- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مضمون نگار: ضیاءاللہ پسروری
ماخذ: دین خالص ڈاٹ نیٹ
ماخذ: دین خالص ڈاٹ نیٹ
مجاہدین اسلام کی تاریخ ایک ولولہ انگیز اور روح پرور تاریخ ہے اللہ کی زمین سے اللہ کے باغیوں کو ختم کرنے ، مفسدین کا صفایا کرنے اور بتان آزری کے شر کو مٹانے کیلئے دین اسلام کے علمبرداروں نے جو ایمان افروز معر کے سر کئے ، تاریخ اسلام کے گلشن کا چپہ چپہ عہد وفا کی ان داستانوں سے لہلہا رہا ہے ۔
انہی صف شکن مجاہدین کے بارے اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا تھا :
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں توں نے بخشا ہے ذوق خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جنہیں توں نے بخشا ہے ذوق خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مادی فلسفہ کی اس تعبیر میں کسی کے لیے بھی شک کی گنجائش نہیں کہ انسان کی زندگی کی سب سے عزیز متاع خود اس کی زندگی ہے ۔ جہاں کی ساری دلچسپیاں ، ساری رونقیں اور ساری نیرنگیاں اسی وقت تک ہیں جب تک خود اس کے جسم و جاں اور اس کے قلب و جگر اور فکر و نظر میں شادابی کی کوئی امنگ اور زندگی کی کوئی رمق باقی ہو ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تم باغ میں جاتے ہو سبزہ کو دیکھتے ہو ، لہلہاتے کھیت اور جھومتے درختوں کا نظارہ کرتے ہو ، ٹھنڈی اور خوشگوار ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے ہو ، ننھی کلیوں اور بہاروں بھرے گلوں سے اپنی مشام جان معطر کرتے ہو ، لچکتی شاخوں پر طیور چمنستانی کی دل آویز صداؤں سے سرشار ہوتے ہو ، آسمان پر ستاروں کی مجلس شبینہ اور چاندنی کی حسن افروزیوں سے شاد کام ہوتے ہو ۔ یہ اس لیے نہیں کہ یہ من کی دنیا پر کیف طاری کرنے والی یہ دلکش کائنات اپنی ذات میں حسین ہے بلکہ تم یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہو کہ اس سے خود تمہارا دماغ اور تمہارا تن من شاد کام ہوتے ہیں ۔ جہان کی یہ ساری رونقیں اور جلوہ سامانیاں تمہارے دل کی تازگی کو برقرار رکھنے کیلئے ہےں اور دل کی تازگی کو برقرار رکھنے کیلئے تم اس حسین کائنات کی بزم دلکشی میں شریک ہوتے ہو ۔ مادی فلسفہ حیات کی یہ وہ تعبیر ہے جس سے اختلاف نہ ممکن ہے ۔
لیکن مرد مومن کا فلسفہ حیات ، اس کی زندگی کا مقصد اور اس کے وجود کا ہدف و نصب العین مادی فلسفہ کے اس تصور سے بلند اور بہت بلند ہے ۔ اسے اپنی حیات کے بلند مقصد کے حصول کیلئے زندگی کا نذرانہ پیش کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی سب سے عزیز متاع کو قربان کرنے میں اپنی سعادت سمجھتا ہے ۔ اسے ایک کیا کئی زندگیاں عطا ہوں اس راہ میں وہ ان سب کے قربان کر دینے کو اپنے لیے خوش بختی تصور کرے گا ۔ اس کے نزدیک کبھی جان اور کبھی تسلیم جان ہے ۔ زندگی ۔ صدیوں پہلے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ادا شدہ بلیغ الفاظ :
( ثم اُحی ثم اقتل ، ثم اُحی ثم اقتل ، ثم اُحی ثم اقتل )
مومن کے اس عزم بلند پر شاہد عدل ہیں ۔ اس گمان آباد ہستی میں یقین و ایمان کی یہی وہ طاقت ہے جو مرد مسلمان کو چٹانوں سے ٹکرا دیتی ہے ، طوفانوں سے لڑا دیتی ہے ، آندھیوں سے بھڑا دیتی ہے اور سمت ہوا چلنے کے بجائے اس کا رخ موڑ دیتی ہے اور وہ جو کسی نے کہا :
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
یہ صرف جذباتی یا خوبصورت لفظوں کا سحر و طلسم نہیں اور نہ ہی شاعرانہ تخیل کی ایسی تعبیر ہے جس کی کوئی حقیقت باہر کی دنیا میں نہ پائی جاتی ہو بلکہ اسلامی تاریخ کا صفحہ صفحہ اس حقیقت پر گواہ اور سینہ سینہ شہیدان وفا کے لہو سے گل رنگ و لرزا ہے ۔ یہاں اس عیاں حقیقت کے ثبوت کیلئے اسلام کے ان جانبازوں کا ایک ہی نعرہ بیان کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین
زندگی اور جان کے بعد مال اور شہرت کی محبت وہ شمع ہے جس پر مادی فلسفہ کا مار گزیدہ انسان پروانہ وار ٹوٹ پڑتا ہے ۔ اس کے لیے وہ اپنے ابنائے جنس کو بھی تہہ تیغ کرنے سے گریز نہیں کرتا ہے ۔ شقاوتوں اور بے مہریوں کا مجسمہ بن کر وہ بستیاں اجاڑ دیتا ہے ۔ آبادیوں کو وہ ویران کر دیتا ہے شہروں کے شہر وہ کھنڈرات میں بدل دیتا ہے اور یہ ہوس جب بدبختی کی انتہا تک اس کو اندھا کر دیتی ہے تو وہ اپنے ہمدرد دوست مخلص ساتھی رحیم باپ اور شفیق ماں کے فنا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے ۔ تاریخ عالم میں لاتعداد واقعات ایسے گزرے ہیں کہ مال و جاہ کی خاطر ایک شقی القلب اٹھا اور دوست کو قتل کیا ، بھائی کو ہلاک کیا ، باپ کو فناءکیا اور شفیق ماں کی زندگی کا چراغ گل کیا ، کیوں ؟ اس لیے کہ وہ مال چاہتا ہے اور دوست اس کی راہ میں رکاوٹ ہے اس لیے کہ وہ عہدہ و منصب کا خواہش مند ہے اور باپ کی موجودگی میں وہ اسے مل نہیں سکتا ۔ اس لیے کہ اس کا ایمان مادہ پرور ہے اور مادی فلسفہ کے غلام کی نگاہ اپنی ذات کے دائروں سے آگے نہیں جاتی ۔ اس لیے کہ اسے اس زندگی کے بعد کسی اگلی زندگی کا یقین نہیں ۔ اس کا عقیدہ ہے کہ ” عالم دوبارہ نیست “ جو کچھ ہے یہی ہے اور اس فانی دنیا کا یہی حاصل ہے اس لیے وہ ہر اس طاقت سے ٹکراتا ہے جو راستہ میں ہو ۔ لیکن ایک مرد مومن کی زندگی اس مرض کی کثافتوں سے بالکل شفاف اور پاک ہوتی ہے ۔ یہاں تاریخ اسلام کے عہد زریں سے ایمانی زندگی کے اسی پہلو کی چند مثالیں پیش ہیں ۔
سن 16 ہجری ہے مسلمانوں نے مدائن فتح کیا ۔ غنائم کا مال اکٹھا کیا گیا اتنے میں ایک نقاب پوش نوجوان نے جواہرات سے بھری ہوئی تھیلی لا کر مال غنیمت میں جمع کروائی ۔ سب کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس قدر قیمتی جواہرات اس غریب سپاہی کی نیت خراب نہ ہوئی ۔ پوچھا گیا ، آپ نے اس سے کچھ لیا ہے ؟ جواب آیا : اگر خوف خدا نہ ہوتا تو یہ قیمتی تھیلی تمہارے پاس میں لاتا بھی نہ ۔ پوچھا گیا ، آپ کا تعارف ؟ فرمانے لگے میں اپنا تعارف نہیں کرواتا کہ کہیں آپ لوگ میری تعریف و مدح نہ کرنا شروع کر دیں تعریف کی مستحق صرف اللہ کی شان اقدس ہے اور وہی میرے اس بہتر عمل کا بہترین اجر عطاءکرے گا ۔ یہ کہہ کر چل دیا ۔ بعض مجاہدین نے اس کے ٹھکانے کا پتہ لگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ عامر بن عبد ہیں ۔ عامر بن عبد مشہور اور جلیل القدر تابعی ہیں جو زاہد شب زندہ دار بھی تھے اور محاذ جنگ کے مجاہد اور غازی صف سکن بھی ۔ ( تاریخ طبری ج 4 ص 186 )
فتح مدائن کے اسی معرکہ میں ایک اور نقاب پوش سپاہی قیمتی جواہرات سے مرصع کسریٰ کا تاج زریں لے آیا تو وہ اسے اپنے دامن میں چھپا کر امیر فوج اسلامی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس لا کر عرض کرنے لگا : ( ایھا الامیر ) یہ کوئی بہت قیمتی چیز ہے ، میں آپ کے حوالے کرتا ہوں کہ بیت المال میں جمع ہو جائے ۔ مسلمان امیر دریائے حیرت میں ڈوب گئے ۔ پوچھا کہ آپ کا نام ؟ اس نے دروازہ کی طرف منہ کر کے اور امیر کی طرف پشت کر کے کہا جس کے لیے میں نے یہ کام کیا وہ میرا نام جانتا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گیا ۔ جب اموی سردار مسلمہ بن عبدالملک کو ایک قلعہ کا محاصرہ کےے کافی عرصہ گزر گیا اور کامیابی کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو اس قلعہ پر دھاوا بولنے کیلئے چند جانبازوں کا انتخاب کیا ۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ ایک جوان تیروں کی بارش اور دشمن کی صفوں سے آگ کے برستے شعلوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کے دیوانہ وار قلعہ کی دیوار کی طرف بڑھا جا رہا ہے اور بالآخر قلعے کی دیوار کے قریب آ کر نقب لگانے میں کامیاب ہو گیا اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا اور قلعہ فتح ہو گیا ۔
