• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نہ پڑھنے والوں کے متعلق حکم

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
نماز نہ پڑھنے والوں کے متعلق حکم


زیر نظر سطور میں ہم آپ کے لئے فضیلۃ الشیخ محمد بن العثیمین سے کئے گئے چند سوال و جواب تحریر کر رہے ہیں۔

سوال: ایک شخص جب اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے کا حکم دے اور وہ اس حکم پر کان نہ دھریں تو وہ شخص کیا کرے؟ کیا اپنے گھر والوں سے میل جول رکھے یا گھر چھوڑ کر خود نکل جائے؟

جواب: اگر کسی شخص کے گھر والے ہمیشہ ہمیش کے لئے تارکِ صلوٰۃ ہیں اور انہوں نے کبھی بھی نماز نہیں پڑھی تو ایسے لوگ بالکل کافر اور مرتد ہیں۔ ان کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ لیکن وہ شخص اپنے گھر والوں کو باربار نماز کی دعوت دیتا رہے۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے۔ کیونکہ کتاب و سنت اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطابق نماز کو چھوڑنے والا کافر ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی بات کریں تو اس میں یہ فرمان ہے: ’’فَاِنْ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا ‘‘ یعنی اگر یہ لوگ توبہ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ہم علم رکھنے والی قوم کے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں (سورہ توبہ:)۔

اس آیت کا مفہومِ مخالف یہ نکلتا ہے کہ اگر وہ نماز قائم نہیں کرتے تو پھر ہمارے بھائی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ گناہوں کی وجہ سے دینی اخوت ختم نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے اسلام سے خروج ہی دینی اخوت کو ختم کرتا ہے۔

سنت کو دیکھیں تو فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے: آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کا ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)۔ دوسری حدیث ہے: ’’ہمارے اور کافروں کے درمیان حد ِفاصل نماز ہے جو نماز کو چھوڑتا ہے وہ کافر ہے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)۔

امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے، اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘ یہاں پر قلیل و کثیر تمام حصوں کی نفی کی گئی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن شفیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی بھی چیز کے ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے علاوہ نماز کے‘‘۔

اگر ہم عقل سلیم کے اعتبار سے دیکھیں تو ذرا سوچئے۔ میں نے ایسی دلیلوں پر بہت غور و فکر کیا ہے جو نماز نہ پڑھنے والوں کو کافر قرار نہیں دیتیں لیکن مجھے انہوں نے متاثر نہیں کیا۔ ان دلیلوں میں سے چار حالتیں ضرور پائی جاتی ہیں: 1یا تو یہ دلیل حقیقتاً دلیل بننے کے لائق نہیں ہے۔ 2یا اس دلیل میں کسی ایسی صفت کی قید لگائی گئی ہے جو نماز پڑھنے میں رکاوٹ ہو۔ 3یا پھر اس دلیل میں کسی عذر کا تذکرہ ہے جو ترکِ صلوٰۃ کا سبب بنا۔ 4یا پھر یہ دلائل عام ہیں۔ لہٰذا یہ کفر والی احادیث نے اس عام حکم کو خاص کر دیا ہے۔

مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکِ نماز کفر ہے۔ لہٰذا نماز چھوڑنے والوں پر مرتدوں کے احکام نافذ کرنا چاہئیں۔ کسی بھی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ تارکِ صلوٰۃ مومن ہے۔ یا وہ جنت میں جائے گا۔ کچھ لوگ ان احادیث کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کفر سے مراد کفر نعمت ہے۔ یا یہ چھوٹا کفر ہے۔ لیکن جواباً عرض ہے: 1نماز چھوڑنے والے سے شادی بیاہ نہیں کرنی چاہئے۔ اگر نکاح ہو جائے اور وہ نماز نہ پڑھتا ہو تو اس کا نکاح باطل ہوگا۔ اس کی بیوی اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اگر تمہیں علم ہے کہ یہ عورتیں مومن ہیں تو پھر انہیں کافروں کی طرف مت لوٹاؤ۔ یہ کافر ان عورتوں کے لئے اور یہ عورتیں ان کافروں کے لئے حلال نہیں ہیں۔ (الممتحنہ:)۔

اگر کوئی شخص پہلے نماز پڑھتا ہو پھر وہ چھوڑ دے تو بھی اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ اس کی بیوی اس کے لئے جائز نہیں ہے۔

3 بے نمازی کو مکہ میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ فرمانِ الٰہی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا (سورہ توبہ:)۔
اے ایمان والو! بے شک مشرک لوگ ناپاک ہیں۔ یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام میں داخل نہ ہوں۔

4 بے نمازی کو میراث میں حق بھی نہیں ملنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشادِ گرامی ہے:

لا یرث المسلم الکفار ولا الکفار المسلم (متفق علیہ)۔
یعنی کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔

اسی طرح بیٹا بے نمازی ہے تو اس کو وارث نہ بنایا جائے بلکہ کسی دوسرے قریبی کو وارث بنایا جائے۔

5 اگر بے نمازی مر جائے تو اس کو نہ غسل دیا جائے، نہ کفن اور نہ نمازِ جنازہ ہو۔ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی نہیں چاہیے۔ بلکہ کسی بھی میدان، صحراء میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا جائے

6 قیامت کے دن ایسے شخص کا حشر فرعون، قارون اور ہامان کے ساتھ ہو گا۔ کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت و رحمت کرے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْآ اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
نبی اور ایمان والوں کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کیلئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ جہنمی ہیں (توبہ:)۔

اے میرے بھائیو! یہ مسئلہ بڑا خطرناک ہے۔ ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
 
شمولیت
اکتوبر 09، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
18
السلام علیکم
اتنے سخت فتوے لگانے سے پہلے سنن ابی داؤد کی یہ حدیث ضرور پڑھ لیں

حدیث نمبر: 1420
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ يُدْعَى الْمَخْدَجِيّ سَمِعَ رَجُلًا بِالشَّامِ يُدْعَى أَبَا مُحَمَّدٍ ، يَقُولُ : إِنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ ، قَالَ الْمَخْدَجِيُّ : فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَأَخْبَرْتُهُ ، فَقَالَ عُبَادَةُ : كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ ، فَمَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ ، وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ " .
´ابن محیریز کہتے ہیں کہ` بنو کنانہ کے ایک شخص نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے ایک شخص سے سنا جسے ابومحمد کہا جاتا تھا وہ کہہ رہا تھا: وتر واجب ہے، مخدجی نے کہا: میں یہ سن کر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا تو عبادہ نے کہا: ابو محمد نے غلط کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہو گا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہو گی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہو گا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے“

تخریج دارالدعوہ: « سنن النسائی/الصلاة ۶ (۴۶۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۹۴ (۱۴۰۱)، (تحفة الأشراف: ۵۱۲۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۳ (۱۴)، مسند احمد (۵/۳۱۵، ۳۱۹، ۳۲۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۸ (۱۶۱۸) (صحیح) »
قال الشيخ الألباني: صحيح
 
Last edited:

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

نے نمازی کے جنازے کے بارے میں کیا احکام ہیں

جزاک اللہ خیر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بے نمازی کے جنازے کے بارے میں کیا احکام ہیں
جزاک اللہ خیر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بے نمازی کا نمازِ جنازہ

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چند روز پہلے ہماری مسجد میں ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس سے طبیعت بہت الجھ گئی ہے۔ چونکہ میں نے الحمد ﷲ سعودی عرب میں بھی کچھ وقت گزارا ، لیکن وہاں پر بھی ایسا نہیں ہوا ۔ ہوا یہ کہ ہماری مسجد میں ایک جنازہ لایا گیا جس کی نمازِ جنازہ امام صاحب نے یہ کہہ کر پڑھانے سے انکار کردیا کہ یہ شخص بے نمازی تھا۔ امام صاحب عالم دین ہیں لیکن ایک خلجان جو پیدا ہو گیا قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے نماز کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ آپ کے امام صاحب نے بصورتِ انکار درست موقف اختیار کیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:’ مَن تَرَکَ الصَّلٰوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَد کَفَر‘(المعجم الأوسط،رقم: ۳۳۴۸،صحیح مسلم،کتاب الصلاة، بَابُ بَیَانِ إِطْلَاقِ اسْمِ الْکُفْرِ عَلَی مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ،رقم:۸۲) یعنی ’’جو شخص دیدہ دانستہ نماز چھوڑ دے وہ کافر ہے۔‘‘ جملہ تفاصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘(۲/۳۸ تا۵۷)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:872
محدث فتویٰ
____________________
بے نماز مسلمان ہے،اس کےدلائل اوران کی تردید
سوال :
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث میں وارد ہے کہ جبرئیل ؑ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا«يا محمّداخبرنی عن الاسلام»۔یعنی یارسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھےبتاؤکہ اسلام کیاشے ہے؟آپ نےجواب میں فرمایا:
«ان تشهد ان لااله الاالله وانّ محمّدرسول الله وتقيم الصَّلوۃ وتؤتی الزکوةوتصوم رمضان وتحجّ البيت ان استطعت اليه سبيلاً قال صدقت» الخ (متفق عليه )
کہ توگواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کےسوا عبادت کےکوئی لائق نہیں۔ اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےرسول ہیں۔ اورنماز پڑھے اور زکوۃ دے اور ماہ رمضان کےروزے رکھ اور بیت اللہ کا حج کراگرتجھےتوفیق ہو۔

ووسری حدیث میں ہے۔«بنی الاسلام علیٰ خمسٍ »کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پرہے۔ ان ہر دواحادیث سےمعلوم ہوا کہ ایمان متجزی شے ہےجو پانچ اشیا سےمرکب ہے نہ کلی جس کی وجہ سےہرایک کوجدا جدا فرد مانا جائے اورجوشے مرکب ہو اوراس میں کسی جزکی کمی پائی جائےتویہ نہیں کہا جاسکتا کہ کل ہی نہیں ۔ہا ں اتنا کہا جائے گاکہ اس میں نقص ہے۔باقی رہا کہ خدا تعالیٰ نماز کوہی عین ایمان بتا رہا ہےچنانچہ ارشاد ہے ﴿وماکا ن الله ليضع ايمانکم﴾ ۔تواس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شےکا اہتمام بیان کرنا مقصود ہوتو اس کوکل کے اسم سےتعبیر کرتے ہیں یہاں نماز کواہتمام کیوجہ سے لفظ ایمان سےتعبیر کیا ہے سورہ فاتحہ کوبھی اہتمام کی وجہ سے نماز قرار دیا ہے حالانکہ رکوع سجود بھی سورہ فاتحہ کی طرح فرض ہیں۔ اور جس حدیث میں ہے «من ترک الصلوۃ متعمداً فقد کفر»سویہ محض تہدید ہے جیسا کہ بخاری ومسلم میں حدیث ہے۔

«ليسمن رجل ادعی لغير ابيه وهو يعلم فقد کفر»۔یعنی جو آدمی اپنے باپ کےغیر کی طرف اپنے آپ کومنسوب کرے اس نے کفر کیا۔

حاشیہ:
بخاری ومسلم کی حدیث بحوالہ مشکوۃ اس طرح ہے «من ادعی الی غير ابيه وهويعلم فالجنةحرام» جس حدیث میں «فقد کفر» کا لفظ ہےوہ اس طرح ہے«لاترغبواعن ابائکم فمن رغب عن ابيه فقد کفر»

دوسری حدیث میں ہے« سباب المسلم فسوق ٌ وقتاله کفرٌ»

