- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
اس کا مطلب ہے کہ :ایک اور سوال ہے کہ اوپر والی پوسٹ میں ہے کہ حدیث کے مطابق حلال اور حرام نکاح میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے۔ اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ دف بجانے سے ہی نکاح حلال ہو گا وگرنہ نہیں؟
صحیح اور شرعی نکاح اعلانیہ کیا جاتا ہے ، اور غیر شرعی نکاح دوسروں سے چھپاکے بلکہ لڑکی کے ولی سے بھی مخفی رکھا جاتا ہے ؛
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ، وَالصَّوْتُ فِي النِّكَاحِ "
محمد بن حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے اور اس کا اعلان کیا جائے ۱؎“۔
(سنن نسائی 3669 ، سنن الترمذی/النکاح ۶ (۱۰۸۸)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۰ (۱۸۹۶)مسند احمد (۳/۴۱۸ و۴/۲۵۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی زنا چوری چھپے ہوتا ہے اور شرعی نکاح لوگوں کو بتا کر اور اعلان کر کے کیا جاتا ہے۔
مظاہر حق شرح مشکاۃ میں حنفی شارح لکھتے ہیں :
آواز سے مراد لوگوں کے درمیان نکاح کا ذکر و اعلان کرنا ہے حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر آواز اور دف کے نکاح ہوتا ہی نہیں کیونکہ نکاح دو گواہوں کے سامنے بھی ہوجاتا ہے بلکہ اس حدیث کا مقصد لوگوں کو اس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ نکاح کی مجلس علانیہ طور پر منعقد کی جائے اور لوگوں میں اس کی تشہیر کی جائے اب رہی یہ بات کہ تشہیر کی حد کیا ہے ؟ تو وہ یہ ہے کہ اگر ایک مکان میں نکاح ہو تو دوسرے مکان میں یا پڑوس میں اس کا علم ہوجائے اور یہ چیز دف بجانے یا آواز کے ذریعہ یعنی گوئی نظم وگیت پڑھنے گانے سے) حاصل ہوتی ہے تشہیر کا مطلب قطعًا نہیں ہے کہ محلوں اور شہروں میں شہنائی نوبت اور باجوں کے شور و شغب کے ذریعہ نکاح کا اعلان کیا جائے۔
اس حدیث کی شرح میں مشہور حنفی عالم حضرت ملا علی قاری ؒ لکھتے ہیں :
«فصل ما بين الحلال والحرام» ) أي: فرق بينهما (الصوت) أي: الذكر والتشهير بين الناس (والدف) أي: ضربه (في النكاح) فإنه يتم به الإعلان، قال ابن الملك: " ليس المراد أن لا فرق بين الحلال والحرام في النكاح إلا هذا الأمر فإن الفرق يحصل بحضور الشهود عند الضد بل المراد الترغيب إلى إعلان أمر النكاح بحيث لا يخفى على الأباعد، فالسنة إعلان النكاح بضرب الدف وأصوات الحاضرين بالتهنئة أو النغمة في إنشاد الشعر المباح، وفي شرح السنة: معناه إعلان النكاح واضطراب الصوت به والذكر في الناس كما يقال فلان قد ذهب صوته في الناس وبعض الناس يذهب به إلى السماع وهذا خطأ يعني السماع المتعارف بين الناس الآن "
یعنی : حدیث شریف جو ارشاد ہے کہ :
((حلال اور حرام میں فرق دف اور آواز ہے )) سے مراد نکاح کا لوگوں میں تذکرہ و تشہیر ہے ، اور دف بجا کر شرعی نکاح کا اعلانیہ ہونا تمام ہوتا ہے ،علامہ ابن الملکؒ فرماتے ہیں کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ صرف دف اور اعلان ہی حلال و حرام کے درمیان تفریق کا ذریعہ ہے ،کیونکہ یہ مقصد تو نکاح کے گواہوں کی موجودگی سے بھی حاصل ہوتا ہے ،یہاں مطلوب معاملہ نکاح کو اعلانیہ کرنے کی ترغیب دلانا ہے ، یعنی اسطرح اعلان ہو کہ دور والے بھی آگاہ ہوجائیں ،
اور سنت یہ ہے کہ نکاح کا اعلان دف سے کیا جاوے ،اور حاضرین کی تہنیت و مبارکباد اور مباح شعر و نغمہ سے کیا جائے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے مروج سماع (گانا ،بجانا ) مراد لینا خطا ہے ،