• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نوح علیہ السلام کا بیٹا مومن تھا؟ عمار خان زاہدی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اہل کتاب کا تصور ایمان :
قاموس الکتاب ، مولفہ ایف ۔ایس۔ خیراللہ ، ص۹۲۱ پر درج ہے:’’عہد عتیق (یہودی ایمان ) میں عام طورپر ایمان سے مراد وفاداری ہوتا ہے اور وفاداری ہی ایماندار یا مومن کے صحیح رویئے کی عکاسی کرتی ہے۔ اسکا مفہوم اعتماد، اعتبار، باور کرنا ، تکیہ کرنا، بھروسہ کرنا ، توکل یقین جیسے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے(یرمیاہ۱۲:۶؛ ایوب۱۵:۱۵،۱۳؛ زبور۱۳:۱۴)۔۔۔
انجیل (مسیحی ایمان) کا پیغام یہ کہ انسان کی نجات رحیم وعادل خدا کے عظیم کام پر مبنی ہے اور اسمیں انسان کے اعمال حسنہ ، کوشش اور محنت کا کوئی دخل نہیں ہے۔۔ایمان کا درحقیقت مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے کئے ہوئے کام کو اپنے لئے قبول کرے۔۔اور صرف خداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرتا ہے ، نئے عہد نامہ کی متعدد آیات اس دلیل کو ثابت کرتی ہیںمثلاً (اعمال ۱۶:۲۴۔۳۴) پولس اور سیلاس سے سوال کیا ’’اے صاحبو! میں کیا کروں کہ نجات پائوں ؟ تو انھوں نے فوراً جواب دیا ’’خداوند یسوع پر ایمان لا تو تو ُاور تیرا گھرانا نجات پائے گا‘‘
مستند مسیحی عالم ایم ڈبلیو انیگر ،سات انجیلی الفاظ ص۲۲۔۲۳پر عہد عتیق کے تصور ایمان کو عہد جدید کے تصور ایمان پر فوقیت دیتے ہوئے کہتا ہے:’’مسیحی نقطہ نظر سے ایمان کے بارے میں نہایت ہی لچسپ اور اہم آیت عہد عتیق میں حبقوق ۲:۴ ہے ۔۔جس ایمان کا ذکر حبقوق (عہد عتیق )نے کیا ہے وہ عہد جدید کے بیانات سے زیادہ وقیع اور وسیع ہے حبقوق کے بیان میں ’’ایمان ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’وفاداری ‘‘کا عنصر بھی پایا جاتاہے۔عہد عتیق کے تصور ایمان میں یہ دونوں باتیں (ایمان و عمل )شامل ہیں۔ لازم ہے کہ وفادار ی اور ثابت قدمی زندہ خدا کے ساتھ حقیقی اور ٹھوس تعلق ایمان سے پیدا ہو۔
قول فیصل : تمام انبیاء کا ایمانی و اعتقادی پہلو ہمیشہ یکساں رہا ہے لیکن شرائع میں جزوی تبدیلیاں حالات و واقعات زمانی و مکانی ، جغرافیہ وغیرہ کے اختلاف کی وجہ سے ہوتی رہیں۔ ایمانی پہلو میں توحید ، رسالت اور آخرت لازمی عناصر تھے نیز فرشتے ، تقدیر، اور ابلیس کی کارستانیاں بھی نمایاں ہیں۔جبکہ شرعی پہلو میں اکل و شرب ، شادی بیاہ، قربانی (عہد قدیم scapegoat(احبار ۱۶)،ہجرت و جہاد ۔تمام شرائع ایک ہی شارع اللہ تعالیٰ ک غرض و منشاء کی مختلف شکلیں ہیں جنکا مقصود انسانی رویوں human behaviourکو اپنے دائرہ بندگی میں لانا ہے تاکہ انسان کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہو سکے۔(شرائع سابقہ از ڈاکٹر عرفان خالد ڈھلوں (شریعہ اکیڈمی)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایمان اور عمل صالحہ کا لازم و ملزوم تعلق :
ارشاد ربانی ہے : {…جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر ، قیامت کے دن پرایمان لائے ۔اور نیک عمل کرے انکے اجر انکے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی}( البقرۃ ۲:۶۲)
سورۃ ھود ۱۱: ۱۲۱۔۱۲۲ میں واضح کر دیا گیا کہ ایمان لانے والوں (ایماندار)کے اعمال ،ایمان نہ لانے والوں (کافر و مشرک )کے اعمال سے جداہوا کرتے ہیں۔ گویا ایمان اور اعمال کا باہم اٹوٹ تعلق و بندھن واضح کر دیا گیا ہے ۔ اور یہ بھی کہ کافروں کے اعمال کے نتائج عذاب لانے ہی پر منتج ہو تے ہیں، جیسا کہ قوم نوح ؑ ، ھود ؑ اور صالح ؑ وغیرہ کی قوموں کے ایمان و اعمال سے عذاب الہٰی کی صورت میں برآمد ہوئے۔
یاد رہے جدید ماہرین نفسیات بھی اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ایمان و یقین ہی ہمارے اعمال کو متعین کرتے ہیں اور جیسے اعمال ہوں گے اسباب و علل کی پابند دنیا میں ویسے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔ انسان اپنے یقین beliefسے تشکیل پاتا ہے (انٹونی چیخوف) ۔گویا نوح ؑ کے بیٹے کے اعمال غیر صالح اسکے {لا یومنون ۔ایمان نہ } ہونے ہی کی لا محالہ وجہ تھے اور نتیجہ جسکا قوم نوح ؑ انتظار کر رہی تھی یعنی عذاب ،وہ بھی اسکا ایندھن بنا ۔(مزید وضاحت آگے ہے)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام میں تصور ہجرت اور متعلقہ مباحث :
