ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
نماز کی اہمیت
فرمانِ نبویﷺ (أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامة الصلوۃ فإن صلحت صلح سائر عملہ وإن فسدت فسد سائر عملہ)’’قیامت کے دن بندے سے نماز کے بارے میں پہلاسوال ہوگااگر اس کی نماز درست ہے تو سارے عمل صحیح ہیں اوراگر نماز فاسدہے تو سارے عمل فاسد ہیں۔‘‘سے بھی یہی چیز مترشح ہوتی ہے۔
امامِ اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اسلام اور دیگر مذاہب کے مابین نماز کو حد فاصل قرار دے کر نماز کی اہمیت کو واضح فرما دیا کیونکہ دنیا و عقبیٰ کی کامیابی اور کامرانی کا سرچشمہ نماز ہی ہے۔ ارشادِ الٰہی {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِيْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ}’’مومن لوگ فلاح پاچکے ہیں وہ(مومن)جن کی نمازیں خشوع و خضوع کےساتھ ادا کی گئیں۔‘‘ میں بھی یہی بتلایا گیا ہے۔
خشوع و خضوع اور اُسوۂ رسولﷺ کے مطابق ادا شدہ نماز سے دل میں نور وغنا پیدا ہوتا ہے اور ربّ کائنات کے جاہ و جلال اور اس کی عظمت و کبریائی کی دل میں تخم ریزی ہوتی ہے جو انسان کو صداقت و شرافت، صبر و قناعت، تسلیم و رضا، حلم و بردباری، تواضع و انکساری، عدل وانصاف، وفاشعاری اور احسان مندی جیسے مکارمِ اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہے۔ پھر انسان {رِجَالٌ لَا تُلْھِیْھِم تِجَارَۃ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲ وَإِقَامِ الصَّلٰوۃ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃ …الآية}وہ لوگ جنہیں تجارت اور بیع اللہ کے ذکراور نماز قائم کرنے،زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی،وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔‘‘ کے تحت دنیا و مافیہاسے مستغنی ہوکر کامل یکسوئی کے ساتھ متوجہ اِلی اﷲ ہوتا ہے اور(أن تعبد اﷲ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک)’’اپنے رب کی عبادت کرتے وقت تو یہ گمان کرے کہ تو اپنے اللہ کو دیکھ رہا ہے ،اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ کا مصداق بنتا ہے کیونکہ وہ جملہ اُمور میں اپنا مقصودِ اصلی خالق کائنات کی رضا مندی اور خوشنودی کو گردانتا ہے ۔پھر ان صفات کا حامل نمازی کذب بیانی، ہرزہ سرائی، یاوہ گوئی، غیبت چغلی، خیانت، بدعہدی، تکبر و حسد، ظلم و زیادتی وغیرہ اخلاقِ رذیلہ سے کنارہ کش ہوجاتا ہے کیونکہ {إنَّ الصَّلٰوۃ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ}’’بے شک نماز برے کاموں اور فحاشی سے روکتی ہے۔‘‘
پھر جس طرح اس کا دل عبودیت و فدائیت کا مظہر ہوتا ہے، بعینہٖ اس کے جملہ اعضا بھی مکروہات و منہیات سے کنارہ کش ہو کر مصروفِ عبادت ہوجاتے ہیں جس سے اس کے دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے۔ چہرہ منور اور اس کی روح اَفلاکی بلندیوں پر فائز ہوتی ہے، ایسے انسان کے حرکات و سکنات، جلوس وقعود، اور سمع و بصر مشیت ِالٰہی کے مطابق ہوتے ہیں۔
فرمانِ نبویﷺ (أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامة الصلوۃ فإن صلحت صلح سائر عملہ وإن فسدت فسد سائر عملہ)’’قیامت کے دن بندے سے نماز کے بارے میں پہلاسوال ہوگااگر اس کی نماز درست ہے تو سارے عمل صحیح ہیں اوراگر نماز فاسدہے تو سارے عمل فاسد ہیں۔‘‘سے بھی یہی چیز مترشح ہوتی ہے۔
امامِ اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اسلام اور دیگر مذاہب کے مابین نماز کو حد فاصل قرار دے کر نماز کی اہمیت کو واضح فرما دیا کیونکہ دنیا و عقبیٰ کی کامیابی اور کامرانی کا سرچشمہ نماز ہی ہے۔ ارشادِ الٰہی {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِيْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ}’’مومن لوگ فلاح پاچکے ہیں وہ(مومن)جن کی نمازیں خشوع و خضوع کےساتھ ادا کی گئیں۔‘‘ میں بھی یہی بتلایا گیا ہے۔
خشوع و خضوع اور اُسوۂ رسولﷺ کے مطابق ادا شدہ نماز سے دل میں نور وغنا پیدا ہوتا ہے اور ربّ کائنات کے جاہ و جلال اور اس کی عظمت و کبریائی کی دل میں تخم ریزی ہوتی ہے جو انسان کو صداقت و شرافت، صبر و قناعت، تسلیم و رضا، حلم و بردباری، تواضع و انکساری، عدل وانصاف، وفاشعاری اور احسان مندی جیسے مکارمِ اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہے۔ پھر انسان {رِجَالٌ لَا تُلْھِیْھِم تِجَارَۃ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲ وَإِقَامِ الصَّلٰوۃ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃ …الآية}وہ لوگ جنہیں تجارت اور بیع اللہ کے ذکراور نماز قائم کرنے،زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی،وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔‘‘ کے تحت دنیا و مافیہاسے مستغنی ہوکر کامل یکسوئی کے ساتھ متوجہ اِلی اﷲ ہوتا ہے اور(أن تعبد اﷲ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک)’’اپنے رب کی عبادت کرتے وقت تو یہ گمان کرے کہ تو اپنے اللہ کو دیکھ رہا ہے ،اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ کا مصداق بنتا ہے کیونکہ وہ جملہ اُمور میں اپنا مقصودِ اصلی خالق کائنات کی رضا مندی اور خوشنودی کو گردانتا ہے ۔پھر ان صفات کا حامل نمازی کذب بیانی، ہرزہ سرائی، یاوہ گوئی، غیبت چغلی، خیانت، بدعہدی، تکبر و حسد، ظلم و زیادتی وغیرہ اخلاقِ رذیلہ سے کنارہ کش ہوجاتا ہے کیونکہ {إنَّ الصَّلٰوۃ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ}’’بے شک نماز برے کاموں اور فحاشی سے روکتی ہے۔‘‘
پھر جس طرح اس کا دل عبودیت و فدائیت کا مظہر ہوتا ہے، بعینہٖ اس کے جملہ اعضا بھی مکروہات و منہیات سے کنارہ کش ہو کر مصروفِ عبادت ہوجاتے ہیں جس سے اس کے دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے۔ چہرہ منور اور اس کی روح اَفلاکی بلندیوں پر فائز ہوتی ہے، ایسے انسان کے حرکات و سکنات، جلوس وقعود، اور سمع و بصر مشیت ِالٰہی کے مطابق ہوتے ہیں۔