اب ہر نگاہ اس سرفروش مجاہد کو تلاش کر رہی تھی جس کے سر اس فتح کا سہرا تھا مگر کوئی اسے پہنچانتا نہ تھا ۔ مسلمہ کے سوال پر سب نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ اس نے پورے لشکر کو جمع کیا اور کہا نقب لگانے والا جانباز کہاں ہے ؟ پورے لشکر پر سناٹا طاری ہو گیا لیکن کوئی سامنے نہ آیا ۔ مسلمہ بن عبدالملک نے دوبارہ کہا میں اس کو اس کے رب کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ سامنے آئے اچانک ایک نقاب پوش بڑھا اس کی صرف آنکھیں ظاہر تھیں مسلمہ کے سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہا :
میں ہوں نقب لگانے والا اگر آپ مجھے میرے رب کی قسم نہ دیتے تو میں کبھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کرتا اب میں بھی آپ کو آپ کے رب کا واسطہ دیتا ہوں مجھ سے میرے نام کے بارے میں سوال نہ کرنا اور اگر آپ جان بھی لیں تو کسی سے ذکر نہ کرنا اس لیے کہ میں نے یہ عمل اس ذات کیلئے کیا ہے جو مجھے آپ سے زیادہ عطاءکرنے پر قادر ہے ۔
مسلمہ بن عبدالملک بعد میں جب بھی دعا کرتے تو ضرور کہتے اللھم اجعلنی مع صاحب النقب ” اے اللہ مجھے نقب والے کے ساتھ کر دے ۔ “
اسی طرح ایک اور روح پرور واقع ہے کہ ابوعمر بن نجید چوتھی صدی ہجری کے مشہور بزرگوں میں سے ہیں ۔ ایک دفعہ سرحدوں کی حفاظت کیلئے رقوم ختم ہو گئی ۔ امیر شہر نے اہل ثروت کو ترغیب دی اور سر مجلس روپڑے ۔ ابو عمر بن نجید نے دو لاکھ درہم کی ایک خطیر رقم آ کر انہیں دے دی ۔ امیر نے اگلے دن لوگوں کو جمع کیا اور تعاون کرنے والے ابو عمر کی تعریف کی ، لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، جب ابو عمر بن نجید اسی مجلس میں کھڑے ہو کر فرمانے لگے وہ رقم میری والدہ کی تھی میں نے دیتے وقت ان سے پوچھا نہیں تھا جبکہ اب وہ راضی نہیں ہیں لہٰذا یہ رقم واپس کر دی جائے ۔ امیر شہر نے واپس کر دی ۔ اگلی رات ابو عمر وہ دوبارہ رقم لے کر حاضر ہوئے اور کہا یہ رقم لے لیں لیکن اس شرط پر کہ آپ کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ یہ کس نے دی ہے ۔ امیر کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اور کہا ابو عمر تم اخلاص کی کس قدر بلندی پر ہو ۔
یہ ہے وہ نمونے جو ان تفوس مذکیہ نے ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت سے چھوڑے ہیں ۔ ذرا آگے آئیں آخر میں ایک اور واقع سے اپنے دلوں کو ایمان کی چاشنی سے محظوظ کر لیں ۔
یہ دور بادشاہ معتصم باللہ عباسی کا ہے ۔ بادشاہ وقت بڑے جاہ و جلال والا بڑا رعب و دبدبہ رکھنے والا شہر عموریہ کا محاصرہ کرتے ہیں ۔ اس شہر کے قلعہ کی دیوار پر کھڑا ہو کر ایک بدبخت شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ بولتا ہے مسلمانوں کیلئے اس سے بڑھ کر تکلیف کی بات اور کیا ہو سکتی تھی ہر مجاہد کی خواہش تھی کہ اس منحوس کے ہلاک کرنے کی سعادت اس کے حصہ میں آئے لیکن وہ تیروں اور حملوں کی زد سے محفوظ ایک ایسی جگہ پر کھڑا ہوتا جہاں سے اس کی آواز تو سنائی دیتی تھی لیکن اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ یعقوب بن جعفر نامی ایک شخص لشکر اسلام میں ایک بہترین تیر انداز تھا اس ملعون نے جب ایک بار دیوار پر چڑھ کر شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کیلئے منہ کھولا یعقوب گھات میں تھا اس نے تیر پھینکا جو سیدھا اس کے سینے میں جا لگا اور گر کر ہلاک ہوا تو فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی ۔ یہ مسلمانوں کیلئے بڑی خوشی کا واقعہ تھا ۔ معتصم نے اس تیر انداز کو بلایا اور کہا آپ اپنے اس تیر کا ثواب مجھے فروخت کر دو ۔
مجاہد نے کہا ثواب بیچا نہیں جاتا ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں ترغیب دیتا ہوں اور ایک لاکھ درہم دیتا ہوں مگر مجاہد نے انکار کر دیا ۔ اب بادشاہ معتصم باللہ نے پانچ لاکھ درہم دئیے لیکن مجاہد نے کہا کہ ” مجھے ساری دنیا دے دی جائے تو بھی اس کے عوض اس تیر کا ثواب فروخت نہیں کروں گا البتہ اس کا آدھا ثواب بغیر کسی عوض کے میں آپ کو ہبہ کر دیتا ہوں ۔ “ معتصم اس قدر خوش ہوا گویا اسے سارا جہاں مل گیا ہو ۔ معتصم باللہ نے پھر پوچھا تم نے یہ تیر اندازی کہاں سے سیکھی ہے ؟ فرمایا بصرہ میں واقع اپنے گھر میں ۔ معتصم نے کہا وہ گھر مجھے فروخت کر دو ۔ جواب دیا وہ رمی اور تیر اندازی کرنے والے مجاہدوں کیلئے وقف ہے ۔
ذرا سوچئے انداز حکمران پر ۔ معتصم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کو قتل کرنا اپنی حکومت مال و دولت اور جاہ و جلال کے لٹا دینے سے بہتر سمجھا ۔ آج بھی شہیدان راہ وفا اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر مرنے اور کٹنے والے شہبازوں کا درجہ اور قیمت ساری کائنات سے زیادہ ہے ۔ یاد رکھو ساری کائنات ، اس کی مال و متاع ، اس کے اہل جان ، مملکتیں اور سیاستیں اور تخت و تاج سب لٹ جائیں مگر میرے دوست ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پر کوئی ہاتھ نہ ڈالنے پائے ۔
بہرحال اصل بات جو کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ اخلاص اور للہیت کے یہ پیکر اور دنیا کے ظلمت کدوں میں ایمانی شمع روشن کرنے والے سر بکف مجاہدین کا یہ وہ قافلہ تھا جس نے انسانیت کے سامنے اسلامی تعلیمات کی ابدی صداقتوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے خاشاک غیر اللہ کو ہٹانے کیلئے اسلام کی بلند صداقتوں کی صحیح تصویر پیش کی ۔ نتیجتاً امن و آشتی اور عدل و انصاف کے حامل دین اسلام ابر رحمت بن کر پورے عالم پر چھا گیا اور اس کی برکات و ثمرات سے کائنات کا ذرہ ذرہ روشن و منور ہوا ۔
آج مسلمانوں کے لٹے پٹے کاروان کو ابو عمرو بن نجید ، یعقوب بن جعفر جیسے جانباز مخلصین کی کس قدر حاجت ہے ایک مسلم عورت کی پکار پر معتصم باللہ جیسے خلیفہ کی آج عالم اسلام کو کتنی ضرورت ہے بوسنیا ، فلسطین ، لبنان ، برما ، کشمیر ، چیچنیا اور جانے دنیا کے کتنے خطے ہیں اور روئے زمین کے نقشے پر عہد جدید کے کتنے عمورےے شہر ہیں جہاں کی فضاؤں میں اسلامی تہذیب کے نشیمن کے ایک ایک تنکے پر بجلیاں گرائی جاتی ہیں ۔ جہاں کی خلاؤں میں مسلمانوں کے خاکستر کو صرف اس لیے بکھیرا جاتا ہے کہ اس میں چنگاریاں پوشیدہ نہ ہوں جہاں مسلمان ماؤں اور بہنوں کی دردناک صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔ جہاں کے سناٹوں میں ان کی الم ناک صدائیں گونج رہی ہیں ۔ جہاں کی وسعتوں میں عصمتوں کی چادر تار تار تیر رہی ہے ۔ جہاں جہاں جہاں....
لیکن آہ آج کوئی معتصم نہیں ہے ، آج کوئی ابن قاسم نہیں جو نفیر عام کا اعلان کریں جو ان صداؤں پر لبیک کہتے ہوئے بے چین ہو جائے ، جو بیتے دنوں کو لوٹا دے اور گزری تاریخ کو دہرا دے ۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو