بچپنے کا نکاح عقل و نقل کی روشنی میں
تحریر: عبدالخبیر السلفی
عام طور پر دشمنان اسلام اور ان سے مرعوب نام نہاد اسلامی مفکرین کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بچپنے میں کیا جانے والا نکاح درست نہیں کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے اور پھر اسی بنیاد پر چھ/سات سال کی عمر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہونے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کو لیکر اعتراض کیا جاتا ہے، سوال یہ ہے عقل کا معیار کیا ہے؟ کیا آج کل کے جاہل مفکرین کی عقل معیار ہے؟ دنیا میں پائے جانے والے کسی بھی دھرم نے بچپنے کے نکاح کو غلط نہیں کہا ہے تو کیا یہ سارے مذاہب عقل کے خلاف ہیں؟
عموما پچپنے کی شادی پر معترضین ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے ہیں اس لئے چند حوالے ہندو دھرم سے پیش کیے جا رہے ہیں۔
ہندو دھرم میں نکاح کی عمر
ہندو دھرم کے مطابق نکاح کی کم از کم عمر کی کوئی حد بندی نہیں ہے
1- منوسمرتی کے مطابق آدرش اور مثالی نکاح وہ ہے جس میں تیس سال کا آدمی بارہ سال کی نوخیز یا چوبیس سال کا جوان پٹھا آٹھ سال کی کمسن خوبصورت کنیا سے شادی کرے اور اگر اگنہوتری وغیرہ کو دین کے خراب ہونے کا خدشہ ہو تو وہ اس سے پہلے بھی نکاح کر سکتا ہے
( منوسمرتی/ادھیائے:9/شلوک: 93،94 )
2- والمیکی رامائن کے مطابق سیتا جی راون سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتی ہیں:
उषित्वा द्वादश समा इक्ष्वाकुणां निवेशने।
भुञ्जाना मानुषान्भोगान्सर्वकामसमृद्धिनी।।3.47.4।।
ततस्त्रयोदशे वर्षे राजामन्त्रयत प्रभुः।
अभिषेचयितुं रामं समेतो राजमन्त्रिभिः।।3.47.5।।
तस्मिन्सम्भ्रियमाणे तु राघवस्याभिषेचने।
कैकेयी नाम भर्तारमार्या सा याचते वरम्।।3.47.6।।
प्रतिगृह्य तु कैकेयी श्वशुरं सुकृतेन मे।
मम प्रव्राजनं भर्तुर्भरतस्याभिषेचनम्।।3.47.7।।
द्वावयाचत भर्तारं सत्यसन्धं नृपोत्तमम्।
नाद्य भोक्ष्ये न च स्वप्स्ये न पास्येच कथञ्चन।।3.47.8।।
एष मे जीवितस्यान्तो रामो यद्यभिषिच्यते।
इति ब्रुवाणां कैकेयीं श्वशुरो मे स मानदः।।3.47.9।।
अयाचतार्थैरन्वर्थैर्न च याञ्चां चकार सा।
मम भर्तामहातेजा वयसा पञ्चविंशकः।।3.47.10।।
अष्टादश हि वर्षाणि मम जन्मनि गण्यते।
रामेति प्रथितो लोके गुणवान्सत्यवान्शुचिः।।3.47.11।।
विशालाक्षो महाबाहुस्सर्वभूतहिते रतः।
میں نے اکشواکو ونشی گھرانے (راجا دسرتھ کے محل ) میں بارہ سال گزارے اور انسانوں کو حاصل ہونے والی ہر طرح کی لذتیں حاصل کیں۔
تیرھویں سال میں، بادشاہ اور راجا دسرتھ نے دوسرے بادشاہوں اور وزیروں سے رام کی تاج پوشی کے لیے مشورہ کیا۔
تاج پوشی کے انتظامات اس وقت جاری تھے جب ملکہ کیکیئی نے بادشاہ سے ورثہ طلب کیا۔
میرے سچے سسر کی طرف سے پہلے کیکیئی سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے، جو میری خوش قسمتی کے لیے، بادشاہوں میں سب سے بہترین تھے، اس نے دو چیزیں مانگیں۔ ایک میرے شوہر کی ملک بدری اور دوسرا، بھرت کی تاج پوشی۔
'میں نہ کھاؤں گی، نہ سوؤں گی اور نہ پیوں گی اگر رام کی تاج پوشی کی جائے اور میں خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر دوں گی' (کیکیئی نے کہا)۔
بادشاہ، میرے سسر جو اس سے کئے گئے وعدے کا احترام کرتے ہیں نے دولت کی پیشکش کی، جو اس نے قبول نہیں کی۔
میرے شوہر جو بہت بے باک تھے ان کی عمر پچیس سال تھی اور میں اپنی پیدائش کے اٹھارہ سال مکمل کر چکی تھی۔
میرے شوہر جسے دنیا میں رام کے نام سے جانا جاتا ہے، بڑی آنکھوں والے، لمبے لمبے، نیک، سچے، پاکباز اور ہمیشہ تمام مخلوقات کی بھلائی میں مصروف رہتے ہیں۔
