو بغور دیکھ رہے تھے اور پڑھ بھی رہے تھے ، لیکن آپ کی جرح کی علاوہ تحریر سے بہت کچھ سمجھ میں آگیا ہے ۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سماک بن حرب پر امام دار قطنی کی جرح کا جائزہ:
امام دار قطنی رحمہ اللہ نے کہا:
" ولم یرفعه غیر سماك ،و سماك سىء الحفظ (علل الدارقطني ج١٣ ص ١٨٤)
ترجمہ: امام دار قطنی کہتے ہیں سامک کے علاوہ کسی نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا اور سماک سئ الحفظ(کمزور حافظہ والے) ہے۔

اب اگر کوئی کہے کہ امام دار قطنی کی اس جرح کا پس منظر سماک کا ثقہ راویوں سے مخالفت ہے اور امام دار قطنی نے موقوفا روایت کو راجح قرار دیا اور مرفوع روایت کو مجروح قرار دیا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ سوء حفظ کہنے کی وجہ صرف دیگر ثقہ رواة کی مخالفت کی وجہ سے ہے ۔

ایسا کہنا نری دھوکہ دہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ امام دار قطنی کے الفاظ کو جب دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ امام دار قطنی کی جرح میں دو قول مختلف ہے۔
1۔ امام دار قطنی نے فرمایا کہ سماک بن حرب کے علاوہ کوئی اسے مرفوع روایت نہیں کرتا
2۔اور سماک سئ الحفظ ہے۔
"و" کا لفظ یہ وضاحت کرتا ہے کہ یہ دو مختلف قول ہے۔

جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سماک بن حرب پر امام دار قطنی کا مفصل قول ہے کہ وہ سماک کو سئ الحفظ کہتے ہیں ۔

ہم یہ بھی بتا دیں کہ امام دار قطنی نے خود سماک کی خطا بتلائی ہے جسکا ہم نے پہلے بھی ذکر کیااور انہوں نے ایک حدیث کے تحت یہ بھی لکہا ہے کہ سماک اس حدیث میں اضطراب کا شکار ہوئے ہے اور اس حدیث کو سماک نے ابن ام ہانی سے روایت کیا نہ کہ عکرمہ سے۔
دیکہیے۔
"والاضطراب فیه من سماك بن حرب" (العلل الدار قطنی ج ١ ص ٣٦٦)

اسی طرح امام دار قطنی اپنی دوسری کتاب الالزامات میں کہتے ہیں
وكان سماك يضطرب فيه والله اعلم بالصواب (الإلزامات والتتبع للدارقطني ج١ ص ٢٣٢)

امام دار قطنی نے سماک کے اضطراب کی بات جو کہی یے وہ عکرمہ کے علاوہ کی حدیث میں کہی ہے اوپر نقل کردہ قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سماک امام دار قطنی کے نزدیک مضطرب بھی تھے۔

اب اگر کوئ کہے کہ امام دار قطنی کا سماک کو سئ الحفظ کہنا آخری عمر میں مختلط ہونا ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے خود دارقطنی رحمہ اللہ کے قول سے دیکھتے ہیں ۔

امام دار قطنی نے سئ الحفظ کی جرح کس پس منظر میں کی ہے اور مختلط ہونے کے بعد کی روایت میں کی یے یا مختلط ہونے سے پہلے بیان کرنے والی روایت میں کی یے؟؟
چلیے ہم اسے دیکھ لیتے ہیں ۔

وسئل عن حديث سعيد بن جبير، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم إذا اشتريت ذهبا بفضة فلا تفارق صاحبك وبينك وبينه لبس.
فقال: اختلف في رفعه على سعيد بن جبير؛
فرواه سماك بن حرب، عن سعيد بن جبير، مرفوعا.
حدث به عنه أبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وإسرائيل، والثوري، وعمر بن رزين، وحماد بن سلمة، ومحمد بن جابر.
وقال عمر بن عبيد: حدثنا سماك، أو عطاء بن السائب، والصواب: سماك.
وخالفه داود بن أبي هند، فرواه عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، موقوفا.
وكذلك رواه سعيد بن المسيب، ونافع، عن ابن عمر، موقوفا.
ولم يرفعه غير سماك، وسماك سيء الحفظ.(علل الدارقطنی ج 13 ص 184 رقم 3072 )


اب یہاں دیکھیے سماک بن حرب سے کس کس نے یہ روایت بیان کی ہے۔
حدث به عنه أبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وإسرائيل، والثوري، وعمر بن رزين، وحماد بن سلمة، ومحمد بن جابر.

