عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام ہے
قاری محمد زکریا شاہد
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں : فلما اخبروا تقالوھا جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔ ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔ دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔ تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔ جب امام الانبیاءنے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں : فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان ” نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک ” عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا ایک نمازی سے مکالمہ :
سیدنا حذیفہ بن یمان نبی علیہ السلام کے رازدان صحابی تھے انہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا ! یہ نماز آپ کب سے پڑھ رہے ہیں ؟ اس نے کہا چالیس سال سے ۔ فرمایا کہ تم نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ایک بار میرے طریقے کے مطابق وضو کیا اور پھر ایک بار میرے طریقے کے مطابق نماز پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کی سابقہ زندگی کے تمام گناہ معاف کر دے گا ۔ ( سنن نسائی ، ح : 144 )
اب آئیے اس فرق کو سمجھئے ۔ ایک طرف ایک چالیس سالہ نمازی اور وہ بھی صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم نے چالیس سال کی نمازوں کے باوجود ایک نماز بھی نہیں پڑھی اور ایک طرف یہ وسعت ہے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ایک نماز صحیح وضو کر کے پڑھ لے اللہ تعالیٰ سابقہ تمام گناہوں کو معاف کر دیں گے ۔ قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ادھر بھی نماز ہے اور ادھر بھی نماز ہے ۔ وہاں چالیس سال کی نمازیں اور یہاں ایک وقت کی صرف دو رکعت نماز ۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی ، کوئی ثواب نہیں اور دوسری طرف فرمایا جا رہا ہے کہ اس ایک نماز سے سابقہ زندگی کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ کیا فرق ہے اور کون سا فرق ہے ؟ سچ ہے : محمد فرق بین الناس ( بخاری ، ح : 7281 ) یہ فرق کرنے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ کوئی امام ، فقیہہ ، محدث اور مجتہد نہیں ۔ کسی کا قول و عمل نہیں ، کسی کی ذاتی سوچ نہیں ، کسی کا اجتہاد نہیں بلکہ فرق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے ۔ آج بھی لوگ نمازیں پڑھتے ہیں ۔ محنتیں کرتے ہیں ، عبادتیں اور ریاضتیں کرتے ہیں لیکن ایک بار یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنی نمازوں کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پر پیش کر کے دیکھیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیا تھی ؟ اور ہماری نمازوں کی کیا حالت ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے یہ وقت آئے گا کہ مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہونگی اور بڑی بڑی مسجدیں ہونگی لیکن اکثریت ان نمازیوں کی ہو گی جنہیں ان کی نماز کا ثواب نہیں ملے گا ۔ صرف اسی نماز کا ثواب ملے گا جو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ہو گی اور جو آپ کے طریقے اور سنت کے خلاف ہے وہ غلط اور باطل ہے اس میں کوئی اجر و ثواب نہیں بلکہ الٹا وبال جان ہے ۔ ایک روزے دار کا جذبہ اور فیصلہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ایک صحابی نبی علیہ السلام کے پاس آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ کمزور سا ہو گیا ہے پوچھا کہ تم کمزور کیوں ہو گئے ہو ۔ صحابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گزشتہ سال آپ کے پاس آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان کی تھی ۔ اس پر میں نے عمل کیا اتنا عمل کیا کہ کمزور ہو گیا ہوں ۔ وہ حدیث یہ تھی کہ
میں نے سوچا کہ اتنی بابرکت حدیث کہ ایک روزے سے جہنم ستر ( 70 ) سال دور ہو جائیگی تو ہر روز روزہ رکھنے کا کتنا ثواب ہوگا ؟ چنانچہ میں نے عزم کر لیا کہ ہمیشہ روزے رکھوں گا اور اپنے عزم کے مطابق ہر روز باقاعدگی سے روزے رکھنے شروع کر دئیے جس کی بناءپر مجھ میں ضعف اور کمزوری پیدا ہوئی ۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابی کے اس عمل پر اسے شاباش نہ دی بلکہ حدیث کے الفاظ ہیں ۔” جو اللہ کیلئے ایک روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال دور کر دیں گے ۔ “ ( بخاری )
یعنی ایک روزے کا بھی ثواب نہ ملا ۔ کیونکہ سال بھر کے روزے اگرچہ عمل کے اعتبار سے ڈھیر ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج اور طریقے کے خلاف ہیں ۔ ایک طرف سال بھر کے روزے رکھنے والے کو ایک روزے کا ثواب بھی نہیں ملا جبکہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :لا صام من صام الابد
” جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے ( گویا ) روزہ نہیں رکھا ۔ “( بخاری و مسلم )
یعنی صرف تین روزوں کا ثواب زمانے بھر کے روزوں کے ثواب کے برابر ہے ۔ اس لئے کہ عمل کی صالحیت کثرت اور محنت سے نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ہے ۔ کیونکہ اسوہ حسنہ ، آئیڈیل ، کسوٹی اور مثال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔من صام ایام البیض فکانما صام الدھر
” جس نے ایام بیض ( یعنی چاند کی 13 ، 14 ، 15 تاریخ ) کے روزے رکھے گویا اس نے زمانے بھر کے روزے رکھے ۔ “