• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نو ماہ کے بچے کے خلاف قاتلانہ حملے کا مقدمہ ...عبوری ضمانت منظور

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حرام کھا کھا کر اتنی ہمت تو ہے نہیں کہ اصل مجرموں کو پکڑیں، تو اس قسم کے گھناؤنے اور جگ ہنسائی والی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
حرام کھا کھا کر اتنی ہمت تو ہے نہیں کہ اصل مجرموں کو پکڑیں، تو اس قسم کے گھناؤنے اور جگ ہنسائی والی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
اللہ ہی بہتر جانتا ہے محترم بھائیو ہو سکتا ہے یہ بات ایسے ہی ہو اور سازش بھی ہو سکتی ہے پھنسانے کے لئے
لیکن یہ طنزو مزاح کا سیکشن ہے تو اس لحاظ سے واقعی زبردست ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کارِ سرکار میں مداخلت اور سرکاری اہلکاروں پر قاتلانہ حملے کے مقدمے میں نو ماہ کے بچے کو ملزم قرار دینے والے پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے تاہم بچے کا نام تاحال مقدمے سے خارج نہیں کیا گیا ہے۔

محمد موسیٰ خان نامی اس بچے سمیت 30 افراد پر یہ مقدمہ مسلم ٹاؤن کے علاقے میں محکمۂ سوئی گیس کے ملازمین اور پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی اور مبینہ جھگڑے کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔

ان افراد پر الزام ہے کہ انھوں نے گیس کی چوری کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹیم اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس سے ان کی جان کو خطرات لاحق ہوئے۔

جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کے موقع پر دیگر ملزمان کے ہمراہ نو ماہ کے موسیٰ خان کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں وہ دودھ کی بوتل لیے اپنے والد کی گود میں بیٹھا رہا جو خود بھی نامزد ملزم ہے۔

ح

30 افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا ھے جس پر یہ نام، مخبر اور موجود گواہ کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں، بچہ عدالت میں لانے سے تو جان نہیں چھوٹنے والی، انکوائری سے معلوم ہو جائے گا کہ ملتا جلتا نام کس نے دیا ٖاور اس نام کا اصل کردرار کون ھے، کیونکہ یہ نام مقدمہ سے خارج نہیں کیا گیا، اس نام کا باپ بھی اسی مقدمہ میں شامل ھے۔
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
جب پانچ ماہ کا بچہ "دہشت گرد "ہو سکتا ہے تو نو ماہ کے بچے کا قاتلانہ حملے میں ملوث ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
یہ تو عدالت پہنچ گیا۔۔اس کا مقدمہ شاید اللہ ہی کی عدالت میں لگے گا۔

اللھم فک قید اسرانا واسر المسلمین۔۔۔اللھم تقبل
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
پولیس کی غفلت عمر اور نام معلوم کیے بغیر ایف آئی آر درج
لاہور کی ایک عدالت میں چند روز قبل نو ماہ کے بچے موسیٰ کو اقدام قتل کے ایک مقدمے میں ملزم کے طور پر پیش کیے جانے کے واقعے کی پولیس تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ درج کرنے والے پولیس اہلکار نے عیمی اور اس کے بیٹے کے خلاف آیف آئی آر درج کی تھی لیکن بیٹے کا نام اور اس کی عمر کا تعین کرنے کا تردد نہیں کیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق ایف آئی آر درج کرتے وقت غفلت سے کام لینے پر اس پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے۔

پولیس اہلکار نے ایف آئی آر 'عیمی اور اس کے بیٹے' کے نام درج کی اور یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کہ عیمی کے جس بیٹے کو قتل کے اس اہم مقدمے میں نامزد کر رہا ہے اس کا نام اور اس کی عمر کیا ہے۔

نو ماہ کا بچہ ہاتھ میں فیڈر لیے جب عدالت میں اقدام قتل کے ملزم کے طور پر پیش ہوا اور پھر روتے روتے اس نے اپنی ضمانت کے کاغذوں پر انگوٹھا لگایا، یہ مناظر ایسے تھے کہ شاید دیکھنے والے کبھی فراموش ہی نہ کرسکیں۔