سماک سے اس حدیث کو بیان کرنے والے ابو خالد الدالانی ابو الاحوص، اسرائیل اور سفیان الثوری ،عمر بن زرین اور حماد بن سلمہ اور محمد بن جابر۔
اب دیکھیں ان میں سے کس کس کا سماع سماک بن حرب کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

سماك بن حرب إذا حدث عنه شعبه والثوري و ابو الاحوص فاحاديثهم عنه سليمة،وما كان عن شريك ابن عبدالله و حفص بن جميع ونظرائهم، ففي بعضها نكارة(سوالات السلمی للدارقطنی ص 189 )

سماک بن حرب سے جب شعبہ ،سفیان ثوری اور ابو الاحوص روایت کریں تو سماک سے ان کی احادیث سالم ہیں اور شیخ کفایت اللہ خود "سلیم" کا ترجمہ "صحیح" کا کرتے ہیں۔اور سماک سے جو روایات شریک بن عبداللہ اور حفص بن جمیع ان جیسے لوگ روایت کریں تو ان میں سے بعض میں نکارت ہے۔(نیز دیکہیں انوار البدر ص 128 )

دیکھیے ثابت ہو گیا جس حدیث کے تحت امام دار قطنی نے سماک کو سئ الحفظ کہا اس کو سفیان الثوری نے سماک سے روایت کیا اور سفیان ثوری کا سماک سے سماع سالم ہے۔
اسی طرح امام شعبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی سماک کی خطا بتلائی ہے کہ سماک کے علاوہ کوئی بھی اسے مرفوع بیان نہیں کرتے۔(الجرح والتعدیل ج ١ ص ١٥٨)


لہذا اس طرح سے کہنا درست نہیں کہ امام دار قطنی کا سماک بن حرب کو سئ الحفظ کہنا اخیر میں مختلط ہونا ہے۔

اب اگر کوئی کہے کہ امام دار قطنی نے خود سماک کی حدیث کو صحیح کہا تو ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔

اور حدیث پیش کرتے ہیں جس میں سماک عکرمہ سے روایت کر رہے ہیں اور سماک سے عکرمہ کی روایت تو علی الاطلاق مضطرب کہتے ہیں اور وہی پیش کررہے ہیں۔دیکہیے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَطْحَاءَ , وَآخَرُونَ قَالُوا: نا حَمَّادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَنْبَسَةَ , ثنا أَبُو دَاوُدَ , ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّبِّيُّ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «عِنْدَكِ شَيْءٌ؟» , قُلْتُ: لَا , قَالَ: «إِذًا أَصُومُ» , وَدَخَلَ عَلَيَّ يَوْمًا آخَرَ , فَقَالَ: «أَعِنْدَكِ شَيْءٌ؟» , قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: «إِذًا أُطْعِمُ وَإِنْ كُنْتُ قَدْ فَرَضْتُ الصَّوْمَ». هَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ(سنن الدارقطنی ج 3 ص 136 رقم 2233)

خیر امام دار قطنی کا یہاں پر حدیث کو اسناد حسن صحیح کہنے کو ہم تعدد طرق پر احتمال کرتے ہیں اور یہ ضمنی توثیق ہے اور شیخ ارشاد الحق اثری ضمنی توثیق کے بارے میں کہتے ہیں کہ ضمنی توثیق کا حتمی طور پر اعتبار نہیں کیا جائیگا جس کو انہوں نے مثالوں سے بتلایا ہے ہم وہ تمام مثالیں یہاں پیش کردیتے ہیں۔

1۔امام دار قطنی رحمہ اللہ نے روایت ذکر کی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہر اعضاء کو وضو میں تین تین مرتبہ دھویا حتی کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا۔
امام دار قطنی کہتے ہیں کہ یہ روایت درست نہیں ہے کیونکہ اس کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خالد بن علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ
"مسح برأسه ثلاثه " بیان کرتے ہیں جبکہ " خالفه جماعت من الحفاظ الثقات منهم زائدہ بن قدامه و سفيان الثوري و شعبه و ابو عوانه و شريك و ابو الأشهب جعفر بن الحارث ..............وحجاج بن ارطاة و ابان بن تغلب" (سنن الدا قطنی باب صفة وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم )
تو اس سے یہ مفہوم نکلےگا کہ حجاج بن ارطاة کو بھی ثقہ حفاظ میں شمار کیا ہے لیکن یہ درحقیقت توثیق ضمنی ہے۔ شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں کیا حجاج بن ارطاة اور ابو الأشهب جعفر بن الحارث كو ثقہ سمجھا جائیگا جبکہ حجاج بن ارطاة کو امام دار قطنی نے "ضعیف لا یحتج بہ"اور جعفر بن حارث کو "یعتبر بہ" کہا ۔
شیخ کہتے ہیں اب کہاں ثقہ اور کہاں یعتبر بہ اور کہتے ہیں۔

