• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نو/ گیارہ تحقیقاتی کمیشن کے 28 صفحات!

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
نو/ گیارہ تحقیقاتی کمیشن کے 28 صفحات!
روزنامہ پاکستان، 30 اپریل 2016
کالم: لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان

کچھ دنوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔


امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا جانے والا ہے کہ اس خفیہ رپورٹ کے وہ 28 صفحات پبلک کر دیئے جائیں جو نو/ گیارہ حادثے کی تحقیقات کا حصہ تھے اور جنہیں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے کیپٹل ہل کے تہہ خانے میں مقفل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ 838 صفحات پر مشتمل تھی۔ اس وقت یہ عذر تراشا گیا تھا کہ اگر ان 28 صفحات کو عوام کے سامنے کھول دیا گیا تو امریکہ کے انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے ذرائع اور طور طریقوں کی قلعی کھل جائے گی۔ لیکن اس وقت بھی اور آج بھی اکثر مبصرین کو معلوم ہے کہ امریکہ نے یہ اقدام امریکہ، سعودی تعلقات کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے اٹھایا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ نو/ گیارہ کے واقعے میں جو 19 لوگ ملوث پائے گئے تھے ان میں 15 سعودی شہری تھے۔ ان میں سے ایک ایک سے طویل پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ سب سے اہم سوال جو پوچھا گیا تھا وہ یہ تھا کہ کیا نو/ گیارہ برپا کرنے والوں کے رابطے سعودی عرب میں کسی حکومتی اہلکار کے ساتھ بھی تھے یا نہیں؟ یہ بات تو ایک دنیا کو معلوم ہے کہ بہت سے سعودی ارب پتی امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی مالی آبیاری کرتے رہتے تھے۔ لیکن کیا برسراقتدار حکمرانوں کا کوئی تعلق بھی ان دہشت گردوں سے تھا یا نہیں تھا، اس کی چند دھندلی سی جھلکیاں تحقیقاتی رپورٹ کے ان صفحات میں موجود تھیں جن کو سربمہر کر دیا گیا تھا۔

یہ انکشاف کوئی تازہ انکشاف نہیں ہے، بلکہ 2012ء میں بھی فلوریڈا کے ایک سابق سینیٹر باب گراہم نے جو تحقیقاتی کمیشن کے مشترکہ چیئرمین تھے ایک پبلک بیان میں کہا تھا کہ وہ 28 صفحات جو مقفل ہیں، ان کو کھولا جائے اور معلوم کیا جائے کہ سعودی حکومت کے اربابِ اختیار کا اس حادثے میں کیا رول تھا۔ لیکن جیسا کہ امریکہ میں دستور ہے وہاں کا میڈیا اسی وقت کوئی طوفان اٹھاتا ہے جب داخلی یا بین الاقوامی سطح پر ایسی کرتوت کی ضرورت ہوتی ہے۔


ہم جانتے ہیں کہ نو/گیارہ کا حادثہ ستمبر 2001ء میں پیش آیا تھا جس میں تقریباً 3000 امریکی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے اصل مجرم کون تھے؟

کیا اسرائیلی تھے یا کوئی اور تھے،
یہ اٹیک پلان افغانستان میں بیٹھ کر بنایا گیا تھا
یا تل ابیب میں موساد ہیڈکوارٹر میں اور کیا
اس وقت کے امیر افغانستان ملا عمر اور اسامہ بن لادن کا بھی کوئی کردار تھا یا نہیں،
ان سوالوں پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
اب یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کو آج 15 برس بعد ان 28 صفحات کا خیال کیوں آیا اور وہ گزشتہ 15 برس اس بارود کو سینے میں چھپا کر کیوں بیٹھے رہے؟

ایران اور عرب کی باہمی کشیدگی کوئی زمانہ ء حال کی پیداوار نہیں۔ اس کے ڈانڈے تو خلافتِ راشدہ کے ساتھ ملائے جاتے ہیں۔ لیکن نو/گیارہ کے بعد امریکہ نے عراق پر جو حملہ کیا تھا اور صدام کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا تو اس عراقی شکست کا فائدہ کس نے اٹھایا تھا؟ ہم جانتے ہیں کہ مالی فوائد تو تیل کی کنوؤں کی اجارہ داری کی صورت میں امریکہ نے اٹھائے تھے لیکن علاقائی سیاسی منظرنامے میں نہ صرف یہ کہ ایران نے عراق میں بلکہ شام اور لبنان میں بھی اپنی سیاسی اور عسکری حیثیت بمقابلہ سعودی عرب مضبوط کر لی تھی۔ سعودی عرب کو بجا طور پر یہ احساس تھا کہ یہ سب کچھ اس کے علاقائی مفادات کی قیمت پر کیا جا رہا ہے۔ ایران آہستہ آہستہ اپنا عالمی اور علاقائی قد کاٹھ بڑھاتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے اپنے کارڈ بڑی عقل مندی سے کھیلے۔ ایران کا سب سے بڑا کارڈ اس کی عسکری برتری تھی جو اسے عربوں پر حاصل تھی۔ جہاں سعودی عرب اپنا تیل بیچ کر اربوں ڈالر کا عسکری سازو سامان مغربی ممالک سے خرید رہا تھا وہاں ایران نے اپنی ملٹری اساس کو مضبوط کیا، خانہ ساز میزائل سازی کی ڈویلپمنٹ میں دن رات ایک کر دیئے اور سب سے بڑھ کر یہ کیا کہ جوہری ٹیکنالوجی میں ایسی پیشرفت کر لی کہ نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ تک کو بھی خطرہ پیدا ہو گیا کہ مشرق وسطیٰ میں ان کا غلبہ زیر خطر ہونے والا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ نے جوں جوں ایران کی مخالفت کی، رشین جوہری تعاون اور عسکری اثر و رسوخ نے بڑی خاموشی اور انتہائی رازداری سے ایران کو ’’ناقابلِ شکست‘‘ بنا دیا۔