مسلمان کوگالی دینا فسق ہے اور قتل کرنا کفرہے۔ تیسری حدیث میں ہے۔

«ايما عبد ابق من مواليه فقد کفر»۔جوعبد اپنے آقا سےدوڈ جائے وہ کافرہے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جوکفر حدیث من ترک میں ہے اس سےمراد کفران نعمت ہے۔ اگر کفر مان بھی لیں توپھر کفر کےمراتب ہیں جیسا قتالہ کفر والی حدیث اور دوسری حدیث «بين الرجل وبين الکفر ترک الصلوۃ»کی مثال بالکل اسی طرح ہے جس طرح ترمذی کی حدیث میں ہے کہ «قال رکانة سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول انّ فرق ما بيننا وبين المشرکين العمائم علی القلانس»یعنی آپ ﷺ نےفرمایا ہمارے اور مشرکین کےدرمیان اتنا فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پرپگڑی باندھتےہیں اورو ہ ایسا نہیں کرتے باقی بے نماز کی دو قسمیں ہیں ۔اول وہ شخص جونماز کو حقارت کی وجہ سے ترک کرتا ہے وہ تو بالاتفاق جهنّم میں رہےگا۔ اور جوشخص تکا سلاوتساہلاچھوڑتا ہے۔ اگرخدا چاہےتواس کو رہائی دے دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔﴿انَّ الله لايغفر ان يشرک به ويغفر مادون ذالک لمن يشاء﴾

نیز حدیث میں ہے ۔

«عن عبادۃ بن الصامت قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من شهد ان لااله الاالله وحدہ لا شريک له وان محمَّد اً عبده ورسوله وان عيسیٰ عبدالله وکلمته القاها الیٰ مريم وروحٌ منه والجنة والنَّار حقٌّ ادخله الله الجنةعلیٰ ما کا ن من العمل ۔متفق عليه»
عبادہ بن صامت
سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں ۔وہ وحدہ لاشريک ہے۔اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور رسول ہے۔اور عيسیٰ علیہ السلام اللہ کا بندہ ہے اور اس کا کلمہ ہےجواس نےمریم ؑ کی طرف القا کیا ہے جنت ودوزخ حق ہیں ۔اللہ تعالی اس کوبہشت میں داخل کرے گا جوبھی عمل کرتا مرجائے ۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


حدیث ۔«من ترک الصلوۃ متعمداً فقد کفر» ،، کوتہدید پر حمل کرنےکے لئے کوئی دلیل نہیں ۔

آیت کریمہ
۔﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِۦ وَيَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُۚ﴾ اور حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سےاستدلال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔بعض لوگوں نے اس آیت کواتنا وسیع کردیا ہےکہ ان کے نزدیک مرزائی ۔چکڑالوی بلکہ آریہ بھی اس کےتحت آجاتے ہیں ۔یعنی ان کےخیال میں باوجود کافر ہونےکےان کی بخشش کی امید ہے کیونکہ خدا اس آیت میں فرماتا ہے۔﴿ويغفر ما دون ذالک لمن يشاء﴾ حالانکہ یہ بالکل غلط ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔﴿إِنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَن﴾ یعنی جنت کی نعمتیں کافروں پرحرام اور جب مرزائی ،چکڑالوی وغیرہ کافر ہیں اور ان پرجنت حرام ہےتوان کی بخشش کی امید کس طرح ہو سکتی ہے۔آپ نےلکھا ہےکہ جوحقارت سے نماز کو چھوڑے وہ بالاتفاق جہنم میں رہےگا اور بعض کےخیال کےمطابق اس کی بخشش کی امید ہےتواتفاق کہاں رہا۔ہاں اگرآپ کی مراد اہل سنت کا اتفاق ہوتودرست ہےلیکن آخربعض کےخیال کی تردید میں آپ کوئی دلیل رکھتےہوں تووہی دلیل تکاسل سےچھوڑنے والے پرلگا لیں ۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿فَمَن كَانَ يَرۡجُواْ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلۡيَعۡمَلۡ عَمَلٗا صَٰلِحٗا وَلَا يُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦٓ أَحَدَۢا﴾--سورة لكهف110
’’تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے‘‘

مفسرین نےاس کی تعریف میں لکھا ہےکہ شرک سےمراد اس جگہ ریاء ہےیعنی دکھاو ے کےلئے عمل نہ کرے ۔جب ریاء بھی شرک ہوئی توکیا اس پر آیت
﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِ﴾ لگ سکتی ہے۔اگر کوئی لگانی چاہئے تواس کوکیا جواب دیں گے؟
یہی دوسری آیتیں حدیثیں بھی دیکھی جائیں جن سےثابت ہےکہ ریاء اگرچہ شرک ہے لیکن معافی ہوسکتی ہے سو اسی طرح دوسری آیتیں حدیثیں بےنمازی کےکفر کوچاہتی ہیں۔ مشکوۃ میں ہے:
«عن عبادۃ بن الصامت قال بايعنارسول الله صلی الله عليه وسلم علی السمع والطاعة فی العسر واليسر والمشط والمکروہ وعلی اثرة علينا وعلی ان ننازع الامر اهله وعلی ان نقول بالحق اينما کنَّا لانخاف فی الله لومة لائم وفی رواية الاان ترواکفرا بواحاً عندکم من الله فيه برهان»
متفق عليه (مشکوة باب الامارت الخ ص319 )
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس شرط پربیعت کی کہ ہم سختی آسانی خوشی ناخوشی ہرحال میں تا بعداری۔ فرمانبرداری سےہاتھ نہیں کھینچیں گے۔ٍاور امارت کےمستحق سے امارت نہیں چھینیں گے اور جہاں ہوں حق کہیں گے۔اور خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سےنہیں ڈریں گے۔اور ایک روایت میں ہےکہ ہم نےاس شرط پربیعت کی کہ امارت کےمستحق سےامارت نہیں چھینیں گےمگریہ کفر صریح دیکھو جس میں اللہ کی طرف سے تمہارے پاس قطعی دلیل ہو۔

2
۔«عن عوف بن مالک الاسجعی عن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال خيارکم ائمتکم الذين تحبونکم وتصلو ن عليهم ويصلون عليکم شرار ائمتکم الذين تبغضونهم ويبغضونکم وتلعنونهم ويلعنونکم قال قلنا يارسول الله افلاننا بذهم عند ذٰلک قال لامااقاموا فيکم الصلوۃ لامااقامو ا فيکم الصلوۃ الاّ من ولی عليه والٍ فرأہ يأتی شيئا من معصية الله فينکرہ مايأتی من معصية الله ولاينزعن يداً من طاعة» رواہ مسلم (حواله مذکورہ)
سیدناعوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تمہارے بہتر امام وہ ہیں جن سےتم محبت رکھو۔اوروہ تم سےمحبت رکھیں۔ تم ان کیلئے دعاء کیا کرو اور وہ تمہارے لئے دعاء کرتے ہوں ، اورتمہارے برے امام جن کوتم برا جانو اوروہ تم کوبرا جانیں ۔تم ان کولعنت کرو اوروہ تمہیں لعنت کریں۔ ہم نےکہایارسول ! ہم اس وقت ان سےبیعت نہ توڑدیں ؟فرمایا نہ جب تک تم میں نمازقائم رکھیں۔ نہ جب تک تم میں نمازقائم رکھیں۔ خبردار جوشخص تم پر والی (امیر) بنایاجائے اور اس کونافرمانی کرنا دیکھے تواس کےنافرمانی کرنےکوبراجانےاوراس کی اطاعت سےہاتھ نہ کھینچے۔

3۔«
عن امِّ سلمة قالت قال رسول الله صلی الله عليه وسلم يکون عليکم امراء تعرفون وتنکرون فمن انکرفقد برئ ومن کرہ فقد سلم ولٰکن من رضی وتابع قالوا افلا نقاتلهم قال لا ماصلّوا لاماصلّوا ای من کرہ بقلبه وانکربقلبه » رواہ مسلم حواله مذکورہ
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر امیر ہوں گے جن کی کئی باتیں اچھی ہوں گی۔ کئی بری۔جوشخص ان کی برائی کودل سے برا سمجھے وہ بَری اورجو کراہت کرے وہ سلامتی والا ہے جوراضی ہوجائے اوربرائی میں ان کی موافقت کرے (وہ ہلاک ہوگیا)صحابہ کرام نےکہا ایسے امیروں (حاکموں ) سے ہم لڑائی نہ کریں ؟ فرمایا نہ جب تک نماز پڑھیں ۔نہ جب تک نماز پڑھیں ۔ ان تین حدیثوں سے پہلی میں فرمایا ہے۔ امیر خوا ہ نیک ہوں یا برے۔ ہر حال میں ان کی تابعدار ی کرو۔ ہاں اگر صریح کفر دیکھوجس پرتمہارے پاس قطعی دلیل ہو توپھران سےبیعت توڑدو اور ان کا مقابلہ کرو۔ اوردوسری حدیثوں میں فرمایا ایسے امیروں کی تابعداری ہرحال میں ضروری ہے مگرنماز نہ پڑھیں توان سے الگ ہوجاؤ۔ اوران سے لڑو۔

نتیجہ صاف ہے کہ نماز صریح کفر ہے جس پرخدا کی طرف سے دلیل قطعی آچکی ہے۔ جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ،ان کےعلاوہ اس قسم کی احادیث بہت ہیں جن سے ایک دو اوپر کے مضمون میں بھی ذکر ہیں ۔اور بعض مولوی عبدالقادر گنگوہی حصاری کے مضمون میں ذکرہیں جومجلہ تنظیم کی جلد اوّل کے 17 ،19 نمبر میں درج ہوچکا ہے اوربعض ہمارے مندرجہ جلد نمبر2 ،5 میں مذکور ہیں ۔اور بعض کا محل متفرقات ہیں یہ سب بےنماز کےکفر پر صراحۃً دلالت کرتے ہیں اور اوپر کےمضمون میں جو اس کے نظائر پیش کئے ہیں وہ درحقیت نظائر نہیں کیونکہ ان کی تاویل پرصریح دلائل موجود ہیں۔ پہلی اورتیسری حدیث اپنے بزرگ اور اپنے آقا سےتعلق توڑنے کےبارے میں ہیں۔ پس وہ ایسی ہوئیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی بابت فرمایا ۔میں نے ان کو جہنم میں سب سے زیادہ دیکھا۔پوچھا گیا کیوں ؟ فرمایا کفر کی وجہ سےکہا گیا۔ اللہ کےساتھ کفر کرتی ہیں ؟فرمایا خاوندوں کا کفر کرتی ہیں ۔اوراحسان کا کفر کرتی ہیں ۔اگر ان سے کسی کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرتے رہو۔ اور ایک مرتبہ تجھ سےکوئی معمولی تکلیف دیکھ لے تو کہتی ہے۔ میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی (مشکوۃ باب الصلوۃ خسوف فصل الاول) اورحدیث :

«بين الرجل والکفر ترک الصلوۃ کوان فرق ما بيننا وبين المشرکين العمائم علی القلانس»
کی مثل قراردینا ڈبل غلطی ہےکیونکہ ثانی الذکر میں لباس کا فرق بتلایا ہے نہ ایمان اورکفر کا ۔اور اول الذکر میں ایمان اور کفر کا فرق بتلانامقصود ہے۔ اس لئے اس میں رجل کےمقابلہ میں کفر کا ذکر کیاہے۔یعنی ترک نماز سےانسان کفر تک پہنچ جاتا ہےاورآیہ کریمہ ﴿وماکان الله ليضيع ايمٰنکم﴾ میں نماز کوایمان کہنا بھی اس کا مؤیدہے۔ مثلافاتحہ کونمازاسی لئے کہا ہے کہ فاتحہ کےنہ ہونے سے نماز فوت ہوجاتی ہے جیسے رکوع سجدے کے فوت ہونے سےنماز فوت ہو جاتی ہے پس یہی حال نمازکا ہے۔اس کےنہ ہونے سے ایمان فوت ہوکرکفر آجاتا ہے۔اوراس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اجزا ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے نہ ہونےسے کل ہی نہیں رہتا جیسے ستون گرجائے توچھت ہی نہیں رہتی ۔اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔الصلوة عماد الدين ۔یعنی نماز دین کا ستون ہے۔

رہی دوسری حدیث جس میں فرمایا ۔
قتاله کفر یعنی مسلمان سے لڑائی کفر ہے۔تواس میں کفر سےمراد جاہلیت کی رسم ہے کیونکہ جاہلیت میں آپس میں قتل وقتال بہت تھا ۔دلیل اس پر قرآن کی آیت ہے جوسورہ حجرات کے پہلے رکوع میں ہے۔

﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَهُمَاۖ فَإِنۢ بَغَتۡ إِحۡدَىٰهُمَا عَلَى ٱلۡأُخۡرَىٰ فَقَٰتِلُواْ ٱلَّتِي تَبۡغِي حَتَّىٰ تَفِيٓءَ إِلَىٰٓ أَمۡرِ ٱللَّهِۚ فَإِن فَآءَتۡ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَهُمَا بِٱلۡعَدۡلِ وَأَقۡسِطُوٓاْۖ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُقۡسِطِينَ-إِنَّمَا ٱلۡمُؤۡمِنُونَ إِخۡوَةٞ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَ أَخَوَيۡكُمۡۚ﴾--سورة الحجرات9-10
اگردوگروہ مومنوں کےآپس میں لڑیں توان میں صلح کروادو ۔کیونکہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔

اس آیت میں آپس میں لڑنے والوں کومومن فرمایا ہےاس سے معلو م ہوا کہ آپس میں لڑنےسے انسان اسلام سےخارج نہیں ہوتا۔اس لئے امام بخاری ؒنےصحیح بخاری میں اس آیت سے خارجیوں کی تردید کی ہےجو کبیرہ گناہ کرنے والے پرکفر کا فتوی دیتے ہیں ملاحظہ ہو بخاری باب المعاصی من (امرالجاہلیۃ ص9 مع فتح الباری)

لڑنے والوں پر مسلم کا اطلاق
اس کی تائیدبخاری کی حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی بابت فرمایا :

«انَّ ابنی هذا سيدٌ ولعل الله ان يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» (مشکوۃ باب مناقب اهل البيت فصل اوّل )
میرا بیٹا سردار ہے۔امید ہےخدا تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح کرادے ۔

اس حدیث کی پیشگوئی 41 ھ میں پوری ہوئی ۔ان جماعتوں سےمراد حضرت حسن رضی اللہ عنہ اورسیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت ہے۔اس کا واقعہ یہ ہےکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب شہید ہوگئے تواہل کوفہ نے سیدناحسن رضی اللہ عنہ کےہاتھ پر سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑائی کے ارادے پر بیعت کی۔چالیس ہزار کی فوج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پرموت کی شرط کرتے ہوئے بیعت کی تھی وہ سب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کےساتھ شامل ہوگئے ۔لیکن جنابِ حسن رضی اللہ عنہ کی طبیعت صلح پسندتھی ۔فتنہ سے طبعاً متنفر تھے۔آخردنیا اور حکومت کوخیرباد کہہ کر عزلت نشین ہوگئے۔اور سیدنا الامام معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی ۔آپ کی جماعت میں بعض تیزطبعیت بھی تھے۔ انہوں نے جوش بھرے لہجہ میں کہاسوّدتَّ وجوه امومنين ۔تونے مومنوں کے چہرے سیاہ کردیئے ۔یعنی آپ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے ہمیں ذلیل اوررسوا کردیااور ہماری آبروخاک میں ملادی ۔تیری صلح سے ہم اپنے ارادوں سےناکام ہوگئے ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اس کا جوا ب ایسا پُردرداور مخلصانہ اورنصیحت آموزدیا جس سے سخت دل موم ہوکرآنکھوں میں آنسوآگئے فرمایا اخترت العار علی النار میں نےعار کوآگ پرپسند کیا ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

«اذاالتقی المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول فی النار»
جب دو مسلمان تلواریں لے کرآپس میں ملتے ہیں تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔

اس قسم کی احادیث سے میرے دل میں خوف پیدا ہوکرمیری وجہ سے مسلمان آپس میں لڑیں توایسا نہ ہوکہ ان کے خون میری گردن میں ہوں اور میں جہنم کا ایندھن ہوں ۔اس آگ کےبرداشت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں جس کی بابت سرور کائنات فرماتے ہیں ۔ اس کی گرمی دنیا کی آگ سےستر گناہ زیادہ ہے اس لئے میں نے دنیا کی عار کواس آگ پرترجیح دی ہے۔نیز صلح کےوقت بالبدیہ حمدوثنا کے بعد ۔فرمایا۔امابعد !

«يا ايهاالناس فان الله قدهداکم باوّلناوحقن وماءکم وباٰخرنا وان لهذاالامر مدّةوالدنيا دول وانَّ الله قال لنبيه صلی الله تعالی عليه وسلم وا ن ادری لعله فتنة لکم ومتاع الی حين »تاریخ ابن جریر جلد4 ص 930
اے لوگو!اللہ تعالیٰ نےہمارے اول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کےساتھ تمہیں گمراہی سےنکالا اور ہمارے آخرکےساتھ(جس کامیں بھی ایک فرد ہوں) تمہارے خونوں کوروکا اورحکومت چند روزہ ہے۔اوریہ دنیا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلی جانےوالی ہے اور خدا نےاپنے نبی کوفرمایا ہے شاید کہ یہ دنیا کی ڈھیل اور مہلت تمہارے لئے ایک آزمائش ہےاورتھوڑے عرصہ کا متاع اورفائدہ ہو۔

دعا ہے کہ خدا ہمیں بھی اپنا اتنا خوف عطا فرمائے جو ہمارے اورخدا کی نافرمانی کےدرمیان حائل ہوجائے اورہمارے اختلافات ونزاعات کی وسیع خلیج کوپاٹکرمحبت اور مودّت کا راستہ صاف کردے تاکہ جماعت منظم ہوکر يدالله علی الجماعة کی مصداق ہوجائے اور اپنی شان کے شایاں کوئی کام کرسکے جس میں اس کی بہبودی اورفلاح دارین ہو۔آمین ۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الصلوۃ،نماز کا بیان
، ج2ص38
محدث فتویٰ
_________________
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تارک نماز کا فر ہے یا نہیں ؟


سوال :۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین دربارہ اقوال مندرجہ ذیل ۔

ایک آدمی کا کہنا ہے کہ :۔
جوشخص مسلمان کہلانے والا بے نماز ہو اس کی جنازہ ہر گز نہ پڑھنی چاہیے ۔
ترغیب ترہیب میں ہے ۔«لاصلوٰۃ لمن لاطهور له ولادين لمن لاصلوة له انَّما موضع الصلوٰة من الدين کموضع الرَّاس من الجسد»یعنی جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں ۔
اور جس کی نماز نہیں اس کا دین نہیں۔نماز دین میں ایسی ہے جیسے جثّہ میں سر ہے۔ نیز فرمایا « من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر» (مشکوة)

یعنی جس نے دانستہ نماز چھوڑی پس وہ کافر ہو گیا ۔
بنابریں کافرکی نماز جنازہ کیا ؟جب کہ یہ تو کافر سے بھی گزر کر منافق ہے جو بظاہر کہتا رہتا ہے مگر پڑھتا نہیں۔
قرآن مجید میں ان جیسے منافقوں کے حق میں ہے۔﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٖ مِّنۡهُم مَّاتَ أَبَدٗا وَلَا تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِ﴾ یعنی ان کا نماز جنازہ مت پڑھو اور دعا کے لئے ان کی قبر پر مت کھڑے ہو۔

پس ازروئے قرآن وحدیث بے نماز ہر گز مسلمان نہیں کہ اس کا جنازہ پڑھا جائے جو شخص کبھی نماز پڑھتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتا ہو۔اس کا حکم بھی یہی ہے تا وقتیکہ تائب ہوکر پھر ہمیشہ پنجگانہ نماز کا پابندنہ ہو جائے جان بوجھ کر بلاعذر خواہ ایک ہی کوئی نماز چھوڑ دے اس کا بھی جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے۔

جب کہ ایک دوسراآدمی کہتا ہے :۔
جو شخص کلمہ گو مسلمان ہے اور نماز کا پابند نہیں وہ فاسق فاجر گنہگا ر تو ضرور ہے لیکن اس پر کفر کا فتوی عائد نہیں ہوسکتا۔تاوقتیکہ نماز کے متعلق صریح انکاری نہ ہو،
اگر تارک الصلوٰۃ منکر الصلوٰۃ کی طرح کا فر خارج از ایمان ہےتو مندرجہ ذیل احادیث کا کیا مطلب ہے۔
«لا يزنی الزَّانی حين يزنی وهو مؤمنٌ ولا يسر ق السارق حين يسرق وهو مؤمنٌ لا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن لا دين لا عهد له ولا ايمان لمن لا امانة له»
یعنی زانی زنا کرتے وقت ،اور چور چوری وقت مومن نہیں ہوتا ،اسی شرابی شراب پیتے وقت صاحب ایمان نہیں ہوتا ، اور جس کا عہد نہیں ،اس کا کوئی دین نہیں ، اور جو امانت کی حفاظت نہ کرے وہ ایمان والا نہیں "
«لا يؤمن احدکم حتیٰ اکون احب اليه من والده وولده والنَّاس اجمعين» (مشکوۃ)
یعنی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں "
ان احادیث سے ظاہر ہے کہ سب سے بڑھ کر حضور سے محبت نہ رکھنے والا زانی ۔چور ۔شرابی ۔بد عہد بددیانت وغیرہ یہ سب بے ایمان نہیں وہ کافر ہے کیا ان کا جنازہ پڑھنا چاہیے یا نہ۔اگر نہیں تو بہت اچھا۔ایسا ہی کیجئے پھر دیکھیئے کتنوں کاپڑھا جائے گا۔اگر ان کا جنازہ پڑھنا صحیح ہے توپھر تارک الصلوۃ کوبھی ایسے گروہ میں شامل کر کے اس کا جناز ہ پڑھا جائے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل ہوکہ «الصلوٰۃ واجب علیٰ کل مسلم برا کا ن اوفاجرا وان عمل الکبائر»
یعنی نماز جنازہ مسلمان نیک وبد پر پڑھنا واجب ہے۔اگرچہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہو۔
کس قدر افسوس ہے کہ مرتکب کبائر پر توحضورعلیہ السلام جنازہ واجب فرمائیں اور ہم ان کو کافر ٹھہرائیں۔آخر اس حدیث کی تعمیل بجز اس کے اور کیسے ہوگی ؟
یہ بھی حدیث میں آیا ہے۔«من قال لاالٰه الاالله دخل الجنة»(مشکوٰۃ)
یعنی نئے مسلمان جس نے بصدقٍِدل کلمہ شریف پڑھ لیا ہے خواہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ہی سہی آخر جنَّت میں داخل ہو گا۔
اس کا نہ جناز ہ پڑھا جائے اگر جنازہ نہ پڑھا جائے تو اس کا نکاح بھی نہ پڑھا جائے ۔
خیر اس کا منکرین اسلام کی طرح کا کافر سمجھ لینا انصاف سے بعید ہے۔
حضور نے جو فقد کفر ارشاد فرمایا ہے وہ زجر وتوبیخ پر محمول ہے۔ جیسے کسی کو کہا جائے کہ تو بندر ہے گدھا ہے حالانکہ وہ دراصل ایسا نہیں ہوتا ۔ایسا ہی بزرگانِ دین نے کفر کا لفظ بےنمازکی نسبت ارشاد فرمایا ہے وہ بھی ان معنوں میں ہے نہ کہ عام کفار جیسا ۔اور بےنماز کو منافق بھی کہہ دینا سینہ زوری ہے۔ تا وقتیکہ کوئی صریح علامت منافقت کی نہ پائی جائے ۔بے نماز اپنی غفلت کا مقر ہوتے ہوئے آخرپریشان ہوتا ہے۔اور جب کبھی ایمانی امتحان کا موقعہ یا کفر اسلا م کا تصادم وقوع میں آتا ہے تو خدا و رسول کے لئے اپنے مذہب کےلئے مالی امداد اور جان پر کھیل جانے کو معمولی سمجھتاہے۔ مگر منافق کا معاملہ اس کے خلاف ہے ۔اور آیت شریفہ﴿ ولاتصل الاية ﴾جو ہےوہ ابن ابی منافق کے حق میں ہے اس کو مسلمانوں کے حق میں تصوّر کرنا فضول بات ہے بلکہ بلحاظ عمومیت کے مسلمانوں کے لئے توارشاد ہے ﴿وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٞ لَّهُمۡ﴾ کہ ان پر نماز جنازہ دعا خیر پڑھی جائے۔مطلب یہ کہ بے نماز اگرچہ سخت گنہگار ہے تاہم آخر مسلمان ہے بہر حال جنازہ پڑھنا ہی چاہئے۔ کیونکہ «الصلوۃ واجبة علی کل مسلم برا کان او فاجرا وان عمل الکبائر» حدیث کا یہی تقاضہ ہے۔زید بکر کا قول آپ کے سامنے ہے۔ پس اب جناب فیصلہ فرمائیں کہ زید اور بکر دونوں میں سے حق بجانب کون ہے۔ احادیث میں جنازہ پڑھنے کی تصریح ہے یا نہ پڑھنے کی۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ کوئی نماز پڑھ لیتے ہیں اور کوئی چھوڑ دیتے ہیں۔بعضوں نے سال بھر بلکہ عمر بھر میں ہی دو چار نمازیں پڑھ چھوڑی ہیں۔بے نماز کی تعریف بھی بیان فرمائیں۔؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


