• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کو دیکھنا اور بات چیت کرنا۔

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم
- آج ہمارے معاشرے میں نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اسے برا سمجھا جاتا ہیں جبکہ فرمان نبوی صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کو ایک نزر دیکھ لیا جائے. اس سے میرے ذہن میں کچھ سوالات آتے ہیں جن کے جوابات درکار ہیں.

سوال نمبر 1 : - کیا لڑکی کو دیکھنے کے لیے اس کے گھر جایا جا سکتا ہیں.

سوال نمبر 2: - اگر میں آپنی بات کروں تو میں چاہتا ہوں کی میں جب لڑکی کو دیکھنے جاؤ تو میں اس لڑکی سے چند سوالات کروں۔ (میں اس لڑکی سے دنیاوی معاملات پر کوئ بات نہیں کروں گا صرف شرئ معاملات پر بات کروں گا اور میں چاہو گا کہ جب میں اس لڑکی سے بات کروں تو ہمارے ساتھ کوئی بڑا ہو۔)
لڑکی سے پوچھنے کے لیے چند سوالات:

1:- کیا لڑکی اس نکاح سے رازی ہیں کہی اس کے گھر والوں نے زبردستی تو نہیں کی۔کئی بار دیکھا جاتا ہیں کہ لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا جاتا ہیں پھر باد میں دقت ہوتی ہیں.

2:-ہمارے یہاں سلفی گھر کی لڑکی ملنا بہت مشکل ہے. تو میں اس لڑکی کو اپنے بارے ميں سب کچھ بتانا چاہتا ہوں کہ میں اہل حدیث ہو تاکہ اگے کوئی دقت نا ہو کیوں کہ اہل حدیث کو ہمارے یہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا. (مولویوں نے بہت زہر گھولا ہوا ہیں. )
اصلی مقصد لڑکی سے بات کرنے کا صرف یہ ہے کہ میں اسے اپنے بارے ميں اسے خود سب کچھ بتانا چاہتا ہوں. جس سے آگے کوئی دقت نا ہو.

شیخ محترم پہلے سوال کا جواب درکار ہیں اور دوسرے سوال میں جو میں نے کہا ہیں کیا میرا یہ کرنا مناسب ہوگا۔کیا لڑکی سے بات کی جا سکتی ہیں. آپ کی رہنمائی چاہیے.

جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس موضوع پر ایک جامع فتویٰ ملاحظہ فرمائیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حدود النظر إلى المخطوبة وحكم مسها والخلوة بها وهل يُشترط إذنها
السؤال :
قرأت حديث النبي صلى الله عليه وسلم والذي يجيز للرجل أن يرى المرأة التي ينوي الزواج بها ، سؤالي هو : ما هو المسموح رؤيته للرجل في المرأة التي ينوي خطبتها للزواج هل يسمح له أن يرى شعرها أو راسها بالكامل ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب:
الحمد لله
لقد جاءت الشريعة الإسلامية بالأمر بغض البصر وتحريم النّظر إلى المرأة الأجنبية طهارة للنّفوس وصيانة لأعراض العباد واستثنت الشّريعة حالات أباحت فيها النّظر إلى المرأة الأجنبية للضرورة وللحاجة العظيمة ومن ذلك نظر الخاطب إلى المخطوبة إذ إنّه سينبني على ذلك اتّخاذ قرار خطير ذي شأن في حياة كل من المرأة والرجل ، ومن النصًوص الدالة على جواز النظر إلى المخطوبة ما يلي :
1- عن جابر بن عبد الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إذا خطب أحدكم المرأة فإن استطاع أن ينظر إلى ما يدعوه إلى نكاحها فليفعل ) قال : " فخطبت جارية فكنت أتخبأ لها ، حتى رأيت منها ما دعاني إلى نكاحها وتزوجتها " وفي رواية : " وقال جارية من بني سلمة ، فكنت أتخبأ لها تحت الكرب ، حتى رأيت منها ما دعاني إلى نكاحها ، فتزوجتها " صحيح أبو داود رقم 1832 و 1834
2- عن أبي هريرة قال : " كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فأتاه رجل فأخبره أنه تزوج امرأة من الأنصار ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( أنظرت إليها ؟ ) قال : لا ، قال : ( فاذهب فانظر إليها فإن في أعين الأنصار شيئاً ) رواه مسلم رقم 1424 والدار قطني 3/253(34)
3- عن المغيرة بن شعبة قال : خطبت امرأة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( أنظرت إليها ؟ ) قلت : لا ، قال : ( فانظر إليها فأنه أحرى أن يؤدم بينكما ) . وفي رواية : قال : ففعل ذلك . قال : فتزوجها فذكر من موافقتها . رواه الدارقطني 3/252 (31،32) ، وابن ماجه 1/574 .
4- عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال : " إن امرأة جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقالت : يا رسول الله ، جئت لأهب لك نفسي ، فنظر إليها رسول الله صلى الله عيله وسلم ، فصعّد النظر إليها وصوّبه ، ثم طأطأ رأسه ، فلما رأت المرأة أنه لم يقض فيها شيئاً جلست ، فقام رجل من أصحابه فقال : أي رسول الله ، لإِن لم تكن لك بها حاجة فزوجنيها .. ) الحديث أخرجه البخاري 7/19 ، ومسلم 4/143 ، والنسائي 6/113 بشرح السيوطي ، والبيهقي 7/84 .
من أقوال العلماء في حدود النّظر إلى المخطوبة :
قال الشافعي - رحمه الله - : " وإذا أراد أن يتزوج المرأة فليس له أن ينظر إليها حاسرة ، وينظر إلى وجهها وكفيها وهي متغطية بإذنها وبغير إذنها ، قال تعالى : ( ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها ) قال : الوجه والكفين " ( الحاوي الكبير 9/34 )
وقال الإمام النووي في ( روضة الطالبين وعمدة المفتين 7/19-20 : " إذا رغب في نكاحها استحب أن ينظر إليها لئلا يندم ، وفي وجه : لا يستحب هذا النظر بل هو مباح ، والصحيح الأول للأحاديث ، ويجوز تكرير هذا النظر بإذنها وبغير إذنها ، فإن لم يتيسر النظر بعث امرأة تتأملها وتصفها له . والمرأة تنظر إلى الرجل إذا أرادت تزوجه ، فإنه يعجبها منه ما يعجبه منها .
ثم المنظور إليه الوجه والكفان ظهراً وبطناً ، ولا ينظر إلى غير ذلك .
وأجاز أبو حنيفة النظر إلى القدمين مع الوجه والكفين . بداية المجتهد ونهاية المقتصد 3/10 .
قال ابن عابدين في حاشيته ( 5/325 ) :
" يباح النظر إلى الوجه والكفين والقدمين لا يتجاوز ذلك " أ.هـ ونقله ابن رشد كما سبق .
ومن الروايات في مذهب الإمام مالك :
- : ينظر إلى الوجه والكفين فقط .
- : ينظر إلى الوجه والكفين واليدين فقط .
وعن الإمام أحمد - رحمه الله - روايات :
إحداهن : ينظر إلى وجهها ويديها .
والثانية : ينظر ما يظهر غالباً كالرقبة والساقين ونحوهما .
ونقل ذلك ابن قدامة في المغني ( 7/454 ) والإمام ابن القيم الجوزية في ( تهذيب السنن 3/25-26 ) ، والحافظ ابن حجر في فتح الباري ( 11/78 ) .. والرواية المعتمدة في كتب الحنابلة هي الرواية الثانية .
ومما تقدّم يتبيّن أن قول جمهور أهل العلم إباحة نظر الخاطب إلى وجه المخطوبة وكفّيها لدلالة الوجه على الدمامة أو الجمال ، والكفين على نحافة البدن أو خصوبته .
قال أبو الفرج المقدسي : " ولا خلاف بين أهل العلم في إباحة النظر إلى وجهها .. مجمع المحاسن ، وموضع النظر .. "
حكم مس المخطوبة والخلوة بها
قال الزيلعي رحمه الله : ( ولا يجوز له أن يمس وجهها ولا كفيها - وإن أَمِن الشهوة - لوجود الحرمة ، وانعدام الضرورة أ.هـ ، وفي درر البحار : لا يحل المسّ للقاضي والشاهد والخاطب وإن أمنوا الشهوة لعدم الحاجة .. أ.هـ ) رد المحتار على الدر المختار 5/237 .
وقال ابن قدامة : ( ولا يجوز له الخلوة بها لأنها مُحرّمة ، ولم يَرد الشرع بغير النظر فبقيت على التحريم ، ولأنه لا يؤمن مع الخلوة مواقعة المحظور ، فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( لا يخلون رجل بإمراة فإن ثالثهما الشيطان ) ولا ينظر إليها نظر تلذذ وشهوة ، ولا ريبة . قال أحمد في رواية صالح : ينظر إلى الوجه ، ولا يكون عن طريق لذة .
وله أن يردّد النظر إليها ، ويتأمل محاسنها ، لأن المقصود لا يحصل إلا بذلك " أ.هـ
إذن المخطوبة في الرؤية :
يجوز النظر إلى من أراد خطبتها ولو بغير إذنها ولا علمها ، وهذا الذي دلت عليه الأحاديث الصحيحة .
قال الحافظ ابن حجر في فتح الباري ( 9/157 ) : " وقال الجمهور : يجوز أن ينظر إليها إذا أراد ذلك بغير إذنها " أ.هـ
قال الشيخ المحدث محمد ناصر الدين الألباني في السلسة الصحيحة (1/156) مؤيدا ذلك : ومثله في الدلالة قوله صلى الله عليه وسلم في الحديث : ( وإن كانت لا تعلم ) وتأيد ذلك بعمل الصحابة رضي الله عنهم ، عمله مع سنته صلى الله عليه وسلم ومنهم محمد بن مسلمة وجابر بن عبد الله ، فإن كلاً منهما تخبأ لخطيبته ليرى منها ما يدعوه إلى نكاحها . … " أ.هـ
فائدة :
قال الشيخ حفظه الله في المرجع السابق ص 156 :
عن أنس بن مالك رضي الله عنه " أن النبي صلى الله عليه وسلم أراد أن يتزوج امرأة ، فبعث امرأة تنظر إليها فقال : شُمِّي عوارضها وانظري إلى عرقوبيها " الحديث أخرجه الحاكم (2/166 ) وقال : " صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي وعن البيهقي ( 7/87 ) وقال في مجمع الزوائد ( 4/507 ) : " رواه أحمد والبزار ، ورجال أحمد ثقات "
قال في مغني المحتاج ( 3/128 ) : " ويؤخذ من الخبر أن للمبعوث أن يصف للباعث زائداً على ما ينظره ، فيستفيد من البعث ما لا يستفيد بنظره " أ.هـ والله تعالى أعلم
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد

__________________
ترجمہ :
منگیتر کودیکھنے کی حد ، اسے چھونے اوراس سے خلوت کرنے کا حکم اورکیا اس میں اس کی اجازت شرط ہے
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی جس میں شادی کرنے کی نیت سے لڑکی دیکھنی جائز ہے ، میرا سوال ہے کہ :
منگیتر کودیکھنے کی حد کیا ہے ، کیا مرد کے لیے اس کے بال یا مکمل سر دیکھنا جائز ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمدللہ

شریعت اسلامیہ نے اجنبی عورت کو دیکھنے سے منع کیا ہے تا کہ نفس کی طہارت و پاکيزگی اورعفت وعصمت اورعزتیں قائم رہیں ، لیکن کچھ حالات میں ضرورت اورحاجت عظیمہ کی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے اجنبی عورت کو دیکھنے کی اجازت دی ہے ۔

جس میں منگنی کرنے والے مرد کا اپنی منگیتر کودیکھنا بھی شامل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہی مرد اورعورت دونوں کی زندگی کا ایک نازک اوراہم فیصلہ شادی کی صورت میں ہونا ہے ، منگیتر کودیکھنے کی نصوص اوردلائل ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں :

1 - سیدناجابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب تم میں سے کوئي ایک کسی عورت سے منگنی کرے تو اگراس سے نکاح میں رغبت دلانے والی چيز دیکھ سکے تو اسے ایسا کرنا چاہیے ) جابر رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک لڑکی سے منگنی کی اورمیں اسےدیکھنے کے لیے چھپ جایا کرتا تھا حتی کہ میں نے اس کا وہ کچھ دیکھا جس نے مجھے نکاح کی دعوت دی تومیں نے اس سے شادی کرلی

اورایک روایت میں ہے کہ :
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں میں نے بنوسلمہ کی ایک لڑکی سے منگنی کی اورمیں اسے دیکھنے کے لیے کھجور کے تنوں میں چھپ جایا کرتا تھا حتی کہ میں نے اس سےنکاح کی رغبت دیکھی تو اس سے شادی کرلی ۔ صحیح سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1832 ) اور ( 1834 ) ۔

2 - سیدنا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا توایک شخص نبی صلی اللہ علیہ کے پاس اورکہنے لگا میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے :
کیا تم اسے دیکھا ہے ؟ وہ کہنے لگا نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اسے جاکر دیکھو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1424 ) سنن دار قطنی ( 3 / 253 ) ( 34 ) ۔

3 -جناب مغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کی تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
کیا تم نے اسے دیکھا ہے ؟ میں نے نفی میں جواب دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
جاؤ اسے جاکر دیکھوکیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا با‏عث بنے گا ۔

اورایک روایت میں ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں ، انہوں نے ایسا ہی کیا ، راوی کہتے ہیں کہ اس سے شادی کرلی اوراس عورت کی موافقت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ سنن دارقطنی ( 3 / 252 ) ( 31 - 32 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 574 ) ۔

4 - سہل بن سعد ساعدی رضي اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ :
ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپنے آپ کوآپ کے لیے ھبہ کرتی ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اوراپنی نظریں اوپرکرنے کے بعد نيچے کرلیں جب عورت نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئي فیصلہ نہیں فرمایا تووہ بیٹھ گئي ۔

صحابہ کرام میں سے ایک صحابی کھڑا ہوا اورکہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ کواس عورت کی ضرورت نہیں تومیرے ساتھ اس کی شادی کردیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تیرے پاس کچھ ہے ؟ اس صحابی نے جواب دیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ اللہ تعالی کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنے گھروالوں کے پاس دیکھو ہوسکتا ہے کچھ مل جائے ، وہ صحابی گيا اورواپس آ کہنے لگا اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے وہ گیا اورواپس آکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم لوہے کی انگوٹھی بھی نہيں ملی ، لیکن میرے پاس یہ چادر ہے اس میں سے نصف اسے دیتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

اس کا تم کیا کرو گے اگر اسے تم باندھ لو تواس پر کچھ بھی نہيں ہوگا ، وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بات سن کر بیٹھ گيا اورجب زيادہ دیر بیٹھا رہا تواٹھ کر چل دیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تواسے واپس بلانے کاحکم دیا جب وہ واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
تجھے کتنا قرآن آتا ہے ؟ اس نے جواب دیا فلاں فلاں سورۃ آتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اسے زبانی پڑھ سکتے ہو ؟ وہ کہنے لگا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جاؤ میں نے جو تمہیں قرآن کریم حفظ ہے اس کے بدلہ میں اس کا مالک بنا دیا ۔
صحیح بخاری ( 7 / 19 ) صحیح مسلم ( 4 / 143 ) سنن نسائي بشرح السیوطی ( 6 / 113 ) سنن البیھقی ( 7 / 84 ) ۔

منگیتر کودیکھنے کی حدمیں علماء کرام کے اقوال :