ہجر کے معنی ہیں کسی چیز سے بیزار ہو کر اسکو چھوڑ دینااور محاورات عامہ میں ہجرت کا لفظ ترک وطن کے لئے بولا جاتا ہے۔ اصطلاح شرع میں دارالکفر کو چھوڑ کر دارالاسلام میں چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں (روح المعانی)۔ ہجرت ابتدائے اسلام فرض ، شعارو شناخت اور علامت ارتداد رہی تاہم عذر کیوجہ سے اسکی شعاریت اور فرضیت دونوں ساقط ہوجاتی تھیں(معارف القرآن از مولانا مفتی شفیع عثمانی، سورۃ النساء کی تفسیر ،ہجرت )۔ ڈاکٹر سید مطلوب حسین مطالعہ اسلام کورس (جہاد) ص ۱۲ پر تحریر کرتے ہیں: ’’مطلب یہ ہے کہ بیرونی حملے کو کامیابی کے ساتھ روکنے کے لئے اگر ایک جماعت اٹھ کھڑی ہو تو پھر یہ(جہاد) فرض کفایہ رہتا ہے ورنہ فرض عین اور انتہائی خراب حالات میں یہ ایمان کی کسوٹی بن جاتا ہے ‘‘۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعہ زیر بحث میں بھی ہجرت ہی اصل موضوع نزاع و بحث ہے:
۱))…پہلی بات …یہ معلوم و معین ہے کہ ہجرت مخصوص حالات و واقعات و امکانات کے تحت مشروع و ساقط ہوتی ہے۔۲) …جبکہ واقعہ نوح ؑ میں نہ قرآن و سنت میں اور نہ ہی اہل کتاب سے اسکو کچھ تائید ملتی ہے۔۳)…ہجرت ایک مقام سے دوسرے متعین مقام کو ہوا کرتی ہے(جسکے لئے قرآن میں ’’مراغما‘‘ کے الفاظ مستعمل ہیں جو کہ ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف منتقل ہونے کا کہا جاتا ہے)جبکہ اس واقعہ میں سفینہ نوح ؑ ہی دارالسلام (اقلیم السلام)تھا جس پر ہجرت کا اطلاق ممکن نہیں، اسکے سوا کوئی مقام متعین نہ تھا۔۴)… درحقیقت یہاں یہ صورتحال دو ایسے گروہوں یا فریقوں کی نمائندگی کرتی تھی جہاں ایک فریق واضح برتری کا حامل اور فتح یاب ہے(یاد رہے پہاڑ (بلندی )کا ذکر ہے، بپھری لہروں کا’’انا طغا الماء (الحاقۃ ۶۹:۱۱)‘‘،واحد قابل بھروسہ سہارا و آسرا ۔کشتی)جبکہ دوسرے فریق کا یقین و ایمان (جو کہ ایک روحانی و باطنی شے ہے )ان تمام برتری کے روحانی و مادی نشانات کو نظر اندار کردیتا ہے تو اسکی اسکے سوا کیا معقول توجیہ پیش کی جاسکتی ہے کہ بیٹے کا نظام الاعتقادSystem of belief نوح ؑ و اہل ایمان سے یکسر مختلف سہارے کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ یہاں ایماندار تو کیا ایک عام عقل سلیم common sense کا مالک شخص بھی پہاڑ کے مقابلے میں کشتی کو ترجیح دیتا(اہل خاندان کا ساتھ) ایمانداروں کا ساتھ ( سفینہ نوح پر سوار مومنوں کے ایمان و یقین کے سراسر مخالف ایمان)۔اور اس واقعہ میں نوح ؑ اہل ایمان اور اھلک کا ایمان تھا کہ اس طوفان و عذاب سے بچانے والا سوائے اللہ رب العزت کے کوئی نہیں ہے موت یقینی امر ہے(ھود۱۱:۴۳))، مہربان و فکر مند باپ کی پکار و شدید خواہش تھی، کیا یہاں عکرمہ ؓ بن ابو جہل کا واقعہ یاد نہیں آتا جب کشتی میں مشرک یک و تنہا اللہ کو پکارنے لگے اور ایک صحیح الفکر شخص (عکرمہ ؓ)فوراً درست نتیجہ اور فیصلہ پر جا پہنچا کہ اصل سہارا و آسرر ا صرف و صرف اللہ حی و قیوم کا ہے، مگر یہاں ایمان تو کیا راست فکر بھی مفقود ہے لہذا اسکے سوا اور کوئی شرعی و عقلی سبب محال ہے کہ ایمان بااللہ کے مقابلہ میں ان مادی و عارضی سہاروں پر اسکا اسقدر پختہ ایمان و یقین تھا کہ وہ اللہ اور اسکے رسول (ایمانی سہارا) ،باپ ،کشتی، بھائی،اہل خانہ، ایمانداروں اور تمام مثبت امکانات (عقلی و جذبانی و مادی سہارا) کو چھوڑ بے جان پہاڑ کو اپنا سہارا بنانے پر تیار ہوگیا۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اسکا یہ فیصلہ اسکی آزادانہ مرضی Free will پر مبنی تھا(ھود۱۱۔۴۳) کسی جبر و تسلط کا نتیجہ نہیں۔ایمان (یقین )ایک ایسی اندرونی تصویر ہے جو ہمارے رویوں behaviourکو کنٹرول کرتی ہے۔
دوسری بات …یہ کہ نوح ؑ عرصہ طویل سے سفینہ بنانے میں مصروف تھے(پیدائش۷:۱۱ کے مطابق چھ سواں سال، انسائیکلو پیڈیا اسلامی کے مطابق عمر کا۹۵۰ واں سال) ۔یہ ایک قرآنی، بائبلی و منطقی سچ ہے کہ قوم نوح کا ہرمومن بخوبی اسکا ادراک کر سکتا تھا کہ ایک ایسا عذاب الٰہی آنے والا ہے جو حق کو باطل سے اور مومن کو کافر سے جدا کردے گا(ھود۱۱: ۳۶۔۳۹) ، کافرہوں یا مع الکافر، جو کشتی پر سوار نہیں ہوں گے ہلاک کر دیئے جائیں گے۔لہذا ناشائستہ افعال کا ذاتی و آخری فیصلہ بلا کسی جبروکراہ کے ایمان و کفر میں سے کسی ایک کا چنائو اور زندگی یا موت میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کا تھا،ہجرت کا نہیں۔اور ہم جانتے ہیں کہ اس نے کفر کا ساتھ اختیار کیا اور زندگی کے بجائے موت چنی۔ ضروریات خمسہ حفظ ایمان ،جان و عقل کی بلاواسطہ directly اور ، نسل و مال کی بالواسطہ Indirectly نفی۔
تیسری بات …قاعدہ ہے کہ نجات کا دارومدار خاتمہ پر ہے(اسلامی عقائد ص۲۱۷از ڈاکٹر مفتی عبدالواحد)۔اور جس کے بارے میں رسول کو تنبیہ کی گئی کہ وہ {اہلک }سے نہیں ، وہ اہل ایمان کے ساتھ بھی نہیں{علی الفلک} اور عذاب الہٰی سے مارا جائے (کیونکہ وہ آیات الٰہی کو جھٹلانے والا تھا(الاعراف ۷: ۶۴))اور اللہ کی واضح و بین آیات (نشانی و معجزہ ۔ طوفان نوح )کا انکار کرنے والاکس طرح مومن ہو سکتا ہے۔اسکے ایماندار ہونے کا امکان و قیاس کیسا!
