پاکستان کے ٹی وی مبلغین
BBC Urdu - پاکستان - پاکستان کے ٹی وی مبلغین
پاکستان کے مذہبی حلقے کیبل ٹی وی کی آمد پر اس کے شدید مخالف تھے اور اسے فحش غیر ملکی درآمد قرار دیتے تھے لیکن آج مذہب انہی نشریات پر حاوی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ٹی وی پر ایک نئی نسل کے
اسلامی مبلغین کا ظاہر ہونا ماحول کو لبرل لوگوں سے تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔
پاکستان میں کسی بھی دن اگر آپ ٹی وی دیکھیں تو آپ کو سوپ سیریلز، گرما گرم سیاسی مباحثے اور ایک
نئے انداز میں پیش کیا جانے والے اسلام نظر آئے گا۔
ان پروگراموں کا بنا بنایا ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے سوالات اور مسائل کے لیے کال کرتے ہیں اور
شو میں موجود مذہبی ماہرین ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کے میزبان
بیک وقت مذہبی رہنما اور سلیبرٹی ہوتے ہیں اور اپنے ناظرین کے لئے
چھوٹے فتوے جارے کرتے نظر آتے ہیں۔
ان پروگراموں کے میزبان اور ان کے پروگرم اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں جیسا کہ فرحت ہاشمی پر الزام لگا کے وہ پیسے خرد برد کر کے کینیڈا بھاگ گئیں تاکہ تحقیقات سے بچ سکیں۔ فرحت کسی قسم کی بدعنوانی سے مکمل طور پر انکاری ہیں۔ دوسری طرف مہر بخاری جو کہ ایک سیاسی شو کی میزبانی کرتی ہیں مگر ان پر اس وقت شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا جب انہوں نے اپنے ایک مہمان کو ملحد قرار دی دیا تھا۔
ایک اور
ملاّ نے وینا ملک سے براہ راست ٹی وی پر تکرار کی جس سے پہلے انہوں نے اداکارہ کے طرزِ عمل پر تنقید کی جس کا ویڈیو کلپ بعد میں بہت مشہور ہوا۔
ان تمام
مبلغین میں سر فہرست عامر لیاقت ہیں جو کہ کراچی میں اپنے چمکتے دمکتے سٹوڈیو سے ایک گھنٹے کا براہ راست پروگرام ہفتے کے پانچ دن کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں عامر لیاقت ایک ’مشورہ بیگم‘ جیسے شخص کا کردار کرتے ہیں جو اپنے ناظرین کے مذہبی مسائل کا حل اپنے مشوروں سے کرتا ہے۔
ستمبر دو ہزار آٹھ کو عامر لیاقت نے اپنا ایک پورا پروگرام احمدیوں کے عقائد کے بارے میں مختص کیا۔ اس پروگرام میں دو علماء نے کہا کہ ایسا کوئی بھی جو اپنے آپ کو ایک جھوٹے نبی سے منسوب کرتا ہے وہ واجب القتل ہے۔
ایک احمدی ڈاکٹر خالد یوسف نے جب یہ پروگرام نواب شاہ میں دیکھا تو ان کو ایک دھچکا لگا کہ ایک مشہور چینل کس طرح یہ کا مواد نشر کر سکتا ہے؟ ’جو قتل کو ایک مذہبی فریضے کے طور پر پیش کر رہے تھے ایک اچھے مسلمان کے فریضے کے طور پر۔‘
اس پروگرام کے چوبیس گھنٹوں کے اندر جماعت احمدیہ میرپور خاص کے امیر ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی کو قتل کر دیا گیا اور مذید چوبیس گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر خالد یوسف کے والد کو جو کہ مقامی جماعت احمدیہ کے امیر تھے دو نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔
لیکن ڈاکٹر عامر لیاقت نے ان قتل کی واردتوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کے ’مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں ہے کیونکہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے جو ہوا اس پر دکھ ہے اور میں ان خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کا میری ذات سے اور میرے پروگرام میں کہی گئی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
