السلام و عليكم
اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو نماز لگاتار نہیں پڑھتا۔۔ کبھی پڑھتا کبھی نہیں اور بار اپنے اس عمل سے تو بہ کرتا ہے پھر کچھ دن نماز پڑھتا پھر چھوڑ دیتا پھر توبہ کرتا اور نماز شروع کرتا ہے۔ تو کیا جب وہ نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہوتا ہے؟ اور اس طرح کا عمل کیا مقبول ہوتا ؟ اس طرح کے شخص کا کیا حکم ہے اور اسکے لیے کیا نصیحت ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
متى يكون تاركا للصلاة وما حكمه ؟
تاريخ النشر : 12-08-2006
السؤال:
هل تارك الصلاة تمامًا يعد من غير المسلمين ؟ هل الذي يصلي عيد الفطر وعيد الأضحى وأحيانا الجمعة أو أحيانا واحدة من الصلوات الخمس يندرج أيضًا في حكم "من لا يصلي تمامًا" وبالتالي يعد من غير المسلمين ؟ كيف نفسر كلمة "لا يصلي تمامًا" ؟.
انسان کب بے نماز شمار ہوتا ہے؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :
اگر کوئی شخص بالکل نماز نہیں پڑھتا تو کیا اسے غیر مسلم شمار کیا جائے گا؟ اور اگر کوئی شخص عید الفطر ، عید الاضحی اور بسا اوقات جمعہ پڑھتا ہے اسی طرح کبھی کبھی پانچوں نمازوں میں سے کوئی ایک نماز بھی پڑھ لیتا ہے تو کیا اس کا حکم بھی ایسے بے نمازی شخص والا ہوگا جو کبھی بھی نماز نہیں پڑھتا؟ اور پھر اسے بھی غیر مسلم شمار کیا جائے گا؟ نیز یہ جملہ کہ "وہ بالکل بے نمازی ہے"اس کی تفصیل کیسے بیان کریں گے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نص الجواب
الحمد لله
أولا :
تارك الصلاة الذي لا يصليها مطلقا ، كافر ، سواء تركها كسلا أو جحودا ، في أصح قولي العلماء ؛ لأدلة كثيرة ، سبق ذكر بعضها في الجواب رقم (5208)
ثانيا :
إذا كان الإنسان غير تارك للصلاة مطلقا ، بل يصلي أحيانا ويترك أحياناً أخرى ، فقد اختلف القائلون بكفر تارك الصلاة فيه ، فمنهم من قال : يكفر بترك فريضة واحدة عمدا ، حتى يخرج وقتها ، فمن تعمد ترك صلاة الصبح حتى تطلع الشمس ، كفر ، ومن تعمد ترك صلاة الظهر حتى غربت الشمس كفر ، لأن الظهر تجمع مع العصر ، فصار وقتاهما وقتا واحدا عند العذر ، وكذلك المغرب والعشاء ، فمن تعمد ترك صلاة المغرب حتى خرج وقت صلاة العشاء ، كفر .
ومنهم من قال : لا يكفر حتى يتركها دائما .
جواب کا ترجمہ :
الحمد للہ:
اول:
جو شخص مطلق طور پر نماز نہیں پڑھتا تو وہ کافر ہے، چاہے وہ سستی کی وجہ سے نماز نہ پڑھے یا فرضیتِ نماز کا انکار کرتے ہوئے نہ پڑھے، علمائے کرام کے دو موقفوں میں سے یہی صحیح ترین موقف ہے، اس کی بہت سی دلیلیں ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر پہلے سوال نمبر: (5208) میں گزر چکا ہے۔
دوم:
اگر کوئی شخص مطلق طور پر نماز تو نہیں چھوڑ رہا بلکہ یہ معاملہ ہے کہ کبھی پڑھ لی اور کبھی چھوڑ دی تو ایسے شخص کو نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر قرار دینے میں اختلاف ہے۔
کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایک نماز بھی چھوڑ دے اور وقت ختم ہونے تک ادا نہ کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص سورج طلوع ہونے تک فجر کی نماز نہیں پڑھتا تو وہ کافر ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص ظہر کی نماز سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ادا نہیں کرتا تو وہ کافر ہے؛ کیونکہ ظہر کی نماز عصر کی نماز کے ساتھ جمع کی جاسکتی ہے، لہذا جب عذر ہو تو دونوں نمازوں کا وقت ایک ہو سکتا ہے، اسی طرح مغرب کی نماز کا وقت ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص نماز مغرب اتنی دیر تک ادا نہیں کرتا کہ عشاء کی نماز کا وقت بھی نکل جاتا ہے تو وہ شخص بھی کافر ہے۔
اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ایسا شخص کافر نہیں ہے، اسے اسی وقت کافر کہا جائے گا جب وہ مطلق طور پر ساری نمازیں نہ پڑھے، یعنی نماز پڑھنا ہی چھوڑ دے۔
امام بخاریؒ کے ہم عصر امام محمد بن نصر المروزیؒ (م 294 ھ) لکھتے ہیں :
قال الإمام محمد بن نصر المروزي رحمه الله : " سمعت إسحاق يقول : قد صح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تارك الصلاة كافر ، وكذلك كان رأى أهل العلم من لدن النبي صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا أن تارك الصلاة عمدا من غير عذر حتى يذهب وقتها كافر.
وذهاب الوقت أن يؤخر الظهر إلى غروب الشمس والمغرب إلى طلوع الفجر.
وإنما جعل آخر أوقات الصلوات ما وصفنا لأن النبي صلى الله عليه وسلم جمع بين الصلاتين بعرفة والمزدلفة ، وفي السفر ، فصلى إحداهما في وقت الأخرى، فلما جعل النبي صلى الله عليه وسلم الأولى منهما وقتا للأخرى في حال، والأخرى وقتا للأولى في حال ، صار وقتاهما وقتا واحدا في حال العذر ، كما أُمرت الحائض إذا طهرت قبل غروب الشمس أن تصلى الظهر والعصر وإذا طهرت آخر الليل أن تصلى المغرب والعشاء)
انتهى من "تعظيم قدر الصلاة " طبع مکتبۃ الدار بالمدینۃ المنورۃ(2/929) .
https://archive.org/details/FP16001/page/n927
ترجمہ :
"میں نے امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کو سنا وہ فرما رہے تھے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا کافر ہے، یہی رائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر آج تک اہل علم کی رہی ہے کہ اگر کوئی شخص نماز جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو وہ کافر ہے"
وقت ختم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کو غروب شمس تک مؤخر کر دے اور مغرب کو طلوعِ فجر تک مؤخر کر دے۔
ہم نے اس انداز سے نماز کا آخری وقت اس لیے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ، مزدلفہ اور سفر وغیرہ میں نمازوں کو جمع کیا ہے اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا فرمایا، لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کیا اور بسا اوقات دوسری نماز کو پہلی نماز کے وقت میں ادا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ عذر کی حالت میں دو نمازوں کا مجموعی وقت ہر نماز کا وقت ہے، جیسے کہ حائضہ عورت اگر سورج غروب ہونے سے پہلے پاک ہو جائے تو اسے ظہر اور عصر دونوں نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر رات کے آخری حصے تک پاک ہو جائے تو مغرب اور عشاء دونوں نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے" انتہی
"تعظیم قدر الصلاة " (2/929)
اسی طرح امام ابن حزم (أبو محمد علي بن أحمد الأندلسي القرطبي (المتوفى: 456هـ) رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وقال ابن حزم رحمه الله : " روينا عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، ومعاذ بن جبل ، وابن مسعود ، وجماعة من الصحابة رضي الله عنهم، وعن ابن المبارك ، وأحمد بن حنبل ، وإسحاق بن راهويه رحمة الله عليهم ، وعن تمام سبعة عشر رجلا من الصحابة ، رضي الله عنهم ، أن من ترك صلاة فرضٍ عامدا ذاكرا حتى يخرج وقتها ، فإنه كافر ومرتد ، وبهذا يقول عبد الله بن الماجشون صاحب مالك ، وبه يقول عبد الملك بن حبيب الأندلسي وغيره" . انتهى من "الفصل في الملل والأهواء والنحل" (3/128) .
ترجمہ :
"ہمیں درج ذیل جلیل القدر صحابہ کرام اور ائمہ کرام کے متعلق روایات پہنچیں ہیں کہ : سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، جناب معاذ بن جبل ،سیدنا عبداللہ ابن مسعود ، اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت رضی الله عنہم سے ، اور اسی طرح بعد کے ائمہ میں سے جناب عبداللہ بن مبارک ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ جمیعاً ، اسی طرح صحابہ کرام میں سے پورے سترہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یاد ہوتے ہوئے بھی کوئی ایک نماز اتنی دیر تک ادا نہیں کرتا کہ اس کا وقت ہی ختم ہو جاتا ہے تو وہ کافر اور مرتد ہے، یہی موقف عبد اللهؒ بن ماجشون امام مالک ؒکے شاگرد کا ہے اور اسی موقف کے قائل ہیں: علامہ عبد الملکؒ بن حبيب اندلسی اور دیگر فقہائے کرام" انتہی
"الفصل في الملل والأهواء والنحل" (3/128)
اور امام ابن حزمؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب "المحلیٰ " میں فرماتے ہیں :
وقال رحمه الله: "وقد جاء عن عمر ، وعبد الرحمن بن عوف ، ومعاذ بن جبل ، وأبي هريرة ، وغيرهم من الصحابة رضي الله عنهم أن من ترك صلاة فرض واحدة متعمدا حتى يخرج وقتها فهو كافر مرتد " انتهى من "المحلى " (2/15 ) .
ترجمہ:
"سیدنا عمر، عبد الرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابو ہریرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے کہ جو شخص نماز جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو وہ کافر اور مرتد ہے " انتہی
"المحلى " (2/15 )
وبهذا القول أفتت اللجنة الدائمة، برئاسة الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله . "فتاوى اللجنة " (6/40،50).