(والمیکی رامائن/آرینکانڈ:47 /4-11)
رامائن کے اس بیان سے یہ بات ثابت ہے کہ سیتا نے شادی کے بعد راجا دسرتھ کے محل میں بارہ سال گزارے اور شادی کے تیرھویں برس سال رام کی تاج پوشی کا مشورہ کیا گیا راون سے تعارف کراتے وقت سیتا کی عمر اٹھارہ اور رام کی پچیس سال تھی۔
تو اس حساب سے شادی کے وقت سیتا کی عمر محض چھ سال کی تھی۔
یاد رہے سیتا جی کی چھ سال عمر وہ ہے جس میں سیتا رام کے گھر میں آ چکی تھیں اب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح پر اعتراض کرنے والے یہ طے کریں اس وقت سیتا بالغ تھیں یا نہیں ؟
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!
عربوں میں نکاح کی عمر
عربوں میں بھی عموما شادی کے لئے کوئی عمر متعین نہیں تھی تاریخ میں اس طرح کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں سرے دست دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔
1-حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے ابن مطعم کا پیغام نکاح
جب حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ مانگنے گئیں تو ام رومان رضی اللہ عنہا جو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں نے کہا: مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے کے لئے عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ مانگا ہے اور اللہ کی قسم مطعم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی کوئی وعدہ نہیں کیا جس کو اس نے پورا نا کیا ہو، سو أبو بكر الصدیق رضی اللہ عنہ مطعم بن عدی کے پاس تشریف لے گئے اس وقت مطعم کی بیوی ام الفتی بھی وہاں موجود تھی اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابن أبی قحافہ! شاید تم ہمارے بیٹے کو بد دین بنا دوگے اس دین میں داخل کرکے جس میں تم ابھی ہو اگر اس نے تمہاری بیٹی سے نکاح کر لیا؟ حضرت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مطعم بن عدی سے پوچھا کیا تمہارا قول بھی وہی ہے جو یہ کہہ رہی ہے تو اس نے جواب دیا یقینا بات وہی ہے جو اس نے کہی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مطعم کے پاس سے چلے آئے اور اللہ نے آپ کے دل سے اس خدشہ کو دور کر دیا جو مطعم بن عدی سے وعدہ خلافی کو لیکر اٹھ رہا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت خولہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لو، حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کر دیا اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی۔
البدایہ والنہایہ کی عبارت مندرجہ ذیل ہے:
قالَتْ أُمُّ رُومانَ: إنَّ مُطْعِمَ بْنَ عَدِيٍّ قَدْ كانَ ذَكَرَها عَلى ابْنِهِ، وواللَّهِ ما وعَدَ وعْدًا قَطُّ فَأخْلَفَهُ - لِأبِي بَكْرٍ - فَدَخَلَ أبُو بَكْرٍ عَلى مُطْعِمِ بْنِ عَدِيٍّ، وعِنْدَهُ امْرَأتُهُ أُمُّ الفَتى. فَقالَتْ: يا ابْنَ أبِي قُحافَةَ، لَعَلَّكَ مُصْبٍ صاحِبَنا، مُدْخِلُهُ فِي دِينِكَ الَّذِي أنْتَ عَلَيْهِ إنْ تَزَوَّجَ إلَيْكَ؟ فَقالَ أبُو بَكْرٍ لِلْمُطْعِمِ بْنِ عَدِيٍّ: أقَوْلَ هَذِهِ تَقُولُ؟ قالَ: إنَّها تَقُولُ ذَلِكَ. فَخَرَجَ مِن عِنْدِهِ، وقَدْ أذْهَبَ اللَّهُ ما كانَ فِي نَفْسِهِ مِن عِدَتِهِ التِي وعَدَهُ، فَرَجَعَ فَقالَ لِخَوْلَةَ: ادْعِي لِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ. فَدَعَتْهُ، فَزَوَّجَها إيّاهُ، وعائِشَةُ يَوْمَئِذٍ بَنَتُ
سِتِّ سِنِينَ،
( البدايةوالنهاية لإبن كثير،4/329)
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا نکاح
