• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز پنجگانہ كے اوقات :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10408842_808978725837065_9032508459608755243_n.jpg

بسم اللہ الرحمن الرحیم


نماز پنجگانہ كے اوقات :


الحمد للہ :


اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے بندوں پر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كي ہيں، اللہ تعالى كى حكمت كا تقاضا تھا كہ يہ نمازيں اوقات مقررہ ميں ادا كى جائيں تاكہ بندے اور رب كے مابين ان نمازوں كے دوران مدت ميں تعلق قائم رہے يہ بالكل اسى طرح ہے كہ جس وقتا فوقتا درخت كو پانى لگايا جاتا ہے، صرف ايك بار ہى پانى لگا كر درخت كو چھوڑ نہيں ديا.

اور پھر يہ نمازيں وقت مقررہ ميں تقسيم كرنے ميں يہ بھى حكمت ہے كہ ايك ہى وقت ميں ان كى ادائيگى بندے پر بوجھ نہ ہو اور وہ اكتا نہ جائے، اس ليے اللہ تعالى نے مختلف اوقات ركھے، اللہ تعالى سب سے بہتر فيصلہ كرنے والا ہے.

ماخوذ از: رسالۃ احكام مواقيت الصلاۃ تاليف شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ

اور پھر نماز پنجگانہ كے اوقات احاديث ميں بھى بيان ہوئے ہيں تفصيلا اوقات بيان كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ظہر كا وقت زوال سے ليكر آدمى كے سائے كے برابر ہونے ( يعنى ) عصر كا وقت شروع ہونے تك رہتا ہے، اور عصر كا وقت سورج كے زرد ہونے تك ہے، اور مغرب كا وقت سرخى غائب ہونے تك ہے، اور عشاء كا وقت درميانى نصف رات تك ہے، اور صبح كى نماز كا وقت طلوع فجر سے ليكر سورج طلوع ہونے تك ہے، جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز پڑھنے سے رك جاؤ كيونكہ وہ شيطان كے سينگوں كے درميان طلوع ہوتا ہے" صحيح مسلم حديث نمبر ( 612 ).

اس حديث ميں نماز پنجگانہ كے اوقات بيان كيے گئے ہيں، ليكن ان كى گھنٹوں ميں تحديد كرنى ايك علاقے اور ملك سے دوسرے ملك اور علاقے سے مختلف ہوگى، ليكن ذيل ميں ہم ہر ايك كو عليحدہ عليحدہ بيان كرنے كى كوشش كرتے ہيں:

اول:


نماز ظہر كا وقت:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ظہر كا وقت زوال سے ليكر آدمى كے سائے كے برابر ہونے ( يعنى ) عصر كا وقت شروع ہونے تك رہتا ہے "

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز ظہر كے وقت كى ابتدا اور انتہاء كى تحديد كر دى ہے.

ظہر كے وقت كى ابتداء سورج كے زوال سے شروع ہوتى ہے ـ اس سے مراد يہ ہے كہ سورج آسمان كے درميان سے مغرب كى جانب زائل ہو جائے.

زوال كا وقت معلوم كرنے كے ليے عملى تطبيق ( ظہر كے وقت كى ابتداء):

آپ ايك لكڑى كسى كھلى جگہ پر گاڑ ديں سورج طلوع ہونے كے وقت اس لكڑى كا سايہ مغرب كى جانب ہو گا جيسے جيسے سورج اوپر ہوتا چلا جائيگا تو اس لكڑى كا سايہ بھى كم ہوتا رہيگا، جب تك سايہ كم ہوتا رہے زوال نہيں ہوا، اس طرح لكڑى كا سايہ كم ہوتا ہوا ايك حد پر آكر ٹھر جائيگا اور پھر سايہ مشرق كى جانب بڑھنا شروع ہو گا، جيسے ہى سايہ مشرق كى جانب تھوڑا سا زيادہ ہوا تو يہ زوال ہو گا، اور اس وقت ظہر كى نماز كا وقت شروع ہو جائيگا.

