• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نِکاح نِصف اِیمان

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

نِکاح نِصف اِیمان


حدیث شریف:عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ’’ من تزوج فقد استكمل نصف الإيمان فليتق الله في النصف الباقي‘‘ ۔ ( الطبراني الأوسط : 7643، 8/315 – شعب الإيمان :5100 ، 7/241 – مستدرك الحاكم :2/161 )

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا لہذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ تعالٰی کا تقوی اختیار کرے "۔ { الطبرانی الاوسط ، شعب الایمان ، مستدرک الحاکم } ۔



تشریح : شادی اور نکاح انسان کی ضرورت ، نسلِ انسانی کے تسلسل کا ذریعہ اور جنسی ضرورت کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے ، شادی اسلام کی نظر میں ایک مُقدس رشتہ اور اللہ تعالٰی کے افضل ترین بندوں کی سُنّت ہے ’’ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ‘‘" ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا " {الرعد:38} ۔ شادی انسان کو جسمانی راحت اور قلبی سکون فراہم کرتی ہے : ’’ وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ‘‘" اور اس کی نشانی میں سے ہے کہ تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے [ میاں بیوی کے ] درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی"{الرُّوم:21} ۔ اسلام نے شادی کو یہ اہمیت دی کہ اس کے لئے کوشش کرنے والے انسان کے ساتھ اللہ تعالٰی کی خصوصی مدد رہتی ہے ، ارشاد نبوی ہے "تین قسم کے لوگوں کا حق ہے کہ اللہ تعالٰی ان کی مدد کرے : ۱- اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔

۲- کاتب غلام جو حق مکاتبت ادا کرنا چاہتا ہے ۔

۳- شادی کرنے والا جو عفت پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے" ۔{ مسند احمد ، الترمذی ، نسائی } ۔

شادی کو اسلام میں وہ مقام حاصل ہے کہ اس رشتے کو جوڑنے اور توڑنے میں کھیل و تماشہ اور ہنسی و مذاق کی گنجائش نہیں ہے ، ارشاد نبوی ہے" تین کام ایسے ہیں کہ اس سلسلے میں سنجیدگی حقیقت ہے اور ہنسی مزاح بھی حقیقت ہے ، نکاح ، طلاق اور رجعت ۔ { ابو داود ، الترمذی } ۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی عورت سے مذاق میں نکاح کرتا ہے ، جیسے آج کل فلموں اور ڈراموں میں عام ہے تو یہ حقیقت میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے بشرط یہ کہ دیگر شرائط نکاح موجود ہوں ، اسی طرح اگر کوئی بیوی کو مذاق میں یہ کہتا ہے کہ تجھے طلاق تو اس سےطلاق واقع ہوجائے گی ، اِسی پر رجعت کوقیاس کرلیں ۔ اور اگر کوئی شخص اس رشتے میں بندھے جوڑے کے درمیان فساد ڈالتا ہے تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے اعلان براءت ہے " وہ ہم میں سے نہیں ہے جو کسی کی بیوی کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے اور غلام کو اس کے آقا کے خلاف بھڑکائے " ۔{سنن ابو داود ، مستدرک الحاکم } ۔

زیرِ بحث حدیث سے بھی شادی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ شادی کو اسلام میں دین کا ایک حصہ بلکہ ایک بڑا حصہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے لہذا ہر صاحبِ اِستطاعت کو چاہئے کہ وہ شادی کرے ، عالی تعلیم ، اونچی نوکری اور کثیر مال کا حصول اس میں رُکاوٹ نہیں بننا چاہئے ممکن ہے کہ نکاح کی برکت سے اللہ تعالٰی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و فراخی میں بدل دے ، اس حدیث میں نکاح کو نِصف ایمان یا نصف دین یا تو نکاح پر ترغیب اوراہمیت کے پیش نظر کہا گیا تاکہ لوگ اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس میں کوتاہی نہ کریں یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر دینی و دنیاوی طور پر انسان کی بربادی یا تو پیٹ کے لئے ہوتی ہے یا پھر شرمگاہ کے لئے بلکہ یہ عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انہیں دونوں کام کی فکر وسعی میں پڑ کر لوگ دین سے دوری اختیار کرتے ہیں لہذا فرمایا گیا کہ اگر کسی نے شادی کرلی اپنے نصف دین کو محفوظ کرلیا لہذا باقی نصف کے حفاظت کی بھی فکر کرنی چاہئے ، اس سے واضح ہوا کہ اسلام میں شادی صرف شہوت رازی کا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ خانہ بربادی اور انسانی آزادی پر پابندی ہے جیسا کہ بعض جاہل لوگ تصور کرتے ہیں بلکہ یہ ایک مبارک عمل اور اللہ تعالٰی کے نیک بندوں کی سنت ہے ، البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی کرنے والا مذکورہ بالا فضیلت کو حاصل بھی کرلے ، مذکورہ فضیلت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ شادی میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے :

1. شادی محض جِنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں بلکہ تکمیلِ فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے ، اور اللہ کے افضل ترین بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت ہے ، ارشاد نبوی ہے : " نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے " { ابن ماجہ }۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا : "تمہیں چاہئے کہ تم شادی کرو کیونکہ اس امت کے سب سے افضل شخص [ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] سب سے زیادہ بیویوں والے تھے "۔ { مصنف ابن ابی شیبہ }
2. زنا و فواحش سے اپنی پاکدامنی مقصود ہو تاکہ دیگر دنیاوی ضروریات اور بعض بیماریوں سے نجات کے ساتھ اللہ تعالٰی کی مدد کا حق دار ٹھہرے ۔ " جو شخص عفت و پاکدامنی کے لئے شادی کرتا ہے اللہ تعالٰی اس کی مدد ضرور کرتا ہے " ۔{ المشکاۃ } ۔
3. اولاد کی خواہش و نیت رکھے تاکہ اس کے لئے صدقہ جاریہ اور قیامت کے دن جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو ۔ " قیامت کے دن بچوں سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا­ؤ ، وہ جواب دیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک کہ ہمارے ماں باپ جنّت میں داخل نہ ہوجائیں ، اللہ تعالٰی فرمائے گا تم لوگ اور تمہارے ماں باپ سب کے سب جنت میں داخل ہوجا­ؤ " ۔{ احمد :4/105 } ۔
4. دیندار اور شکر گزار عورت سے شادی کرے : ایک بار صحابہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم کون سا مال حاصل کرنے کی کوشش کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" تمہیں چاہئے کہ شُکر کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان حاصل کرو اور ایسی نیک مومن بیوی جو آخرت کے معاملات میں تمہاری مدد کرے ۔{ الترمذی ، ابن ماجہ }۔

فوائد:

۱- شادی انبیاء علیہم السلام کی سُنّت ہے ۔

۲- نکاح و طلاق کو اسلام میں قُدسِیت حاصل ہے اور ان سے کِھلواڑ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔

۳- بعض محض دنیاوی کام اگر ان کے ساتھ نیت صالحہ ہو تو وہ عبادت بن جاتے ہیں ۔

۴- شیطان کو یہ محبوب ہے کہ میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دے ۔



**خلاصہء درسِ حدیث نمبر 160، بتاریخ : 09/10/ربیع الآخر 1432 ھ، م 15/14 ،مارچ 2011م







فضیلۃ الشیخ/ ابو کلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

الغاط، سعودی عرب
Source: http://www.momeen.blogspot.com/
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
بھائی جان مذکورہ بالا حدیث ضعیف ہے۔ یہ حدیث طبرانی اوسط میں دو سندوں کے ساتھ مذکور ہے۔ پہلی سند میں یزید الرقاشی اور جابر جعفی ضعیف راوی ہیں(مجمع الزوائد : 4/463) جبکہ دوسری سند میں بھی یزید الرقاشی ضعیف، حسن بن خلیل بن مرۃ مجہول(سلسلۃ الأحادیث الضعفیہ : 2/124) اور خلیل بن مرۃ ضعیف راوی ہے۔(تقریب التہذیب : 1/275) دوسرا آپ نے جو مستدرک حاکم کا حوالہ دیا ہے اس حوالے سے عرض ہے کہ مستدرک حاکم کی حدیث کے الفاظ بیان کردہ حدیث سے مختلف ہیں۔
بہرحال حدیث کی تشریح میں بیان کردہ آپ کی معروضات قابل قدر ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
یعنی اگر کوئی شخص کسی عورت سے مذاق میں نکاح کرتا ہے ، جیسے آج کل فلموں اور ڈراموں میں عام ہے تو یہ حقیقت میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے بشرط یہ کہ دیگر شرائط نکاح موجود ہوں
کیا واقعی؟؟؟؟ دیگر شرائط نکاح سے کیا مراد؟ یعنی دل سے نیت ہو یا نہ ہو، اگر قاضی گواہوں کے سامنے پوچھ لے اور مرد و عورت قبول کرتے ہوئے دکھائے جائیں تو یہ نکاح منعقد ہو جائے گا؟؟؟
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.


