محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
اہل کتاب کا تصور ایمان :
قاموس الکتاب ، مولفہ ایف ۔ایس۔ خیراللہ ، ص۹۲۱ پر درج ہے:’’عہد عتیق (یہودی ایمان ) میں عام طورپر ایمان سے مراد وفاداری ہوتا ہے اور وفاداری ہی ایماندار یا مومن کے صحیح رویئے کی عکاسی کرتی ہے۔ اسکا مفہوم اعتماد، اعتبار، باور کرنا ، تکیہ کرنا، بھروسہ کرنا ، توکل یقین جیسے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے(یرمیاہ۱۲:۶؛ ایوب۱۵:۱۵،۱۳؛ زبور۱۳:۱۴)۔۔۔
انجیل (مسیحی ایمان) کا پیغام یہ کہ انسان کی نجات رحیم وعادل خدا کے عظیم کام پر مبنی ہے اور اسمیں انسان کے اعمال حسنہ ، کوشش اور محنت کا کوئی دخل نہیں ہے۔۔ایمان کا درحقیقت مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے کئے ہوئے کام کو اپنے لئے قبول کرے۔۔اور صرف خداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرتا ہے ، نئے عہد نامہ کی متعدد آیات اس دلیل کو ثابت کرتی ہیںمثلاً (اعمال ۱۶:۲۴۔۳۴) پولس اور سیلاس سے سوال کیا ’’اے صاحبو! میں کیا کروں کہ نجات پائوں ؟ تو انھوں نے فوراً جواب دیا ’’خداوند یسوع پر ایمان لا تو تو ُاور تیرا گھرانا نجات پائے گا‘‘
مستند مسیحی عالم ایم ڈبلیو انیگر ،سات انجیلی الفاظ ص۲۲۔۲۳پر عہد عتیق کے تصور ایمان کو عہد جدید کے تصور ایمان پر فوقیت دیتے ہوئے کہتا ہے:’’مسیحی نقطہ نظر سے ایمان کے بارے میں نہایت ہی لچسپ اور اہم آیت عہد عتیق میں حبقوق ۲:۴ ہے ۔۔جس ایمان کا ذکر حبقوق (عہد عتیق )نے کیا ہے وہ عہد جدید کے بیانات سے زیادہ وقیع اور وسیع ہے حبقوق کے بیان میں ’’ایمان ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’وفاداری ‘‘کا عنصر بھی پایا جاتاہے۔عہد عتیق کے تصور ایمان میں یہ دونوں باتیں (ایمان و عمل )شامل ہیں۔ لازم ہے کہ وفادار ی اور ثابت قدمی زندہ خدا کے ساتھ حقیقی اور ٹھوس تعلق ایمان سے پیدا ہو۔
قول فیصل : تمام انبیاء کا ایمانی و اعتقادی پہلو ہمیشہ یکساں رہا ہے لیکن شرائع میں جزوی تبدیلیاں حالات و واقعات زمانی و مکانی ، جغرافیہ وغیرہ کے اختلاف کی وجہ سے ہوتی رہیں۔ ایمانی پہلو میں توحید ، رسالت اور آخرت لازمی عناصر تھے نیز فرشتے ، تقدیر، اور ابلیس کی کارستانیاں بھی نمایاں ہیں۔جبکہ شرعی پہلو میں اکل و شرب ، شادی بیاہ، قربانی (عہد قدیم scapegoat(احبار ۱۶)،ہجرت و جہاد ۔تمام شرائع ایک ہی شارع اللہ تعالیٰ ک غرض و منشاء کی مختلف شکلیں ہیں جنکا مقصود انسانی رویوں human behaviourکو اپنے دائرہ بندگی میں لانا ہے تاکہ انسان کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہو سکے۔(شرائع سابقہ از ڈاکٹر عرفان خالد ڈھلوں (شریعہ اکیڈمی)
قاموس الکتاب ، مولفہ ایف ۔ایس۔ خیراللہ ، ص۹۲۱ پر درج ہے:’’عہد عتیق (یہودی ایمان ) میں عام طورپر ایمان سے مراد وفاداری ہوتا ہے اور وفاداری ہی ایماندار یا مومن کے صحیح رویئے کی عکاسی کرتی ہے۔ اسکا مفہوم اعتماد، اعتبار، باور کرنا ، تکیہ کرنا، بھروسہ کرنا ، توکل یقین جیسے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے(یرمیاہ۱۲:۶؛ ایوب۱۵:۱۵،۱۳؛ زبور۱۳:۱۴)۔۔۔
انجیل (مسیحی ایمان) کا پیغام یہ کہ انسان کی نجات رحیم وعادل خدا کے عظیم کام پر مبنی ہے اور اسمیں انسان کے اعمال حسنہ ، کوشش اور محنت کا کوئی دخل نہیں ہے۔۔ایمان کا درحقیقت مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے کئے ہوئے کام کو اپنے لئے قبول کرے۔۔اور صرف خداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرتا ہے ، نئے عہد نامہ کی متعدد آیات اس دلیل کو ثابت کرتی ہیںمثلاً (اعمال ۱۶:۲۴۔۳۴) پولس اور سیلاس سے سوال کیا ’’اے صاحبو! میں کیا کروں کہ نجات پائوں ؟ تو انھوں نے فوراً جواب دیا ’’خداوند یسوع پر ایمان لا تو تو ُاور تیرا گھرانا نجات پائے گا‘‘
مستند مسیحی عالم ایم ڈبلیو انیگر ،سات انجیلی الفاظ ص۲۲۔۲۳پر عہد عتیق کے تصور ایمان کو عہد جدید کے تصور ایمان پر فوقیت دیتے ہوئے کہتا ہے:’’مسیحی نقطہ نظر سے ایمان کے بارے میں نہایت ہی لچسپ اور اہم آیت عہد عتیق میں حبقوق ۲:۴ ہے ۔۔جس ایمان کا ذکر حبقوق (عہد عتیق )نے کیا ہے وہ عہد جدید کے بیانات سے زیادہ وقیع اور وسیع ہے حبقوق کے بیان میں ’’ایمان ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’وفاداری ‘‘کا عنصر بھی پایا جاتاہے۔عہد عتیق کے تصور ایمان میں یہ دونوں باتیں (ایمان و عمل )شامل ہیں۔ لازم ہے کہ وفادار ی اور ثابت قدمی زندہ خدا کے ساتھ حقیقی اور ٹھوس تعلق ایمان سے پیدا ہو۔
قول فیصل : تمام انبیاء کا ایمانی و اعتقادی پہلو ہمیشہ یکساں رہا ہے لیکن شرائع میں جزوی تبدیلیاں حالات و واقعات زمانی و مکانی ، جغرافیہ وغیرہ کے اختلاف کی وجہ سے ہوتی رہیں۔ ایمانی پہلو میں توحید ، رسالت اور آخرت لازمی عناصر تھے نیز فرشتے ، تقدیر، اور ابلیس کی کارستانیاں بھی نمایاں ہیں۔جبکہ شرعی پہلو میں اکل و شرب ، شادی بیاہ، قربانی (عہد قدیم scapegoat(احبار ۱۶)،ہجرت و جہاد ۔تمام شرائع ایک ہی شارع اللہ تعالیٰ ک غرض و منشاء کی مختلف شکلیں ہیں جنکا مقصود انسانی رویوں human behaviourکو اپنے دائرہ بندگی میں لانا ہے تاکہ انسان کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہو سکے۔(شرائع سابقہ از ڈاکٹر عرفان خالد ڈھلوں (شریعہ اکیڈمی)