گھڑى كے حساب سے زوال كى علامت:


طلوع آفتاب سے ليكر غروب آفتاب كو دو حصوں ميں تقسيم كر ليں تو يہ زوال كا وقت ہو گا، چنانچہ اگر ہم فرض كريں كہ سورج چھ بجے طلوع ہوتا اور چھ بجے ہى غروب ہوتا ہے تو زوال كا وقت بارہ بجے ہو گا، اور اگر سورج سات بجے طلوع ہو اور سات بجے ہى غروب تو زوال كا وقت ايك بجے ہو گا، اسى طرح حساب لگاليں. ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 96 ).

ظہر كى وقت كى انتہاء:


ظہر كا وقت اس وقت ختم ہو گا جب ہر چيز كا سايہ زوال ہونے كے بعد اس كى مثل ( يعنى اس كى لمبائى كے برابر ) ہو.

ظہر كا وقت معلوم كرنے كا عملى طريقہ:


وہى لكڑى زمين ميں لگائى گئى تھى اس كى طرف واپس پلٹتے ہيں، فرض كريں اس لكڑى كى لمبائى ايك ميٹر ہے، زوال سے قبل اس كا سايہ كم ہوتا جائيگا حتى كہ ايك معين حد پر آكر ٹھر جائيگا ( يہاں آپ نشان لگا ليں) پھر اس كے بعد سايہ زيادہ ہونا شروع ہو جائيگا، يہاں سے ظہر كى نماز كا وقت شروع ہوتا ہے، پھر يہ سايہ مشرق كى جانب بڑھتا رہے گا حتى كہ اس لكڑى كى برابر ( يعنى ايك ميٹر ) ہو جائيگا، يعنى اس لگائے ہوئے نشان سے ليكر اس لكڑى كے برابر، ليكن جو سايہ اس نشان سے قبل ہے وہ شمار نہيں ہو گا، وہ سايہ زوال كے سايہ كے نام سے موسوم ہے، يہاں پہنچ كر ظہر كى نماز كا وقت ختم ہو گا، اور عصر كى نماز كا وقت شروع ہو جائيگا.

دوم:


عصر كا وقت:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور عصر كا وقت اس وقت تك ہے جب تك سورج زرد نہ ہو "

عصر كى ابتدائى وقت ہم معلوم كر چكے ہيں كہ ظہر كا وقت ختم ہونے ( يعنى ہر چيز كا سايہ اس كے برابر ہونے كے وقت ) سے شروع ہوتا ہے، اور عصر كى انتہاء كے دو وقت ہيں:

( 1 ) اختيارى وقت:


يہ عصر كے ابتدائى وقت سے ليكر سورج زرد ہونے تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عصر كا وقت جب تك سورج زرد نہ ہو جائے "

يعنى جب تك سورج پيلا نہ ہو جائے، اس كا گھڑى كے حساب سے موسم مختلف ہونے كى بنا پر وقت بھى مختلف ہو گا.

( 2 ) اضطرارى وقت:


يہ سورج زرد ہونے سے ليكر غروب آفتاب تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر كى ايك ركعت پا لى اس نے عصر كى نماز پالى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 579 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 608 ).

مسئلہ:


ضرورت اور اضطرارى وقت كا كيا معنى ہے ؟

ضرروت كا معنى يہ ہے كہ اگر كوئى شخص ايسے كام ميں مشغول ہو جس كے بغير چارہ كار نہيں مثلا كسى زخم كى مرہم پٹى كر رہا ہو اور وہ سورج زرد ہونے سے قبل مشقت كے بغير نماز ادا نہ كر سكتا ہو تو وہ غروب آفتاب سے قبل نماز ادا كر لے تو اس نے وقت ميں نماز ادا كى ہے؛ اس پر وہ گنہگار نہيں ہو گا؛ كيونكہ يہ ضرورت كا وقت تھا، اور اگر انسان تاخير كرنے پر مجبور ہو تو سورج غروب ہونے سے پہلے نماز ادا كر لے.

سوم:


نماز مغرب كا وقت:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور نماز مغرب كا وقت سرخى غائب ہونے تك ہے "

يعنى عصر كا وقت ختم ہونے كے فورا بعد مغرب كا وقت شروع ہو جاتا ہے، جو غروب آفتاب سے ليكر سرخى غائب ہونے تك رہتا ہے.

اور جب آسمان سے سرخى غائب ہو جائے تو مغرب كا وقت ختم ہو كر عشاء كا وقت شروع ہو جاتا ہے، گھڑى كے مطابق اس وقت كى تحديد موسم مختلف ہونے سے مختلف ہو گى، اس ليے جب ديكھا جائے كہ افق سے سرخى غائب ہو گئى ہے تو يہ مغرب كا وقت ختم ہونے كى دليل ہے.

چہارم:


عشاء كى نماز كا وقت:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور عشاء كى نماز كا وقت درميانى نصف رات تك ہے "

چنانچہ عشاء كا وقت مغرب كا وقت ختم ہونے كے فورا بعد ( يعنى آسمان سے سرخى ختم ہونے كے بعد ) شروع ہو كر نصف رات تك رہتا ہے.

مسئلہ:


نصف رات كا حساب كيسے ہو گا ؟

جواب:


اگر آپ نصف رات كا حساب لگانا چاہيں تو سورج غروب ہونے سے طلوع فجر تك كا وقت شمار كريں، اس كا نصف عشاء كى نماز كا آخرى وقت ہو گا ( اور يہى نصف رات ہو گى )

فرض كريں اگر سورج پانچ بجے غروب ہوتا ہو اور فجر كى اذان ( طلوع فجر ) پانچ بجے ہوتى ہو تو نصف رات گيارہ بجے ہو گى، اور اگر سورج پانج بجے غروب ہوتا ہو اور طلوع فجر چھ بجے ہو تو نصف رات ساڑھے گيارہ بجے ہو گى، اسى طرح حساب لگايا جائيگا.

پنجم:


نماز فجر كا وقت:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور صبح كى نماز كا وقت طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك ہے، اور جب طلوع آفتاب ہو جائے تو نماز پڑھنے سے رك جاؤ كيونكہ يہ شيطان كے سينگوں كے درميان طلوع ہوتا ہے "

نماز فجر كا وقت طلوع فجر ثانى يعنى فجر صادق سے شروع ہو كر طلوع آفتاب تك رہتا ہے، اور فجر ثانى اس وقت ہوتى ہے جب افق پر سفيد روشنى مشرق كى جانب شمال سے جنوب كى طرف پھيلے، ليكن فجر اول اس روشنى كو كہتے ہيں جو فجر صادق سے قبل تقريبا ايك گھنٹہ قبل ہوتى ہے، اور ان دونوں ميں كئى ايك فرق ہيں:

1 - فجر اول يا فجر كاذب لمبائى ميں ہوتى ہے چوڑائى ميں نہيں، يعنى وہ مشرق سے مغرب كى طرف پھيلتى ہے، اور فجر صادق يا فجر ثانى چوڑائى ميں ہوتى ہے جو شمال سے جنوب كى جانب پھيلتى ہے.

2 - فجر اول يا فجر كاذب اندھيرى ہوتى ہے، يعنى يہ روشنى كچھ دير كے ليے ہوتى ہے اور اس كے بعد پھر اندھيرا ہو جاتا ہے، ليكن فجر ثانى يا فجر صادق كے بعد اندھيرا نہيں ہوتا بلكہ روشنى زيادہ ہوتى جاتى ہے.

3 - فجر ثانى يا فجر صادق افق كے ساتھ ملى ہوتى ہے اور اس روشنى اور افق كے مابين كوئى اندھيرا نہيں ہوتا، ليكن فجر اول يا فجر كاذب افق سے دور اور منقطع ہوتى ہے، اور اس كے اور افق كے مابين اندھيرا ہوتا ہے. ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 107 ).

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
12313975_924296137625800_4509755053892059528_n.jpg


نماز مغرب میں دیر ؟

----------------------

’’میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر (دیر) نہ کرے گی کہ ستار ے چمکنے لگ جائیں‘‘

(فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

-------------------------------------------
(سنن أبي داود : 418 ، ،
سنن ابن ماجه :689 ، ،
السيل الجرار للشوكاني:1/190 ، ،
المجموع للنووي :3/35 ، ،
الصحيح المسند للوادعی:328،،956 ، ،
تخريج مشكاة المصابيح للألباني:581 ، ،
صحيح الجامع للألباني:7285 ، ،
إرواء الغليل للألباني:4/33 ، ،
صحيح ابن خزيمة:340)
 

abulwafa

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 22، 2015
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
13
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک سوال۔۔۔
پانچو نمازیں کس وقت ادا کرنا بهتر هے۔۔
اول وقت پر یا جیسا کاانڈ یا پاکیستان میں احناف تاخیر سے پڑهتےهے وه صحیح هے۔۔۔