چوتھی بات …اس واقعہ میں پسر نوح ؑ نے اپنے ایمان و یقین کی خود ہی نفی کی ہے کہ {اللہ کی پناہ کے مقابلے میں پہاڑ کی پناہ میں آجائوں گا}(ھود۱۱:۴۳ )اور’’ عمل صالحہ کے نہ ہونے کی نفی ‘‘اللہ رب العزت نے کر دی(ھود۱۱: ۴۶)( نجات کی دونوں شرائط (ایمان و اعمال )غیر موجود ہیں)۔ اور نوح ؑ کے بے خبر ہونے کی الوہی نشاندہی (ھود۱۱:۴۳)کرنا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ نوح ؑ اسکے اعمال بد و سیئہ سے بے خبر تھے ( مفسرین کرام کا موقف ) اور یہ خیال کرتے تھے کہ وہ ایمان و اعمال ہر دو میں میرے اہل میں شامل ہے۔ جبکہ اللہ عزو جل (اعمال کی نفی) اور نافرمان بیٹے (ایمان کی نفی) کی مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ ایمان و عمل صالحہ ہر دو سے خالی تھا۔ اور اس طر ح اسکے آزاد فیصلہ سے نجات کی ’’ایمانی شرط ‘‘اور عالم الغیب کے آشکارہ کرنے سے ’’اعمالی شرط ‘‘ کی اہمیت و وقعت بھی واضح کر دی گئی۔ اللہ حکیم و خبیر نے اعمال صالحہ کی نفی کے مسیحی عقیدہ کی قلعی کھول دی (دیکھئے :اہل کتاب کا تصور ایمان و نجات)۔ شرعی حکم و فیصلے اور دنیاوی نجات و سزا ظاہری عمل کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں جبکہ اخروی نجات و عذاب کا حتمی فیصلہ اللہ کے فضل و رحمت پر مبنی ہو گا۔(دیکھئے: اسلام کا تصور ایمان و نجات)
پانچویں بات …جب نوح ؑ نے بیٹے کے ڈوبنے کی فریاد و دہائی کی تو اسکے ڈوبنے کی دو ٹوک وجہ {انہ عمل غیر صالح} اسکے ناشائستہ افعال کو قرار دیا گیااور یہ معلوم و مسلمہ اور ابتداً ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نجات اخروی کی بنیادی شرائط ایمان و اعمال صالحہ ہیں ۔اور یہ دونوں ہی اسمیں موجود نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ معاملہ دنیاوی نجات کا ہے تو معلوم و مسلمہ سچ یہی ہے کہ اصل اخروی نجات ہی ہے ۔دوم یہاں بھی اسکے لئے آخرت ہی اصل اختیار کر گئی تھی کیونکہ اسنے زندگی (کشتی )کے بجائے موت (پانی )چنی تھی ۔سوم زیر بحث واقعہ میں دنیاوی نجات و کامیابی سفینہ نوح والوں کے لئے بیان کردی گئی تھی(ھود۱۱:۴۸ ) اسکے سوا خسران ہی خسران(ھود۱۱: ۴۸)۔اور جو اس طوفان نوح کے عذاب کا شکار ہوئے انکے لئے ہمیشہ کی ناکامی ، اخروی عذاب بھی مقدر ہوا (ھود۱۱:۲۹)۔
چھٹی بات…نوح ؑکے ضمن میں ہجرت کا کہیں تذکرہ نہیں اور نہ ہی زیر بحث آیات میں اسکا موقع و محل ہے۔ قرآن مجید میں جب کسی نبی ؑ نے ہجرت کا حکم دیا تو اسکا واضح و بین اعلان کیا مثلا ً:{پس ابراہیم ؑ پر لوط ؑ ایمان لائے اور کہنے لگے میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔ وہ بڑا ہی غالب و حکیم ہے} ( العنکبوت ۲۹: ۲۶)۔ قرآن حکیم میں جب رشتوں ( باپ بیٹے ) میںمکالمہ ہوا تو وہاں ہجرت نہیں ایمان کی دعوت دی گئی مثلا ابراہیم ؑ اور آزر کا باہم مکالمات ۔
ب))… ایمان ہجرت کا لازمی رکن ہے شرط نہیں اور علمائے امت کا اجماعی فہم اسکے ایمان دار ہونے کی ہی نفی کرتا ہے(تفاسیر سلف و خلف ۔ حوالے سے بات طول پکڑ جائے گی)۔لہذا اس وجہ سے بھی اگر ہجرت کو مذکورہ صورتحال کی ایک کڑی یا امکان سمجھا جائے تو اسمیں کچھ مضائقہ معلوم نہیں ہوتا لیکن اگر نوح ؑ کے بیٹے کے ’’مفروضہ ایمان ‘‘پر ہجرت کے امکان کو توپیدا کر لیا جائے گا اور اسطرح نوح ؑ کی بیٹے کے لئے پکار کی بھی توجیہ و تاویل کی گنجائش نکل آئے گی مگر کس قیمت پر ؟ ذرا توجہ کیجئے !
(i)۔تصور نجات کا اسلامی تصور جو کہ ایمان و اعمال پر مبنی ہے زیر بحث آئے گا۔
(ii)۔تصور ایمان پر زد لگے گی کہ واضح عذاب دیکھ لینے کے بعد بھی غیر اللہ کا سہارا ڈھونڈنے والا اور کافروں کا ساتھ دینے والا {مع الکافرین }اسلام کی نظر میں ایماندار تصور کیا جاتا ہے۔
(iii)۔اجماعی فہم سلف و اکابر پر زد کہ اب تک کوئی یہ بات نہ سمجھ سکاکہ وہ ایمان دار تھا، گویا کہ فہم سلف و خلف ایمان کے بارے میں غیر واضح و ناقص ہے، فہم سلف و اکابر سے انحراف۔
(iv)۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر تفسیر و تاویل کا امکان جو کہ مسیحی علمائے علم الکلام کی صفت ہے۔(مزید وضاحت آگے ہے)
(v)۔قبل از وقت قائم کردہ مفروضہ کو کتاب اللہ سے کشید کرنا۔ یہ بھی مسیحی علمائے علم الکلام کی صفات شنیعہ میں سے ہے۔(مزید وضاحت آگے ہے)
(vi)۔نسبی و سلبی اور رشتوں کی ایمان کے بالمقابل بے وقعتی کے عمومی قرآنی اسلوب و نصوص، قصص و بیانات کی نفی۔
(vii)۔واضح نصوصِ قرآنی کو نظر انداز کرنے کا رجحان کہ شارع عزوجل نے اس لڑکے کے غرقاب ہونے کی وجہ {عمل غیر صالح} قرار دی اور ہجرت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ،اسکے باوجود ہجرت کے تصور کو مرکزی تصور خیال کرنا۔
(viii)۔دین کے بارے میں غیر ضروری اجتہادی اور مبنی بر جدیدیت اپروچ ۔
(ix)۔ اجماعی مسلمہ پر سوال اٹھانے کا فتنہ جبکہ دور حاضر میں مسلمات کو متنازعات میں تبدیل کرنے کی جانبدارانہ اور شعوری کوشش کی جاری ہے۔
(x)۔ نبی کی پکار ،وہ بھی بیٹے (اھل)کے ایمان کی بنیاد پر،اللہ نے رد کردی ۔جس سے درحقیقت یہ نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے کہ ایمان ہونے کے باوجود ’’صرف ‘‘عمل صالحہ نہ ہونے کی وجہ سے اللہ نے اسے ڈبو دیا ۔گویا ایمان اور عمل صالحہ کے لازم و ملزوم تعلق کی نفی ہے۔جب کہ معلوم سچ ہے کہ جہاں ایمان ہوگا وہاں اسکے مطابق عمل صالحہ بھی وقوع پزیر ہوں گے جبکہ زیر بحث واقعہ میں جو صورتحال تھی (اللہ کی نصرت بمقابلہ طوفان و عذاب ) وہ ایمان کے ساتھ عمل صالحہ (کشتی پر سوار ہوجانا ) کا لازمی و پر ذور تقاضا کررہی تھی۔ یعنی کشتی پر سوار نہ ہونا ایمان کے نہ ہونے کا واضح نشان تھا۔ مسلمہ ہے کہ ایمان و عقیدہ اول ہے پھر عمل صالحہ ،مگر Last but not least کے اصول کے مطابق، کہ انکا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے۔
(xi)۔ مسلمات و اجماعی معاملات پر سوال اٹھانے کی بجائے انھیں جدید اسلوب بیان و پیرائے میں پیش کرنے کی ضرورت ہے وگر اپنی کشتی میں خود سوراخ کرنے کے مترادف ہوگا(حدیث رسولﷺ) ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مزید اسباب و دلائل :
(۱)قوم نوح کی دعوت ۔ایمان :
حضرت نوح ؑ بحیثیت آدم ثانی، اول البشر الثانی، اول الرسل دعوت دین کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ آدم ؑ کے بعد اس دور کا اصل مسئلہ ایمان و کفر و شرک تھا (نوح۷۱:۲۳۔۲۵) اور اسی وجہ سے قوم نوح غرقاب کی گئی(نوح :۷۱: ۲۵)جنمیں نافرمان بیٹا بھی شامل تھا۔ گویا وہ بھی مشرکوں میں سے تھا۔قوم نوح، عاد اور ثمود کا ذکر (ابراہیم ۱۴: ۹۔۱۵ )میں ایک ساتھ ہے۔ تینوں جلیل القدر پیغمبروں (نوح، ھود،صالح)کی بنیادی تعلیم کفر و شرک کے انکار اور توحید ربوبیت و الوہیت کے اثبات و تائید پر مبنی تھی۔ان تینوں کی دعوت میں ہجرت کا پہلو مفقود ہے۔
نوح ؑ کے قرآنی واقعات کا بحیثیت مجموعی جائزہ لینے سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ان واقعات میں دین کا ایمانی پہلو ہر طرح سے غالب و موضوع سخن رہا ہے۔ ایمان ایک وہبی و عطائیGod gifted ، روحانی و اندرونی ، قلبی و عقلی پہلو کا نام ہے جبکہ شرائع کا تعلق عموماً جسمانی و مادی پہلو سے ہوا کرتا ہے تاہم انکا باہم تعلق و ربط بہت مضبوط اور بعض اوقات ناقابل تفریق ہوتا ہے۔نیز سورۃ ھود کا سیاق و سباق توحید پر ایمان و اثبات اور شرک کی نفی سے متعلق ہے ۔سورۃ مبارکہ کی ابتدا یوں ہے :{الر ۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اسکی آیات محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں۔ایک حکیم باخبر کی طرف سے ۔یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرومیں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والااور بشارت دینے والا ہوں}(ھود۱۱: ۱۔۲)۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۲) لغوی بحث :