وممن أفتى بأنه لا يكفر تارك الصلاة إلا إذا تركها مطلقا أو دائما : الشيخ ابن عثيمين رحمه الله ، فقد سئل عن الإنسان الذي يصلي أحيانا ويترك أحيانا أخرى فهل يكفر ؟
فأجاب : " الذي يظهر لي أنه لا يكفر إلا بالترك المطلق بحيث لا يصلي أبداً ، وأما من يصلي أحيانا فإنه لا يكفر لقول الرسول صلى الله عليه وسلم : ( بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة ) ولم يقل ترك صلاة ، بل قال : " ترك الصلاة " ، وهذا يقتضي أن يكون الترك المطلق ، وكذلك قال : ( العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها ـ أي الصلاة ـ فقد كفر ) وبناء على هذا نقول : إن الذي يصلي أحيانا ويدع أحيانا ليس بكافر " انتهى من "مجموع فتاوى ابن عثيمين " (12/55) .
لكنه سئل عن الذي يصلي صلاة الجمعة فقط؟
فأجاب : " لا يصلي إلا الجمعة فقط ؟ لماذا لا يصلي إلا الجمعة ؟
السائل: عادته.
الجواب : عادة, إذاً: هذا الرجل لا أعتقد أن صلاته عبادة , ولهذا يصلي الجمعة عادة لأنه يلبس ويتزين ويتطيب ويذهب , وإن كنت أنا أرى أنه لا يكفر إلا من ترك الصلاة نهائياً أشك في إسلام هذا الرجل , لأن هذا الرجل إنما اتخذ صلاة الجمعة عيداً فقط ؛ يتجمل ويذهب للناس وهو متطيب ومتجمل فقط , فأنا أشك في كون هذا باقياً على الإسلام. أما على ما رآه شيخنا عبد العزيز فهو كافر , وانتهى أمره " انتهى من "لقاء الباب المفتوح" .
والله أعلم .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
ترجمہ :
اسی موقف کے مطابق دائمی فتوی کمیٹی نے شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کی صدارت میں فتوی جاری کیا: دیکھیں: "فتاوی دائمی فتوی کمیٹی" (6/40،50)
البتہ ان علمائے کرام میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا نام آتا ہے جو دائمی اور مطلق طور پر نماز چھوڑنے کی وجہ سے ہی تارکِ نماز کو کافر کہتے ہیں، ان سے پوچھا گیا کہ: ایک شخص کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی چھوڑ دیتا ہے تو کیا وہ کافر ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"میری رائے ہے کہ کافر وہی شخص ہو گا جو مطلق طور پر نماز نہ پڑھے یعنی بالکل نماز چھوڑ دے، لیکن جو شخص کبھی پڑھ لیتا ہے اور کبھی چھوڑ دیتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق کافر نہیں ہو گا، حدیث یہ ہے:" ( بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة ) [آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز چھوڑنا ہی قدر امتیاز ہے] اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے " ترك صلاة " [یعنی صلاۃ کا لفظ نکرہ] نہیں بولا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ترك الصلاة " [یعنی: الف لام کے ساتھ معرفہ بولا ہے] اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص مطلق طور پر نمازیں چھوڑ دے اور کبھی بھی نماز نہ پڑھے۔
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے کہ: (العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها ـ أي الصلاة ـ فقد كفر)[ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ نماز ہے، جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا] تو اس بنا پر ہم کہیں گے کہ: جو شخص کبھی نماز پڑھ لیتا ہے اور کبھی نہیں پڑھتا تو وہ کافر نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "مجموع فتاوى ابن عثیمین" (12/55)
لیکن اُن سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو صرف جمعہ کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے بارے میں جواب دیا کہ:
شیخ ابن عثیمین: وہ صرف جمعہ کی نماز کیوں پڑھتا ہے؟
سائل: اس کی عادت بن چکی ہے۔
شیخ: عادت بن چکی ہے، تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ اس کی نماز عبادت ہے! یہ تو جمعہ کی نماز بطور عادت پڑھتا ہے کہ نہا دھو کر کپڑے پہنے خوشبو لگائے اور مسجد آ جائے، میں اگرچہ یہ کہتا ہوں کہ صرف وہی شخص کافر ہے جو مکمل طور پر نماز چھوڑ دے لیکن مجھے ایسے شخص کے مسلمان ہونے میں شک ہے؛ کیونکہ اس نے جمعہ کو بننے اور سنورنے کا دن بنایا ہوا ہے، وہ بن ٹھن کر خوشبو لگا کر صرف لوگوں سے ملنے کیلیے جاتا ہے، مجھے اس کے مسلمان ہونے میں شک ہے، لیکن ہمارے شیخ محترم عبد العزیز کی رائے کے مطابق وہ شخص کافر ہے اور اس کا معاملہ ختم ہو چکا ہے" انتہی
"لقاء الباب المفتوح"
واللہ اعلم .
ماخذ: الاسلام سوال و جواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