ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اور اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا ۔
صحیح بخاری کتاب الصوم، باب صیام عاشوراء ، صحیح مسلم کتاب الصیام،باب صوم عاشوراء
فوائد :
عاشوراء، دس محرم کو کہتے ہیں ۔ دوسری احادیث میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو دیکھا کہ یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا، تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟
انہوں نے کہا،اس دن اللہ تعالٰی نے سیدنا موسٰی علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی۔ اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسٰی (علیہ السلام) کی اس خوشی میں ہم تم سے زیادہ روزہ رکھنے کے حق دار ہیں۔چنانچہ آپ نے بھی دس محرم کا روزہ رکھا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ نو محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا ،تاکہ یہود کی مخالفت (بھی) ہوجائے۔ بلکہ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم فرمایاکہ تم عاشورے کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت بھی کرو اور (اس کے ساتھ ) ایک دن قبل یا بعد کا روزہ بھی رکھو (مسند احمد۔جلد 4 ،ص 21،طبع جدید ،بہ تحقیق احمد شاکر مصری ۔ مجمع الزوائد ،ج3 ، ص188) اس لیے اب دو روزے رکھنے مسنون ہیں، 9 10، محرم
یا 10 ،11دس محرم کا روزہ ۔ افسوس کی مسلمان محرم کی 9 ، 10تاریخ کو اس سنت پر تو عمل نہیں کرتے،لیکن اپنی طرف سے گھڑی ہوئی بہت سی بدعات پر سختی سے عمل کرتے ہیں یا پھر ماتم اور عزا کی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں جو شیعوں کا مخصوص مذہب اور شعار ہے اور جس میں شرکت سخت گناہ ہے۔ تفصیل کے لیے راقم کی کتاب '' ماہ محرم اور موجودہ مسلمان '' حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
سیدنا ابو قتادہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے کی بابت سوال کیا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔
صحیح مسلم کتاب الصیام باب استحباب صیام ثلاثہ ایام
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو 9 محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔ صحیح مسلم کتاب الصیام باب أی یوم یصام عاشوراء
فوائد :
بعض لوگ اس کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ میں صرف 9 محرم کا روزہ رکھوں گا۔
لیکن دوسری روایات کی رو سے یہ مفہوم صحیح نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مخالفت اختیار کرنے کے لیے دس محرم کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ رکھنے کا عزم فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا،جیسا کہ مسند احمد کی روایت ہم نے بیان کی ہے۔ اس لیے اس کا وہی مفہوم صحیح ہے جو ہم نے اس ترجمے میں اختیار کیا ہے ۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
صحیح بخاری کتاب الصوم، باب صیام عاشوراء ، صحیح مسلم کتاب الصیام،باب صوم عاشوراء
فوائد :
عاشوراء، دس محرم کو کہتے ہیں ۔ دوسری احادیث میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو دیکھا کہ یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا، تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟
انہوں نے کہا،اس دن اللہ تعالٰی نے سیدنا موسٰی علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی۔ اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسٰی (علیہ السلام) کی اس خوشی میں ہم تم سے زیادہ روزہ رکھنے کے حق دار ہیں۔چنانچہ آپ نے بھی دس محرم کا روزہ رکھا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ نو محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا ،تاکہ یہود کی مخالفت (بھی) ہوجائے۔ بلکہ ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم فرمایاکہ تم عاشورے کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت بھی کرو اور (اس کے ساتھ ) ایک دن قبل یا بعد کا روزہ بھی رکھو (مسند احمد۔جلد 4 ،ص 21،طبع جدید ،بہ تحقیق احمد شاکر مصری ۔ مجمع الزوائد ،ج3 ، ص188) اس لیے اب دو روزے رکھنے مسنون ہیں، 9 10، محرم
یا 10 ،11دس محرم کا روزہ ۔ افسوس کی مسلمان محرم کی 9 ، 10تاریخ کو اس سنت پر تو عمل نہیں کرتے،لیکن اپنی طرف سے گھڑی ہوئی بہت سی بدعات پر سختی سے عمل کرتے ہیں یا پھر ماتم اور عزا کی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں جو شیعوں کا مخصوص مذہب اور شعار ہے اور جس میں شرکت سخت گناہ ہے۔ تفصیل کے لیے راقم کی کتاب '' ماہ محرم اور موجودہ مسلمان '' حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
سیدنا ابو قتادہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے کی بابت سوال کیا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔
صحیح مسلم کتاب الصیام باب استحباب صیام ثلاثہ ایام
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو 9 محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔ صحیح مسلم کتاب الصیام باب أی یوم یصام عاشوراء
فوائد :
بعض لوگ اس کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ میں صرف 9 محرم کا روزہ رکھوں گا۔
لیکن دوسری روایات کی رو سے یہ مفہوم صحیح نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مخالفت اختیار کرنے کے لیے دس محرم کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ رکھنے کا عزم فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا،جیسا کہ مسند احمد کی روایت ہم نے بیان کی ہے۔ اس لیے اس کا وہی مفہوم صحیح ہے جو ہم نے اس ترجمے میں اختیار کیا ہے ۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