اس میں شبہ نہیں کہ «الاحاديث يفسر بعضها بعضا»یعنی احادیث آپس میں ایک دوسرے کی تفسیر ہوتی ہیں۔
یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی حدیث کو لے لیا جائے کسی کو چھوڑ دیا جائے اس طرح اس بات میں شبہ نہیں کہ الفاظ کا اصل معنی چھوڑ کر دوسرا معنی کرنا جائز نہیں بلکہ ہرلفظ کو اپنے معنی پر رکھا جائے گا جب تک اس کے چھوڑنے پرقوی دلیل نہ ہو۔
اگراصل معنی چھوڑنے پر قوی دلیل ہوتو اصل معنی چھوڑ کر کوئی اور مناسب معنی لیا جائے گا۔ان دونوں اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بکر کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے حس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے آدمی نے جو اپنے دعوے کی دلیل پیش کی ہے۔اصل معنی سے پھیرنے والی کوئی آیت وحدیث وغیرہ نہیں۔
اور دوسرے نے جودلائل پیش کئے ہیں ان میں سے بعض کا تو اصل معنی وہ نہیں جو زید نے سمجھا ہے ۔اور بعض کے اصل معنی چھوڑنے پر قوی دلیل موجود ہے۔مثلا ً حدیث «لا دين لمن لا عهد له الحديث» کا اصل معنی یہ ہےکہ جس کے لئے کسی قسم کا عہد نہ ہو ۔اس کا کوئی دین نہیں جس میں عہد میثاق بھی داخل ہے۔ جو آدم علیہ السلام کی پشت سے نکال کر لیا گیا تھا۔اور ظاہر ہے کہ جس نے یہ عہد توڑ دیا وہ واقعی کا فر ہے۔اس طرح جو کسی قسم کی امانت کی پرواہ کرے جس میں کتاب اللہ بھی داخل ہے اس کے کافر ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔
دوسرے نےاس کا اصل معنی چھوڑ کر یہ معنی سمجھا ہے کہ جو ایک آدھ عہد توڑ دے یا ایک آدھ امانت میں خیانت کرے اس کا دین اور کوئی ایمان نہیں حالانکہ لفظ کا یہ اصل معنی نہیں ۔اگربالفرض یہ معنی ہوتو اس کے چھوڑنے پر قوی دلیل موجود ہے ۔مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ میں ہے۔«العهد الذی بيننا وبينهم الصّلوۃ فمن ترکها فقد کفر»
یعنی ہمارے اور لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے جو نماز کو چھوڑ دے وہ کافر ہے ۔

دوسری حدیث میں ہے ۔«کان اصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم لا يرون شيئا من الاعمال ترکه کفر غير الصّلوة»
یعنی صحابہ  کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوانمازکے۔

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مطلق عہد کےتوڑنے سے انسان کا فر نہیں ہوتا بلکہ مراد یہ ہےکہ دین کامل نہیں رہتا۔ اسی حدیث«لا یسرق السارق الحدیث» کے اصل معنی چھوڑنے پر قوی دلیل موجودہے ۔

مشکوٰۃ کتاب الایمان میں ہے۔
«عن ابی ذرقال اتيت النبی صلی الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض وهو نائم ثم اتيت وقد استيقظ فقال مامن عبد قال لااله الا الله ثم مات علی ذالک دخل الجنة قلت وان زنی وان سرق قال وان زنی وان سرق الحديث»
یعنی جو لا الٰہ الااللہ پڑھے۔اوراسی پر اس کا خاتمہ ہوجائے وہ جنت میں داخل ہوگا۔خواہ زنا اور چوری کرے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زنا۔ چوری کرنے سے انسان کافر نہیں ہوتا۔
اس لئے مشکٰوۃ الکبائر میں حدیث «لايسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن» کے بعد لکها ہے« قال ابو عبدالله لا يکون هذا مومنا تامّا ولا يکون له نور الايمان» یعنی امام بخاری فرماتے ہیں کہ چوری وغیرہ سے پورا مومن نہیں رہتا اور «مامن عبد قال لا اله الا الله ثم مات علی ذالک دخل الجنة» کا یہ مطلب نہیں کہ صرف لاالہ الااللہ ہی کافی ہے بلکہ محمد رسول اللہ بھی ضروری ہے۔اس طرح نماز بھی ضروری ہے چنانچہ محمد رسول اللہ کی بابت دوسری احادیث آئی ہیں۔اس طرح نماز کی بابت حدیث «العهد الذی بيننا» اور «کان اصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم» جو اوپر گزرچکی ہیں آئی ہیں۔اور ان کے علاوہ اور احادیث بھی آئی ہیں۔

اور حدیث «الصلوٰۃ واجبة علی کل مسلم» میں بے نماز داخل نہیں کیونکہ اس میں لفظ مسلم موجود ہے۔جس کے نزدیک بے نماز مسلمان ہے اس کے سامنے یہ حدیث پیش ہوسکتی ہے۔اور جس کے نزدیک کافر ہے اس کے سامنے یہ حدیث پیش نہیں ہوسکتی۔اور اگر لفظ کی پراہ نہ کی جائے صرف«وان عمل الکبائر» کو دیکھا جائے تو لازم آئے گا کہ مشرک کا جنازہ بھی درست ہو۔کیونکہ شرک بھی کبائرسے ہے چنانچہ مشکوٰۃ کتاب الکبائر میں شرک کو کبائر میں شمار کیا ہے۔پس معلوم ہوا کہ «وان عمل الکبائر» عام نہیں نیزاس حدیث میں«الصلوة واجبة علی کل مسلم »سے پہلے عبارت ہے۔«الجهادواجب عليکم مع کل امير برا کان اوفاجرا وان عمل الکبائر والصلوۃ واجبة عليکم خلف کل مسلم برا کان او فاجرا وان عمل الکبائر» یعنی جہاد تم پر ہر امیر کےساتھ واجب ہےنیک ہو یا بد ،خواہ کبیرہ کرے اور نماز تم پرہرمسلمان کے پیچھے واجب ہے ۔نیک ہویا بد خواہ کبیرہ گناہ کرے ۔

ا س عبارت میں کہا ہے کہ ہرامیر کے ساتھ جہاد واجب ہے خواہ گناہ کبیرہ کرے۔ حالانکہ جو امیر بے نمازہو۔اس کی امامت کو شریعت نے توڑدیا ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ کتاب الامارت میں حدیث ہے ۔
«لاما اقاموا فيکم الصلوۃ لاما اقاموا فيکم الصلوۃ»
یعنی ان کی امارت نہ توڑو جب تک تم میں نماز قائم رکھیں۔

پس معلوم ہوا کہ ترک نماز«صلوا وان عمل الکبائر» میں داخل نہیں ۔نیز اس میں کہا ہےکہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز واجب ہے۔نیک ہویا بد خواہ کبیرہ گناہ کرے۔ اس میں اس کے نمازپڑھنے کا ہے تومعلوم ہوا کہ «وان عمل الکبائر» سے مراد ترک نماز کے علاوہ ہے ۔۔۔۔اور بعض لوگ یہ حدیث پیش کرتے ہیں«صلوا علی من قال لااله الاالله» یعنی جو«لااله الاالله» کہے اس کا جنازہ پڑھو حالانکہ یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ۔ملاحظہ ہو بلوغ المرام۔ اس کے علاوہ ظاہرہے کہ صرف «لااله الاالله» کافی نہیں بلکہ محمدرسول اللہ بھی ضروری ہے۔ بس اس طرح نما ز بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ابوذر کی حدیث میں ابھی تفصیل گزری ہے۔۔۔۔رہی حدیث«لايؤمن احدکم حتیٰ اکون احب اليه الحديث» سوا اس کی بابت عرض ہے کہ محبت دو طرح کی ہے ایک طبعی اور ایک غیرطبعی چونکہ غیراختیاری ہے اس لئے اس انسان اس کامکلف نہیں ہوسکتا اور یہ حیوانات میں بھی موجود ہے۔چنانچہ حیوانات اپنے بچوں سے محبت رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کی محبت میں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ ہاں غیرطبعی چونکہ اختیاری ہے۔ انسان اس کا مکلف ہے اور معنی اختیاری محبت کے یہ ہیں کہ رسول کے حکم کو سب کےحکم پر مقدم جانے۔جس کا عقیدہ یہ نہ ہو واقعی وہ کافر ہے۔ رہی عملی حالت سو جیسا جیسا عمل ہوگا ویسا حکم ہوگا مثلاً کوئی باوجود اس عقیدے کے شرک کرے تووہ کافر ہوگا اگر نماز نہ پڑھے توبھی کافرہوگا اگرزنا یا چوری کا مرتکب ہوتووہ کافر نہیں ہوگا۔ہاں اس کوفاسق فاجر کہہ سکتے ہیں۔اور اگر رسول سے محبت ہونے کے یہ معنی ہوں کہ رسول کی چھوٹی ہوئی سنت پرعمل کی کوشش کرتے کرتے اس کی طبیت پرایسا اثر ہوگیا کہ گویا رسول کی محبت طبعی محبت کی طرح ہو گئی اور سب محبتوں پر غالب آ گئی۔ تو یہ معنی بھی صحیح ہیں مگر یہ بات چونکہ مشق اور ریاضت کے بعد حاصل ہوتی ہے اس لئے نفسِ ایمان اس پر موقوف نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ لازم آتا ہے کہ جس کواتنی مہلت نہ ملے وہ کافر مرے حالانکہ قرآن میں ہے:
﴿وَلَيۡسَتِ ٱلتَّوۡبَةُ لِلَّذِينَ يَعۡمَلُونَ ٱلسَّيِّ‍َٔاتِ حَتَّىٰٓ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ ٱلۡمَوۡتُ قَالَ إِنِّي تُبۡتُ ٱلۡـَٰٔنَ وَلَا ٱلَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمۡ كُفَّارٌۚ﴾-سورةالنساء18
’’ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں‘‘

اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موت سے پہلے توبہ قبول ہے اور انسان مومن ہوسکتا ہےخواہ اس کو اتنی ریاضت اور مشق کی مہلت ملے یا نہ ۔۔۔۔۔۔۔اور حدیث شریف میں توصاف آگیا ہے کہ غرغرہ (گھورڑوبجنے ) تک توبہ قبول ہے ۔پس جب نفس ایمان اس مشق اور ریاضت کے بغیر حاصل ہوسکتا ہے۔تواس حدیث میں ایمان سے مراد کمال ایمان ہوگا۔اور معنی اس حدیث کےیہ ہوں گے کہ جب تک سب سے زیادہ میری محبت نہ ہو۔انسان کامل ایمان کو نہیں پہنچتا۔ بہر صورت اس حدیث کو ترکِ نماز کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔کیونکہ اس حدیث کا جوکچھ معنی کیا گیا ہے وہ اس کا اصل معنی ہے دوسری آیتوں ،حدیثوں کو لحاظ رکھ کر کیا گیا ہے۔اور زید جو«من ترک الصلوۃ متعمدا »کی تاویل کی ہے وہ بالکل بے دلیل ہے۔اور آیت کریمہ :
﴿وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٞ لَّهُمۡۗ﴾ نمازیوں کے حق میں ہے چنانچہ شروع آیت کایہ ہے :
﴿خُذۡ مِنۡ أَمۡوَٰلِهِمۡ صَدَقَةٗ تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٞ لَّهُمۡۗ﴾--سورة التوبة103
’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے‘‘

یعنی ان کے مالوں سے صدقہ لے تاکہ ان کا ظاہر وباطن پاک کرے اور ان کے لئے دعا کرکیونکہ تیری دعا ان کےلئے اطمینان ہے۔بتلایئے بے نماز بھی صدقہ سے پاک ہوسکتا ہے۔ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بے نماز صدقہ لے کر آتے تھے بلکہ یہ تو پکے نمازیوں کا ذکر ہے جو بچارے اتفاقاً جنگِ تبوک سے رہ گئے تھے۔ زید نے معاذاللہ ان کو بےنماز بنا دیا۔کیونکہ جوان کی بابت آیت تھی وہ بے نمازوں پر لگادی اگرچہ شان نزول پر حکم بند نہیں ہوتا۔مگر یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ کہیں کی آیت کہیں پڑھ دی جائے اور ضمیر یں جس طر ف لوٹتی ہیں اس کی سرے ہی سے رعایت ہی نہ رکھی جائے۔ ہاں بکر نے جوآیت پیش کی ہے وہ بے نمازوں پرلگ سکتی ہے کیونکہ بےنماز ایک طرح سے منافق ہے۔ منافق کے معنی درحقیقت کھوٹے کے ہیں۔یعنی جس کا معاملہ اللہ ورسول سے کھرا نہ ہو ۔اور اس سے بڑھ کر کیا کھوٹ ہو گا کہ نماز کی پرواہ نہیں۔ جس کی بابت آپﷺ فرماتے ہیں:
«العهد الذی بيننا وبينهم الصلوۃ فمن ترکها فقد کفر »
اور فرماتے ہیں:​
«من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر» (جس نے عمداً فرض نماز چھوڑ دی اس نے کفر کا ارتکاب کیا )
اور فرماتے ہیں:​
«بين العبد وبين الکفر ترک الصلوۃ»(بندہ مومن اور کفر کے درمیان ترکِ نماز ہے ،)
اس قسم کی بہت احادیث ہیں اورصحابہ بھی تارک الصلوۃ کو کا فرسمجھتے تھے۔چنانچہ گزرچکا ہے اور زید کا یہ کہنا کہ نماز مقرہوتا ہوا آخر پشیمان ہوتا ہے۔ یہ اقرار اور پشیمانی مصیبت اور وبال کے وقت ہوتی ہے یا ہروقت اگر مصیبت اور وبال کے وقت ہوتی ہے تو ایسی پشیمانی اور اقرار تو کفار کو بھی ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے۔﴿دَعَوُاْ ٱللَّهَ مُخۡلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ﴾ یعنی مصیبت کے وقت خاص اللہ کو پکارتے ہیں۔
اور اگر ہر وقت اقرار اور پشیمانی مراد ہے تو یہی منافقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے نماز کوکا فر کہیں اورصحابہ  کا فر سمجھیں۔ اور وہ بے پرواہ رہے اور اس کو یہ الفاظ سن کر ذرا سی بھی اس بات کی فکر نہ ہو کہ میں اچھا کلمہ گو ہوں کہ وعید سن کربھی تارک نمازہوں۔خدا نے سچ فرمایا:
﴿قُلۡ بِئۡسَمَا يَأۡمُرُكُم بِهِۦٓ إِيمَٰنُكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ﴾--سورة البقرة93
یعنی یہود کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اچھا تمہارا ایمان ہے کہ اس ایمان کی حالت میں تم انبیاء اللہ کو قتل کرتے تھے سویہی ایمان بے نمازوں کا ہے کہ خدا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے سخت ارشادات کو ٹھکراتے ہوئے اپنی غفلت کے مقر اورپشیمان ہیں اور تصادم کفر اسلام اور ایمانی امتحان کے وقوع میں آنے کے وقت جان پرکھیل جانا یہ کفار میں بھی تھا اور ہے۔

جب ابرہہ بادشاہ یمن نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی تو راستہ میں بہت سی قومیں اس کا مقابلہ کرکے جان پر کھیل گئیں۔یہاں تک کہ آخروہ بیت اللہ تک پہنچ گیا اور ابابیلوں سے ہلاک ہو۔چنانچہ سورہ الم ترکیف میں اس کا قصہ مذکور ہے اور اب بھی مرزائی ،چکڑالوی ،قبروں کے پجاری۔ خدا ورسول کو ایک سمجھنے والے پرلے درجہ کے مشرک یہ سب تصادم کے وقت جان پر کھیل جانے کو معمولی سمجھتے ہیں۔کیا وہ اتنے سے مسلمان ہوگئے توپس کسی پر کفر کا فتویٰ نہ چاہیے۔
بلکہ جب ہندومسلم اتحاد کی لہر چلی تھی تو اس وقت بہت سی اسلام کی با توں پر ہندوانگریز وں کا مقابلہ کرتے رہے۔ پس یہ سب مسلمان ہوئے اور ان کے جنازے ضروری ہوئے یہ باتیں سب فضول ہیں۔ درحقیقت اسلام ایمان کا معیار وہی ہے جواللہ و رسول نے مقررکیا ہے۔ ان باتوں کو اللہ اور رسول نے معیار نہیں بنایا۔پس زید کا ان باتوں کو ذکر کرنا ایسا ہی ہے جیسے عوام کہتے ہیں فلاں بڑا ولی ہے اس سے فلاں کرشمہ صادر ہوا فلاں امر خرق عادت ظاہر ہوا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرشموں اور خرق عادات کو ولایت کا معیار نہیں بنایا بلکہ فرمایا:
﴿أَلَآ إِنَّ أَوۡلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ - ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ﴾--سورة يونس62-63
’’یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوتے ہیں۔یہ وه لوگ ہیں جو ایمان ﻻئے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں‘‘

یعنی اولیاء اللہ کو خوف نہ ہوگا اور نہ غم کریں گےوہ جوایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی ہونےکامعیار دو باتیں بتلائی ہیں۔ایک ایمان دوسری پرہیز گاری۔ یعنی ہر چھوٹے بڑے امر میں شریعت کی پا بندی اگر صرف کرشمہ اور خرق عادات معیارِ ولایت ہوتے تو دجال سے بڑھ کرکوئی ولی نہ ہوتا۔ ہاں ایمان اور پرہیزگاری کے بعد اگر کو ئی کرشمہ اور خرق عادات ظاہر ہو تو کرامت ہے جو برحق ہے مگر معیار نہیں۔ اور نہ ہی وہ لازمی امر ہے بلکہ اتفاقیہ کسی سے کسی وقت ظاہر ہوجاتی ہے۔عوام سمجھتے ہیں اس کو اختیارات ہی مل گئے۔حالانکہ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اوپرسے مصیبت کو دور کرنے پرقادر نہیں ۔جیسے حسن۔حسین۔حضرت علیایسے بزرگانِ دین پرطرح طرح کی تکلیفیں آیئں۔یہاں تک کہ دشمنوں کے ہاتھوں سے شہید ہوئے اب لوگ ان سےمرادیں مانگتےہیں۔اور ان کے لئے اختیارات ثابت کرتےہیں۔ اس قسم کا دھوکا زید کو لگا ہے کہ معیار کچھ تھا اورسمجھ کچھ لیا۔اللہ تعالیٰ اصل بات سمجھنے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین۔

تنبیہ
بےنمازکےجنازہ نےبےنمازوں کوبہت دلیر کردیاہے۔اگرآج اصل فتویٰ جاری ہوجائے تودیکھیےویران مساجد آبادہوتی ہیں یا نہیں؟اور پھرلوگ مسجدوں میں آتےہیں یانہیں؟کاش تنبیہ کے طور ہی اس مسئلہ کوبرت لیاجائے جیسے قطاع الطریق اور باغی کی بابت امام ابوحنیفہؒ کا قول صاحب سبل السلام نے نقل کیاہےکہ ان کا جنازہ نہ پڑھا جائے لیکن ملَّاوں کے طمع نےدین کو خراب کر دیا۔اللہ تعالی ان کوقناعت دے اور دینداربنائے۔آمین ثم آمین۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الصلوۃ،نماز کا بیان، ج2ص29
محدث فتویٰ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بے نمازی کا شمار کن میں ہوتا ہے

سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا بے نماز آدمی اہل سنت والجماعت اہل حدیث میں شمار ہو گا۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ نماز کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لیکن اہل علم میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سےخارج ہے یا نہیں۔ اس بارے امام احمدرحمہ اللہ اور حنابلہ کا معروف موقف یہی ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہے لیکن بطور حد قتل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی کافر نہیں ہے اور تعزیرا قید کیا جائے گا۔

شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
" جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا مسلمان اگر نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے۔بعض علماء اسے كافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں، اور وہ مرتد شمار ہو گا، اس سے تين يوم تك توبہ كرنے كا كہا جائيگا، اگر تو تين دنوں ميں اس نے توبہ كر لى تو بہتر وگرنہ مرتد ہونے كى بنا پر اسے قتل كر ديا جائيگا، نہ تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ زندہ اور مردہ حالت ميں اس پر سلام كيا جائيگا، اور اس كى بخشش اور اس پر رحمت كى دعا بھى نہيں كى جائيگى نہ وہ خود وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے مال كا وارث بنا جائيگا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں ركھا جائيگا، چاہے بے نمازوں كى كثرت ہو يا قلت، حكم ايك ہى ہے ان كى قلت اور كثرت سے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں ہو گى۔زيادہ صحيح اور راجح قول يہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے :
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
اسے امام احمد نے مسند احمد ميں اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے۔

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں اس موضوع كى دوسرى احاديث كے ساتھ روايت كيا ہے۔

