• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
CENTER][]
وسمى النبي صلى الله عليه وسلم يوما وليلة سفرا‏.‏ وكان ابن عمر وابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ يقصران ويفطران في أربعة برد وهى ستة عشر فرس
خا‏.‏[/


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم چار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)


حدیث نمبر: 1086
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قلت لأبي أسامة حدثكم عبيد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تسافر المرأة ثلاثة أيام إلا مع ذي محرم ‏"‏‏.‏


ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے ابواسامہ سے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ سے عبیداللہ عمری نے نافع سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا تھا کہ عورتیں تین دن کا سفر ذی رحم محرم کے بغیر نہ کریں (ابواسامہ نے کہا ہاں)۔


حدیث نمبر: 1087
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا يحيى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تسافر المرأة ثلاثا إلا مع ذي محرم ‏"‏‏.‏ تابعه أحمد عن ابن المبارك عن عبيد الله عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏


ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحی ٰ بن سعیدقطان نے، عبیداللہ عمری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے خبر دی، انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو۔ اس روایت کی متابعت احمد نے ابن مبارک سے کی ان سے عبیداللہ عمری نے ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔


حدیث نمبر: 1088
حدثنا آدم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا ابن أبي ذئب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا سعيد المقبري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي هريرة ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة ‏"‏‏.‏ تابعه يحيى بن أبي كثير وسهيل ومالك عن المقبري عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه‏.


ہم سے آدم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے اپنے باپ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔ اس روایت کی متابعت یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے کی۔ وہ اس روایت کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے۔

صحیح بخاری
کتاب تقصیر الصلوۃ
[/CENTER]
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے

وسمى النبي صلى الله عليه وسلم يوما وليلة سفرا‏.‏ وكان ابن عمر وابن عباس ـ رضى الله عنهم ـ يقصران ويفطران في أربعة برد وهى ستة عشر فرسخا‏.‏
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبد اللہ ابن عمر اور عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم چار برد ( تقریبا اڑتالیس میل کی مسافت ) پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں ( اور ایک فرسخ میں تین میل )

تشریح : اس ترجمہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ سفر میں چار رکعت نماز کو قصر کرے یعنی دورکعت پڑھے دوسرے مسافر اگر کہیں زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے وہ قصر کر سکتا ہے امام شافعی اوراما م احمد ومالک کا یہ مذہب ہے کہ جب کہیں چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے اور چار دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو قصر کر تا رہے اور حنفیہ کے نزدیک پندرہ دن سے کم میں قصر کرے پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو پوری نمازپڑھے اور اسحاق بن راھویہ کا مذہب یہ ہے کہ انیس دن سے کم میں قصر کرتا رہے انیس دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو پوری نماز پڑھے امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب معلوم ہوتا ہے۔

ابن المنذر نے کہا کہ مغرب اور فجر کی نماز میں بالاجماع قصرنہیں ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
ترجمہ باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ جو حدیث صحیح لائے ہیں اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے گویا امام رحمہ اللہ کا فتوی اس حدیث پر ہے۔ یہاں کاانیس روز کا قیام فتح مکہ کے موقع پر ہوا تھا بعض راویوں نے اس قیام کو صرف سترہ دن بتلایا ہے گویا انہوں نے آنے اور جانے کے دو دن چھوڑ کر سترہ دن کا شمارکیا اور جنہوں نے ہر دونوں کو شمار کیا، انہوں نے انیس روز بتلائے۔
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ سفر کے لیے کم سے کم ایک دن رات کی راہ ضروری ہے۔ حنفیہ نے تین دن کی مسافت کو سفر کہا ہے اس مسئلہ میں کوئی بیس قول ہیں۔ ابن منذر نے ان کو نقل کیا ہے صحیح اور مختار مذہب اہل حدیث کا ہے کہ ہر سفر میں قصر کرنا چاہیے جس کو عرف میں سفر کہیں اس کی کوئی حد مقرر نہیں امام شافعی اور امام مالک اور امام اوزاعی کا یہ قول ہے کہ دو منزل سے کم میں قصر جائز نہیں دومنزل اڑتالیس میل ہوتے ہیں ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ایک ہاتھ چوبیس انگل چھ جوکا ( وحیدی ) فتح الباری میں جمہور کا مذہب یہ نقل ہواہے کہ جب اپنے شہر سے باہر ہو جائے اس کا قصر شروع ہو جاتا ہے۔
امام نووی نے شرح مسلم میں فقہائے اہل حدیث کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے کہ سفر میں دومنزلوںسے کم میں قصر جائز نہیں اوردومنزلوں کے اڑتالیس میل ہاشمی ہوتے ہیں۔ داؤد ظاہری اور دیگر اہل ظاہر کا مسلک یہ ہے کہ قصر کرنا بہر حال جائز ہے سفر دراز ہو یا کم یہاں تک کہ اگر تین میل کا سفر ہو تب بھی یہ حضرات قصر جائز کہتے ہیں تفصیل گزر چکی ہے۔

حدیث نمبر : 1086
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، قال قلت لأبي أسامة حدثكم عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تسافر المرأة ثلاثة أيام إلا مع ذي محرم‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے ابو اسامہ سے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ سے عبیداللہ عمری نے نافع سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا تھا کہ عورتیں تین دن کا سفر ذی رحم محرم کے بغیر نہ کریں ( ابو اسامہ نے کہا ہاں )

محرم وہ جن سے عورت کے لیے نکاح حرام ہے اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں۔ یہاں تین دن کی قید کا مطلب ہے کہ اس مدت پر لفظ کا اطلاق کیا گیا اور ایک دن اوررات کو بھی سفر کہا گیا ہے تقریبا اڑتالیس میل پر اکثر اتفاق ہے کما مر۔

حدیث نمبر : 1087
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تسافر المرأة ثلاثا إلا مع ذي محرم‏"‏‏. ‏ تابعه أحمد عن ابن المبارك عن عبيد الله عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے یحی ٰ بن سعیدقطان نے، عبید اللہ عمری سے بیا ن کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے خبر دی، انہیں ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو۔ اس روایت کی متابعت احمد نے ا بن مبارک سے کی ان سے عبید اللہ عمری نے ان سے نافع نے ا ور ان سے ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔

حدیث نمبر : 1088
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال حدثنا سعيد المقبري، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة‏"‏‏. ‏ تابعه يحيى بن أبي كثير وسهيل ومالك عن المقبري عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه‏.
ہم سے آدم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے اپنے باپ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔ اس روایت کی متابعت یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے کی۔ وہ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے۔

تشریح : عورت کے لیے پہلی احادیث میں تین دن کے سفر کی ممانعت وارد ہوئی ہے جب کہ اس کے ساتھ کوئی ذی محرم نہ ہو اور اس حدیث میں ایک دن اور ایک رات کی مدت کا ذکر آیا۔ دن سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد لفظ سفرکا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد بتلانا مقصود ہے یعنی ایک دن رات کی مدت سفر کوشرعی سفر کا ابتدائی حصہ اور تین دن کے سفر کو آخری حصہ قراردیا ہے۔ پھراس سے جس قدر بھی زیادہ ہو پہلے بتلایا جاچکا ہے کہ اہل حدیث کے ہاں قصر کرنا سنت ہے فرض وا جب نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ قصر اللہ کی طرف کا ایک صدقہ ہے جسے قبول کرنا ہی مناسب ہے۔

http://www.kitabosunnat.com/forum/کتب-احادیث-48/مکمل-صحیح-بخاری-اردو-ترجمہ-و-تشریح-جلد-٢-حدیث-نمبر٨١٤-تا-7605/index18.html#post54201
 
Top