پولیس کے مطابق یہ مقدمہ یکم فروری کو گیس چوری روکنے کے لیے جانے والی پولیس ٹیم پر حملے کرنے کے واقعے کے بعد درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران نو ماہ کے بچے کو لاہور کی سیشن عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے شیرخوار بچے کو ملزم کے طور پر پیش کرنے پر پولیس کی خوب سرزنش کی اور معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔

جج صاحب نے ایف آئی آر درج کرنے والے پولیس اہلکاروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے، پچاس ہزار روپے کے مچلکے جمع کروانے کے عوض موسی کی عبوری ضمانت پر رہائی کا حکم دیا اور مقدمے کی سماعت بارہ اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

اہم عدالت کے حکم کے بعد بننے والی پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کے آیف آئی آر تحریر کرتے وقت پولیس اہلکار نے غفلت اور لاپرواہی سے کام لیا۔

ٹیم کے سربراہ معروف صفدر واہلہ کے مطابق 'پولیس نے ایف آئی ار میں موسی کا نام کبھی درج ہی نہیں کیا تھا۔ بلکہ 'عیمی کے بیٹے' کو نامزد کیا گیا تھا۔ اور مقدمے درج کرنے والے اہلکار کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ عیمی کا بیٹا کون ہے اور اس کی عمر کیا ہے۔ اور اب کی جانے والی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یونین کونسل کے ریکارڈ کے مطابق عیمی کے دو بیٹے ہیں جن میں سے کسی کی عمر بھی نو ماہ نہیں۔'

پولیس کی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ معتلقہ ایس ایچ او کی طرف سے عیمی کے بیٹے کی عمر اور نام وغیرہ کر تصدیق میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

کیونکہ قانون کے مطابق سات سال سے کم عمر کے بچے کو کسی مقدمے میں نامزد کیا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی اس پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے۔

عدالت کے حکم پر متعلقہ پولیس اہلکار کو پہلے ہی معطل کیا جا چکا ہے۔ موسی کے وکیل عرفان تارڑ کا کہنا ہے کہ ان کا موسی اور اس کے خاندان سے کوئی رابطہ نہیں۔ عرفان تارڑ کے مطابق پولیس کے دباو کے باعث موسی اور اس کا خاندان شہر چھوڑ کر کہیں اور جا چکا ہے اور ان سے رابطہ ممکن نہیں۔

'میری اطلاع کے مطابق پولیس نے ایف آئی آر سے موسی کا نام خارج کر دیا ہے۔ لیکن میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا ہے۔ اس بات کا پتہ تو تب ہی چل سکے گا جب کہ تحریری طور پر عدالت میں کوئی دستاویز پیش کی جائے گی۔'

لاہور کے ڈی آئی جی آپریشن رانا جبار کہتے ہیں کہ 'پولیس نے موسی کو کبھی ایف آئی آر میں نامزد ہی نہیں کیا تھا تو اس کا نام خارج کرنے کا تو سوال ہی نہیں۔ تاہم اس مقدمے میں موسی کے خاندان پر دھوکہ دہی کا مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔'

بارہ تاریخ کو اس مقدمے کی سماعت ہے۔ بارہ کو پولیس کی جانب سے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ آئندہ یہ مقدمہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اس کا پتہ تو اگلی سماعت پر ہی چلے گا۔ کیا موسی اور اس کا خاندان عدالت میں پیش ہوں گے؟ ان کے وکیل عرفان تارڑ کہتے ہیں کہ وہ جمعے کی شام سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مقدمہ جس طرح سے بھی آگے بڑھے سوال یہ ہے کہ اس مقدمے سے پاکستان اور اس کے اداروں کی جو جگ ہنسائی ہوئی ہے کیا اس سے کوئی سبق سیکھا گیا ہے یا نہیں؟

'پولیس نے موسی کو کبھی ایف آئی آر میں نامزد ہی نہیں کیا تھا تو اس کا نام خارج کرنے کا تو سوال ہی نہیں۔ تاہم اس مقدمے میں موسی کے خاندان پر دھوکہ دہی کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔'

شمائلہ جعفری: جمعرات 10 اپريل 2014
 
Top