اور جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرے تو وہ كافر ہے اور دين اسلام سے مرتد ہے، اس كا حكم وہى ہے جو پہلے قول ميں تفصيل كے ساتھ بيان ہوا ہے۔ليكن اگر وہ اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، ليكن دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہو گا، اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت دى جائيگى، اگر تو وہ توبہ كر لے الحمد للہ وگرنہ اسے بطور حد قبل كيا جائيگا كفر كى بنا پر نہيں۔تو اس بنا پر اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى اور اس كى نماز جنازہ بھى پڑھائى جائيگى، اور اس كے ليے بخشش اور مغفرت و رحمت كى دعاء بھى كى جائيگى، اور مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن بھى كيا جائيگا، اور وہ وراث بھى بنے گا اور اس كى وراثت بھى تقسيم ہو گى، اجمالى طور پر اس پر زندگى اور موت دونوں صورتوں ميں گنہگار مسلمان كا حكم جارى كيا جائيگا۔
ماخوذ از: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلميةوالافتاء ( 6 / 49 )۔

٣۔ پس امام حمد رحمہ اللہ اور حنابلہ کے معروف موقف کے مطابق بے نمازی مسلمان ہی نہیں ہے چہ جائیکہ کہ اہل سنت والجماعت یا اہل الحدیث کہلانے کا حقدار ہو جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک بے نماز گناہ گار اور فاسق وفاجر ہے لہذا اس بنیاد پر اہل سنت والجماعت اور اہل الحدیث میں شامل ہے۔پس جمہور اہل علم کے ہاں کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی شخص اہل سنت والجماعت سے خارج نہیں ہو جاتا ہےبشرطیکہ وہ ان کے عقائد اور منہج کا اخلاص نیت سے قائل ہو۔عام طور پر اہل الحدیث علماء کا فتوی بے نمازی کے بارے کفر حقیقی کا نہیں ہے بلکہ وہ اسے کفرعملی یا کفر دون کفر قررا دیتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی
______________
تارک نماز کا حکم

سوال
سوال: السلام عليكم . ميرا سوال یہ ہے کہ تارك نماز كافر کے حكم میں آتا ہے تو جو شخص دو يا تين وقت کی نماز ادا كرتا ہے تو وه كس حكم میں آئيگا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:
١۔ اہل علم کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ نماز کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
٢۔ لیکن اہل علم میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سےخارج ہے یا نہیں۔ اس بارے امام احمدرحمہ اللہ اور حنابلہ کا معروف موقف یہی ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہے لیکن بطور حد قتل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بھی کافر نہیں ہے اور تعزیرا قید کیا جائے گا۔

سعودی عرب کے مشہور مفتی شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا مسلمان اگر نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے۔بعض علماء اسے كافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں، اور وہ مرتد شمار ہو گا، اس سے تين يوم تك توبہ كرنے كا كہا جائيگا، اگر تو تين دنوں ميں اس نے توبہ كر لى تو بہتر وگرنہ مرتد ہونے كى بنا پر اسے قتل كر ديا جائيگا، نہ تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ زندہ اور مردہ حالت ميں اس پر سلام كيا جائيگا، اور اس كى بخشش اور اس پر رحمت كى دعا بھى نہيں كى جائيگى نہ وہ خود وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے مال كا وارث بنا جائيگا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں ركھا جائيگا، چاہے بے نمازوں كى كثرت ہو يا قلت، حكم ايك ہى ہے ان كى قلت اور كثرت سے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں ہو گى۔زيادہ صحيح اور راجح قول يہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
اسے امام احمد نے مسند احمد ميں اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں اس موضوع كى دوسرى احاديث كے ساتھ روايت كيا ہے۔
اور جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرے تو وہ كافر ہے اور دين اسلام سے مرتد ہے، اس كا حكم وہى ہے جو پہلے قول ميں تفصيل كے ساتھ بيان ہوا ہے۔ليكن اگر وہ اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، ليكن دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہو گا، اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت دى جائيگى، اگر تو وہ توبہ كر لے الحمد للہ وگرنہ اسے بطور حد قبل كيا جائيگا كفر كى بنا پر نہيں۔تو اس بنا پر اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى اور اس كى نماز جنازہ بھى پڑھائى جائيگى، اور اس كے ليے بخشش اور مغفرت و رحمت كى دعاء بھى كى جائيگى، اور مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن بھى كيا جائيگا، اور وہ وراث بھى بنے گا اور اس كى وراثت بھى تقسيم ہو گى، اجمالى طور پر اس پر زندگى اور موت دونوں صورتوں ميں گنہگار مسلمان كا حكم جارى كيا جائيگا۔
ماخوذ از: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلميةوالافتاء ( 6 / 49 )

٣۔ پس امام حمد رحمہ اللہ اور حنابلہ کے معروف موقف کے مطابق بے نمازی مسلمان ہی نہیں ہے چہ جائیکہ کہ اہل سنت والجماعت یا اہل الحدیث کہلانے کا حقدار ہو جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک بے نماز گناہ گار اور فاسق وفاجر ہے لہذا اس بنیاد پر اہل سنت والجماعت اور اہل الحدیث میں شامل ہے۔پس جمہور اہل علم کے ہاں کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی شخص اہل سنت والجماعت سے خارج نہیں ہو جاتا ہےبشرطیکہ وہ ان کے عقائد اور منہج کا اخلاص نیت سے قائل ہو۔عام طور پر اہل الحدیث علماء کا فتوی بے نمازی کے بارے کفر حقیقی کا نہیں ہے بلکہ وہ اسے کفرعملی یا کفر دون کفر قررا دیتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
https://urdufatwa.com/view/1/420/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تارک نماز کی نماز جنازہ درست نہیں
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میّت تارک نماز ہو یا اس کی نماز ترک کرنے میں شک ہو یا اس کا حال مجہول ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اس کے وارثوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس کی نماز جنازہ کے لیے اہتمام کریں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ بے نماز فوت ہوا ہے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائزنہیں اور نہ اس کے اہل خانہ کے لیے حلال ہے کہ وہ اسے مسلمانوں کے سامنے نماز جنازہ اداکرنے کے لیے پیش کریں کیونکہ وہ کافرہے اور اسلام سے مرتد ہے۔
اس کے بارے میں واجب یہ ہے کہ قبرستان کے علاوہ کسی دوسری جگہ گڈھاکھود کر اسے اس میں پھینک دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ ایسے شخص کے أعزاز واکرام کی کوئی ضرورت نہیں ، اور عزت کا کیا سوال؟ اسے تو روز قیامت فرعون، ہامان، قارون اور ابی بن خلف جیسے بڑے بڑے کافروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

جس مسلمان کا حال معلوم نہ ہوپائے یااس کی حالت مشکوک ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی کیونکہ اصلاً وہ مسلمان ہے حتیٰ کہ اس بات کی وضاحت ہوجائے کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ اگر کسی میّت کے بارے میں انسان کو شک و شبہ ہو تو پھر استثنائی انداز میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں مثلاً: وہ اس طرح دعا کرسکتا ہے کہ اے اللہ اگر یہ مومن تھا تو تو اسے معاف فرمادے اور اس پر رحم وکرم کا معاملہ فرما کیونکہ دعا میں استثنا ثابت ہے مثلاً جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور چار گواہ پیش نہ کرسکیں تو وہ لعان کرتے ہوئے پانچویں بار یہ کہیں گے:
﴿أَنَّ لَعنَتَ اللَّهِ عَلَيهِ إِن كانَ مِنَ الكـذِبينَ ﴿٧﴾... سورة النور
’’اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔‘‘

اور عورت پانچویں بار یہ کہے:
﴿أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيها إِن كانَ مِنَ الصّـدِقينَ ﴿٩﴾... سورة النور
’’اگر یہ سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب (نازل ہو)۔‘‘
وباللہ التوفیق


فتاویٰ ارکان اسلام
نمازکےمسائل:صفحہ337
محدث فتویٰ
 
Last edited:

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بے نمازی کا نمازِ جنازہ

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چند روز پہلے ہماری مسجد میں ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس سے طبیعت بہت الجھ گئی ہے۔ چونکہ میں نے الحمد ﷲ سعودی عرب میں بھی کچھ وقت گزارا ، لیکن وہاں پر بھی ایسا نہیں ہوا ۔ ہوا یہ کہ ہماری مسجد میں ایک جنازہ لایا گیا جس کی نمازِ جنازہ امام صاحب نے یہ کہہ کر پڑھانے سے انکار کردیا کہ یہ شخص بے نمازی تھا۔ امام صاحب عالم دین ہیں لیکن ایک خلجان جو پیدا ہو گیا قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے نماز کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ آپ کے امام صاحب نے بصورتِ انکار درست موقف اختیار کیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:’ مَن تَرَکَ الصَّلٰوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَد کَفَر‘(المعجم الأوسط،رقم: ۳۳۴۸،صحیح مسلم،کتاب الصلاة، بَابُ بَیَانِ إِطْلَاقِ اسْمِ الْکُفْرِ عَلَی مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ،رقم:۸۲) یعنی ’’جو شخص دیدہ دانستہ نماز چھوڑ دے وہ کافر ہے۔‘‘ جملہ تفاصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘(۲/۳۸ تا۵۷)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:872
محدث فتویٰ
____________________
بے نماز مسلمان ہے،اس کےدلائل اوران کی تردید
سوال :
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث میں وارد ہے کہ جبرئیل ؑ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا«يا محمّداخبرنی عن الاسلام»۔یعنی یارسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھےبتاؤکہ اسلام کیاشے ہے؟آپ نےجواب میں فرمایا:
«ان تشهد ان لااله الاالله وانّ محمّدرسول الله وتقيم الصَّلوۃ وتؤتی الزکوةوتصوم رمضان وتحجّ البيت ان استطعت اليه سبيلاً قال صدقت» الخ (متفق عليه )
کہ توگواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کےسوا عبادت کےکوئی لائق نہیں۔ اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےرسول ہیں۔ اورنماز پڑھے اور زکوۃ دے اور ماہ رمضان کےروزے رکھ اور بیت اللہ کا حج کراگرتجھےتوفیق ہو۔

ووسری حدیث میں ہے۔«بنی الاسلام علیٰ خمسٍ »کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پرہے۔ ان ہر دواحادیث سےمعلوم ہوا کہ ایمان متجزی شے ہےجو پانچ اشیا سےمرکب ہے نہ کلی جس کی وجہ سےہرایک کوجدا جدا فرد مانا جائے اورجوشے مرکب ہو اوراس میں کسی جزکی کمی پائی جائےتویہ نہیں کہا جاسکتا کہ کل ہی نہیں ۔ہا ں اتنا کہا جائے گاکہ اس میں نقص ہے۔باقی رہا کہ خدا تعالیٰ نماز کوہی عین ایمان بتا رہا ہےچنانچہ ارشاد ہے ﴿وماکا ن الله ليضع ايمانکم﴾ ۔تواس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شےکا اہتمام بیان کرنا مقصود ہوتو اس کوکل کے اسم سےتعبیر کرتے ہیں یہاں نماز کواہتمام کیوجہ سے لفظ ایمان سےتعبیر کیا ہے سورہ فاتحہ کوبھی اہتمام کی وجہ سے نماز قرار دیا ہے حالانکہ رکوع سجود بھی سورہ فاتحہ کی طرح فرض ہیں۔ اور جس حدیث میں ہے «من ترک الصلوۃ متعمداً فقد کفر»سویہ محض تہدید ہے جیسا کہ بخاری ومسلم میں حدیث ہے۔

«ليسمن رجل ادعی لغير ابيه وهو يعلم فقد کفر»۔یعنی جو آدمی اپنے باپ کےغیر کی طرف اپنے آپ کومنسوب کرے اس نے کفر کیا۔

