ایک ساتھی کا انٹرنیٹ میں کسی خاتون سے رابطہ ہوگیا کسی گروپ کے ذریعہ اور دونوں میں گفتو کا سلسلہ شورع ہو گیا۔۔ اور لڑکی نے نکاح کی بات کی تو لڑکا نے کہا کہ ان شاء اللہ استطاعت ہوئی تو نکاح کر لوں گا۔ یہ سلسلہ تین سال چلا اس دوران یک سال تک دونوں میں کچھ بھی بات نہیں ہوئی اب یہ لڑکا اس لڑکی سے نکاح کرنا نہیں چاہتا تو اسکا کیا حکم ہے ؟ اور لڑکا مالی اعتبار سے نکاح کے قابل نہیں ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اسلام میں وعدہ نبھانے کی بڑی سختی سےتاکید ہے ،
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولًا ( اسراء 34)
اور تم وعدے کو پورا کرو بے شک وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اور ارشاد فرمایا:
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ (النحل : 91)
اور تم وعدہ کو پورا کرو جب تم وعدہ کرو۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ٭كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
( سورہ الصف : 2-3 )
اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے ہاں یہ ناراضگی کے لحاظ سے بہت بڑی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو تم خود نہ کرو۔
اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اہمیت بتاتے ہوئے وعدہ وفا کرنے کو " ایمان کی علامت " قرار دیا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ "
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : منافق (یعنی جو سچا مومن نہیں اس ) کی تین نشانیاں ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ،جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے،۔
( بخاری و مسلم )
لیکن ۔:
افسوس کہ اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج سماج میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروج ہو گئی ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی، عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وعدہ خلاف ورزی کوئی اتنا بڑا جرم نہیں ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ وفا کرنا ایمان کی علامت اور مومن کا تشخص ہے، ہماری زندگی کے تمام مراحل عہد وپیماں سے مربوط ہیں، معاملات جتنے بھی ہیں ، نکاح، خرید وفروخت، شرکت اور پارٹنر شپ، دو طرفہ وعدہ ہی سے عبارت ہے ، اسی لیے معاملات کو عقد کہا جاتا ہے، عقد کے معنی دو طرفہ وعدہ او رمعاہدہ کے ہیں ، الله تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ایفائے عقود کی طرف متوجہ فرمایا ہے :
﴿واوفوا بالعقود﴾ ․ (المائدہ:1)
ــــــــــــــــــــــ
لیکن سوال میں وعدہ کی جو صورت بتائی گئی ہے :
لڑکی نے نکاح کی بات کی تو لڑکا نے کہا کہ ان شاء اللہ اشطتاعت ہوی تو نکاح کر لوں گا۔
اگر واقعی اسی طرح وعدہ کیا گیا تھا یعنی :
اگر مجھے شادی کرنے کی استطاعت (وسائل کی دستیابی ،اور حالات کی سازگاری ) میسر رہی تو تم سے شادی کروں گا "
تو یہ استطاعت سے مشروط وعدہ ہے ،اس وعدہ کو اسی شرط کی موجودگی میں پورا کرنا واجب ہوگا ، اگر یہ شرط نہ پائی گئی تو وعدہ پورا نہ کرنے کی صورت میں وعدہ کرنے والا گنہگار نہیں "
یعنی جب تک اسے شادی کی استطاعت نہیں ،اس وقت تک وہ وعدہ خلاف نہیں ۔
لیکن اگر لڑکا شادی کا وعدہ کرنے کے بعد کہتا ہے کہ میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا تو جھوٹ اور دھوکہ دونوں کا گناہ ہوگا ، اور اس صورت میں لڑکی کی حق تلفی بھی پائی جاتی ہے ،
اسی لئے دینِ اسلام میں جھوٹ سخت منع اور سچ کہنے کی تاکید ہے۔ جس طرح قولًا جھوٹ مذموم ہے اسی طرح عملی جھوٹ کی بھی ممانعت ہے،
قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعد ہ کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
اور(سچے مومنین کی یہ بھی صفت ہے کہ) وہ لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں ۔ (سورۃ المومنون)
واللہ تعالیٰ اعلم