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا نکاح بھی نو عمری میں ہی ہوا تھا چنانچہ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے ترجمہ میں ہے:
وأسْلَمَ قَبْلَ أبِيهِ، ولَمْ يَكُنْ أصْغَرَ مِن أبِيهِ إلا بِاثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، وقِيلَ: بِإحْدى عَشْرَةَ سَنَةً.(تاريخ الإسلام للذهبي2/666) یعنی اپنے والد سے قبل اسلام قبول کیا اپنے والد سے صرف بارہ سال ہی چھوٹے تھے اور یہ بھی قول ہے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے
ای دوسری جگہ ہے :
وكان أصغر من أبِيهِ باثنتي عشرة سنة.أسلم قبل أبِيهِ
( أسد الغابة لإبن الأثير/3092) یعنی اپنے والد سے صرف بارہ سال چھوٹے تھے اور والد سے قبل اسلام قبول کیا۔
اگر رییر کیس کو چھوڑ دیا جائے تو عموما ہر زمانہ میں شادی کے وقت لڑکی کی عمر لڑکے سے کم ہی ہوتی ہے تو اس اعتبار سے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی والدہ کی عمر شادی کے وقت نو یا دس سال رہی ہوگی، اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی عرب میں نو دس سال کی عمر میں لڑکیاں بالغ ہو جاتی تھی ورنہ بلوغت سے قبل ولادت کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
یہ چند حوالے عرب اور ہندوستانی بت پرستوں کے حوالے سے نکاح کے وقت لڑکی کی عمر سے متعلق بیان کئے گئے ورنہ اس طرح کی بہت حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں۔
ہنود کے حوالے اس لئے کہ تاریخ میں کم سنی کی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح پر اعتراض سب سے پہلے غالبا انہیں ہی کی جانب سے ہوا ہے ؟ اور عربوں کا حوالہ اس لئے تاکہ یہ بات معلوم رہے کہ اس معاشرے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کوئی انوکھا نہیں تھا جو اس عمر میں کیا گیا ہو بلکہ وہاں کے بت پرستوں میں بھی یہ عام بات تھی اسی وجہ سے مکہ یا عرب کے کفار نے باجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت مخالفت کے آپ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کو لیکر کوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتہام بازی میں بڑے جری تھے
اسلامی نقطہ نظر سے نکاح کی عمر
اسلامی نقطہ نظر سے نکاح کے وقت عمر کیا ہو ؟ اس کا جواب جاننے سے پہلے نکاح کے معنی پر غور کر لیا جائے تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو
نکاح کا لغوی معنی: عربی زبان میں نکاح کا لفظ ملنے اور ایک دوسرے میں داخل ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: النكاح في اللغة: الضم والتداخل (فتح الباری مع البخاری/5063) یعنی لغت میں نکاح ملنے اور ایک دوسرے میں داخل ہونے کا نام ہے
عام طور پر جب نکاح کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کا معنى 'عقد نکاح' کے ہوتے ہیں، البتہ کسی قرینہ کی بنیاد پر اس کا معنی وطی و ہمبستری کرنا اور بلوغت وغیرہ بھی ہوتا ہے۔
اس فرق کو سمجھنے کے لئے عربوں کے استعمال پر غور کریں وہ بولتے ہیں: نَكَحَ الرَّجُلُ فُلَانَةً أو بنتَ فلانٍ، یعنی آدمی نے فلاں عورت یا فلاں کی بیٹی سے نکاح کیا مطلب ہوتا ہے آدمی نے عقد نکاح کیا
اور کبھی بولتے ہیں: نَكَحَ الرَّجُلُ زَوجَتَه، یعنی آدمی نے اپنی بیوی سے نکاح کیا مطلب ہوتا ہے آدمی نے اپنی بیوی سے ہمبستری کی ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
﴿وابْتَلُوا اليَتامى حَتّى إذا بَلَغُوا النِّكاحَ فَإنْ آنَسْتُمْ مِنهُمْ رُشْدًا فادْفَعُوا إلَيْهِمْ أمْوالَهُمْ﴾ [النساء:6].
