بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
::::::: نیک ساتھی اصلاح نفس کا ذریعہ ہیں :::::::
انسان کی شخصیت پر اور اُس کی شخصیت میں برے اور اچھے ساتھیوں کااثر کچھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ایک وقت آتا کہ انسان بالکل اپنے ساتھیوں جیسا ہی ہو کر رہ جاتا ہے ، ::::::: نیک ساتھی اصلاح نفس کا ذریعہ ہیں :::::::
علوم ء نفسیات کے ماہرین اس أہم نکتے پر بہت کچھ کہتے رہے ہیں اور کہتے رہتے ہیں ، لیکن حق یہ ہے کہ انسانی نفیسات کے بارے میں اس عظیم حقیقت کی اطلاع سب سے پہلے کائنات کے خالق و مالک کی طرف سے سچائی کی تصدیق پائی ہوئی ، کائنات کی سب سے سچی ہستی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک بہت ہی دل پذیر اور انتہائی عام فہم انداز میں ، بہترین مثال دے کر فرمائی کہ (((((مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً ، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً::: اچھے ساتھی ، اور بُرے ساتھی کی مثال اِس طرح ہے جیسے کہ خُوشبو بیچنے والا ، اور بھٹی جھونکنے والا ، کہ خُوشبُو بیچنے والا یا تو تُمہیں خُوشبُو دے گا ،یا تُم اُس سے خُوشبُو خریدو گے (اور خود کو معطر کرو گے )اور یا اُس سے خُوشبُو (میں سے کچھ نہ کچھ )پا لو گے ، اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تُمہارے کپڑے جلائے گا ، یا تُم اُس سے بُری بُو پا لو گے )))))صحیح البخاری/حدیث 5534/کتاب الذبائح/باب30، صحیح مُسلم/حدیث6860/ کتاب البر و الصلۃ و الادب/باب45،
اس حدیث شریف میں یہ تعلیم فرمائی گئی کہ اگر اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہیے ، اپنے نفس کی خیر میں مددگاری چاہیے تو نیکو کار لوگوں کو اپنے ساتھی بناؤ ، برے لوگوں کا ساتھ برائی کا ہی سبب بنے گا ، حتیٰ کہ اپنے دِین تک سے بھی ہاتھ دھو بیھٹتا ہے اور اپنے ساتھیوں ، دوستوں ، ہم مجلس لوگوں کے دِین پر ہو جاتا ہے ،
اور اس عظیم حقیقت کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے کروایا کہ (((((الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ:::اِنسان اپنے دوست کے دِین پر ہی ہوجاتا ہے لہذا تُم میں سے ہر کوئی دیکھ لے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی رکھتا ہے)))))سُنن ابو داؤد /حدیث4835/کتاب الأدب/باب19، سُنن الترمذی /حدیث 2552/کتاب الزُھد/باب45،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """ حَسن """ قرار دِیا ،
اس دوستی ، ساتھ اور قلبی میلان وغیرہ کے اثر کی ایک عام صُورت یہ دِکھائی دیتی ہے کہ ایسا متاثر شدہ شخص اپنے دِین کو نام تو لیتا ہے ، خود کو اُس سے منسوب تو رکھتا ہے لیکن اُس کے عمل میں اپنے دِین کوئی نسبت سچی نظر نہیں آتی ، اُس کے عمل اُس کےدین سے منسوب ہونے کے دعوے کی سچائی کی گواہی نہیں بن پاتے ،اور کچھ تو اپنے ساتھیوں ، دوستوں اور ہم مجلس لوگوں سے اس قدر متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ اپنے دین کے عِلاوہ والوں کے اقوال و افعال کو بھی اپنے دِین کے مطابق بتانے سمجھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، خواہ اس کے لیے انہیں اپنے دِین کی اساسیات میں خوب لفظی یا معنوی تحریف ہی کرنا پڑے ، اور اپنے دِین کی نصوص کی باطل تأویالت ہی کرنا پڑیں ، اور معاذ اللہ بسا اوقات تو ایسے لوگ بھی دِکھائی دیتے ہیں جو بالکل ہی دِین سے برأت والا رویہ اپنا لیتے ہیں ،
پس ہم سب کو ہی اللہ ، اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں ، انسانی زندگی کے مشاہدے کے عین مطابق ، انسانی نفسیات کے اس أہم ترین مسئلے کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہ جِس قِسم کے ساتھی ، دوست ، ہم محفل وہم مجلس لوگ اپنائیں گے ، ایک وقت آئے گا کہ ہم بھی اُنہی جیسے ہو جائیں گے ،
جی ہاں یہ حقیقت نا قابل انکار ہے کہ اگر کسی کے ساتھی سچے اور نیکو کار نہ ہوں تو وہ کبھی بھی اُسے کسی اچھائی کی طرف چلنے کا مشورہ نہیں دیں گے ، بلکہ اُن کا ھدف صِرف اور صِرف اپنی اور اپنے ساتھی کی مشکلات کو کسی بھی طرح ختم کرنا یا اپنی خواھشات کو کسی بھی طرح پورا کرنا ہوتا ہے ، حلال و حرام یا برا اور اچھا ،اُن کے ہاں کچھ معنی نہیں رکھتا ،
لہذاہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ اپنے کاموں ، اپنے فیصلوں ، اپنی سوچوں ، اپنے فہم و عقل کی غلطی کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے ، اور ہر حال میں خود کو ٹھیک ہی مانتے ہیں یہاں تک کہ دُنیا میں فتنے و فساد کا سبب بنتے ہیں اور خُود کو اور اپنے ساتھیوں کو بلا شک و شبہ جہنم میں لے جانے والے ہی ہوتے ہیں ،
جب کوئی انسان اپنے بارے میں اس قسم کی حماقت انگیز، تباہ کُن غلط فہمی کا شکار ہو جائے کہ وہ ہمیشہ درست ہوتا ہے اور اُس میں کوئی کمی نہیں تو وہ شخص بلا شک و شبہ دُنیا اور آخرت کی تباہی کا سبب ہوتا ،
ہمیں اس حقیقت سے انکار کی مجال نہیں کہ اللہ کی مخلوق میں کوئی بھی ایسا نہیں جِس پر اس کی جِنس کے مطابق فطری کمزوریاں وارد نہ ہوتی ہوں ،
کسی اور کی تو بات ہی کیا کی جائے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ بلندرتبے ، اور سب سے زیادہ مکمل ترین اوصاف والے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے بارے میں اِرشاد فرمایا (((((إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِى الصَّلاَةِ شَىْءٌ لَنَبَّأْتُكُمْ بِهِ ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِى ، وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِى صَلاَتِهِ فَلْيَتَحَرَّى الصَّوَابَ ، فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ ثُمَّ يُسَلِّمْ ، ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ:::اگر نماز میں کچھ (تبدیلی ، کمی یا زیادتی )ہو تو میں تُم لوگوں کو بتاؤں گا ، لیکن بے شک میں تُم لوگوں کی طرح ایک انسان ہوں ، جِس طرح تُم لوگ بُھولتے ہو میں بھی بُھول جاتا ہوں ، لہذا اگر میں بُھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو ، اور اگر تُم لوگوں میں سے کوئی اپنی نماز (میں کسی کمی یا بیشی ) کے بارے میں شک میں پڑے تو ٹھیک معاملے کے بارے میں یاد کرنے کی کوشش کرے ، پھر(اُس کے مطابق ) نماز مکمل کرے ، پھر سلام پھیر لے ، پھر دو سجدےکرے ))))) صحیح البخاری /حدیث401 /کتاب الصلاۃ /باب31، صحیح مُسلم /حدیث1302/کتاب المساجد/باب20،
پس ہر انسان کو اپنی اور دوسروں میں موجود کمیوں اور غلطیوں کی پہچان ہونی چاہیے ، اور انہیں تسلیم کرتے ہوئے اُن کی اصلاح کی ہمت رکھنی چاہیے ،اور اپنے نفس کی خیر کے لیے ، اپنی دُنیا اور آخرت کے معاملات میں اچھائی ، نیکی ، اور دائمی فوائد کے حصول میں مددگاری کے لیے ایسے انسانوں کو اپنا ساتھی اور دوست اپنانا چاہیے جن میں یہ صلاحیت موجود ہو ، کہ وہ اپنی کمیوں اور غلطیوں کی پہچان رکھتے ہوں ، اپنے دوستوں کی کمیوں اور غلطیوں کی پہچان رکھتے ہوں اور کسی منفی طریقے کو اپنائے بغیر ، کسی فساد کا سبب بنے بغیر اُن کی اصلاح کرنے اور کروانے والے ہوں ،
یقین جانیے کہ ایسے نیک اوردرست عقل رکھنے والے ساتھی ہم سب کے دِین ،دُنیا اور آخرت کی کامیابی کا ایک بڑا سبب ہیں ، خاص طور پر ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مُسلمانوں ، اور انسانوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ((((( إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِالأَمِيرِ خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ إِنْ نَسِىَ ذَكَّرَهُ وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهِ غَيْرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ إِنْ نَسِىَ لَمْ يُذَكِّرْهُ وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ::: جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیےنیکو کار سچا نیکی پر مدد کرنے والا وزیر مہیا کر دیتا ہے ، کہ اگر حاکم (خیر کا )کوئی کام یا بات بُھول جائے تووزیر اُسے یاد کروا دے ، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وزیروہ کام کرنے میں اُس کی مدد کرے ، اور اگر اللہ حاکم کے ساتھ اِس کے عِلاوہ معاملے کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مہیا کر دیتا ہے جو حاکم کو(خیر کا )کوئی کام یا بات بُھولنے کی صُورت میں یاد نہیں کرواتا ، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وہ کام کرنے میں اُس کی مدد نہیں کرتا )))))سُنن ابو داؤد/حدیث2934 /کتاب الخراج/باب4،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "صحیح " قرار دِیا ، صحیح ابن حبان /حدیث4494،