حاشیہ:
بخاری ومسلم کی حدیث بحوالہ مشکوۃ اس طرح ہے «من ادعی الی غير ابيه وهويعلم فالجنةحرام» جس حدیث میں «فقد کفر» کا لفظ ہےوہ اس طرح ہے«لاترغبواعن ابائکم فمن رغب عن ابيه فقد کفر»

دوسری حدیث میں ہے« سباب المسلم فسوق ٌ وقتاله کفرٌ»

مسلمان کوگالی دینا فسق ہے اور قتل کرنا کفرہے۔ تیسری حدیث میں ہے۔

«ايما عبد ابق من مواليه فقد کفر»۔جوعبد اپنے آقا سےدوڈ جائے وہ کافرہے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جوکفر حدیث من ترک میں ہے اس سےمراد کفران نعمت ہے۔ اگر کفر مان بھی لیں توپھر کفر کےمراتب ہیں جیسا قتالہ کفر والی حدیث اور دوسری حدیث «بين الرجل وبين الکفر ترک الصلوۃ»کی مثال بالکل اسی طرح ہے جس طرح ترمذی کی حدیث میں ہے کہ «قال رکانة سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول انّ فرق ما بيننا وبين المشرکين العمائم علی القلانس»یعنی آپ ﷺ نےفرمایا ہمارے اور مشرکین کےدرمیان اتنا فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پرپگڑی باندھتےہیں اورو ہ ایسا نہیں کرتے باقی بے نماز کی دو قسمیں ہیں ۔اول وہ شخص جونماز کو حقارت کی وجہ سے ترک کرتا ہے وہ تو بالاتفاق جهنّم میں رہےگا۔ اور جوشخص تکا سلاوتساہلاچھوڑتا ہے۔ اگرخدا چاہےتواس کو رہائی دے دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔﴿انَّ الله لايغفر ان يشرک به ويغفر مادون ذالک لمن يشاء﴾

نیز حدیث میں ہے ۔

«عن عبادۃ بن الصامت قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من شهد ان لااله الاالله وحدہ لا شريک له وان محمَّد اً عبده ورسوله وان عيسیٰ عبدالله وکلمته القاها الیٰ مريم وروحٌ منه والجنة والنَّار حقٌّ ادخله الله الجنةعلیٰ ما کا ن من العمل ۔متفق عليه»
عبادہ بن صامت
سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں ۔وہ وحدہ لاشريک ہے۔اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور رسول ہے۔اور عيسیٰ علیہ السلام اللہ کا بندہ ہے اور اس کا کلمہ ہےجواس نےمریم ؑ کی طرف القا کیا ہے جنت ودوزخ حق ہیں ۔اللہ تعالی اس کوبہشت میں داخل کرے گا جوبھی عمل کرتا مرجائے ۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


حدیث ۔«من ترک الصلوۃ متعمداً فقد کفر» ،، کوتہدید پر حمل کرنےکے لئے کوئی دلیل نہیں ۔

آیت کریمہ
۔﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِۦ وَيَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُۚ﴾ اور حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سےاستدلال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔بعض لوگوں نے اس آیت کواتنا وسیع کردیا ہےکہ ان کے نزدیک مرزائی ۔چکڑالوی بلکہ آریہ بھی اس کےتحت آجاتے ہیں ۔یعنی ان کےخیال میں باوجود کافر ہونےکےان کی بخشش کی امید ہے کیونکہ خدا اس آیت میں فرماتا ہے۔﴿ويغفر ما دون ذالک لمن يشاء﴾ حالانکہ یہ بالکل غلط ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔﴿إِنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَن﴾ یعنی جنت کی نعمتیں کافروں پرحرام اور جب مرزائی ،چکڑالوی وغیرہ کافر ہیں اور ان پرجنت حرام ہےتوان کی بخشش کی امید کس طرح ہو سکتی ہے۔آپ نےلکھا ہےکہ جوحقارت سے نماز کو چھوڑے وہ بالاتفاق جہنم میں رہےگا اور بعض کےخیال کےمطابق اس کی بخشش کی امید ہےتواتفاق کہاں رہا۔ہاں اگرآپ کی مراد اہل سنت کا اتفاق ہوتودرست ہےلیکن آخربعض کےخیال کی تردید میں آپ کوئی دلیل رکھتےہوں تووہی دلیل تکاسل سےچھوڑنے والے پرلگا لیں ۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿فَمَن كَانَ يَرۡجُواْ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلۡيَعۡمَلۡ عَمَلٗا صَٰلِحٗا وَلَا يُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦٓ أَحَدَۢا﴾--سورة لكهف110
’’تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے‘‘

مفسرین نےاس کی تعریف میں لکھا ہےکہ شرک سےمراد اس جگہ ریاء ہےیعنی دکھاو ے کےلئے عمل نہ کرے ۔جب ریاء بھی شرک ہوئی توکیا اس پر آیت
﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِ﴾ لگ سکتی ہے۔اگر کوئی لگانی چاہئے تواس کوکیا جواب دیں گے؟
یہی دوسری آیتیں حدیثیں بھی دیکھی جائیں جن سےثابت ہےکہ ریاء اگرچہ شرک ہے لیکن معافی ہوسکتی ہے سو اسی طرح دوسری آیتیں حدیثیں بےنمازی کےکفر کوچاہتی ہیں۔ مشکوۃ میں ہے:
«عن عبادۃ بن الصامت قال بايعنارسول الله صلی الله عليه وسلم علی السمع والطاعة فی العسر واليسر والمشط والمکروہ وعلی اثرة علينا وعلی ان ننازع الامر اهله وعلی ان نقول بالحق اينما کنَّا لانخاف فی الله لومة لائم وفی رواية الاان ترواکفرا بواحاً عندکم من الله فيه برهان»
متفق عليه (مشکوة باب الامارت الخ ص319 )
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس شرط پربیعت کی کہ ہم سختی آسانی خوشی ناخوشی ہرحال میں تا بعداری۔ فرمانبرداری سےہاتھ نہیں کھینچیں گے۔ٍاور امارت کےمستحق سے امارت نہیں چھینیں گے اور جہاں ہوں حق کہیں گے۔اور خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سےنہیں ڈریں گے۔اور ایک روایت میں ہےکہ ہم نےاس شرط پربیعت کی کہ امارت کےمستحق سےامارت نہیں چھینیں گےمگریہ کفر صریح دیکھو جس میں اللہ کی طرف سے تمہارے پاس قطعی دلیل ہو۔

2
۔«عن عوف بن مالک الاسجعی عن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال خيارکم ائمتکم الذين تحبونکم وتصلو ن عليهم ويصلون عليکم شرار ائمتکم الذين تبغضونهم ويبغضونکم وتلعنونهم ويلعنونکم قال قلنا يارسول الله افلاننا بذهم عند ذٰلک قال لامااقاموا فيکم الصلوۃ لامااقامو ا فيکم الصلوۃ الاّ من ولی عليه والٍ فرأہ يأتی شيئا من معصية الله فينکرہ مايأتی من معصية الله ولاينزعن يداً من طاعة» رواہ مسلم (حواله مذکورہ)
سیدناعوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تمہارے بہتر امام وہ ہیں جن سےتم محبت رکھو۔اوروہ تم سےمحبت رکھیں۔ تم ان کیلئے دعاء کیا کرو اور وہ تمہارے لئے دعاء کرتے ہوں ، اورتمہارے برے امام جن کوتم برا جانو اوروہ تم کوبرا جانیں ۔تم ان کولعنت کرو اوروہ تمہیں لعنت کریں۔ ہم نےکہایارسول ! ہم اس وقت ان سےبیعت نہ توڑدیں ؟فرمایا نہ جب تک تم میں نمازقائم رکھیں۔ نہ جب تک تم میں نمازقائم رکھیں۔ خبردار جوشخص تم پر والی (امیر) بنایاجائے اور اس کونافرمانی کرنا دیکھے تواس کےنافرمانی کرنےکوبراجانےاوراس کی اطاعت سےہاتھ نہ کھینچے۔

3۔«
عن امِّ سلمة قالت قال رسول الله صلی الله عليه وسلم يکون عليکم امراء تعرفون وتنکرون فمن انکرفقد برئ ومن کرہ فقد سلم ولٰکن من رضی وتابع قالوا افلا نقاتلهم قال لا ماصلّوا لاماصلّوا ای من کرہ بقلبه وانکربقلبه » رواہ مسلم حواله مذکورہ
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر امیر ہوں گے جن کی کئی باتیں اچھی ہوں گی۔ کئی بری۔جوشخص ان کی برائی کودل سے برا سمجھے وہ بَری اورجو کراہت کرے وہ سلامتی والا ہے جوراضی ہوجائے اوربرائی میں ان کی موافقت کرے (وہ ہلاک ہوگیا)صحابہ کرام نےکہا ایسے امیروں (حاکموں ) سے ہم لڑائی نہ کریں ؟ فرمایا نہ جب تک نماز پڑھیں ۔نہ جب تک نماز پڑھیں ۔ ان تین حدیثوں سے پہلی میں فرمایا ہے۔ امیر خوا ہ نیک ہوں یا برے۔ ہر حال میں ان کی تابعدار ی کرو۔ ہاں اگر صریح کفر دیکھوجس پرتمہارے پاس قطعی دلیل ہو توپھران سےبیعت توڑدو اور ان کا مقابلہ کرو۔ اوردوسری حدیثوں میں فرمایا ایسے امیروں کی تابعداری ہرحال میں ضروری ہے مگرنماز نہ پڑھیں توان سے الگ ہوجاؤ۔ اوران سے لڑو۔

نتیجہ صاف ہے کہ نماز صریح کفر ہے جس پرخدا کی طرف سے دلیل قطعی آچکی ہے۔ جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ،ان کےعلاوہ اس قسم کی احادیث بہت ہیں جن سے ایک دو اوپر کے مضمون میں بھی ذکر ہیں ۔اور بعض مولوی عبدالقادر گنگوہی حصاری کے مضمون میں ذکرہیں جومجلہ تنظیم کی جلد اوّل کے 17 ،19 نمبر میں درج ہوچکا ہے اوربعض ہمارے مندرجہ جلد نمبر2 ،5 میں مذکور ہیں ۔اور بعض کا محل متفرقات ہیں یہ سب بےنماز کےکفر پر صراحۃً دلالت کرتے ہیں اور اوپر کےمضمون میں جو اس کے نظائر پیش کئے ہیں وہ درحقیت نظائر نہیں کیونکہ ان کی تاویل پرصریح دلائل موجود ہیں۔ پہلی اورتیسری حدیث اپنے بزرگ اور اپنے آقا سےتعلق توڑنے کےبارے میں ہیں۔ پس وہ ایسی ہوئیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی بابت فرمایا ۔میں نے ان کو جہنم میں سب سے زیادہ دیکھا۔پوچھا گیا کیوں ؟ فرمایا کفر کی وجہ سےکہا گیا۔ اللہ کےساتھ کفر کرتی ہیں ؟فرمایا خاوندوں کا کفر کرتی ہیں ۔اوراحسان کا کفر کرتی ہیں ۔اگر ان سے کسی کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرتے رہو۔ اور ایک مرتبہ تجھ سےکوئی معمولی تکلیف دیکھ لے تو کہتی ہے۔ میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی (مشکوۃ باب الصلوۃ خسوف فصل الاول) اورحدیث :