2۔اسی طرح سے نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ؟اس کے تحت امام دار قطنی فرماتے ہیں
"فهولاء خمسة ثقات رواه عن قتادة عن أبي عاليه مرسلا "
پانچ ثقہ راوی اس کو مرسلا روایت کرتے ہیں جن میں معمر ،ابو عوانہ،سعید ابن ابی عروبہ ، سعید بن بشیر ہیں اور دیکہا جائے تو امام دار قطنی نے خود سعید بن بشیر کو لیس بالقوی فی الحدیث کہا اس لیے اکٹھا کہنے کی وجہ سے ضمنا ثقہ کہے دیا لہذا شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں لہذا اس قسم کی توثیق ضمنی ہر ہر راوی کی توثیق کو متمضن نہیں ہوتی۔
3۔اسی طرح شیخ ارشاد الحق اثری ایک اور مثال دیتے ہیں امام محمد بن حسن الشیبانی سے کہ امام دار قطنی رفع الیدین کی حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
"حدث بہ عشرون نفرا من الثقات الحفاظ"
یعنی بیس کے قریب ثقہ راوی اس روایت کو بیان کرتے ہیں جن میں یحی بن سعید القطان ،محمد بن حسن اور عبداللہ بن المبارک وغیرہ روایت کرتے ہیں آگے شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں اب لسان یا میزان اٹھاکر دیکھ لیں محمد بن حسن کا ترجمہ میں امام دار قطنی کی جرح کیا ہے ۔
شیخ کہتے ہیں کیا امام دار قطنی کی ضمنی توثیق کے پیش نظر ان کو ثقہ حفاظ میں شمار کرلیا جائے؟؟
آگے شیخ ارشاد الحق اثری کہتے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی ضمنی توثیق کو حتمی طور پر تعدیل پر وقف نہیں کر سکتے دیکھنا چاہیے کہ اس پر انکا مفصل اور بنیادی قول کیا ہے

سماک بن حرب پر امام دار قطنی کا مفصل قول ہے کہ سماک سئ الحفظ ہے (علل الدار قطنی ج13 ص 174)اور
اسی طرح امام دار قطنی اپنی دوسری کتاب الالزامات میں کہتے ہیں

وكان سماك يضطرب فيه والله اعلم بالصواب(الإلزامات والتتبع للدارقطني ج١ ص ٢٣٢)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
محترم اس میں ٹیڑھی زبان کہاں ہے ۔۔
اور ہمیں بتلائیے کیا ٹیڑہی زبان ہے ۔۔
یہ کچھ لوگ جو فضول کی باتیں کررہے تھے بس انہیں کہا گیا کہ صلاحیت ہے تو جواب دیجیے ورنہ چپ بیٹھیں
مقلد تو آپ لگتے ہو ۔۔
آپ کے پاس اگر میرے مراسلات کا جواب ہے تو دیجیے ہم آپ کے شکرمند رہیں گے اس کے علاوہ ہم کسی بات کا جواب نہیں دیں گے۔
والسلام علیکم
کیوں زبیر علی زائی کی کتاب کا یونیکوڈ کیا حرف آخر ہے ؟؟۔جہاں لوگ اس کتاب کو پڑھیں گے وہیں اس پر نقد بھی پڑھیں گے اگر آپ میں صلاحیت ہیں تو ہمارے تبصرے کا جواب دیجیے اور ہماری اصلاح کیجیے ورنہ چپ بیٹھیں۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ شریفوں والی زبان ہے یا اس طرح سے استہزاء شرفاء کیا کرتے ہیں.
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
عفان بن مسلم الباھلی رحمہ اللہ نے کہا :

سمعت شعبة ، ذكر سماك بن حرب بكلمة لا احفظها ، إلا أنه غمزه
ترجمه : عفان بن مسلم کہتے ہیں میں نے امام شعبہ سے سنا انہوں نے سماک بن حرب کا ایسی بات سے ذکر کیا جو مجھے یاد نہیں مگر انہوں نے سماک پر عیب لگایا ۔(الضعفاء الکبیر للعقیلی 2/178 واسنادہ حسن )

کوئی کہتے ہیں امام شعبہ نے صرف عکرمہ والی سند میں سماک پر عیب لگایا ہے۔

ہم نے امام شعبہ رحمہ اللہ کی جرح کے جائزہ میں دیکھا کہ انہوں نے سماک بن حرب کی کونسی روایت پر عیب لگایا ہے ۔
یہاں دوبارہ دیکھ لیتے ہیں۔

امام شعبہ نے سماک کی غیر عکرمہ کی حدیث کا انکار بھی کیا ہے اور خطا بھی بتلائی ہے ۔

" کان شعبة ینکر حدیث سماك بن حرب عن مصعب بن سعد "

امام شعبہ سماک بن حرب کی مصعب بن سعد کی روایت کا انکار کرتے تھے۔(الجرح والتعدیل ج ١ ص ١٦٧)
اسی طرح امام شعبہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی سماک کی خطا بتلائی ہے کہ سماک کے علاوہ کوئی بھی اسے مرفوع بیان نہیں کرتے۔(الجرح والتعدیل ج ١ ص ١٥٨)


اب قارئین حضرات آپ ہی دیکھ لیں کیا امام شعبہ نے صرف عکرمہ والی سند پر عیب لگایا ہے۔۔۔!!
 
Top