یعنی اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو اور جب تم ان میں ہشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو۔
ایک لطیفہ: قرآن مجید کی اس آیت کریمہ اور سورہ انعام کی آیت ﴿ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ ۔۔۔۔۔الخ﴾
[ سورة الأنعام: 152]
یعنی اور تم یتیموں کے مال کے پاس نا جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنی سن رشد کو پہنچ جائیں،
کے حوالے سے ایک برادر سید عبداللہ طارق صاحب جو اپنے حلقہ ارادت میں علامہ بھی کہے جاتے ہیں، یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ان آیات کی بنیاد پر قرآن کے مطابق نکاح کی عمر وہ ہے جب بچی بلوغت کے ساتھ ساتھ عمر کی پختگی کو بھی پہنچ جائے اور وہ چودہ سال بہت رییر کیس میں یا بیس بائیس سال کی عمر ہو سکتی ہے (سید عبداللہ طارق صاحب کی ویڈیو کلپ سے بطور خلاصہ)
قرآن مجید کے مطابق نکاح کی عمر کیا ہے یہ تو آگے آتا ہے إن شاء الله! لیکن اگر سید عبداللہ طارق صاحب کے اس مفہوم کو درست مان لیا جائے تو مند بدھی لڑکی یا لڑکوں کا نکاح تو کبھی بھی کیا ہی نہیں جا سکتا کیوں کہ ان کے اندر تو رشد، مچیورٹی کی کیفیت کبھی بھی پیدا نہیں ہوتی، چونکہ علامہ صاحب بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ان دونوں آیات کا نکاح سے کوئی تعلق نہیں ہیں بلکہ یہ دوسرے سیاق و سباق میں ہیں اس لئے ہم ان کو معذور مانتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر گزرا نکاح کا عام مفہوم عقد نکاح کرنا ہوتا ہے بلکہ بعض علماء نے اس بات کا تک دعویٰ کیا ہے کہ قرآن مجید میں نکاح کا لفظ عقد نکاح ہی کے لئے استعمال ہوا ہے
(فتح الباری مع البخاری/5063)
حالانکہ یہ دعوی درست نہیں جیسا کہ سورہ نساء کی آیت گزری۔
بہرحال نکاح کا لفظ اپنے عام مفہوم کے مطابق نکاح کے عہد و پیمان کے معنی میں ہے اور ظاہر ہے یہ عہد و پیمان بچی یا بچہ کے اولیاء اپنے بچوں کی بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی عمر میں کر سکتے ہیں البتہ اسلامی نقطہ نظر سے بچی کے لئے بلوغت کے بعد ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ بچی کی بھی اجازت ضروری ہے سنن ابن ماجہ میں ہے "أنَّ رجلًا منهم يدعى خذامًا أنكحَ ابنةً لَه فَكَرِهَت نِكاحَ أبيها فأتت رسولَ اللَّهِ ﷺ فذَكَرت لَه فردَّ عليها نِكاحَ أبيها
(سنن ابن ماجه/1873)
ایک شخص کہ جس کا نام خذام تھا اس نے اپنی لڑکی کا نکاح کر دیا اس لڑکی نے اپنے والد کے نکاح کو ناپسند کیا، اس لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے والد کے نکاح کو رد کر دیا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(أبو داود/2096،إبن ماجہ/1875)
إبن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے جبکہ وہ اس کو نا پسند کرتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اختیار دیا (یعنی چاہے وہ نکاح کو برقرار رکھے یا ختم کر دے )
یہ روایت بھی اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ اگر کوئی شخص بچی کا نکاح کر دیتا ہے چاہے بچپنے میں یا بلوغت کے بعد تو لڑکی کو بنا اور رخصتی سے قبل اختیار ہے چاہے تو نکاح کو برقرار رکھے یا ختم کر دے
جمہور اہل علم بلوغت سے قبل چھوٹی بچی کے نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں، اس بارے میں بہت سے علمائے کرام نے اجماع بھی نقل کیا ہے، اور اس اجماع کی مخالفت میں صرف ابن شبرمہ اور عثمان البتی کی رائے ہے، جمہور کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ
ترجمہ: تمہاری بیویوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اور تمہیں ان کی عدت کے بارے میں تردد ہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی تک حیض آیا ہی نہیں۔ [الطلاق : 4]
