نواب صاحب نے اس سلسلے میں لمبی چوڑی بحث کی ہے ، جس میں سے ایک دو اقتباسات کا ترجمہ ملاحظہ کرلیں :
نواب صاحب نے علامہ شوکانی کا ایک قول نقل کیا ہے :
قال الشوكاني: واختلف في القراءة خلف الإمام سراً وجهراً وقد وردت السنة المطهرة بقراءة سورة الفاتحة خلفه مخرجة في الصحيحين وغيرهما فالآية في غير الفاتحة وقد جاءنا بها من جاء بالقرآن ۔ ( فتح البیان ج 5 ص 121 )
شوکانی کہتے ہیں : سری و جہری دونوں نمازوں میں قراءت خلف الامام میں اختلاف ہے ، سنۃ مطہرۃ میں یہ بات وارد ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی جائے ، لہذا آیت ( و إذا قرئ القرآن ۔۔۔ ) کا تعلق غیر فاتحہ کے علاوہ قراءت کے ساتھ ہوگا ، کیونکہ جس نبی نے ہم تک یہ آیت پہنچائی ہے ، اسی نے ہی فاتحہ خلف الامام کا حکم دیا ہے ۔
اس سے پہلے ایک جگہ لکھتے ہیں :
وأما قوله تعالى: (فاستمعوا له وأنصتوا) فقد مر الجواب عنه وهو أيضاً عام وحديث عبادة خاص، ويؤيد ذلك الأحاديث المتقدمة والآتية القاضية بوجوب قراءة فاتحة الكتاب في كل ركعة من غير فرق بين الإمام والمؤتم ( فتح البیان ج 5 ص 118 )
آیت میں جو استماع و انصات کا حکم ہے ، اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے ، اور ویسے بھی یہ آیت عام ہے ، جبکہ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث خاص ہے ، اور اس کی تائید میں دیگر احادیث بھی ہیں ، کچھ گزر چکی ، کچھ آئندہ صفحات میں ملیں گی ، جو ہر رکعت میں فاتحہ کے وجوب کی دلیل ہیں ، اور اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں ۔
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :
أن الفاتحة من شروط صحة الصلاة لا من واجباتها فقط لأن عدمها يستلزم عدم الصلاة ( فتح البیان ج 5 ص 115 )
قراءت فاتحہ صحت نماز کی شروط میں سے ہے ، صرف واجبات میں سے نہیں ، کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی ۔
اور آیت و إذا قرئ القرآن کے بارے میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت عام ہے ، یعنی جب بھی قرآن مجید کی قراءت ہورہی ہو تو خاموش ہونا لازمی ہے ۔ البتہ آیت کے اس عموم کی وجوب فاتحہ کی احادیث سے تخصیص ہوجاتی ہے ۔