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جب مرد کسی عورت سے شادی کرنا چاہے اس کے لیے عورت کو بغیر اوڑھنی کے دیکھنا جائز نہيں ، ہاں اس کا سر ڈھانپے ہونے کی شکل میں صرف چہرہ اورہاتھ اس کی اجازت اوراجازت کے بغیر بھی دیکھ سکتا ہے ( یعنی چھپ کر ) ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوراپنی زیب و زینت کو کسی کےسامنے ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے }
کہتے ہیں کہ اس سے مراد چہرہ اورہاتھ ہيں ۔ الحاوی الکبیر ( 9 / 34 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جب لڑکی سے نکاح میں رغبت ہو تو اسے دیکھنا مستحب ہے تا کہ بعد میں ندامت نہ اٹھانی پڑے ۔
اورایک وجہ یہ بھی ہےکہ دیکھنا مستحب نہیں بلکہ مباح ہے ، اور احادیث کی روشنی میں پہلی بات ہی صحیح ہے ، دیکھنے میں تکرار اس کی اجازت اوربغیر اجازت دونوں طریقوں سے جائز ہے ، اگر دیکھنا ممکن نہ ہوسکے تو کسی عورت کو اسے دیکھنے بھیجے جو اسے اچھی طرح دیکھ کر اس کی صفات مرد کے سامنے رکھے ۔

اورعورت بھی جب شادی کرنا چاہے تو وہ بھی مرد کودیکھ سکتی ہے اس لیے کہ جس طرح مرد کی پسند ہے اسی طرح عورت کی بھی پسند ہے ۔
عورت کا چہرہ اورہتھیلیاں دونوں طرف سے دیکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ کوئي اورچیز نہیں دیکھی جاسکتی ۔
روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتین ( 7 / 19 - 20 )

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے دونوں پاؤں ، ہتھیلیاں ، اورچہرہ دیکھنے کی اجازت ہے ۔
دیکھیں بدایۃ المجتھد ونھایۃ المقتصد ( 3 / 10 ) ۔

ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

چہرہ ، ہتھیلیاں ، اورقدم دیکھنے مباح ہيں اس سے تجاوز کرنا صحیح نہیں ۔ ا ھـ ابن رشد نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے ۔ دیکھیں حاشیہ ابن عابدین ( 5 / 325 ) ۔

امام مالک رحمہ اللہ تعالی کی روایات :
- : صرف چہرہ اورہتھیلیاں دیکھ سکتا ہے ۔

- : صرف چہرہ ، اورہتھیلیاں اورہاتھ دیکھ سکتا ہے ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کی روایات :
پہلی روایت : ہاتھ اورچہرہ دیکھ سکتا ہے ۔
دوسری روایت : عام طور پر جو ظاہر ہو وہ دیکھ سکتا ہے مثلا گردن ، پنڈلیاں ، وغیرہ ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے المغنی ( 7 / 454 ) اورامام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ تعالی نے تھذيب السنن ( 3 / 25 - 26 ) اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری ( 11 / 78 ) میں نقل کیا ہے ۔

کتب حنابلہ میں معتمد روایات دوسری ہے ۔
اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہور علماء کرام کے ہاں منگیتر کا چہرہ ، اورہتھیلیاں دیکھنی مباح ہیں اس لیے کہ چہرہ خوبصورتی اورجمال پر یا پھر بدصورتی پر دلالت کرت ہے اورہتھیلیاں عورت کے بدن کے نحیف یا موٹا زرخیز ہونے پر دلالت کرتی ہيں ۔

ابوالفرج المقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اہل علم کے مابین چہرہ دیکھنے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ چہرہ محاسن کو جمع کرنے والا اوردیکھنے کی جگہ ہے ۔

منگیتر سے خلوت اوراسے چھونے کا حکم :

زیلعی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے : مرد کے لیے اپنی منگیتر کے چہرہ اورہتھیلیوں کو چھونا جائز نہیں – اگرچہ شہوت کا خدشہ نہ بھی ہو – ایک تو اس کی حرمت ہے اورپھر اس کی ضرورت بھی نہیں ۔ ا ھـ

اور درر البحار میں ہے کہ " قاضي ، گواہ ، اورمنگیتر کے لیے عورت کو چھونا جائز نہیں ، چاہے ان سب کو شہوت کا خدشہ نہ بھی ہو کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ۔ ا ھـ دیکھیں کتاب : رد المختار علی الدر المختار ( 5 / 237 )