برائے مهربانی مدلل جواب دیں
بهت مهربانی هوگی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک سوال۔۔۔
پانچو نمازیں کس وقت ادا کرنا بهتر هے۔۔
اول وقت پر یا جیسا کاانڈ یا پاکیستان میں احناف تاخیر سے پڑهتےهے وه صحیح هے۔۔۔

برائے مهربانی مدلل جواب دیں
بهت مهربانی هوگی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

نماز کو وقت پر ادا کرنا- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت


عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہما قَالََ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم : أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ؟ قَالَ: (( اَلصَّلَاۃُ عَلیٰ وَقْتِھَا۔ ))

أخرجہ البخاري في کتاب مواقیت الصلاۃ، باب: فضل الصلاۃ لوقتھا، ح: ۵۲۷۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:’’ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا لگتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نماز کو وقت پر ادا کرنا۔ ‘‘

تشریح…:

پانچویں نمازوں کا وقت مقرر اور محدود ہے جب وقت نکل جاتا ہے تو نماز فوت ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو یہی بات پسند ہے کہ نماز کو اس کے محدود وقت میں ادا کیا جائے نہ کہ قضاء کرکے مقرر وقت کے بعد پڑھی جائے۔

ابن بطال فرماتے ہیں کہ :

نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا تاخیر سے ادا کرنے سے بہتر ہے کیونکہ پیارا عمل ہونے کے لیے مستحب وقت کی شرط لگائی گئی ہے۔

امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فرض نماز کی ادائیگی پر کوئی زور بھی نہیں لگتا اور درجہ بھی بہت بڑا ہے۔ چنانچہ آدمی اس کے باوجود جان بوجھ کر اسے ضائع کرتا ہے تو وہ اس کے علاوہ اشیاء کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوتا ہے۔ [فتح الباری ]

نماز کو وقت سے موخر کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّینَ o الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلاَتِہِمْ سَاہُوْنَ o} [الماعون:۴۔ ۵]

’’ ان نمازیوں کے لیے افسوس اور ویل نامی جہنم کی جگہ ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ ‘‘

مصلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے پابندی سے نماز پڑھتے رہے پھر کبھی کبھار سست ہوجاتے یا نماز پڑھنا چھوڑ دیں یا نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا نہیں کرتے۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں:

جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہیں

اور ابوالعالیہ فرماتے ہیں:

اس کے تحت وہ لوگ آتے ہیں جو وقت پر نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی رکوع و سجود پورا کرتے ہیں۔

’’سَاھُوْنَ‘‘ کا مطلب ہمیشہ یا اکثر اول وقت کی بجائے آخری وقت میں نماز ادا کرنا یا نماز کے ارکان اور شروط کو شریعت کے مطابق ادا نہ کرنا یا نماز میں خشوع اور تدبر کا نہ ہونا ہے۔

http://forum.mohaddis.com/threads/نماز-کو-وقت-پر-ادا-کرنا.12563/
 

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے سوال تہا
اگر کوئی شخص ایک وقت کا نماز جان بوجہ کر نہی پڑھتا تو کیا وہ کافر ہو جاتا ہے؟

اور کئی صحابہ کرام اور تابعین تبع تابعین آئمہ کا قول بہی ہے کچہ اس طرح کا ۔۔
کئی علماء کرام کا فتوی ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے۔

تو اسکو پہر سے کلمہ پڑھنا ہوگا جتنی بات وہ نماز چھوڑے یا نہی۔۔؟

اور کیا ایسے شخص کا نکاح بہی ٹوٹ جاتا ہے جو ایک وقت کا نماز جان بوجہ کر چھوڑ دیں۔۔۔۔؟

برائے مہربانی تفصیلی جواب دیں کر رہنمائی فرمائیں مہربانی ہوگی۔۔
 
Top