عامر لیاقت اب بھی اپنا شو پیش کرتے ہیں بلکہ اب واپس پاکستان کے ایک مقبول ترین ٹی وی چینل جیو ٹی وی پر آ گئے ہیں جہاں سے ان کو اس پروگرام کے بعد نکال دیا گیا تھا۔
پاکستان کے بڑھتے ہوئے آزاد ٹی وی چینل جنرل مشرف کی دور صدارت کی باقیات ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ
سلیبرٹی ملاّ عدم برداشت کا پیغام دے رہے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ٹی وی انڈسٹری کو قوائد و ظوابط کی اشد ضرورت ہے۔
پیمرا جو کہ ایک حکومتی ادارہ ہے جس کو ٹی وی چینلز پر نظر رکھنے کا کام سپرد گیا ہے۔ اس کے فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ ایسے پروگراموں کو روکے گا جو کہ ’گروہی اور فرقہ وارانہ رویوں اور ناموافقت‘ کو ترویج دیں۔
مگر ناقدین نے اسے ’بے اختیار‘ ادارہ کہا جب اس ادارے نے عامر لیاقت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ پیمرا کہ جنرل مینیجر نے کہا کہ وہ مذہبی پروگراموں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیں گے کیونکہ یہ ’آگ لگانے‘ کے مترادف ہو گا۔
لیکن پاکستان میں اداکارہ وینا ملک نے کھل کر اپنی آواز ان ٹی وی کے مبلغوں کے خلاف اٹھائی ہے۔ وینا کو اس وقت ٹی وی پر مذہبی علماء کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ہندوستان جا کر بگ برادر نامی پروگرام میں حصہ لیا۔
جب علماء نے ان کے طرز عمل کو ’شرمناک‘ اور ’غیر اسلامی‘ قرار دیا تو وینا نے جس بے خوف طریقے سے اپنا دفاع کیا اس کی ویڈیو نے یو ٹیوب پر ہلچل مچادی اور ان کو راتوں رات ایک ہیرو بنا دیا۔
وینا نے کہا کہ
’میں اپنے آپ کے لئے بول رہی تھی جب میں نے کہا کہ ہر عورت کی مرضی ہے وہ جو چاہے پہنے‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں حقوق نسواں کی کوششیں اقلیتوں کے حقوق کی کوششوں سے جڑی ہیں اور چند لوگ ہیں جو اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں جبکہ میں بات کر سکتی تھی جو میں نے کی۔ سیٹیزنز فار ڈیموکریسی کے منصور رضا نے کہا کہ وینا بمقابلہ ملاّ واقعہ نے وینا کو پاکستانی لبرلز کی جدوجہد کی علامت کے طور پر سامنے پیش کیا۔ وینا کا پاکستانی بائیں بازو کی پسندیدہ ہونا وقت کے بدلنے کی علامت ہے۔
منصور رضا نے مزید کہا کہ ’میں ایسی گھریلو خواتین کو جانتا ہوں جو برقع پہنتی ہیں مگر وہ وینا کو ہیرو مانتی ہیں۔ اس نے وہ سب کہ دیا جو ہم کہنا چاہتے تھے۔‘
جس ٹی وی چینل نے یہ پروگرام نشر کیا تھا ان کا مؤقف ہے کہ وہ
یہ سب عوام کی ضرورت پر کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ
مشکل دینی مسائل کا آسان حل بتا رہے ہیں۔
ماہنامہ ہیرالڈ کے مدیر بدر عالم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام پر جس طرح عمل کیا جاتا ہے ٹی وی اس کو بدل سکتا ہے جیسا کہ زیادہ عورتوں کا نقاب پہننا۔
پاکستان کے ٹی وی چینلز پر پاکستان کے عمومی اور سخت گیر اسلامی طرز عمل پر روزانہ ایک لڑائی چلتی ہے۔
ڈاکٹر خالد یوسف سمجھتے ہیں کہ ان کے والد اسی لڑائی کا شکار ہوئے۔ ’میں صرف چاہتا ہوں کہ یہ لوگ سوچیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ انسانیت کی خاطر اس طرح کے پروگرام نا بنائیں۔ میرے والد صاحب ایسی شخصیت تھے جن کو سب پیار کرتے تھے اور ہم نے ان کو ایک ٹی وی پروگرام کی وجہ سے کھو دیا۔ میں امید کرتا ہوں کہ کوئی بھی اس طرح کی آزمائش سے نہ گزرے۔‘