(۱)۔ {مع } تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
(۲)۔ {مع} ظرف مکان کی تبدیلی کے لئے بھی مستعمل ہے (کشتی بمقابلہ پانی )۔مثلاً المومنون۲۳: ۲۷۔۲۸ میں{ومن معک علی الفلک } کہا گیا اسی پیرائے بیان میں {ولا تکن مع الکافرین}کہا گیا۔الاعراف۷: ۶۴میں بھی {معہ فی الفلک }کہا گیا۔نیز یونس۱۰:۷۳، الشعراء ۲۶: ۱۱۹۔
(۳)۔{ولا تکن مع الکافرین } حضرت نوح ؑ کا قول ہے اللہ رب العزت کا قول نہیں ہے اور معلوم ہے کہ نوح ؑ کا علم محدود تھا۔
(۴)۔{مع}گروہ ، جماعت کی تبدیلی کے لئے مستعمل ہے مثلاً : مع الراکعین(۲:۳۴، ۳:۳۴)، مع الصابرین(۲:۱۵۳)، مع المتقین(۲:۱۹۴)، مع الکافرین(۱۱:۴۲)وغیرہ۔جیسا کہ واقعہ نوح میں بھی متقین (مسلمان )مغرقین(کفار )سے ممتاز و ممیز کر دیئے گئے ہیں۔
(۵)۔ قرائن و شواہد سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’ من الکافرین ‘‘ میں سے تھا لیکن چونکہ نوح ؑ اسے اہل بیت {ان ابنی من اھلی } میں شامل سمجھتے تھے اس وجہ سے انھوں نے اسے{ ولا تکن مع الکافرین}‘کہہ کر پکارا کہ کافروں ’’کے ساتھ ‘‘مت ہو، اُس جگہ کو ، جماعت کو ، گروہ کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ کشتی پر سوار ہو جا۔ جسکی اللہ رب العزت نے اگلی آیت میں نفی کر دی کہ{ قال ینوح انہ لیس من اھلک}اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں ہے۔بلکہ من الکافرین میں سے ہے ۔ { انہ لیس’’ من ‘‘اھلک }کا ربانی قول۔ من الکافرین َ۔ ہونے کی نشاندہی کر رہا ہے۔
(۶)۔ دلچسپ حقائق: (۱)…{مع } سب سے زیادہ سورۃ توبہ ۹(براٗت )میں آٹھ(۸) مرتبہ استعمال ہوا ہے جہاں مشرکین سے براء ت کا اعلان (بیزاری کی منادی)کیا گیا ہے نیز یہ فتح مکہ (۸ھ) کے بعد غزوہ تبوک (۱۰ھ) کے دور کی بات ہے جب مومنین ، مشرکین سے جدا کر دیئے گئے{ مع۔ساتھ}کے الفاظ کی کثرت ِاستعمال کی وجہ یہ بھی ممکن ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) …{مع } کافروں کے ساتھ صرف ایک بار سورۃ ھود ۱۱ کی آیۃ مبارکہ ۴۲ میں استعمال ہوا ہے {ولا تکن مع الکافرین}۔ اسکی وجہ غالباً یہی ہے کہ یہاں کافروں اور مسلمانوں کے مابین مکان placeکا فرق بالکل نمایاں و صاف مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔واللہ تعالیٰ اعلم
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۳)اہل کتاب کے عقائد کی تصحیح و تردید:
{اے ان لوگوں کی اولاد (بنی اسرائیل )جنکو ہم نے نوح ؑ کے ساتھ (کشتی میں )سوار کیا تھا۔ بے شک نوح ؑ ہمارے شکر گزار بندے تھے}(بنی اسرائیل ۱۷: ۳)
نوح ؑ اور انکے بیٹوں کی اہمیت کا اندازہ اہل کتاب کے ان چند قدیم و جدید حوالوں سے بخوبی ہو جاتا ہے۔۲پطرس۲:۵؛ لوقا۱۷:۲۶؛ ۱پطرس میں بپتسمہ baptism کا موازنہ سفینہ نوح Noah's Arcسے کرتا ہے، بعد ازاں آرک کو چرچ سے مشابہت (صرف یہی لوگ نجات یافتہ ہیں ) دی گئی، سینٹ آگسٹائن نے The city of God میں آرک کا ذکر کیا۔قرون مظلمہ The Dark Agesمیںکرسچن مفکرین نے نوح ؑ کے تینوں بیٹوں کو تین براعظموں کے بانی قرار دیا ۔یافت Japheth یورپ کا بانی، Shemسام ایشیاء کا ، Hamحام افریقہ کا ۔ نیز اس معاشرہ کی تین کلاسز Shem(Priest), Japheth(Wariors), (Peasants), Ham کہے گئے۔ the Curse of Hamکی بنیا د پر افریقی لوگوں کو غلام بنالینے کا جواز مہیا کیا گیا (پیدائش ۹: ۲۰۔۲۷)۔نیز اس واقعہ کی عالمگیر حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ جاپان ۔چین ۔کوریا۔ہندوستان۔وسطی ایشیاء کے ممالک کے علاوہ افریقی ممالک، یورپ اور براعظم جنوبی امریکہ کے میکسیکو۔ برازیل وغیرہ کی قدیم داستانوں میں طوفان (نوح )کے قصے موجود ہیں (ارتقائے بنی آدم از محمد اختر چشتی، ص۳۶)
قرآن حکیم کا یہ اسلوب بیان ہے کہ وہ بعض تصورات باطلہ و ناقصہ کو براہ راست مخاطب کئے بغیر،قصص میں ہی موثر اور لطیف پیرایہ میں رد کرتا ہے۔ مثلاً نوح ؑکے واقعہ زیر بحث نے اہل کتاب کے ان مندرجہ ذیل عقائد کی تصحیح و تردید کی :
