• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نواقض الاسلام میں سے پہلا ناقض - شرک کرنا

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
نواقض الاسلام میں سے پہلا ناقض - شرک کرنا

شرک کی دو قسمیں ہیں :
  1. الشرک الاکبر
  2. الشرک الاصغر

شرک کی پہلی قسم: الشرک الاکبر

تعریف الشرک الأکبر : شرک لغت میں مقارنة پر دلالت کرتا ہے اور یہ اکیلے ہونے کی ضد ہے ۔ اور مقارنة کا معنی ہے کہ کوئی شے دو ، تین یا اس سے زیادہ کے درمیان اس طرح سے موجود ہو کہ ان میں سے کوئی الگ نہ ہو۔ کہا جاتا ہے "لا تشرك بالله" یعنی کسی غیر کو اللہ کے برابر نہ کرو کہ تم اسے اللہ کا شریک بنادو ؛ پس جس شخص نے کسی کو اللہ کے برابر کیا تو گویا اس نے اس کو اللہ کا شریک بنایا ۔

اور اصطلاح میں شرک کی تعریف یہ ہے کہ بندہ اللہ کا کوئی ہم مثل بنالے جسے وہ اللہ کی ربوبیت ؛ الوہیت اور اسماء وصفات میں اسکی براربری دیتا ہو ۔

شرک کا حکم: اللہ کی جتنی نافرمانیاں کی جاتی ہیں شرک ان میں سب سے عظیم اور کبائر میں سب سے کبیرہ گناہ اور سب سے بڑا ظلم ہے ۔ کیونکہ شرک کہتے ہیں کہ خالص اللہ کے حق کو ( جو کہ عبادت ہے ) کسی غیر کے لیئے انجام دینا ؛ اور اسکی صفات مختصہ میں سے کسی صفت کے ساتھ غیر کو متصف کرنا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ [سورة لقمٰن: 13]
”بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔“

اسی بنا پر شریعت نے اس شرک کے سبب بہت سے آثار (انجام) اور سزاؤں کو مرتب کیا ہے؛ جن میں سے اہم اہم درج ذیل ہیں :

1. اللہ تعالی اس شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اگر اس کا مرتکب بغیر توبہ کے مرگیا۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا [سورة النساء: 116]
”اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، ہاں شرک کے علاوه گناه جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔“

2. اس شرک کا ارتکاب کرنے والا دین سے خارج ہوجاتا ہے اور اس کا خون ومال حلال ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ [سورة التوبہ: 5]
پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصره کرلو .

3. اللہ تعالی مشرک کے کسی عمل کو قبول نہیں کرتا اور جو اس کے گذشتہ اعمال ہوں گے انہیں بھی اللہ فضاء میں بکھرے ہوئے ذرات کی مانند بنادے گا۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا [سورة الفرقان: 23]
”اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا ۔“

4. ایک مشرک کا مسلمان عورت سے نکاح حرام ہے، جیسا کہ ایک مسلمان کا مشرکہ عورت سے نکاح حرام ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ١ؕ وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْ١ۚ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا١ؕ وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ١ؕ [سورة البقرة: 221]
”اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وه ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو، ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک کہ وه ایمان نہ لائیں، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے۔“

اس حکم سے اہل کتاب ( یہود ونصاری ) کی عورتیں مستثنیٰ ہیں ضوابط شرعیہ کے ساتھ ۔

5. جب مشرک مرجائے تو نہ اسے غسل دیا جائے گا نہ کفن ؛ نہ اس پر جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؛ بلکہ لوگوں سے دور کسی جگہ پر گڑھا کھودا جائے گا اور اس میں دفن کردیا جائے گا تاکہ لوگوں کو اسکی بدبو سے تکلیف نہ پہنچے۔

6. مشرک پر جنت میں داخل ہونا حرام ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا ۔
ہم اللہ سے عافیت اور سلامتی مانگتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ [سورة المائدة: 72]
”یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔“

شرک اکبر کی اقسام

شرک اکبر کی تین بنیادی قسمیں ہیں :

شرک اکبر کی پہلی قسم: ربوبیت میں شرک کرنا: یعنی کہ اللہ کی بادشاہت؛ نظام چلانے؛ اس کے پیدا کرنے؛ اس کے خود مختار رزق دینے میں جو (صرف اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے لائق ہے) کسی غیر کا حصہ مقرر کرنا ؛ اور یہ شرک کبھی قول کے ذریعہ ہوتا ہے کبھی فعل کے ذریعہ اور کبھی اعتقاد کے ذریعہ ہوتا ہے ۔

ربوبیت میں شرک کی صورتیں :

1. نصاری کا شرک جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے اور مجوسیوں کا شرک جو اس بات کے قائل ہیں کہ خیر کے حوادث( واقعات ) منسوب ہیں نور کی طرف اور یہ ان کے نزدیک الاله الـمحمود ( ایسا الہ جس کی تعریف کی جاتی ہے ) ہے اور یہ شر کے حوادث کو ظلمہ (اندھیرے) کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

2. کہانت اور علم نجوم :
یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تبارک وتعالی کے علاوہ بھی کوئی ہے جو غیب کا علم رکھتا ہے اور وہ لوگ بھی اسی شرک کے مرتکب ہیں جو لوگ پیروی کرتے ہیں (ان تحریروں کی) جو اس نام سے آتی ہیں ( آج کے دن آپ کے ستارے ؛ آپ اور آپ کے ستارے وغیرہ وغیرہ )۔

3. بہت سے غالی صوفی ؛ روافض ؛ قبروں کے پجاریوں کا شرک جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مُردوں کی روحیں موت کے بعد تصرف کا اختیار رکھتی ہیں؛ وہ حاجات پوری کرتی ہیں؛ اور تکلیفیں دور کرتی ہیں ؛ اور وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے بعض مشائخ کائنات میں تصرف کا اختیار رکھتے ہیں اور جو بندہ ان سے فریاد کرے اگرچہ ان کے سامنے موجود نہ ہو وہ فریاد رسی کرتے ہیں ۔

4. وہ لوگ جو دستور اور وضعی قوانین بناتے ہیں اور لوگوں پر لازم کرتے ہیں کہ وہ اس کی طرف فیصلے لے کر آئیں ( یہ بھی ربوبیت میں شرک کی صورت ہے ) پس ایسے لوگ اس فرعون کی طرح ہیں جس نے یہ دعوی کیا تھا کہ أنا ربكم الأعلي
(میں تمہارا بلند وبرتر رب ہوں

شرک اکبر کی دوسری قسم: اسماء وصفات میں شرک کرنا: اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کا کوئی ہم مثل بنانا اس کے اسماء وصفات میں سے کسی اسم یا صفت میں ؛ یا اللہ تعالی کے لئے مخلوق کی صفات میں سے کوئی صفت بیان کی جائے ؛ اور یہ شرک کبھی قولا ہوتا ہے ؛ کبھی فعلاً اور کبھی اعتقادا ً۔

پس چنانچہ جو شخص اللہ کے علاوہ کسی کو اس کے ناموں میں سے کسی نام سے موسوم کرتا ہے یا اسے اللہ کی صفات خاصہ میں سے کسی صفت سے متصف کرتا ہے تو ایسا شخص اس کے اسماء وصفات میں شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اللہ کے لئے مخلوق کی صفات میں سے کوئی صفت بیان کرتا ہے تو وہ بھی اللہ کی صفات میں شرک کا ارتکاب کرتا ہے اور اس شرک کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1. بعض روافض اور بعض غالی صوفیوں کا یہ عقیدہ رکھنا کہ بعض زندہ اور مردہ لوگ ہر جگہ اور ہر وقت ان کی دعاؤں کو سنتے ہیں۔

2. علم غیب کا دعوی کرنا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی غیب جانتا ہے ؛ پس ہر وہ شے، جس کے بارے مخلوق کو باخبر نہ کیا گیا ہو اور حواس خمسہ میں سے کسی کے ذریعہ اس کا ادراک نہ ہوسکتا ہو وہ علم غیب ہوتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ [سورة النمل:65]
”کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟“

پس چنانچہ جو شخص یہ دعوی کرے کہ مخلوق میں سے کوئی غیب کا علم رکھتا ہے وہ اس شرک اکبر میں پڑچکا ہے جو دین سے خارج کر دیتا ہے ۔ غیر اللہ کے لئے علم غیب کا دعوی کرکے شرک کرنے کی مثالیں درج ذیل ہیں :

(ألف) یہ عقیدہ رکھنا کہ بعض اولیاء اور صالحین غیب کا علم رکھتے ہیں ؛ اور یہ عقیدہ روافض اور صوفیاء کے ہاں پایا جاتا ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ انبیاء اور مردوں سے فریاد کرتے ہیں ؛ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہیں ان کے حالات کا علم ہے اور ان کی باتوں کو سنتے ہیں ؛ یہ تمام باتیں شرک اکبر میں سے ہیں جو دین سے خارج کر دیتا ہے ۔

(ب) الكهانة: کاہن وہ شخص ہے جو علم غیب کا دعوی کرے؛اور اس کے مثل اور اس کے قریب قریب درج ذیل لوگ بھی ہیں: ” العراف“ (نجومی ستارے دیکھ کر لوگوں کے احوال بتانے والا ) ”الرمال“ (علم رمل جاننے والا) ”السحرة“ ( جادو گر ) اور ”الکھان“ ( غیب کا دعویدار) پس چنانچہ جو شخص یہ دعوی کرے کہ وہ بغیر کسی خبر دینے والے کے وہ اپنے سے غائب چیزوں کا علم رکھتا ہے ؛ یا وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ کوئی واقعہ ہونے سے پہلے اسے پتا ہوتا ہے، ایسا شخص شرک اکبر کا مرتکب ہے خواہ وہ یہ دعوی کرے کہ اسے یہ علم کنکریوں کے ذریعہ حاصل ہوا ہے یا ہاتھوں کی لکیروں کو پڑھ کر حاصل ہوا ہے یا پھر پیالیوں میں دیکھنے سے یا اس کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے۔ بہر صورت یہ شرک ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من أتي كاهنا أو عرافا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أ نزل علي محمد۔ [رواه احمد والحاكم]
”جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آیا اور اس کی بات کو سچا مانا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ شریعت کے ساتھ کفر کیا۔“

شرک اکبر کی تیسری قسم: الوہیت میں شرک کرنا:
یعنی کوئی عبادت اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی کے لئے انجام دینا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی عبادت کا حق رکھتا ہے۔ یہ شرک بھی کبھی قولاً ہوتا ہے، کبھی فعلاً اور کبھی اعتقاداً۔

1. قولاً کی مثال جیسے دعاء کرنا؛ نذر ماننا؛ اللہ تبارک وتعالی کے علاوہ کسی سے فریاد کرنا۔

2. فعلاً کی مثال جیسے سجدہ کرنا ؛ غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا ؛ قبروں کا طواف کرنا؛ جو شخص یہ کام کرتا ہے وہ شرک اکبر میں واقع ہوچکا ہے ۔اگرچہ وہ اس بات کا اظہار کرے کہ وہ مسلمین میں سے ہے۔

3. اعتقاداً کی مثال جیسے خوف ؛ شرکیہ محبت ؛ اللہ تبارک وتعالی کے سوا کسی پر توکل کرنا۔

شرک کی دوسری قسم: الشرک الاصغر

وہ چیز جسے شرع نے شرک کا نام دیا ہو اور دلیل سے یہ ثابت ہو کہ وہ خارج عن الملت نہ ہو ؛ یہ شرک توحید میں نقص ڈالتا ہے۔ لیکن دین سے خارج نہیں کرتا؛ اس شرک کے مرتکب کا حکم وہی ہے جو گنہگار موحدین کا حکم ہے؛ اس کا خون اور مال حلال نہیں ہے؛ اور یہ شرک اس عمل کو برباد کردیتا ہے جس کے ساتھ اس کا ملاپ ہوجائے؛ جیساکہ کوئی شخص ایک عمل اللہ کے لئے کرے اور اس پر لوگوں کی تعریف کی چاہت بھی رکھے؛ اور جیساکہ کوئی شخص لوگوں کو دکھانے ؛ سنانے اور ان سے تعریف حاصل کرنے لئے نماز کو اچھے طریقہ سے پڑھے یا صدقہ کرے یا روزہ رکھے یا اللہ کا ذکر کرے ؛ یہ ریا کاری ہے اور جس عمل کے ساتھ یہ شامل ہو جائے اس عمل کو برباد کر دیتی ہے۔

