• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیا جوڑا

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
خالد محی الدین |
روزمرہ زندگی میں ہمیں بہت سے عجیب و غریب حیران کن، اندوہناک اور چونکا دینے والے بڑے بڑے واقعات سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ایسے بے شمار واقعات ہوتے ہیں جو سینہ بہ سینہ گردش کرتے ہیں مگر منظر عام پر نہیں آتے۔
ایک سچا واقعہ سنایا جو دربار میراں حسین زنجانی سے ملحق کپڑے کی مارکیٹ میں پیش آیا،

شیخ شفیق حسب معمول اپنی دکان سجائے بیٹھا تھا۔ اِکا دُکا خواتین دکان میں لٹکے ملبوسات دیکھ رہی تھیں۔ سیلز مین زنانہ اور بچکانہ جوڑوں کو ترتیب دینے میں مشغول تھا۔ بازار میں گہماگہمی معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی اور یہ بات دکانداروں کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے کہ آج اُن کا مال خوب بکے گا۔ شیخ صاحب نے اپنی دکان میں ہر قسم کی ورائٹی کے علاوہ گاہک کی تسلی کے لیے ٹرائل روم بھی بنا رکھا ہے جہاں خواتین پسند آنے والا جوڑا زیب تن کر کے تسلی کر لیتی ہیں کہ اس میں کوئی نقص تو نہیں اور
یہ بھی کہ پہن کر کیسا لگتا ہے۔ اسی اثنا میں ایک برقع پوش خاتون دکان میں وارد ہوئی اور مختلف ڈیزائن کے چار پانچ جوڑے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ پھر ایک ایک جوڑے کی قیمت پوچھی اور ٹرائل روم کا پوچھ کر جوڑے اُٹھائے اندر چلی گئی۔ پانچ سات منٹ بعد وہ باہر آئی اور جوڑے کائونٹر پر رکھنے کے بعد جانے لگی' تو سیلز مین نے کہا' باجی! یہ جوڑے تو چار ہیں جبکہ میں نے آپ کو پانچ دیے تھے۔ خاتون نے اُسے جھاڑ پلائی اورپُراعتماد لہجے میں کہا ''تمہارا دماغ توٹھیک ہے۔ میں یہی جوڑے لے کر گئی
تھی اور وہی تمہیں لوٹا دیے ہیں۔ جیسے ہی یہ الفاظ شیخ صاحب کے کانوں سے ٹکرائے وہ فوراً اپنی نشست سے اُٹھ کر کائونٹر پر چلے آئے اور سیلز مین سے مسئلہ دریافت کیا، جو اُن کا قابل اعتماد ملازم تھا۔ مدعا سننے کے بعد شیخ صاحب کے تیور کچھ بدلے، مگر انہوں نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا اور چند لمحے چپ چاپ ساکت کھڑے رہے۔
پھر شیخ صاحب نے خاتون کا بغور جائزہ لیا، مگر کسی قسم کا کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ اب معاملہ چونکہ خاتون کا تھا اور وہ اُسے ہاتھ لگانے کی جسارت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی مرد ہوتا، تو الگ بات تھی۔ شیخ صاحب نے دکان میں موجود دوسری خواتین کی منت سماجت کی کہ آپ اس عورت کو ٹرائل روم میں لے جا کر اس کی جامہ تلاشی لیں... اور خود پہلے جا کر ٹرائل روم کی تلاشی لے آئے کہ مبادا اُس خاتون نے جوڑا یہیں کہیں چھپا دیا ہو۔ لیکن سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اب جو دوسری خواتین اپنی ہم جنس کو اندر لے کر گئیں، توہ بھی اُس کی طرف داری کرنے لگیں کہ اُس کے پاس کوئی جوڑا نہیں ہے۔
سیلز مین قسمیں اور قرآن اُٹھانے کو تیار تھا جبکہ برقع پوش خاتون اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہی تھی۔ شیخ صاحب کی ساری دنیا شناسی دھری کی دھری رہ گئی ، وہ عجب مخمصے کا شکار تھے۔ اُن کی زندگی میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا۔
جب ہر قسم کی دھمکی اور حربے ناکام ہو گئے، تو شیخ صاحب نے نہایت تحمل سے خاتون کو مخاطب کیا اور سیلزمین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ''یہ ہمارا ملازم ہی نہیں بلکہ خاندان کا فرد ہے اور ایسا ممکن ہی نہیں یہ ہمیں دھوکا دے یا غلط بیانی کرے۔ یہ اپنی جگہ سچا ہے۔'' رہا مسئلہ تمہارا، تو یہ سب لوگ سن رہے ہیں، میں تمہیں پولیس کے حوالے کروں گا، نہ کچھ کہوں گا بلکہ ایک جوڑا اور دوں گا بس تم یہ بتا دو کہ وہ جوڑا کہاں ہے؟
شیخ صاحب کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی۔ خاتون نے دکان میں موجود لوگوں پر اْچٹتی نظر ڈالی اور آخری بار شیخ صاحب کی نظروں میں جھانکا کہ یہ شخص اپنے قول سے مکر تو نہیں جائے گا اور کچھ توقف کے بعد جب وہ مطمئن ہو گئی، تو اُس نے اپنے برقعے کا پلو ہٹایا، تو وہ جوڑا اُس نے پہن رکھا تھا۔
سب کے سب محوحیرت رہ گئے۔ پاس کھڑی خواتین جنھوں نے اُس کی تلاشی لی تھی دانتوں میں انگلیاں دینے لگیں۔ایک خاتون دھیمی آواز میں بولی ''یہ گھر سے صرف برقع پہن کر آئی تھی... اُف کتنی مکار فتنہ پرداز عورت ہے کہ اسے یہ دھوکا بھی مہنگا نہیں پڑا۔
شیخ صاحب نے حسبِ وعدہ ایک اور نیا جوڑا اُس کے حوالے کیا اور وہ ''باعزت'' طور پر دکان سے باہر چلی گئی۔ سیلزمین لپک کر دکان سے نکلا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کدھر سے آئی تھی مگر وہ ہجوم میں کھو چکی تھی۔
 
Top