(ا)۔یہودیوں (بشمول مسیحی) کے ناقص تصور عہد کو کہ وہ ’’عہد کی قوم ‘‘ہے یعنی اللہ نے بنی اسرائیل سے پرانا عہد اور نیا عہد (Old and New Testament) (یرمیاہ۳۱:۳۱۔۳۴) باندھ رکھا ہے اور اسرائیلیوں(یہودی و عیسائی) کی تمام تر نا فرمانیوں،بے وفایوں ،بد عہدیوں کے باوجود اللہ، آل یعقوب ہی سے وفادار ہے اور ایک نسلی عہدRacial Contract استوار کیا ہوا ہے ۔گو کہ پولس رسول نے غیر اقوام کو بھی کسی سطح پر خدا کے منصوبہ نجات میں شامل کیا جسپر اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔( اعمال۲۲:۲۱؛ اورباب ۲۳ وغیرہ) ۔
قرآن ایسے تصور کی تصحیح کرتا ہے کہ: {بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمھارے عہد کو پورا کروں گااور مجھ ہی سے ڈرو}(البقرۃ۲: ۴۰)۔یہ نہ کوئی نسلی lineageمعاملہ ہے نہ ناہنجاروں سے کسی عہد کا، بلکہ اس کی عطا ،آزمائش سے مشروط ہے۔ {جب ابراہیم ؑ کو انکے رب نے کئی باتوں میں آزمایا اور انھوں نے سب کو پورا کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمھیں سب لوگوں کاا مام بنادوں گا، عرض کرنے لگے میری اولاد کو فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں}(البقرۃ۲: ۱۲۴)
(ب)۔مسیحیوں کی کہ عیسائی کلمہ ’’مسیحی اقرارالایمان ‘‘ میں یہ اعلان بھی شامل ہے کہ ’’ میں ایمان رکھتا ہوں خدا قادر مطلق باپ پر ‘‘ ۔ مسیح ؑ حقیقی اور دیگر مسیحی متبنیٰadopted بیٹے بیٹیاں ہیں۔ مزید براں یسوع مسیح کی مزعومہ صلیبی موت ،گناہ آدم ؑ کاکفارہ atonmentاور خدا (باپ) سے تعلق کی بحالی ہے۔ جس کے لئے وہ مسرف بیٹے کی کہانی (آوارہ بیٹے Prodigal Son ) کی صورت میں ذور و شور سے بیان کیا کرتے ہیں(انجیل لوقا:باب ۱۵)گویا محض ایمان (خدا باپ، کفارہ گناہ آدم میں یسوع کی صلیبی موت وغیرہ )ہی نجات کا واحد ذریعہ اور کلید ہے۔گویا خدا سے رشتہ داریاں Spirtual Relation استوار کرتے ہیں ۔نجات کا محور و مدار محض ایمان کو متصور کرتے ہیں ۔ جسکی واضح تردید کردی گئی ہے کہ اللہ کے بارے میں ایسے کسی باپ کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو محض کسی بے بنیاد و خود ساختہ ایمان کی بنیاد پر کوئی تعلق قائم کرتا ہے اور یہ کہ نجات محض ایمان سے ممکن نہیں عمل صالحہ بھی لازم ہیں۔اسلام (تمام پیغمبروں کا دین )اس قسم کے فرضی و روحانی قسم کے تمام تعلقات (خصوصاً باپ بیٹے کے )و رشتہ داریوں ، نسل ، خاندان کو ایمان اور عمل صالحہ کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں دیتا۔مثلاً فاطمہ بنت محمدکو نبیﷺ کی تنبیہ،جناب ابو طالب کے ایمان و مغفرت کا معاملہ ،ابراہیم ؑ اور انکے باپ کا معاملہ، نوح ؑو لوط ؑ کی بیویاں اور بیٹا، حضرت لقمان کی بیٹے کو پندو نصیحت ، صحابہ ؓ کو انکے کافر و مشرک رشتہ داروں کے بارے میں قطع تعلق کے احکام ، وغیرہ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۴)نوح ؑ کی فریاد: ان ابنی من اھلی :
نوح ؑ نے بیٹے کے ایمان کی بنیاد پردہائی یا فریاد نہیں کی اور نہ ہی انکی فریاد کا بنیادی محرک ہجرت تھا،بلکہ{ان ابنی من اھلی}کی بنیاد پر کی جسکی صراحت گزشتہ آیت میں اللہ رب العزت نے {واھلک } کو کشتی میں سوار کرنے کی تخصیص سے کی تھی (ھود۱۱:۴۰)یا تو نوح ؑ اس تخصیص میں بیٹے کو شامل سمجھے جبکہ {الا من سبق علیہ القول }، {ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا ،انھم مغرقون }(ہود۱۱:۳۷)اور {…ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون} (المومنون ۲۳: ۲۷)سے اللہ حکیم و خبیر نے بیٹے کو خارج یا مثتثنی قرار دے دیا تھایہ نوح ؑ کی اجتہادی خطا تھی ۔اس لغزش {واھلک }کی تصحیح اللہ رب العزت نے اگلی آیت{انہ لیس من اھلک }میں کردی اور عذاب الہٰی سے نجات نہ دینے کی وجہ{ عمل غیر صالح }بیان فرمائی ۔ گویا نہ وہ {اھلک} میں سے ہے کہ کشتی پر سوار ہو سکتا اور نہ ہی اہل ایمان میں سے کہ عذاب الہی سے نجات پاتا لہذا {مغرقین و ظلمین }میں سے ہوا ۔مزیدیہ بھی کہ {ومن معک علی الفلک}والے شکر کریں کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے ظالموں (بشمول بیٹا) سے نجات دی ۔اور پھر( الصفٰت ۳۷:۷۶۔۸۲) میں واضح کر دیا گیا کہ {ہم نے اسکے ’’اھلہ‘‘ کو بڑی مصیبت سے نجات دی اور دوسروں کو ڈبو دیا اور انکی اولاد ہی کو باقی رکھا}۔قوم نوح ؑ کو اکثر جگہ ظالم کہا گیا ہے{ سو تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے اور مجھے اور ’’ومن معی من المومنین ‘‘(جو ’’مومن ‘‘میرے ساتھ ہیں) انکو بچالے۔فانجینہ ومن معہ فی الفلک مشحون(پس ہم نے انکو اور جو انکے ساتھ بھری کشتی میں سوار تھے انکو بچالیا)}(الشعراء ۲۶: ۱۱۸۔۱۲۱)