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :
منگیتر سے خلوت کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ حرام ہے ، اورشریعت میں دیکھنے کے علاوہ کچھ وارد نہيں اس لیے یہ اپنی تحریم پر باقی رہے گی ، اوراس لیے بھی کہ خلوت کی بنا پر ممنوعہ کام کے وقوع سے مامون نہيں بلکہ اس میں وقوع کا خدشہ ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تو یہ ہے :

( کوئي بھی مرد کسی عورت سے خلوت نہ کرے کیونکہ ان دونوں میں تیسرا شیطان ہوگا ) ۔

اوراسی طرح منگیتر کی طرف لذت اورشہوت اورشک کی نظر سے بھی نہ دیکھے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے ایک روایت میں کہا ہے :

اسے کا چہرہ دیکھے لیکن اس میں بھی لذت کی نظر نہیں ہونی چاہیے ۔

مرد کےلیے بار بار نظر اٹھا کر دیکھنا جائز ہے تا کہ اس کے محاسن میں غور کرسکے کیونکہ اس کے بغیر مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔ ا ھـ

تو اس طرح منگیتر کو دیکھنے کے متعلق :

منگنی کرنے والے مرد کے لیے اپنی منگیتر کو دیکھنا جائز ہے چاہے وہ اسے اس کی اجازت اورعلم کے بغیر ہی دیکھ لے ، احادیث صحیحہ اسی پر دلالت کرتی ہیں ۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں کہتے ہیں :
جمہور علماء کرام کا کہنا ہے کہ : منگیتر کودیکھنا چاہے تو اس کی اجازت کے بغیر دیکھنا جائز ہے ا ھـ دیکھیں فتح الباری ( 9 / 157 ) ۔

شیخ علامہ اورمحدث عصر محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ تعالی السلسلۃ الصحیحۃ میں اس کی تائید کرتے ہوئے کہتےہیں :
اوراسی طرح اس کی دلالت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( اوراگر وہ علم نہ بھی رکھتی ہو ) میں بھی ملتی ہے ، اوراس کی تائيد صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم کے عمل سے بھی ہوتی ہے جنہوں نے سنت پر عمل کیا ان میں محمد بن مسلمۃ ، جابر بن عبداللہ رضي اللہ تعالی شامل ہیں اس لیے کہ یہ دونوں ہی اپنی منگیترکو دیکھنے کے لیے چھپ جاتے تھے تا کہ اس سے نکاح کی دعوت دینے والی چيز دیکھ سکیں ۔ دیکھیں السلسلۃ الصحیحۃ ( 1 / 156 ) ۔

فائدہ :
ایک دوسری جگہ پر رحمہ اللہ تعالی کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے شادی کرنا چاہی تو ایک عورت کو اسے دیکھنے کے لیے بھیجا اوراسے کہنے لگے : اس کے اگلےدانت اوراس کی ایڑیوں کے اوپر والے حصہ کودیکھنا ۔

اس حدیث امام حاکم نے روایت کیا صحیح کہنے کے بعد کہا ہے کہ یہ مسلم کی شرط پر ہے اورامام ذھبی نے بھی اس کی موافقت کی ہے مستدرکم الحاکم ( 2 / 166 ) سنن البیھقی ( 7 / 87 ) اورمجمع الزاوئد ( 4 / 507 ) میں کہا ہے کہ اسے احمد اوربزار نے روایا کیا ہے اوراحمد کے رجال ثقات ہیں ۔ دیھکیں السلسلۃ الصحیحۃ ( 1 / 157 ) ۔

مغنی المحتاج میں ہے کہ :
اس حدیث سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھیجي گئي عورت کے لیے جائز ہے کہ اس نے جو کچھ دیکھا ہےاس سے زائد بھی بیان کرلے ، تواس طرح وہ اس کے بھیجنے فائدہ حاصل کرسکتا ہے جواسے دیکھنے سے بھی حاصل نہیں ہوگا ۔ دیکھیں المغنی المحتاج ( 3 / 128 ) ۔

