امام مالک اور نماز میں فرض،سنت اور نفل کا مسئلہ
حافظ ذہبی نے فرمایا :
قال أبو عبد الله محمد بن إبراهيم البوشنجي: سمعت عبد الله بن عمر ابن الرماح، قال: دخلت على مالك، فقلت: يا أبا عبد الله، ما في الصلاة من فريضة ؟ وما فيها من سنة ؟ أو قال نافلة، فقال مالك: كلام الزنادقة، أخرجوه.
ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم(بن سعید بن عبدالرحمٰن)البوشنجی(ثقہ حافظ فقیہ)نے کہا:میں نے عبداللہ بن عمر بن(میمون بن)الرماح(بلخ کے قاضی) سے سنا،انھوں نے کہا:
میں (امام)مالک (بن انس المدنی)کے پاس گیا تو پوچھا:
اے ابو عبداللہ!نماز میں کیا فرض ہیں اور کیا سنت ہیں؟یا کہا:کیا نفل ہیں؟تو (امام)مالک(بن انس المدنی) نے فرمایا:زندیقوں کا کلام ہے۔اسے باہر نکال دو۔
(سیر اعلام النبلاءح٨ص١١٣-١١٤،تاریخ الاسلام للذہبی ٣٢٧ / ١١،وسندہ صحیح)
اس واقعے سے ثابت ہوا کہ نماز کے ہر مسئلے کے بارے میں فرض،سنت اور واجب وغیرہ کا سوال کرنا اہل سنت کا منہج نہیں بلکہ اہل بدعت کا طریقہ ہے۔نیز دیکھئے مسائل امام احمد و اسحاق(روایۃ الکوسج ١٣٢-١٣٣ / ١ت١٨٩اور الحدیث:١٣ص٤٩)
(ماہنامہ الحدیث،شمارہ نمبر ٧٨،ص٣٥-٣٦،ملخصا)