(۱)نیز معلوم ہوتا ہے کہ نوح ؑکو اسکے اعمال غیر صالحہ کا علم نہ تھا(ھود۱۱:۴۶)۔مثلاً: ہود ۱۱:۴۶ میں اللہ عالم الغیب کے قول{فلا تسئلن ما لیس لک بہ علم}کو نوح ؑ کے قول {اللہ اعلم بما فی انفسھم }(ہود۱۱:۳۱)کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔نیز نوح ؑ کا یہ بھی قول منقول ہے{(نوح نے کہا) مجھے کیا معلوم کہ وہ کیاکرتے ہیں انکا حساب (اعمال) میر ے پروردگار کے ذمہ ہے کاش تم سمجھو}(الشعراء ۲۶: ۱۱۱۔۱۱۳)۔
(۲)آیات مبارکہ( ھود ۱۱: ۴۰۔۴۸)میں بیٹے کے ایمان کو براہ راست ’’کشتی پر سوار ہونے یا نہ ہونے ‘‘کا موضوع نہیں بنایا گیا(ہاں اسکے طرز فکر و عمل اور دیگر قرآنی آیات مبارکہ سے اسکا غیر ایماندار ہونا ثابت ہوتا ہے مثلاً{…قال ا ساوی الی جبل یعصمنی من الماء}، جیسا کہ متعدد بار زیر بحث آیا ہے) ۔ بلکہ ’’کشتی پر سوار ہونے یا نہ ہونے ‘‘ کا عنوان { اھلک ۔رشتہ داری } اور {عمل غیر صالح ۔ برے اعمال} کو بنایا گیا ۔ یعنی نوح ؑ کی نظر میں وہ گھر والوں میں شامل تھا جبکہ اللہ رب العزت کی نظر میں نہ وہ گھر میں شامل تھا اور نہ ہی نجات کی شرط عمل صالحہ کا حامل ہی تھا۔
(۳) اسبات کا بھی امکان موجود ہے کہ {ان ابنی من اھلی } سے نوح ؑ کی مراد طوفان سے نجات کے بجائے اخروی نجات ہو۔ کیونکہ : (۱) اسلوب قرآنی (ضروریات دین کی وضاحت پر ارتکاز)(۲){من اھلی }کی دعا طوفان نوح سے بچانے کے لئے نہ تھی بلکہ اخروی نجات کے لئے تھی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اخروی نجات لئے عمل صالحہ کی لازمی شرط موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اسی بنیاد پراسے {لیس من اھلک ۔ھود۱۱:۴۶} کہاگیا۔ مزید یہ کہ اللہ رب العزت نے سورۃ ہود میں گزشتہ بستیوں کے قصے اسوجہ سے بیان کئے تاکہ’’ اخروی عذاب ‘‘سے ڈرنے والے عبرت پکڑیں۔(ھود۱۱:۱۰۰۔۱۰۳)۔ابراہیم ؑ باپ کے ایمان نہ لانے کے باوجود بھی اسکے لئے مغفرت (نجات) کی دعا کرتے رہے یا کرنے کی کوشش میں تھے (مثلاً : مریم ۱۹:۴۷ اور الممتحنہ ۶۰:۴) لیکن التوبہ ۹: ۱۱۳۔۱۱۴میں مسلمانوں کو اولی قربیٰ کے لئے بخشش مانگنے کی ممانعت کر دی گئی اور یہ وضاحت بھی کی گئی کہ ابراہیم ؑ کی بخشش مانگنا تو ایک وعدے کے سبب تھا جو انھوں نے ان سے کر لیا تھا{الا عن موعدۃ وعدھاایاھا } ۔ نوح ؑنے بھی وعدہ کا ذکر کیا ہے {وان وعدک الحق۔ ھود۱۱: ۴۵} اور جسکی بنیاد پر انھوں نے رب کو پکارا تھا۔اور یہ امکان بھی رد نہیں کیاجاسکتا کہ نوح ؑ کے کسی اہل بھائی یا بیٹے نے اس بے ایمان بیٹے کی مغفرت کی دعا کے لئے نوح ؑ کو اللہ سے درخواست کرنے کے لئے کہا ہو واللہ اعلم باالصواب
(۴)بیٹے کے ڈوب جانے کے بعدوالی آیت کریمہ میں کشتی نوح کے کوہ جودی پر ٹھہر جانے کا تذکرہ ہے ۔گویا طوفان نوح میں بیٹا غرق ہو گیا(مغرقین) ۔ کئی ہفتوں یا مہینوں( دوسرے مہینے کی ستائیسویں تاریخ کو زمین بالکل سوکھ گئی ۔ تب خدا نے نوح ؑ سے کہا کہ کشتی سے باہر نکل آ۔: پیدائش۸:۱۴۔۱۶) بعد نوح ؑ نے پکارا {میرا بیٹا بھی میرے اہل میں سے ہے}۔ اور یہ دعا اپنے کسی اہل مثلاً بھائی کے توجہ دلانے پر ہوئی ہو۔جیسا کہ ابراہیم ؑ (بیٹے )نے اپنے کافر باپ آزر کے لئے مغفرت (نجات) کی دعا کی تھی(الممتحنہ ۶۰:۴)۔ تاہم آیت ۴۸ سے اس امکان کو تقویت نہیں ملتی واللہ اعلم باالصواب۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۵){من اھلی } کی نجات کے لئے ،ایمان کی شرط :
نوح ؑ کے گھر والوں کے لئے ایمان کی شرط کے لازم ہونے کی تصدیق اس آیتہ مبارکہ سے ہوتی ہے{ اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے ( رب الغفرلی والوالدی ولمن دخل بیتی مومنا)۔۔۔انکی مغفرت کر}(نوح ۷۱:۲۸)۔اس سے یہ بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آپ ؑ کا گھرانہ محض آٹھ افراد پر مشتمل نہ تھا (پیدائش۷: ۱۳۔۱۴)بلکہ انکی تعداد زیادہ تھی جنمیں ایک سے زیادہ بیویاں ہو سکتی ہیں جیسا کہ بعد ازاں دیگر انبیاء ؑکی بھی رہیں۔واللہ اعلم
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۶)نوح ؑ اور انکی بیوی :
