• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نواب صديق حسن خان رح كا موقف فاتحہ خلف الامام پر کیا ہے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے گزارش ہے کہ مجھے نواب صاحب رح کا موقف بتلائیں فاتحہ خلف الامام پر اور یہ بھی بتلا دیں کہ سورہ اعراف آیت ۲۰۵ اور ۲۰۴ کی تفسیر میں کہیں فاتحہ کی فرضیت پر کچھ لکھا ہے انھوں نے فتح البیان میں یا نہیں

مدد کریں

جزاک اللہ خیراً
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نواب صدیق حسن خان نے یہی مؤقف اختیار کیاہے کہ سورہ فاتحہ خلف امام بھی نماز کا رکن، فرض، اور نماز کے ہونے کے لئے شرط ہے۔
مزید احناف کے مؤقف کی تردید بھی کی ہے۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نواب صدیق حسن خان نے یہی مؤقف اختیار کیاہے کہ سورہ فاتحہ خلف امام بھی نماز کا رکن، فرض، اور نماز کے ہونے کے لئے شرط ہے۔
مزید احناف کے مؤقف کی تردید بھی کی ہے۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

پیارے بھائی جان عربی عبارت اور ترجمہ اور حوالہ عنایت کر دیں بڑی مہربانی ہوگی

جزاک اللہ خیراً
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نواب صاحب نے اس سلسلے میں لمبی چوڑی بحث کی ہے ، جس میں سے ایک دو اقتباسات کا ترجمہ ملاحظہ کرلیں :
نواب صاحب نے علامہ شوکانی کا ایک قول نقل کیا ہے :
قال الشوكاني: واختلف في القراءة خلف الإمام سراً وجهراً وقد وردت السنة المطهرة بقراءة سورة الفاتحة خلفه مخرجة في الصحيحين وغيرهما فالآية في غير الفاتحة وقد جاءنا بها من جاء بالقرآن ۔ ( فتح البیان ج 5 ص 121 )
شوکانی کہتے ہیں : سری و جہری دونوں نمازوں میں قراءت خلف الامام میں اختلاف ہے ، سنۃ مطہرۃ میں یہ بات وارد ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی جائے ، لہذا آیت ( و إذا قرئ القرآن ۔۔۔ ) کا تعلق غیر فاتحہ کے علاوہ قراءت کے ساتھ ہوگا ، کیونکہ جس نبی نے ہم تک یہ آیت پہنچائی ہے ، اسی نے ہی فاتحہ خلف الامام کا حکم دیا ہے ۔
اس سے پہلے ایک جگہ لکھتے ہیں :
وأما قوله تعالى: (فاستمعوا له وأنصتوا) فقد مر الجواب عنه وهو أيضاً عام وحديث عبادة خاص، ويؤيد ذلك الأحاديث المتقدمة والآتية القاضية بوجوب قراءة فاتحة الكتاب في كل ركعة من غير فرق بين الإمام والمؤتم ( فتح البیان ج 5 ص 118 )
آیت میں جو استماع و انصات کا حکم ہے ، اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے ، اور ویسے بھی یہ آیت عام ہے ، جبکہ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث خاص ہے ، اور اس کی تائید میں دیگر احادیث بھی ہیں ، کچھ گزر چکی ، کچھ آئندہ صفحات میں ملیں گی ، جو ہر رکعت میں فاتحہ کے وجوب کی دلیل ہیں ، اور اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں ۔
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :
أن الفاتحة من شروط صحة الصلاة لا من واجباتها فقط لأن عدمها يستلزم عدم الصلاة ( فتح البیان ج 5 ص 115 )
قراءت فاتحہ صحت نماز کی شروط میں سے ہے ، صرف واجبات میں سے نہیں ، کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی ۔
اور آیت و إذا قرئ القرآن کے بارے میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت عام ہے ، یعنی جب بھی قرآن مجید کی قراءت ہورہی ہو تو خاموش ہونا لازمی ہے ۔ البتہ آیت کے اس عموم کی وجوب فاتحہ کی احادیث سے تخصیص ہوجاتی ہے ۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
نواب صاحب نے اس سلسلے میں لمبی چوڑی بحث کی ہے ، جس میں سے ایک دو اقتباسات کا ترجمہ ملاحظہ کرلیں :
نواب صاحب نے علامہ شوکانی کا ایک قول نقل کیا ہے :
قال الشوكاني: واختلف في القراءة خلف الإمام سراً وجهراً وقد وردت السنة المطهرة بقراءة سورة الفاتحة خلفه مخرجة في الصحيحين وغيرهما فالآية في غير الفاتحة وقد جاءنا بها من جاء بالقرآن ۔ ( فتح البیان ج 5 ص 121 )
شوکانی کہتے ہیں : سری و جہری دونوں نمازوں میں قراءت خلف الامام میں اختلاف ہے ، سنۃ مطہرۃ میں یہ بات وارد ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی جائے ، لہذا آیت ( و إذا قرئ القرآن ۔۔۔ ) کا تعلق غیر فاتحہ کے علاوہ قراءت کے ساتھ ہوگا ، کیونکہ جس نبی نے ہم تک یہ آیت پہنچائی ہے ، اسی نے ہی فاتحہ خلف الامام کا حکم دیا ہے ۔
اس سے پہلے ایک جگہ لکھتے ہیں :
وأما قوله تعالى: (فاستمعوا له وأنصتوا) فقد مر الجواب عنه وهو أيضاً عام وحديث عبادة خاص، ويؤيد ذلك الأحاديث المتقدمة والآتية القاضية بوجوب قراءة فاتحة الكتاب في كل ركعة من غير فرق بين الإمام والمؤتم ( فتح البیان ج 5 ص 118 )
آیت میں جو استماع و انصات کا حکم ہے ، اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے ، اور ویسے بھی یہ آیت عام ہے ، جبکہ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث خاص ہے ، اور اس کی تائید میں دیگر احادیث بھی ہیں ، کچھ گزر چکی ، کچھ آئندہ صفحات میں ملیں گی ، جو ہر رکعت میں فاتحہ کے وجوب کی دلیل ہیں ، اور اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں ۔
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :
أن الفاتحة من شروط صحة الصلاة لا من واجباتها فقط لأن عدمها يستلزم عدم الصلاة ( فتح البیان ج 5 ص 115 )
قراءت فاتحہ صحت نماز کی شروط میں سے ہے ، صرف واجبات میں سے نہیں ، کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی ۔
اور آیت و إذا قرئ القرآن کے بارے میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت عام ہے ، یعنی جب بھی قرآن مجید کی قراءت ہورہی ہو تو خاموش ہونا لازمی ہے ۔ البتہ آیت کے اس عموم کی وجوب فاتحہ کی احادیث سے تخصیص ہوجاتی ہے ۔
بہت بہت شکریہ بھائی جان

اللہ آپ کو خوش رکھے آپ کو خوب ترقی دے اور علم میں مزید اضافہ کرے آمین

جزاک اللہ خیراً
 
Top