میں نے ’’ناقابلِ شکست‘‘ کی ترکیب اس حوالے سے استعمال کی ہے کہ ایران اور اس کے حریفوں
(مغربی ممالک۔۔۔ ناٹو، اسرائیل، سعودی عرب، عرب امارات وغیرہ) کے درمیان فوجی طاقت کا تو کوئی مقابلہ ہی نہ تھا، لیکن ایران کی لوکیشن، امریکی عسکری مفادات (سنٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر) دو امریکی طیارہ بردار اور اسرائیل کے نیوکلیئر پلانٹ سب کے سب ایران کے میزائلوں کی زد میں تھے۔ 1979ء میں شاہ ایران کی جگہ امام خمینی نے آ کر ایرانی قوم میں شوقِ شہادت کی نئی روح پھونک دی تھی۔ ایران۔ عراق دس سالہ جنگ میں امریکیوں نے دیکھ لیا تھا کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کا جذبہ ء سرفروشی، عراقی وار مشین کے آگے بند باندھ کر سربکف ہو گیا تھا۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایران کا جوابی وار بھی اسرائیل کو اتنا بسمل کر دے گا کہ اس کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ سعودی عرب کے تیل کے کنویں، کویت اور امارات کے کنویں، کم از کم ایک امریکی بحری بیڑا اور اسرائیل کا بیشتر علاقہ ملبے کا ڈھیر بن جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ایران شکست کھا کر بھی مشرق وسطیٰ کا سارا نقشہ تبدیل کر دے گا۔


اور میرے خیال میں، سب سے زیادہ قابلِ ذکر ڈیٹرنس جو ایران کے پاس تھا وہ روس اور ایران کی ملی بھگت تھی۔ صدر پوٹن کا خفیہ اشارہ تھا کہ ایران کو اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا۔ صدر امریکہ، اوباما کو اس کی خوب خبر تھی۔ اور اگرچہ نیتن یاہو چیختا چلاتا رہا اور بار بار دھمکیاں دیتا رہا کہ اگر امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ نہ کیا تو اسرائیل اکیلا اس کے لئے تیار ہے۔ یہ گیڈر بھبکی ایک بار نہیں درجنوں بار دی گئی۔ لیکن اوباما کو معلوم تھا کہ ایسا کرنے سے تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی اور کرۂ ارض ہیروشیما اور ناگاساکی بن جائے گا۔ چنانچہ اوباما نے ایران سے مذاکرات کا ڈول ڈالا اور گزشتہ برس وہ ایران، امریکہ ڈیل مکمل ہوئی جو سعودی عرب، امریکہ تعلقات کے تابوت میں گویا آخری کیل تھی۔۔۔ امریکہ نے اپنے دیرینہ اتحادی
(سعودی عرب) کو اپنی حمایت جتانے کے لئے ایک اور چال چلی۔۔۔ وہ داعش کی تشکیل تھی۔