ما صحة القول بأن الزواج شطر الدين


ما حكم مؤخر الصداق؟ وهل نصف دينه بالزواج ويتقي الله بالنصف الآخر من أين هذا القول؟


~~~~~~~~~~~~~~~~~~؛


الجواب:


يروى عن النبي ﷺ في حديث في سنده نظر إذا تزوج الإنسان فقد أحرز شطر دينه فليتق الله في الشطر الآخر، جاء هذا من طرق لا تخلو من ضعف عند أهل العلم، ولا شك أن الزواج مهم، ولكن كونه الشطر محل نظر! إنما هو مهم الله يقول جل وعلا: وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [النور:32]


ويقول : وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ الآية [النساء:3]، والرسول ﷺ أمر بالنكاح كما سمعتم وحث الشباب على ذلك وقال: تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم يوم القيامة فالرسول ﷺ حث على هذا ورغب فيه كما أمر به الله ، لكن كونه شطر الدين هذا محل نظر لضعف الحديث.
ولكن ينبغي للمؤمن أن يحرص عليه، وهو شعبة من الدين وفرض من الفرائض، ومن أسباب العفة وغض البصر، ومن أسباب الاستقامة، ومن أسباب صلاح المجتمع، ومن أسباب كثرة النسل وكثرة الأمة، وكثرة من يعبد الله  فينبغي الجد في ذلك ولكن ينبغي له أن يختار المرأة الصالحة.
وإن تيسر أنه ينظر للمرأة قبل الزواج فهو أحسن، النبي ﷺ أمر الخاطب أن ينظر أخبر ﷺ إذا خطب أحدكم امرأة فإن استطاع أن ينظر إلى ما يدعوه إلى نكاحها فليفعل. وسأله رجل قال: يا رسول الله، إني خطبت فلانة، فقال: أنظرت إليها؟ قال: لا، قال: اذهب فانظر إليها، فإذا تيسر النظر إليها فهو أولى، وينبغي لأهلها أن يسمحوا بذلك تنظره وينظرها لا بأس.


لكن في محل ما فيه خلوة، ينظر إليها وتنظر إليه مع حضور والدها أو أمها أو أخيها، يعني ليس في خلوة في مكان ما فيه خلوة، لا يخلو بها، لأن الخلوة من أسباب وقوع الفاحشة.


وكذلك ما نبه عليه الشيخ صالح ما قد يقع من بعض الناس، أنا ما سمعته من المسلمين لكن موجود في الخارج، وهو أن يسافر معها ولم يعقد عليها حتى ينظر إليها وتنظر إليه، فهذا من البلاء العظيم والمنكر الفظيع نعوذ بالله، إنما مجرد نظر ينظر إليها وتنظر إليه فقط، أما أن يخلو بها ويسافر معها وتسافر معه فهذا منكر كبير، نسأل الله العافية.


 
شمولیت
اگست 04، 2020
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
31
کیا جو نکاح نہی کرتا اسکا ایمان مکمل نہیں
اس مضمون کی حدیث معجم الاوسط ، شعب الایمان، اور مشکاۃ المصابیح وغیرہ میں ہے ،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس بندہ نے نکاح کرلیا اس نے اپنا آدھا دین مکمل کرلیا، اب اسے چاہیے کہ باقی آدھے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے"۔

انسان کے جسم میں دو چیزیں ایسی ہیں جو عام طور پر دین میں نقصان اور فساد کا سبب بنتی ہیں: (1) شرم گاہ (2) پیٹ۔

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے نکاح کرکے شرمگاہ کے فتنے وفساد سے نجات پائی تو اب اسے چاہیے کہ وہ پیٹ کے فتنے وفساد سے بچنے کے لیے کوشش کرتا رہے، اور باری تعالیٰ سے ڈرتا رہے، حلال کمائی اور حلال رزق کے ذریعے اپنے اہل وعیال کا پیٹ بھرے ؛ تاکہ دین کی پوری بھلائی حاصل ہو۔

اس لیے اگر کوئی شخص پہلے ہی سے پیٹ اور دیگر فتنوں سے بچتا رہا ہو تو وہ نکاح کے ذریعے اپنی شرم گاہ کے فتنے سے بھی بچ جاتا ہے اور اس کو دین کی پوری بھلائی حاصل ہوجاتی ہے۔

مشكاة المصابيح (2/ 930)
'' وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا تزوج العبد فقد استكمل نصف الدين، فليتق الله في النصف الباقي»''۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2049)
'' «فليتق الله في النصف الباقي» أي: في بقية أمور دينه، وجعل التزوج نصفاً مبالغةً للحث عليه. وقال الغزالي: الغالب في إفساد الدين الفرج والبطن، وقدكفى بالتزوج أحدهما، ولأن في التزوج التحصن عن الشيطان، وكسر التوقان، ودفع غوائل الشهوة، وغض البصر، وحفظ الفرج''.فقط واللہ اعلم
 
Top