اس شرک اصغر کی مثال یہ بھی ہے جیسا کہ کوئی اللہ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھائے؛ اور اس شرک اصغر کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ایک انسان یوں کہے : ماشاء اللہ وشاء فلان جو اللہ اور فلان چاہے ؛ یا کہے : لو لا اللہ وفلان اگر اللہ اور فلان نہ ہوتے یا کہے : هذا من الله و فلان یہ اللہ اور فلان کی طرف سے ہے یا کہے مالي الا الله و فلان میرے لئے تو اللہ اور فلان کافی ہیں اور اس جیسے دیگر کلمات بلکہ یہ کہنا واجب ہے: ماشاء الله ثم شاء فلان جو اللہ چاہے اور پھر فلان چاہے۔

تنبیہ : شرک اصغر کبھی شرک اکبر میں تبدیل ہوجاتا ہے اس لیئے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرے۔

شرک کی وہ صورتیں جن سے بچنا چاہیئے :

1. کسی مصیبت کو دور کرنے اور ختم کرنے لئے کڑا، دھاگہ یا اس جیسی کوئی چیز پہننا۔

2. اپنے بچوں پر نظر بد سے بچانے کے لئے تعویذ لٹکانا ، خواہ وہ موتیوں سے بنایا گیا ہو یا ہڈیوں سے یا لکھ کر بنایا جائے۔

3. بدشگونی لینا : یعنی پرندوں ، اشخاص یا جگہوں وغیرہ سے بد شگونی لینا ؛ یہ شرک ہے کیونکہ اس میں غیر اللہ سے تعلق کا عقیدہ رکھتے ہوئے جوڑا گیا ہے کہ ایسی مخلوق سے نقصان حاصل ہوتا ہے جو خود اپنے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتی ہے اور یہ( بد شگونی ) شیطان کی طرف سے القاء اور وسوسہ ہے ؛ اور توکل کے منافی ہے۔

4. درختوں ؛ پتھروں ؛ آثار قدیمہ ؛ اور قبروں وغیرہ سے برکت حاصل کرنا ؛ پس ان اشیاء سے برکت طلب کرنا اور اس کی امید رکھنا اور اس کے حاصل ہونے کا عقیدہ رکھنا؛ یہ شرک ہے، کیونکہ اس میں حصول برکت کے لئے غیر اللہ سے تعلق جوڑا جاتا ہے ۔

5. علم نجوم اور وہ یہ ہے کہ زمینی واقعات اور اشیاء حسیہ پر ستاروں سے راہنمائی لینا ۔

علم نجوم کی اقسام درج ذیل ہیں :

اولا ً: علم التأثیر :
زمینی حادثات و واقعات پر ستاروں کے اثر انداز ہونے کا عقیدہ رکھنا ؛ جیسا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ ستارہ اثر انداز ہوتا ہے اور پیدا کرتا ہے اور مارتا ہے ۔ یہ عقیدہ کفر اکبر ہے ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ [سورة الاعراف: 54]
”یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔“

یا پھر ستاروں کی حرکات سے غیبی امور اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات پر راہنمائی لینا، جیساکہ یوں کہنا : جو شخص ستارہ جوزاء کے وقت پیدا ہوتا ہے وہ بہت خوش قسمت ہوتا ہے ؛ اور جو سنبلہ ستارے میں شادی کرے گا اس کی شادی ناکام ہوتی ہے ؛ یہ بھی کفر اور شرک اکبر ہے ؛ کیونکہ یہ علم غیب کا دعویٰ ہے ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ [سورة النمل: 65]
”کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟“

ثانیاً : علم التیسیر:
ستاروں کے چلنے سے مصالح دینیہ پر راہنمائی لینا، جیساکہ قبلہ کی سمت کی معرفت اور نماز کا وقت داخل ہونے کی معرفت ؛ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ فرض کفایہ ہے اور جسے ضرورت ہو اس کے لئے اس کا سیکھنا مستحب ہے ؛ اور ان ستاروں کی چال سے دنیاوی مصالح پر راہنمائی لینے کا بھی یہ ہی معاملہ ہے۔ جیسا کہ راستوں اور سمتوں کی معرفت حاصل کرنا ۔

6. ستاروں سے بارش طلب کرنا: ستاروں کے ذریعہ بارش کا طلب کرنا؛ مختلف عقیدوں کی بنا پر اس کا حکم بھی مختلف ہوتا ہے اور وہ مختلف عقیدے درج ذیل ہیں :

❐ یہ عقیدہ رکھنا کہ ستارہ ہی بارش کا موجد اور نازل کرنے والا ہے؛ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ ربوبیت کے معاملہ میں شرک اکبر ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ [سورة فاطر: 3]
”کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے؟“

یہ استفہام نفی کے معنی میں ہے یعنی کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے؛ اور جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ستارہ ہی بارش کا موجد ہے تو گویا وہ اس کے خالق ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے؛ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ ہی اکیلا خالق ہے ۔

❐ یہ عقیدہ نہ رکھنا کہ ستارہ بارش کا خالق ہے، لیکن ستارہ سے دعا کرنا اور اس سے بارش کے نزول کی فریاد کرنا؛ یہ الوہیت کے معاملہ میں شرک اکبر ہے ؛ کیونکہ اس میں غیر اللہ سے ایسی چیز کی دعا کرنا ہے جس پر اللہ کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا ؛ جیسا کہ یوں کہنا: اے ستارے! ہمیں پانی پلا اور ہم پر بارش نازل کر؛ اور جیسےعرب ستاروں سے مانگا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَ اَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى ۙ[سورة النجم: 49]
”اور یہ کہ وہی شعریٰ (ستارے) کا رب ہے۔“

اور اس کے شرک اکبر ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًاۙ [سورة الجن: 18]
”اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔“

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَ مَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ١ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ [سورة المؤمنون: 117]
”جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بے شک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔“

❐ سبب کی نسبت کرنا : ستارے کو بارش کا سبب قرار دینا اور حقیقی فاعل اللہ کو ہی ماننا ؛ کسی ستارے کا طلوع ہونے یا غروب ہونے کو بارش کے نزول کے بعد اس کے موسلادھار ہونے کا سبب قرار دینا ۔

اسکا حکم : یہ شرک اصغر اور کفر کے اعتبار سے کفر اصغر ہے ؛ اور اسے کفران نعمت کہا جاتا ہے ۔

❐ غیب کی خبر دینے کی نسبت کرنا ؛ جیسا کہ یہ بیان کرنا کہ جب فلان ستارہ طلوع ہوگا تو بارش برسے گی ؛ یہ شرک اکبر ہے کیونکہ اس میں غیبی معاملات کی خبر دینا ہے اور یہ وہی کام ہے جو نجومی کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ [سورة النمل: 65]
”کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟“

یہ قسم سابقہ قسم سے ملتی جلتی ہے اور اس کے اور پچھلی قسم کے درمیان فرق یہ ہے کہ اس میں ایسے امر کے بارے میں خبر دی جاتی ہے جو مستقبل میں پیش آنا ہے؛ جبکہ سابقہ قسم میں یہ تھا کہ بارش کے نازل ہونے کے بعد اس کی نسبت ستارے کی طرف کی جاتی ہے (بطور سبب) اور ان دونوں قسموں کے حکم میں بھی فرق ہے۔ پھلی قسم کا حکم کفر اصغر تھا ؛ اور اس کا حکم کفر اکبر ہے ۔

❐ وقت کی نسبت کرنا : کسی ستارے کے طلوع ہونے کے وقت کو بارش کے نزول کا وقت قرار دینا ؛ اس میں ستارے کو نہ سبب قرار دیا جاتا ہے نہ موجد اور خالق؛ بلکہ اس میں بس یہ ہے جس وقت فلان ستارہ نکلتا ہے وہ بارش کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ کہنا : ہمارے ہاں بارش کے نزول کا وقت وہ ہوتا ہے جس وقت ثریا ستارہ نکلتا ہے یا بارش کا نزول ہوتا ہے جب سہیل ستارہ نکلتا ہے جوکہ ایک معروف ستارہ ہے۔

اس کے حکم میں اختلاف ہے اور اس بارے میں دو قول ہیں:بعض اہل علم اس کو جائز قرار دیتے ہیں ؛ اور بعض اسے نا پسند کرتے ہیں اور اسے سد الذریعہ کے باب میں شامل کرتے ہیں۔

7. زمانہ کو برا کہنا: کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع ہونے یا تکلیف دہ حادثات کی بناپر زمانہ کو گالی دینا؛ اور یہ حرام ہے؛اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ یہ زمانہ ان حوادث کا فاعل ہے تو یہ شرک اکبر ہے۔

8. ایسی جگہ پر اللہ کی عبادت کرنا جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہو، جیسا کہ ایسی جگہ پر جانور ذبح کرنا جہاں غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جاتا ہو۔ یہ ممنوع ہے؛ اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا یہ تو شرک اکبر ہے۔
 
Top