خیال رہے کہ یہ معاملہ صرف مُسلمانوں کے درمیان کا ہے ، جیسا کہ مُسند احمد کی روایت میں وضاحت سے بیان ہے کہ (((((مَنْ وَلاَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئاً فَأَرَادَ بِهِ خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ فَإِنْ نَسِىَ ذَكَّرَهُ وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ ::: جسے اللہ عَزَّ و جَلَّ مُسلمانوں کے معاملات میں سے کسی معاملے میں حاکم بناتا ہے اور اُس حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیےنیکو کار سچا نیکی پر مدد کرنے والا وزیر مہیا کر دیتا ہے ، کہ اگر حاکم (خیر کا )کوئی کام یا بات بُھول جائے تووزیر اُسے یاد کروا دے ، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وزیروہ کام کرنے میں اُس کی مدد کرے)))))مُسند احمد/حدیث25147 ،
اس حدیث شریف میں حاکم اور وزیر کی مثال سے یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ یہ معاملہ صرف حاکموں اور اُن کے وزیروں تک محدود ہے ، بلکہ یہ معاملہ ہر دو ایسے اشخاص کا ہے جن میں سے ایک وہ ہوتا ہے جو براہ راست کوئی کام کرنے یا کروانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو اُس کا ساتھی اور اُس کو مشورہ دینے والا ہوتا ہے ، پس اگر ساتھی اچھا ہو گا تو اپنے ساتھی کو خیر کے کام کرگذرنے میں کوتاہی نہیں کرنے دے گا ، اور اگر ساتھی بُرا ہو گا تو اپنے ساتھی کو نیکی کی راہ پر نہیں چلنے دے گا بلکہ کسی نیکی یا اچھائی کا مشورہ تک بھی نہ دے گا،
اچھے ساتھی اپنے ساتھیوں ، دوستوں ، اور ہم محفل و ہم مجلس لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی طرف ہی بلاتے ہیں اور ہر ایسے کام سے اچھے طریقے سے روکتے ہیں جو کام دینی ، دُنیاوی اور بالخصوص اُخروی طور پر کسی نُقصان والا ہو ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ جن کے بارے میں ساری تاریخ انسان یہ گواہی دیتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ انصاف کرنے والے تھے ، اُن کے بارے میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ """ اُن کے مشیروں میں قران کے قاری حضرات ہوا کرتے تھے ، خواہ بڑی عُمر کے ہوں یا نوجوان """،
اور انہی میں سے ایک حُر بن قیس رحمہُ اللہ بھی تھے ، ایک دفعہ حُر بن قیس کے ایک چچا عُیینہ بن حصن نے حُر سے کہا کہ """ اس حاکم کے پاس تمہاری قدر و منزلت ہے مجھے اِن سے ملواؤ """،
حُر انہیں لے کر أمیر المؤمنین کی خدمت میں پہنچے تو اُن کے چچا نے کہا """ اے أمیر تُم ہمیں بہت زیادہ مال نہیں دیتے ، اور نہ ہی ہمارے ساتھ انصاف کرتے ہو """،
یہ سُن کر أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ غصے میں آگئے، تو حُر نے کہا """ اے أمیر المؤمنین ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کو کہا ہے کہ (((((خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ::: درگذر والا معاملہ اپناؤ اور اچھائی اور نیکی والا حکم کرو اور جاھلوں سے رُو گرادنی کرو ))))) اور یہ (میرا چچا ) جاھل ہے """ ،
اللہ کی قسم جب حُر نے أمیر المؤمنین کو یہ آیت سنائی تو أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ نے اِس آیت سے تجاوز نہیں کیا ، اور وہ اللہ کی کتاب (کے احکام ) پر پوری طرح سے عمل کرنے والے تھے """ صحیح البخاری /حدیث7286/کتاب الاعتصام بالکتاب /باب2رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کا بیان ،
دیکھیے ، اچھے ساتھی ، اور ہم مجلس کا فعل ،کہ فوراً کسی ہچکچاہٹ ے بغیر اور بہترین طور پر نیکی کی راہ دِکھائی ، اور کسی غلطی ، زیادتی ، یا گناہ کے سر زد ہونے سے اپنے ساتھی کو بچانے کا سبب ہوا،
اس طرح کی مثالیں ہمیں اپنی تاریخ میں ، اور اپنے اِرد گِرد بھی بہت ملتی ہیں ، پس ہماری اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے نفوس کی خیر ، اور اصلاح چاہتے ہیں ، اور اپنی دینی ، دُنیاوی اور اُخروی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے لیے سچے اِیمان والے ، نیکو کار ، اوردرست عقل والے ساتھی ، دوست، اور ہم مجلس اپنانے چاہیں ۔ والسلام علیکم۔