واللہ اعلم.
شیخ محمد صالح المنجد
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
شادی سے پہلے منگیتر کو کس حد تک دیکھنا جائز ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کوئی نوجوان کسی دوشیزہ سے منگنی کرنے آئے تو کیا اسے دیکھنا واجب ہے؟ کیا اس وقت دوشیزہ کا اپنے سر کو ننگا کرنا بھی صحیح ہے ؟ رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرمائے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے کہ یہ ایک دوسرے کو دیکھ لیں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے منگنی کرنے والے کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ منگیتر دیکھ لے کیونکہ اس سے دونوں میں محبت پیدا ہو گی، اگر منگیتر اپنا چہراہ دونوں ہاتھ اور سر ننگا کر لے تو صحیح قول کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھوں کو دیکھنا ہی کافی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ مذکور حدیث کے پیش نظر اس کے سر ، چہرہ، دونوں ہاتھوں اور دونوں پائوں کو دیکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن یہ خلوت میں جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اس وقت دونوں کے ساتھ اس کا باپ یا بھائی یا کوئی اور ہو کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
((لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذومحرم )) ( صحيح مسلم )
’’کوئی مرد کسی عورت کیساتھ اس کے محرم کے بغیر خلوت اختیار نہ کرے۔‘‘
نیز آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:
((لايخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان )) ( جامع الترمذي )
’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کرتا مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے بروایت حضرت عمر بن خطابؓ بیان کیا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج3ص145

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
منگیتر کو دیکھنے کی حدود و قیود
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ٭ــــــــــــ٭
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اپنی منگیتر کو دیکھنے کےلئے کیا حدود ہیں، کیا انٹرنیٹ کے ذریعے اس کام کو سرانجام دیا جاسکتا ہے، تصاویر کا تبادلہ کرنا منگنی کےلئےجائز ہے یا نہیں، یہ اس لئے کیا جاتا ہے تا کہ آیندہ شادی کرنے یا نہ کرنے کےمتعلق فیصلہ کرسکیں، اس کےمتعلق تفصیل سے آگاہ کریں۔ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی طور پر اپنی منگیتر کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے باہمی شادی کرنے کا فیصلہ آسان ہوجاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:‘‘جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے منگنی کرے تو اگر ممکن ہوتو اس سے وہ کچھ دیکھ لے جو اس کے لئے نکاح کا باعث ہو۔’’ راوی حدیث حضر ت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ ہدایت کے مطابق میں نے ایک لڑکی کو پیغام نکاح بھیجا، میں اسے چھپ کر دیکھنے کی کوشش کرتا رہا، بالآخرمیں نے اس کے ان اعضاء کو دیکھ ہی لیا جو اس سے نکاح کے لئے باعث رغبت تھے۔ اس کے بعد میں نے اس سےنکاح کرلیا۔ (مسند امام احمد،ص:۳۳۴،ج ۳)
اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ بیا ن کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے بتا یا کہ میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کا ارادہ کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تونے اسے دیکھا ہے؟’’اس نے عرض کیا نہیں ؟ آپ نے فرمایا:‘‘جاؤ اور اسے دیکھ لو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کوئی بیماری ہوتی ہے۔’’ (صحیح مسلم،النکاح:۱۴۲۴)
جمہور علما کے ہاں منگیتر کا صرف چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنا مباح ہے کیونکہ چہرے سے اس کی خوبصورتی اور بدصورتی کا پتہ چلتا ہے اور ہتھیلیوں سے عورت کے بدن کے نرم ، درشت اور باریک اور موٹے ہونے کا علم ہوتا ہے لیکن الگ سےملاقات کرنا، خلوت میں گفتگو شرعاًحرام ہے۔ اگر دیکھنا ممکن نہ ہو تو کسی عورت کو اس کے دیکھنے پر مامور کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺنے ایک عورت سے شادی کرنا چاہی ، تو ایک عورت کو اسے دیکھنے کےلئے بھیجا اور اسے کہا کہ اس کے اگلے دانت سونگھے اور اس کی ایڑیوں کے اوپر والے حصے کو دیکھے۔ (مستدرک حاکم،ص:۱۶۶، ج ۲)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو بھیجنے سے وہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جو خود دیکھنے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ بہرحال اپنی منگیتر کو دیکھنا جائز ہے لیکن اس کے لئے خاص اہتمام کرنا حرام ہے اور دیکھنے کےلئے چار شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
(۱)نکاح کرنے کا ارادہ ہو،اسے محض دل لگی اور مشغلہ کے طور پر سرانجام دیا جائے۔
(۲)خلوت نہ ہو، حدیث کے مطابق ایسے حالات میں شیطان گھس آتا ہے۔
(۳)فتنے یا فساد کا ڈر نہ ہو۔
(۴)مشروع مقدار سے زیادہ نہ دیکھا جائے ، اس سے مرادوہ حصے ہیں جو لڑکی عام طور پر اپنے بھائی بیٹے اور باپ کےسامنے جو کچھ ظاہر کرتی ہے، چونکہ برصغیر کا معاشرہ ابھی تک اس قدر ترقی یافتہ یا تربیت یافتہ نہیں کہ اس میں نکاح کا پیغام دینے والےکےلئے اپنی بیٹی یا بہن کے دکھانے کا اہتمام کیا جائے۔ اس بنا پر اس کےجواز کی آڑ میں دیکھنے دکھانے پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔ والدین بھی اسے اپنی عزت کا مسئلہ نہ بنائیں اور نہ ہی برخوردار اس اسے بطور مشغلہ اپنائیں۔ انٹرنیٹ یا کیبل کی سہولت ہے انہیں اس پہلو کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ بچے اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے والدین کو اس وقت خبر دیتے ہیں جب عدالتی نکاح کے ذریعے وہ خود کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرلیتے ہیں، ہمارے نزدیک منگنی کے لئے تصا ویر کا تبادلہ بھی جائز نہیں ہے اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
(۱)تصویر بنانے کے لئے یہ کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے پھر اسے دیکھنے میں دوسرے بھی شریک ہوسکتے ہیں۔
(۲)تصویر سے حسن و جمال رنگ اور کردار کا پتہ ہی نہیں چلتا ، کتنی ہی ایسی تصاویر ہیں جو حقیقت کے برعکس ہوتی ہیں، تصویر دیکھنے کے بعد جب اصل کو دیکھا گیا تو اس میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔
(۳)یہ بھی ممکن ہے کہ منگنی پایہ تکمیل تک نہ پہنچے اور وہ تصویر منگیتر کے پاس رہے جسے بعد میں بلیک میل کرتا رہے۔ہمارے نزدیک بہتر ہے کہ منگنی کے جملہ معاملات اپنے والدین کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں، اسی میں خیرو برکت ہے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج2ص302

محدث فتویٰ
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
جزاکم اللہ خیرا شیخ

شیخ محترم کیا لڑکی سے بات کر سکتے ہیں اگر ساتھ میں کوئی بڑا ہو.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا لڑکی سے بات کر سکتے ہیں اگر ساتھ میں کوئی بڑا ہو.
جی بالکل بات کرسکتے ہیں ، لیکن تنہائی اور خلوت میں نہیں ، بلکہ لڑکی کے سرپرست کی موجودگی میں
یعنی ضروری ہے کہ اس وقت دونوں کے ساتھ اس کا باپ یا بھائی یا کوئی اور ہو کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
((لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذومحرم )) ( صحيح مسلم )
’’کوئی مرد کسی عورت کیساتھ اس کے محرم کے بغیر خلوت اختیار نہ کرے۔‘‘
نیز آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:
((لايخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان )) ( جامع الترمذي )
’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کرتا مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے بروایت حضرت عمر بن خطابؓ بیان کیا ہے۔
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
جزاکم اللہ خیرا شیخ آپ کا بہت بہت شکریہ۔آپ نے میرے سارے اشکال دور کر دیے۔شکریہ
 
Top