طوفان ِنوح ؑکے وقت نوح ؑ نے بیوی کا ذکر نہیں کیا۔اسکی ممکنہ وجوہ یہ ہو سکتی ہیں:(۱)۔طوفان نوح ؑ کے وقت بیٹا سامنے تھا بیوی نہیں۔ (۲) جوان بیٹے کی محبت بوڑھی بیوی کی محبت سے بوجوہ کئی گنا زیادہ ہوا کرتی ہے (۳) مال اور بیٹوں کی اہمیت کو قرآن نے بار بار اجاگر کیا ہے(۴)۔قرآن رغبت کی چیزوں میں النساء(عورت) کو شامل کرتا ہے بیوی کو نہیں( ۵)۔بیوی سے متعلق عموماً گھریلو ، فقہی اور قانونی مسائل کا ذکر ہے ایمان و عقیدہ کا نہیں بصورت دیگر عورت مرکزی حیثیت کی حامل نظر آتی ہے(حوا، امرات العزیز، امرات فرعون،امرات عمران، مریم ) ۔ (۶)۔نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کا ذکر سورۃ التحریم میں ہے جسمیں ازواج النبی ﷺ سے متعلق واقعات سے ابتداء کی گئی ہے اور ازواج سے متعلق بنیادی نقطہ ’’پیغمبر کو ایذا دینا ہے‘‘نہ کہ ایمان بااللہ ۔ یعنی وہ ایمان سے خارج نہ تھیں بلکہ ازواج الانبیاء ہوتے ہوئے(یعنی نیک بندوں کے گھروں میں تھیںتحریم۶۶:۱۰اور یہ معلوم ہے کہ انبیاء کسی مشرکہ و کافرہ کو اپنے نکاح میں نہیں لاتے) انھوں نے{’فخانتھما ۔ان دونوں(نوح ؑ و لوطؑ) کی خیانت کی}۔نیز رشتہ ازدواج spouseکے باوجود دونوں انبیاء انکے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ گویا یہاں بھی رشتے و تعلق ہی کی نفی کی گئی ہے جسطرح سورۃ ھودمیں بیٹے کی {ینوح انہ لیس من اھلک }اور {انہ عمل غیر صالح }کر کے نفی کی گئی تھی۔یہاں {فخانتھما }اور {انہ عمل غیر صالح } اعمال ہی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لوط کی بیوی بھی عذاب میں پکٹری گئی اور نوح ؑ کا بیٹا بھی (ھود۱۱: ۸۱اورھود۱۱: ۴۳)۔نیز یہ بات بھی نامعلوم و غیر معین ہے کہ ذوجہ نوح ؑ (وائلہ /واعلہ )طوفان سے قبل خیانت کی مرتکب ہوئی یا بعد میں۔نوح ؑ کی ایک بیوی تھی یا زیادہ نامعلوم ہے تاہم اتنا بالیقین کہا جاسکتا ہے کہ کئی ایک پیغمبروں کی ایک سے زیادہ ازواج مطہرات تھیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۷) مال اور اولاد فتنہ :
قرآن مجید نے دنیا کی بے ثباتی ، بے وقعتی ، زیب و زینت اور غافل کرنے والی شے کا ذکر کیا تو مال اور بیٹے اسکی وجہ بتائی اور نتیجہ گھاٹا و خسارہ۔ مثلاً المنفقون۶۳:۹میں کہا گیا کہ{ تمھارے بیٹے تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیںاور جو ایسا کرے گا تو وہ خسارہ اٹھانے والے ہیں‘}نیز فرمایا کہ {مال اور بیٹے تو دنیا کی زیب و زینت ہیں اور باقی رہنے والی شے ’’ البقیٰت الصلحٰت ‘‘ ہیں اور یہی باعث ثواب اور کامیابی والی ہیں} (الکھف۱۸:۶۴)اس آیت کی روشنی میں اگر ھود۱۱:۴۶کودیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ نوح ؑ کے بیٹے اور اسکے اعمال (غیر صالح) کی اللہ کی نظر میں کیا وقعت و حیثیت ہو سکتی ہے۔ اسکے علاہ آل عمران ۳: ۴ا۔۱۵ میں نساء گھوڑے ، مویشی اور کھیتی باڑی کو بھی خواہشات کی چیزیں بتا کر انکی بے حیثیتی واضح کی گئی ہے نیز ازواج کے ساتھ {مطھرۃ } کی قید لگائی گئی کہ محض بیویاں نہیں پاکیزہ بیویاں پرہیز گاروں کے لئے ہیں ۔الشعراء۲۶:۸۸میں بھی یہی موضوع زیر بحث ہے۔
یہ بات بھی قابل توجہ اور دلچسپ ہے کہ حضرت نوح ؑ نے سورۃ نوح۷۱:۲۱ میں کفار و مشرکین کا مال اور اولادسے رغبت کا شکوہ شکایت اللہ رب العزت سے کیا ۔ مثلاً :{ نوح ؑ نے عرض کی میرے پروردگار ! یہ لوگ میرے کہنے پر نہیں چلے اور ایسوں کے تابع ہوئے ہیں جن کو مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا ۔}۔نوح ۷۱ : ۱۲ میں بھی انھیں مال اور بیٹوں کی رغبت دلائی گئی کہ وہ اللہ کی عظمت و بزرگی کے قائل ہو کر ایمان لے آئیں تو انھیں مال اور بیٹے دیئے جائیں گے۔
اہل (خاندان)۔ نسلی Racial و جذباتی Emotional معاملہ ہے جسکی ایمان کے بالمقابل قرآن و سنت میں متعدد مقامات پر بے وقعتی و کم حیثیتی بیان کی گئی ہے۔نیز زیر بحث آیات مبارکہ میں اہل کا خصوصی و الگ ا تذکرہ موجود ہے {…و اھلک الا من سبق علیہ القول ومن امن }(ھود ۱۱:۴۰)۔ مزید براں قرآنی سورتوں کو ایک خاص نظم میں ثابت کرنے والے مولانا اصلاحی کے بقول ،اللہ کی نظرمیں نوح ؑ کی بیٹے کے لئے پکار کی بے وقعتی اس قدر تھی کہ کشتی کے کوہ جودی پر ٹھہر جانے کی وضاحت کے بعد (جو اہل کتاب کے مطابق قریباً دو ماہ بنتی ہے : پیدائش۸:۱۴۔۱۶) فریاد نوح ؑ اور اپنے جواب کا ذکر کرتا ہے۔
 
Top