- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
تحقیق حدیث کے متعلق سوالات کے زمرہ میں محترم بھائی @عمار شمسی صاحب نے ذیل کے سکین میں حدیث کی حقیقت پوچھی ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
جواب
اس امیج میں پہلی بات جس میں رشتہ کیلئے دین و اخلاق دیکھنے کا ارشاد ہے ،تو وہ حدیث نبوی میں ثابت ہے ،
جبکہ آخری سطر میں لڑکی کے جس طرح کے اظہارکا معاملہ ہے تو ان الفاظ میں ثابت نہیں ،تاہم لڑکی کا اختیار و رضا اسکے نکاح میں ضروری ہے ،یہ دونوں باتیں ہماری درج ذیل تحریر میں دیکھ لیں ۔
اور لڑکے کو اپنی شادی کے معاملے میں پورا اختیار ہے؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنن الترمذی
باب ما جاء إذا جاءكم من ترضون دينه فزوجوه
باب: قابل اطمینان دیندار کی طرف سے شادی کا پیغام آنے پر شادی کر دینے کا حکم
حدثنا قتيبة حدثنا عبد الحميد بن سليمان عن ابن عجلان عن ابن وثيمة النصري عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد عريض ". قال: وفي الباب عن ابي حاتم المزني وعائشة ‘‘
(سنن الترمذی ،حدیث نمبر: 1084)
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی اس روایت میں عبدالحمید بن سلیمان کی مخالفت کی گئی ہے، اسے لیث بن سعد نے بطریق: «ابن عجلان عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً (منقطعاً) روایت کی ہے (یعنی: ابن وشیمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کا کہنا ہے کہ لیث کی حدیث اشبہ (قریب تر) ہے، انہوں (بخاری) نے عبدالحمید کی حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، ۳- اس باب میں ابوحاتم مزنی اور عائشہ رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1668) ، الصحيحة (1022)
مزید تخریج کیلئے ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۶ (۱۹۶۷) (حسن صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے الإ رواء رقم: ۱۸۶۸، الصحیحة ۱۰۲۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور لڑکی کی رضابھی اس کے نکاح میں ضروری ہے:
حدثنا معاذ بن فضالة حدثنا هشام عن يحيى عن ابي سلمة ان ابا هريرة حدثهم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:"لا تنكح الايم حتى تستامر ولا تنكح البكر حتى تستاذن قالوا: يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال: ان تسكت".
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 5136 )
جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ صلی الله علیہ وسلم ))
’’ ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ پسند نہیں کرتی تو نبی صلی الله علیہ وسلمنے اسے اختیار دے دیا۔‘‘سنن ابن ماجہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بغیر ولی کے نکاح کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے یہ دریافت کرنا تھا کہ کیا لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔؟ اور ایک حدیث کی مکمل تخریج اور سندبھی چاہیے، حدیث کچھ اس طرح ہے۔:
"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ ( اپنى لڑكى كا ) نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"
یہ حدیث کس کتاب میں درج ہے اور باب اور حدیث نمبر بھی درکار ہے۔ جلد سےجلد جواب سے آراستہ کریں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت بذات خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی ،کیونکہ شرعاً عورت نہ اپنی ولی بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے ۔اور ولی کے بغیر نکاح واقع ہی نہیں ہوتا۔
نبی کریم نے فرمایا:
’’ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ‘‘ (جامع ترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لا نکاح إلا بولی ح ۱۱۰۱)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔
دوسری جگہ آپ نے فرمایا:
’’ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ‘‘ (سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی ح ۲۰۸۳)
جو عورت بھی اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرواتی ہے تو اسکا نکاح باطل ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔
یہ حدیث مبارکہ سنن ترمذی (ابواب النکاح،بَابُ مَا جَاءَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ،نمبر ،امام ۱۰۸۵) میں موجود ہے ،امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن لغیرہ کہا ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’ إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض‘‘
"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
جواب
اس امیج میں پہلی بات جس میں رشتہ کیلئے دین و اخلاق دیکھنے کا ارشاد ہے ،تو وہ حدیث نبوی میں ثابت ہے ،
جبکہ آخری سطر میں لڑکی کے جس طرح کے اظہارکا معاملہ ہے تو ان الفاظ میں ثابت نہیں ،تاہم لڑکی کا اختیار و رضا اسکے نکاح میں ضروری ہے ،یہ دونوں باتیں ہماری درج ذیل تحریر میں دیکھ لیں ۔
اور لڑکے کو اپنی شادی کے معاملے میں پورا اختیار ہے؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنن الترمذی
باب ما جاء إذا جاءكم من ترضون دينه فزوجوه
باب: قابل اطمینان دیندار کی طرف سے شادی کا پیغام آنے پر شادی کر دینے کا حکم
حدثنا قتيبة حدثنا عبد الحميد بن سليمان عن ابن عجلان عن ابن وثيمة النصري عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد عريض ". قال: وفي الباب عن ابي حاتم المزني وعائشة ‘‘
(سنن الترمذی ،حدیث نمبر: 1084)
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی اس روایت میں عبدالحمید بن سلیمان کی مخالفت کی گئی ہے، اسے لیث بن سعد نے بطریق: «ابن عجلان عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً (منقطعاً) روایت کی ہے (یعنی: ابن وشیمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کا کہنا ہے کہ لیث کی حدیث اشبہ (قریب تر) ہے، انہوں (بخاری) نے عبدالحمید کی حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، ۳- اس باب میں ابوحاتم مزنی اور عائشہ رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1668) ، الصحيحة (1022)
مزید تخریج کیلئے ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۶ (۱۹۶۷) (حسن صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے الإ رواء رقم: ۱۸۶۸، الصحیحة ۱۰۲۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور لڑکی کی رضابھی اس کے نکاح میں ضروری ہے:
حدثنا معاذ بن فضالة حدثنا هشام عن يحيى عن ابي سلمة ان ابا هريرة حدثهم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:"لا تنكح الايم حتى تستامر ولا تنكح البكر حتى تستاذن قالوا: يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال: ان تسكت".
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 5136 )
جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ صلی الله علیہ وسلم ))
’’ ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ پسند نہیں کرتی تو نبی صلی الله علیہ وسلمنے اسے اختیار دے دیا۔‘‘سنن ابن ماجہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بغیر ولی کے نکاح کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے یہ دریافت کرنا تھا کہ کیا لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔؟ اور ایک حدیث کی مکمل تخریج اور سندبھی چاہیے، حدیث کچھ اس طرح ہے۔:
"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ ( اپنى لڑكى كا ) نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"
یہ حدیث کس کتاب میں درج ہے اور باب اور حدیث نمبر بھی درکار ہے۔ جلد سےجلد جواب سے آراستہ کریں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت بذات خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی ،کیونکہ شرعاً عورت نہ اپنی ولی بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے ۔اور ولی کے بغیر نکاح واقع ہی نہیں ہوتا۔
نبی کریم نے فرمایا:
’’ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ‘‘ (جامع ترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لا نکاح إلا بولی ح ۱۱۰۱)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔
دوسری جگہ آپ نے فرمایا:
’’ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ‘‘ (سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی ح ۲۰۸۳)
جو عورت بھی اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرواتی ہے تو اسکا نکاح باطل ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔
یہ حدیث مبارکہ سنن ترمذی (ابواب النکاح،بَابُ مَا جَاءَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ،نمبر ،امام ۱۰۸۵) میں موجود ہے ،امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن لغیرہ کہا ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’ إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض‘‘
"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