امریکی اسلحہ، ٹریننگ اور عرب سرمائے نے آناً فاناً دمشق کو جا لیا اور عراق کے ایک بڑے حصے پر بھی تسلط حاصل کر لیا۔ امریکی اور سعودی بہت خوش تھے کہ اب دیکھیں ایران کو کون بچاتا ہے اور عراق، شام اور لبنان کب داعش کی جھولی میں آگرتے ہیں۔۔۔ یہی وہ اہم ترین لمحہ
(Defining Moment) تھا جس کا ایران کو انتظار تھا۔ تہران نے ماسکو کو آگاہ کیا کہ اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں!۔۔۔ پھر سب نے دیکھا کہ طرطوس اور انطاکیہ میں روسی فضائیہ اتر آئی۔ روسی بحریہ کا ایک بڑا حصہ بھی یہاں موجود تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے داعش کے ٹھکانے ریت کی دیوار بننے لگے اور امریکہ اپنے گراؤنڈ ٹروپس کمٹ (Commit) کرنے پر تیار نہ ہوا۔ سعودیوں کو اس امریکی ’’بے وفائی‘‘ پربہت طیش آیا۔ ان کے مشرق میں یمن بھی ہاتھ سے نکل رہا تھا اس لئے سعودیوں نے امریکی لاجسٹک سپورٹ کے بل بوتے پر یمن کے حوثیوں کے ٹھکانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ یہی وہ ایام بھی تھے جب افغانستان میں چودہ سال کی بھرپور لڑائی کے بعد بھی امریکی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے تھے اور دسمبر 2014ء میں صرف 10000 ٹروپس وہاں چھوڑ کر ان کی دم دبا کر یہاں سے نکل گئے تھے۔ افغانستان کی جنگ میں امریکیوں کا جو جانی اور مالی نقصان ہوا اور ناٹو ممالک نے امریکہ کی ’’محبت‘‘ میں اپنے افسروں اور جوانوں کی جانوں کی جو قربانی دی اس کی داستانیں آنے والے مغربی مورخ جب ترتیب دیں گے تو ناٹو ممالک کے ارباب اختیار اپنے اسلاف کو کوسا کریں گے۔ یہ کہنے کی شائد ضرورت نہیں کہ یورپی یونین کا تارو پود بھی آج نہیں تو کل بکھرنے والا ہے اور امریکہ کے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کا طاقتور امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ (Trump) تو صاف صاف اعلان کر رہا ہے کہ وہ اگر صدر منتخب ہو گیا تو کسی امریکی سپاہی کو کسی بے فائدہ جنگ میں جھونکنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ اور اس نے یہ تک بھی کہا ہے کہ امریکہ کو ناٹو تنظیم توڑ دینی چاہیے۔


میں دو روز پہلے ٹرمپ کی وہ تقریر بی بی سی پر سن رہا تھا جو رات ساڑھے نو بجے سے لے کر سوا دس بجے تک براہ راست آ رہی تھی۔ مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں اس کے خیالات و تصورات جو بھی ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ان سے ایک گو نہ نفرت تھی لیکن جب انہوں نے واشنگٹن میں تقریباً ایک گھنٹے کی فی البدیہہ تقریر کی اور ایک لمحے کو بھی کسی پرزہ کاغذ کا سہارا نہ لیا تو میں ان کی یادداشت اور بلاغت پر حیران رہ گیا۔ مجھے یوں لگا کہ کلنٹن اور ٹرمپ کا انتخابی دنگل سخت کانٹے دار ہو گا۔ ٹرمپ کی تقریر کا موضوع ’’امریکہ کی خارجہ پالیسی‘‘ تھا۔ ہم سب جانتے ہیں یہ ایک مشکل ترین موضوع ہے۔ لیکن انہوں نے اعدادوشمار کے جو حوالے دیئے وہ حیران کن تھے۔ 50 منٹوں میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی وہ نہیں ڈگمگائے۔ کسی Fumbling کا مظاہرہ نہیں کیا، بے تکان بولتے چلے گئے۔ ایک ایک نکتے پر سیر حاصل تقریر کی اور حاضرین سے داد سمیٹی۔ میں نے (اور آپ نے بھی) کئی بار ہلیری کلنٹن کو سنا ہو گا۔ وہ بھی جب لب کھولتی ہیں تو بین الاقوامی موضوعات پر معلومات فصاحت کے دریا بہا دیتی ہیں۔ جسے معلوم نہیں یہ امریکی لوگ کیا کھاتے اور کیا پیتے ہیں۔ یہی دیکھئے کہ ٹرمپ ارب پتی سرمایہ دار ہیں لیکن ان کا اندازِ تخاطب اور بین الاقوامی سیاسیات کے موضوعات پر ان کی گرفت بے مثال ہے۔ ان کی بولنے کی سپیڈ وہی تھی جو ہمارے ٹی وی اینکرز کی ہوتی ہے لیکن ایک گھنٹہ تک مسلسل ایک سا ٹمپو برقرار رکھنا اور پانی کا کوئی گھونٹ حلق سے نہ اتارنا، ایک عجیب طرح کا نشاط انگیز منظر تھا۔


سعودی عرب کے قائدین نے امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر کانگریس نے 28 صفحات کو پبلک کرنے کی منظوری دے دی تو وہ امریکی بینکوں سے اپنا 750 ارب ڈالر کا سرمایہ نکال لیں گے!۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا!۔۔۔ ان 28 مقفل صفحات کے علاوہ نجانے اور کتنے راز ہائے درون سینہ (یا تہہ خانہ) ہوں گے جو اس کے بعد دنیا کو معلوم ہوں گے اور قارئین و سامعین کی انگلیاں دانتوں میں دب جائیں گی!

 
Top