یہ آیت اس طرح دلیل بنتی ہے کہ : اللہ تعالی نے یہاں پر حیض آنے سے قبل طلاق پانے والی بچی کی عدت ذکر کی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالغ نہیں ہے، اور اس وقت تک طلاق یا فسخ نکاح نہیں ہوتا جب تک عقد نکاح درست نہ ہو۔
مشکوٰۃ کے مشہور شارح ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں:
قال النووي: اجمع المسلمون علي جواز تزويج الاب بنته البكر الصغيرة لهذا الحدیث (مرقاة المفاتيح لعلي القاری:6/269)
امام نووی نے کہا مسلمانوں نے باپ کے اپنی نابالغ کنواری بچی کے نکاح کے جواز پر اجماع کیا ہے حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا کی بنیاد پر ۔
امام ترمذی فرماتے ہیں:
وَقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ : إِذَا بَلَغَتِ الْيَتِيمَةُ تِسْعَ سِنِينَ، فَزُوِّجَتْ فَرَضِيَتْ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ، وَلَا خِيَارَ لَهَا إِذَا أَدْرَكَتْ. وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ : إِذَا بَلَغَتِ الْجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَهِيَ امْرَأَةٌ. (ترمذی:1109)
امام احمد اور اسحاق رحمہما اللہ نے کہا جب یتیم بچی کا نکاح نو سال کی عمر میں کردیا جائے اور وہ اس پر خوش بھی ہو تو یہ جائز ہے بلوغت کے بعد اس کو اختیار نہیں ہوگا ان دونوں حضرات نے حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رخصتی نو سال کی عمر میں کی، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں جب لڑکی نو سال کی ہو جائے تو وہ عورت ہے۔
صاحب تحفہ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويدل على جواز تزويج اليتيمة قبل بلوغها ، قوله تعالى : { وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم } قال الحافظ في الفتح : فيه دلالة على تزويج الولي غير الأب التي دون البلوغ بكرا كانت أو ثيبا ؛ لأن حقيقة ( اليتيمة ) من كانت دون البلوغ ولا أب لها ؛ وقد أذن في تزويجها بشرط أن لا يبخس من صداقها . فيحتاج من منع ذلك إلى دليل قوي . انتهى ( تحفةالاحوذي مع السنن للترمذى/1109)
اللہ کا یہ فرمان یتیمہ کے بلوغت سے قبل نکاح کے جواز کی دلیل ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے
" اگر تم کو خدشہ ہو کہ تم یتیموں کے سلسلہ میں انصاف نہیں کر سکو گے تو تم اپنی پسند سے ان کا نکاح کردو " اس آیت کریمہ کے ضمن میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ باپ کے علاوہ دوسرے اولیاء بھی بلوغت سے قبل نکاح کر سکتے ہیں چاہے وہ باکرہ ہو یا شوہر دیدہ (بیوہ مطلقہ) کیوں کہ اصل کے اعتبار سے یتیمہ وہی ہے جو بلوغت سے قبل ہے اور اس کا باپ نا ہو، اور اس آیت کریمہ میں نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے مہر وغیرہ میں نا انصافی نا کرنے کی شرط کے ساتھ، اور جو شخص اس سے انکاری ہے اس کے ذمہ قوی دلیل دینا ہے۔
ان حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی قرآن و حدیث کی رو سے بلوغت سے قبل نکاح کی اجازت باپ یا دیگر اولیاء کو بچی کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔
لہذا سید عبداللہ طارق صاحب یا ان جیسے دیگر نام نہاد مفکرین کا اس کو غلط کہنا خود غلط ہے
اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے نکاح ایک سماجی اور معاشرتی عمل ہے شرعی دائرے میں رہتے ہوئے موجودہ معاشرے کے اعتبار سے اس عمر میں کوئی قباحت نہیں ہے اور یہ سب بیان جواز کے لئے ہیں یہ ضروری نہیں ہے کہ بلوغت سے قبل نکاح کر ہی دیا جائے اور نا کرنے کی صورت میں گناہ ملے گا ۔۔۔۔۔۔جاری