«بين الرجل والکفر ترک الصلوۃ کوان فرق ما بيننا وبين المشرکين العمائم علی القلانس»
کی مثل قراردینا ڈبل غلطی ہےکیونکہ ثانی الذکر میں لباس کا فرق بتلایا ہے نہ ایمان اورکفر کا ۔اور اول الذکر میں ایمان اور کفر کا فرق بتلانامقصود ہے۔ اس لئے اس میں رجل کےمقابلہ میں کفر کا ذکر کیاہے۔یعنی ترک نماز سےانسان کفر تک پہنچ جاتا ہےاورآیہ کریمہ ﴿وماکان الله ليضيع ايمٰنکم﴾ میں نماز کوایمان کہنا بھی اس کا مؤیدہے۔ مثلافاتحہ کونمازاسی لئے کہا ہے کہ فاتحہ کےنہ ہونے سے نماز فوت ہوجاتی ہے جیسے رکوع سجدے کے فوت ہونے سےنماز فوت ہو جاتی ہے پس یہی حال نمازکا ہے۔اس کےنہ ہونے سے ایمان فوت ہوکرکفر آجاتا ہے۔اوراس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اجزا ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے نہ ہونےسے کل ہی نہیں رہتا جیسے ستون گرجائے توچھت ہی نہیں رہتی ۔اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔الصلوة عماد الدين ۔یعنی نماز دین کا ستون ہے۔

رہی دوسری حدیث جس میں فرمایا ۔
قتاله کفر یعنی مسلمان سے لڑائی کفر ہے۔تواس میں کفر سےمراد جاہلیت کی رسم ہے کیونکہ جاہلیت میں آپس میں قتل وقتال بہت تھا ۔دلیل اس پر قرآن کی آیت ہے جوسورہ حجرات کے پہلے رکوع میں ہے۔

﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَهُمَاۖ فَإِنۢ بَغَتۡ إِحۡدَىٰهُمَا عَلَى ٱلۡأُخۡرَىٰ فَقَٰتِلُواْ ٱلَّتِي تَبۡغِي حَتَّىٰ تَفِيٓءَ إِلَىٰٓ أَمۡرِ ٱللَّهِۚ فَإِن فَآءَتۡ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَهُمَا بِٱلۡعَدۡلِ وَأَقۡسِطُوٓاْۖ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُقۡسِطِينَ-إِنَّمَا ٱلۡمُؤۡمِنُونَ إِخۡوَةٞ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَ أَخَوَيۡكُمۡۚ﴾--سورة الحجرات9-10
اگردوگروہ مومنوں کےآپس میں لڑیں توان میں صلح کروادو ۔کیونکہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔

اس آیت میں آپس میں لڑنے والوں کومومن فرمایا ہےاس سے معلو م ہوا کہ آپس میں لڑنےسے انسان اسلام سےخارج نہیں ہوتا۔اس لئے امام بخاری ؒنےصحیح بخاری میں اس آیت سے خارجیوں کی تردید کی ہےجو کبیرہ گناہ کرنے والے پرکفر کا فتوی دیتے ہیں ملاحظہ ہو بخاری باب المعاصی من (امرالجاہلیۃ ص9 مع فتح الباری)

لڑنے والوں پر مسلم کا اطلاق
اس کی تائیدبخاری کی حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی بابت فرمایا :

«انَّ ابنی هذا سيدٌ ولعل الله ان يصلح به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» (مشکوۃ باب مناقب اهل البيت فصل اوّل )
میرا بیٹا سردار ہے۔امید ہےخدا تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح کرادے ۔

اس حدیث کی پیشگوئی 41 ھ میں پوری ہوئی ۔ان جماعتوں سےمراد حضرت حسن رضی اللہ عنہ اورسیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت ہے۔اس کا واقعہ یہ ہےکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب شہید ہوگئے تواہل کوفہ نے سیدناحسن رضی اللہ عنہ کےہاتھ پر سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑائی کے ارادے پر بیعت کی۔چالیس ہزار کی فوج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پرموت کی شرط کرتے ہوئے بیعت کی تھی وہ سب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کےساتھ شامل ہوگئے ۔لیکن جنابِ حسن رضی اللہ عنہ کی طبیعت صلح پسندتھی ۔فتنہ سے طبعاً متنفر تھے۔آخردنیا اور حکومت کوخیرباد کہہ کر عزلت نشین ہوگئے۔اور سیدنا الامام معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی ۔آپ کی جماعت میں بعض تیزطبعیت بھی تھے۔ انہوں نے جوش بھرے لہجہ میں کہاسوّدتَّ وجوه امومنين ۔تونے مومنوں کے چہرے سیاہ کردیئے ۔یعنی آپ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے ہمیں ذلیل اوررسوا کردیااور ہماری آبروخاک میں ملادی ۔تیری صلح سے ہم اپنے ارادوں سےناکام ہوگئے ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اس کا جوا ب ایسا پُردرداور مخلصانہ اورنصیحت آموزدیا جس سے سخت دل موم ہوکرآنکھوں میں آنسوآگئے فرمایا اخترت العار علی النار میں نےعار کوآگ پرپسند کیا ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

«اذاالتقی المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول فی النار»
جب دو مسلمان تلواریں لے کرآپس میں ملتے ہیں تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔

اس قسم کی احادیث سے میرے دل میں خوف پیدا ہوکرمیری وجہ سے مسلمان آپس میں لڑیں توایسا نہ ہوکہ ان کے خون میری گردن میں ہوں اور میں جہنم کا ایندھن ہوں ۔اس آگ کےبرداشت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں جس کی بابت سرور کائنات فرماتے ہیں ۔ اس کی گرمی دنیا کی آگ سےستر گناہ زیادہ ہے اس لئے میں نے دنیا کی عار کواس آگ پرترجیح دی ہے۔نیز صلح کےوقت بالبدیہ حمدوثنا کے بعد ۔فرمایا۔امابعد !

«يا ايهاالناس فان الله قدهداکم باوّلناوحقن وماءکم وباٰخرنا وان لهذاالامر مدّةوالدنيا دول وانَّ الله قال لنبيه صلی الله تعالی عليه وسلم وا ن ادری لعله فتنة لکم ومتاع الی حين »تاریخ ابن جریر جلد4 ص 930
اے لوگو!اللہ تعالیٰ نےہمارے اول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کےساتھ تمہیں گمراہی سےنکالا اور ہمارے آخرکےساتھ(جس کامیں بھی ایک فرد ہوں) تمہارے خونوں کوروکا اورحکومت چند روزہ ہے۔اوریہ دنیا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلی جانےوالی ہے اور خدا نےاپنے نبی کوفرمایا ہے شاید کہ یہ دنیا کی ڈھیل اور مہلت تمہارے لئے ایک آزمائش ہےاورتھوڑے عرصہ کا متاع اورفائدہ ہو۔

دعا ہے کہ خدا ہمیں بھی اپنا اتنا خوف عطا فرمائے جو ہمارے اورخدا کی نافرمانی کےدرمیان حائل ہوجائے اورہمارے اختلافات ونزاعات کی وسیع خلیج کوپاٹکرمحبت اور مودّت کا راستہ صاف کردے تاکہ جماعت منظم ہوکر يدالله علی الجماعة کی مصداق ہوجائے اور اپنی شان کے شایاں کوئی کام کرسکے جس میں اس کی بہبودی اورفلاح دارین ہو۔آمین ۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ اہلحدیث
کتاب الصلوۃ،نماز کا بیان
، ج2ص38
محدث فتویٰ
_________________
ماشاءاللہ وتعالی

جزاک اللہ خیرا کثیرس واحسن الجزاء فی الدنیا ولآخرا

وبارک اللہ فی
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
بنیادی فرق ظاہر پرستی اور تفقہ فی الدین میں ہے
کسی چیز کی نفی کبھی مطلقاً ہوتی ہے کبھی کمال کی نفی کے لیے ہوتی ہے۔ جیسا کہ لا ایمان لمن لا عہد لہ میں ایمان کی مطلق نفی نہیں ایمان کے کمال کی نفی ہے لیکن لاالہٰ اللہ میں معبود کی مطلق نفی ہے سوائے اللہ کے
اسی طرح سے وہ مسلمان نہیں جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں اس میں اسلام کی مطلق نفی نہیں اسلام کے کمال کی نفی ہے یعنی اسکا اسلام کامل نہیں اسلام یے لیکن کمزور ہے
اسی طرح سے کفر میں بھی دو نوعیتیں ہیں کفر مطلق یعنی اعتقآدی کافر اور کفر عملی یعنی اعتقاد تو اسلام کا رکھتا ہے لیکن عملا کافروں والے کام کرتا ہے
اسی طرح نفاق میں بھی دو قسمیں ہیں ہیں منافق اعتقادی اور منافع عملی۔ جو جھوٹ بولے وعدہ پورا نا کرے خیانت کرے بدکلامی کرے یہ عملی منافق ہے اعتقادی منافق نہیں اسی طرح شرک بھی دو قسمیں ہیں ایک اعتقادی اور دوسرا عملی جسے ریا بھی کہتے ہیں
عملی والے کے ساتھ معاملہ اعتقادی کی طرح سے نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو دعوت دی جائے گی اصلاح کی کوشش کی جائے گی قانونی طور پر سزا دی جائے گی۔ لیکن اس کو اسلام کے دائرے سے نکال کر کافروں کے اندر نہیں دھکیلا جائے گا نا ہی مرتد کے طور پر قتل کیا جائے نہ ہی اس پر تکفیر کے فتوے لگائے جائیں گے
خوارج گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کو کافر کہتے تھے جبکہ اہل سنت ان سے اختلاف کرتے تھے۔ اہل سنت کافر اور فاسق میں فرق کرتے تھے
ایمان دیں اسلام اور اسکے سارے احکام کو سچا ماننے کا نام یے عملا مسلمان سے گناہ بھی ہونگے اور بے عملی بھی لیکن ان سے وہ اسلام سے نکل نہیں جائیگا فاسق فاجر گناہگار مجرم (عملی) کافر منافق مشرک تو کہلائے گا لیکن مسلمان رہیگا
اگر اعمال کو ایمان کا لازمی حصہ بنایا جائے تو اسکی دلیل درکار ہوگی کہ کتنے اعمال اور کون سے اعمال جو کہ ملنا محال ہے۔ ایمان کی حیثیت ایک کی ہے اور اعمال کی اسکے دائیں طرف لگنے والے صفر کی۔ جتنے صفر لگتے جائینگے ایک کی ویلیو بڑھتی جائیگی لیکن اگر سارے صفر بھی ہٹ جائیں تو ایک اپنی جگہ پھر بھی قائم رہیگا۔ ختم نہیں ہوجائیگا۔ قرآن و حدیث میں ایمان کی ویلیو اسکی کیفیت اور اسکے کمال کی علامات کو بھی ایمان کہہ دیا گیا ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایمان اسلام کے تمام احکام کو سچا ماننے کا نام ہے اور اسلام کے احکام گھٹتے بڑھتے نہیں ایک رہتے ہیں البتہ عمل کرنے نا کرنے سے اسکی کیفیت اور ویلیو گھٹی بڑھتی ہے اسی طرح مسجد میں دل لگنا ایمان کے کمال کی علامت ہے۔ جسکا دل نہیں لگتا وہ ایمان سے خالی نہیں وہ بھی ایمان والا ہے لیکن کامل ایمان والا نہیں۔ یعنی کمال کی نفی ہے ناکہ مطلق ایمان کی نفی اورکافر ہوجائے کا اقرار۔
اس دور میں مسلمانوں کو فتووں کی نہیں ان پر عملی محنت کی ضرورت ہے۔ ایسی محنت جس سے انکے ایمان میں کمال آجائے یعنی حکموں میں کامیابی کا یقین آجائے اور اس بنیاد پر وہ اعمال کرنے والے بن جائیں اور جتنی کمی ہے اس پر استغفار کرنے والے بن جائیں۔ مسئلے میں اٹک جانا دانشمندی نہیں اسکا عملی حل نکالنا چاہیئے
 
Top