کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
نوجوانوں سے مطلوب
اسلام کی خدمت کے لیے جوانی کا دَور بہترین دَور ہے بشرطیکہ نوجوان اپنی اُبلتی، اُچھلتی، اُمڈتی، ذہنی اور جذباتی قوتوں کو منضبط رکھیں۔ کلامِ عظیم شاہد ہے کہ انبیا کرام علیہم السلام کی دعوت پر لبیک کہنے والے اکثر نوجوان ہی تھے۔ سیدنا نوح، موسیٰ، عیسیٰ پر ایمان لانے والے، اسی طرح اصحاب الکہف ـ جن کا ذکر خیر جزوِ قرآن بنا دیا گیا ـ نوجوان ہی تھے۔ نوجوانوں کے اذہان چونکہ تازہ ہوتے ہیں، قوتِ فیصلہ بھی متحرک ہوتی ہے اس لیے فوری فیصلہ کرنا ان کے لیے آسان ہوتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جب نوجوانوں میں انقلاب کی سوچ پیدا ہوتی ہے، جس سے معاشرے کی اصلاح کا کام لیا جا سکتا ہے۔
احادیث ِمبارکہ کے مطابق ایسے جسور وغیور نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے، کیونکہ طاقت وہمت کے باوجود انہوں نے نفس ِامارہ کو روکے رکھا۔نوجوانوں کی اہمیت کا اندازہ حضور گرامیﷺ کے ولولہ انگیز انقلاب سے لگایا جاسکتا ہے، ہراول دستہ پر اُمڈتا اور اُبلتا ہوا تازہ خون ہی تھا جس نے اس کے لیے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں جو نوجوانوں کے لیے ایک لائحہ عمل ہے۔ اگر اس کی بنیاد پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو مرضیاتِ الٰہی میں جکڑ لیا تھا۔
جوانی کی تیز وتند موجوں کو خوفِ الٰہی سے مسخر کر لینا وہ کمال ہے جس کے نتائج وثمرات بڑے بابرکت و باعظمت ہیں۔ اگر یہی تابڑ توڑ موجیں اخلاقی حدود سے اچھل کر باہر آجائیں تو ایسی بے لگام موجیں تباہی کا باعث بھی ہو سکتی ہیں۔ ماہرین نفسیات وسماجیات اس بات پر متفق ہیں کہ ۱۷ سے ۲۷ سال کی عمر میں سب سے زیادہ بے خوفی اور جرأت کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ نوجوان طلبہ کی قوت وہمت بہت زیادہ ہے، لیکن جب ہم اُسلوبِ نبوت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کامل انسان چالیس سال تک ہوتا ہے اور اس کے کندھے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ قیادت کے بارِ گراں کو اپنے کندھوں پر اُٹھا سکے۔لیکن اگر آج کے نوجوان اسی جوانی وجوش میں ڈوب کر سلف صالحین کو تاریک ذہن اور دقیانوس سمجھنا شروع کردیں، ان کے بہترین اور روشن عہد کو دورِ جاہلیت سے تعبیر کریں، علم وتقویٰ کے حصول سے بے نیاز ہو جائیں، عبادت وذکر الٰہی میں سکون ڈھونڈنے کی بجائے بازاروں، تفریح گاہوں اور ’لہو الحدیث‘ وغیرہ میں دادِ عیش دیں تو وہ سعادت وقیادت کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ نوجوان اسلام کے داعی اور خادم اُسی وقت بن سکتے ہیں جب اُن کا کردار اُسوۂ یوسف ’’ مَعَاذَ اﷲ إِنَّہٗ رَبَِيٓ أَحْسَنَ مَثْوَايَ ‘‘ کی عملی تصویر ہو۔
اے پاسبانو!نوجوانوں کو خالد بن ولی کی مثال سامنے رکھنی چاہئے کہ سیدنا ابو بکر نے انہیں آگے بڑھایا جبکہ سیدنا عمر نے بعض وجوہات کی بنا پر یک لخت پیچھے ہٹا دیا، لیکن وہ اَدب سے سر جھکائے عام سپاہی کی جگہ کھڑے ہیں۔ سیدنا خالدنے ایک عظیم مثال چھوڑی ہے جس سے ہر صاحب ِصلاحیت نوجوان کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اگر جوانی کی اس پرجوش زندگی کی تربیت نہ ہوئی تو سنبھلنا مشکل ہو جائے گا، پھر جوانی ایک منہ زور گھوڑے کا روپ دھار لیتی ہے۔ اگر ہم نے ہٹلر کی طرح کام کرنا ہے تو ٹھیک ہے وگرنہ اسلام کے مطلوب معیارات مختلف ہیں۔
مجھے تم اس لیے عزیز ہو کہ شاید تم ہی احیائے ملت کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اس تحریک کے علمبردار وقائد بن جاؤ ۔ تمہیں ایمان و اُصول اخلاق وشائستگی کا پورا پورا لحاظ رکھنا ہو گا تاکہ ہم قیادت کیلئے ایسے لوگ تیار کر سکیں جو ہمارا مطلوب ومقصود ہیں۔
ہماری تیاری ایسا جوان ہے جو درست عقیدہ رکھتا اور بندگی کرنے والا ہو، شائستہ فکر اور قلب ِسلیم رکھنے والا ہو، دوسروں کا خیر خواہ اور نفع پہنچانے والا ہو، فریضہ ’اَمر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کو ادا کرنے والا ہو، اپنے نفس سے جہاد کرنے والا ہو، طاقت اور علم میں بسط وکشادگی کا حامل ہو ، سیدنا یوسف کی طرح حفیظ بھی ہو اور علم بھی رکھنے والا ہو اور سیدنا موسیٰ کے مانند قوت وامانت بھی اس کا شعار ہو، اگر آپ کی منزل بھی یہی ہے، تو آئیے! قدم بڑھائیے اور احیائے ملت کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں تاکہ مقصد حیات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ہماری مراد ایسے نفوس ہیں جو زندہ، طاقتور اور جوان ہوں، ایسے قلوب جو تازہ اور دھڑکنے والے ہوں، ایسے جذبات جو غیرت مند ہوں، ایسی تڑپتی روحیں جو حسن وقبح کو پہچان سکیں، جو صحیح ادراک وشعور رکھتی ہوں اور جو ذمہ داریوں کے بار گراں کو اُٹھا سکیں۔
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
گر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں