• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیم ہندو سیکولر ٹیپو سلطان !

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
نیم ہندو سیکولر ٹیپو سلطان !

ٹیپو سلطان کو عمومی طور پر مسلمان مجاہد اور مسلمانوں کا ھیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو کہ سراسر جھوٹ ہے اور مطالعہ پاکستان کی کارستانی ہے کیونکہ پاکستان کو ایسے مواد کی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے عوام کو نیم اسلامی اور نیم کفریہ نظریات کے مابین رکھ سکے

ٹیپو سلطان در حقیقت ایک سیکولر بلکہ نیم ملحد حکمران تھا جس کے نزدیک توحید اسلام اور دیگر مذہبی امور سے زیادہ اپنا اقتدار اور اپنے زیر قبضہ علاقے زیادہ اہمیت رکھتے تھے
اس سلسلے میں دیگر ثبوت کے علاوہ صرف یہی کافی ہے کہ ٹیپو سلطان شرک کے اڈوں یعنی مندروں کا نہ صرف محافظ تھا بلکہ ان کو بھاری فنڈ بھی دیتا تھا اور مندر میں نصب بتوں سے لے کر وہاں بتوں کے خدمت گذار پنڈتوں تک کو مال فراہم کرتا تھا اور ان کی عزت کرتا تھا

مشہور ہندو محقق بھگوان گڈوانی ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:

”سلطان ٹیپو چاہے کچھ بھی ہو مگر متعصب اور فرقہ پرست ہرگز نہیں تھا۔وہ قوم و وطن کا مسیحا، جاں نثار سپوت تھاقومی شہید تھا اور اسے مرتبے کے لحاظ سے یاد کیا جانا چاہیے ٹیپو کے انیس فوجی جنرلوں میں سے دس ہندو تھے۔ اس کے تیرہ وزیروں میں سے سات ہندو تھے۔ اس کا استاد گووردھن پنڈت تھا " (ہندوستان ٹائمز،4فروری 1990)

متعدد ہندو مورخین اس بات پر ٹیپو سلطان کی تعریف کرتے ہیں کہ اگر وہ تعصب سے کام لیتا تو آج سرزمین میسور پر ایک بھی مندر نہ ہوتا اور وہاں سے بت پرستی کا خاتمہ ہوگیا ہوتا لکن سلطان نے ہندووں مذہب کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے کے بجائے مندروں کو فنڈ فراہم کئے اور ہندووں مذہب کی ترقی کےلئے مالی مدد کی جس سے میسور میں مزید نئے مندر قائم ہوئے جو آج تک باقی ہیں

"گاندھی جی ٹیپو کے بارے میں لکھتا:

ٹیپو نے مندروں کے لیے بڑی فیاضی سے جائدادیں وقف کیں۔اور خود اس کے محل کے چاروں طرف سری وینکٹارمن، سری نواس اور شری رنگ ناتھ کے مندروں کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری اور رواداری کا ثبوت ہے۔“ (ینگ انڈیا،23 جنوری 1930)

اسی طرح بنگلوری محمود لکھتے ہیں

"جب مرہٹہ فوجوں نے سری نگری کے مندر کو لوٹ لیا،وہاں کے ہاتھی گھوڑے سب لے گئے اور ساردا دیوی کی مورتی کو نکال کر پھینک دیا اس کی خبر جب ٹیپو سلطان کو ملی تو اس نے گرو جی کے نام خط لکھا " آپ کو اختیار ہے کہ انعامی دیہات میں سے جن چیزوں کی ضرورت ہو حاصل کریں،اس رقم اور اناج سے ساردا دیوی کی مورتی نصب کرتے ہوئے برہمنوں کو کھانا کھلائیں اور ہمارے دشمنوں کی تباہی کے لیے دعا کریں " (،تاریخ سلطنت خداداد،ہمالیہ بک ہاؤس۔دہلی،ص 522 )

ٹیپو سلطان کے یہ تمام خطوط و فرامین آج بھی محفوظ ہیں اسی طرح کے خطوط میں سے ایک خط میں پنڈت گرو جی نے جب پوجا کے لیے خاص رسمیں ادا کرنے کے لیے سلطان سے مالی مدد مانگی، یہ پوجا 48 دنوں تک چلنے والی تھی ٹیپو سلطان نے پوجا کی رسموں کو منظوری دی اور وہاں کے مقامی افسر کے نام حکم جاری کیا اور گرو جی کو لکھا :

آپ کی حسب مرضی پوجا کے دنوں میں روز آنہ ایک ہزار برہمنوں کو کھانا کھلانے اور نقدی دینے کے متعلق نگر کے حاکم کو حکم بھیج دیا گیا ہے" (رضوی،سید خورشید مصطفی،شیر ہندوستان ٹیپوسلطان، مرکزی مکتبہ اسلامی۔نئی دہلی۔25،ص82)

برہمنوں کو تحفے اور جاگیریں

ٹیپو سلطان نے اس میدان میں بھی ہندو بت پرستوں سے مکمل لگاو اور تعاون کا ثبوت دیا ہے۔

میسور آرکیالوجیکل رپورٹ 1917میں ہے کہ تعلقہ ننجن گوڑ کے گاؤں کلالے کے مندر میں چاندی کے برتن، پلیٹ، اگالدان وغیرہ کے کتبوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹیپو نے عطا کیے۔ اسی طرح میل کوٹ کے نارائن سوامی مندر میں برتن اور جواہرات ٹیپو کا عطیہ ہیں۔

1785میں اسی مندر کو بارہ ہاتھی اور 1786میں ایک نقارہ عطا کیا گیا۔ (میسور آرکیالوجیکل رپورٹ1916 -1912)

ٹیپو سلطان نے مالابار کے مندروں کو جو تحفے اور عطیات عطا کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں

1۔جیلم برا،تعلقہ اراندا کے مانورمندر کو ۰۷۱ ایکڑ آراضی اور تین ایکڑ سے زیادہ باغ کی آراضی عطا کی۔

2۔وائلا تورامسوم،تعلقہ پونانی کے تروانچکسولم مندر کو 28 ایکڑ زمین اور تین ایکڑ باغ عطا کیے۔

3۔گورویاڈرامسوم،تعلقہ پونانی کے گورویاورمندر کو 122 ایکڑ زمین اور 73 ایکڑ زمین باغ کے لیے دیں۔

4۔قصبہ امسوم،تعلقہ کالی کٹ کے تریکٹیشور ٹاکورم کنکاؤ مندر کو بھی اتنی ہی زمین اور باغ تحفے میں دیے۔

5۔کڈیکادامسوم،تعلقہ پونانی کے کٹم ماڈاتھل سری کمارن(نمبودری پد)مندر کو وسیع آراضی اور باغ دیے۔

6۔تریکندیورامسوم،تعلقہ پونانی کے تریکند یوراسموہام مندر کو وسیع آراضیات اور باغ 10 ایکڑ۔

(رضوی،سید خورشید مصطفی،شیر ہندوستان ٹیپوسلطان، مرکزی مکتبہ اسلامی۔نئی دہلی)

گروایور کے مندر کا قصہ :

" ٹیپو سلطان جب مالابار فتح کرتا ہوا گروایور کے قریب پہنچا تو اس مندر کے پجاری بہت گھبراگئے اور انھوں نے دیوتا کی بیش قیمت مورت کو ریاست ٹراونکور کے ایک مشہور مندر میں بھیج دیا۔ٹیپو سلطان گروایور کے قریب ہی ایک مقام پر رک گیا اور اپنی فوجوں کو گروایور فتح کرنے کے لیے بھیج دیا اس کے سپاہیوں نے گروایور کو فتح کرلیا اور چونکہ اس وقت مسلمانوں کی مرہٹوں سے لڑائیاں ہو رہی تھیں۔اس لیے بعض مسلمان سپاہیوں نے مندر کی دیواروں پر گھی چھڑک کر آگ لگادی۔عمارت تھوڑی ہی جلنے پائی تھی کہ ٹیپو سلطان کے افسروں کو اپنے بادشاہ کے احکام کا خیال آیا اور انھوں نے جلدی جلدی آگ بجھا کر مندر کے دو تین برہمنوں کو ٹیپو سلطان کے پاس بھیجا کہ وہ جاکر شورش پسند سپاہیوں کی شکایت کریں



ٹیپو سلطان نے جس وقت پجاریوں سے یہ سنا کہ اس کے چند شریر سپاہیوں نے مندر میں آگ لگانے کی کوشش کی ہے تو وہ بہت ناراض ہوا۔اور رات ہی رات سفر طے کرکے گروایور پہنچا،یہاں پہنچ کر اس نے تحقیقات شروع کی اور جن مسلمان سپاہیوں نے مندر میں آگ لگانے کی کوشش کی تھی ان کو سخت سزا دی اور مندر کو درست کرایا اور حکم دیا کہ اس شہر میں جو کچھ آمدنی ہو، وہ سرکاری خزانہ میں داخل کرنے کے بجائے ہمیشہ اس مندر کو بخش دی جائے۔جب اس کو معلوم ہوا کہ پجاریوں نے اس کے خوف سے مندر کی مورتی کو ٹراونکور بھجوادیا ہے تو اس نے حکم دیا کہ دیوتا کی مورت کو فورا ً واپس منگاکر اس مندر میں نصب کیا جائے

(تاریخ سلطنت خداداد،از بنگلوری محمود صفحہ 528،529)


گوپور مندر

ڈاکٹر وی شیخ علی نے اصل دستاویز ات سے ثابت کیا ہے کہ سلطان ٹیپو نے دس ہزار ہن(سکّہ رائج الوقت) گوپور مندر کو بمقام کونجی وارم کی تعمیر میں تکمیل کے لئے دیے۔اس مندر کی تعمیر حیدر علی نے شروع کرائی تھی(1780)لیکن اسی درمیان اس کا انتقال ہوگیا(1782)تو ٹیپو سلطان نے نہ اس کی تکمیل کرائی بلکہ افتتاحی تقریب میں بذات خود شریک ہوا۔اسی مقام میل کوٹے کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ بعض مذہبی رسموں کی ادائی پر کچھ جھگڑا پیدا ہو تو سلطان ٹیپو نے بذات خود معاملے کو اس طرح طے کرایا کہ دونو ں فریق مطمئین ہوگئے۔

(رضوی،سید خورشید مصطفی،شیر ہندوستان ٹیپوسلطان، مرکزی مکتبہ اسلامی۔نئی دہلی۔25، ص 90)
 
Top