• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّيْ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
﴿هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّيْ﴾
تحریر : محمد معاذ أبو قحافة

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

( انسان ) اللہ تعالیٰ کی عظیم اور محترم مخلوق ہے، اور تخلیق کا مقصدِ وحید؛ اللہ خالقِ ارض وسما کی عبادت ہے۔ عبادت میں کمال اور نکھار کے لیے بندے کا رب سے جڑے رہنا ضروری ہے۔

مگر بنی آدم کی اکثریت رب العالمین سے بے تعلق زندگی گزار رہی ہے۔ اہلِ اسلام کا تعلق صرف اللہ رب العزت سے ہی رہتا ہے تاہم ان میں سے کچھ کا تعلق وقت اور وقت پر جڑتا اور کٹتا ہے۔

بنی آدم میں انبیاء علیہم السلام کا طبقہ تعلق باللہ میں سبھی انسانوں کے لیے نمونہ ہوتا ہے، یہ محترم طبقہ اپنے اور رب کے درمیان دنیا کی کسی شیء کو بإذن الله – حائل ہونے نہیں دیتا۔

اور یہ ادا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، نتیجے میں اللہ ذو الجلال والاکرام بڑے اجر اور عمدہ عوض سے مالا مال کرتے ہیں۔

نعم العبد

تعلق باللہ اور مقامِ عبودیت میں درجۂ کمال کو پہنچے اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام جن کو قرآن نے ﴿نِعْمَ ٱلْعَبْدُ﴾ ( ص: 30 ) کہا ہے؛ کا ایک قصہ آپ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

قرآنِ مجید میں سلیمان علیہ السلام کا قصہ متعدد مقامات پر مذکور ہے، (سورہ ص) میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے ان آیات پر ایک نظر ڈال لیں پھر ایک اہم بات ذکروں گا ان شاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِٱلْعَشِىِّ ٱلصَّٰفِنَٰتُ ٱلْجِيَادُ فَقَالَ إِنِّىٓ أَحْبَبْتُ حُبَّ ٱلْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّى حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِٱلْحِجَابِ رُدُّوهَا عَلَىَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِٱلسُّوقِ وَٱلْأَعْنَاقِ

جب ان کے سامنے شام کے وقت تیز رو اصیل گھوڑے پیش کیے گئے تو کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہو کر مال کی محبت کو اختیار کیا ہے، یہاں تک کہ سورج پردے میں چھپ گیا۔ بولے کہ ان گھوڑوں کو دوبارہ میرے سامنے لاؤ، پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
( ص: 31 – 33 ).

غور فرمائیے!

سلیمان علیہ السلام نے ان گھوڑوں کی گردنوں اور ٹانگوں کو کاٹ دیا۔ کاٹنے کی وجہ کیا تھی؟
قرآن نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے: ﴿إِنِّىٓ أَحْبَبْتُ حُبَّ ٱلْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّى﴾، میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی۔

امام ابو جعفر الطبری (ت 310ھ) رحمہ اللہ اپنی تفسیر ( جامع البيان في تأويل عن آي القرآن: ) میں امام حسن بصری (ت 110ھ) رحمہ اللہ کا آیت کے مفہوم اور ترجمانی سے متعلق ایک قول نقل فرمائے ہیں، آپ کہتے ہیں:
قالَ: لا والله لا تَشْغلِيني عن عبادةِ ربِّي آخِرَ ما عليك۔
سلیمان علیہ السلام نے کہا: اللہ کی قسم! تم مجھے میرے رب کی عبادت سے غافل نہیں کروگے، یہ تمہاری زندگی کے آخری لمحات ہیں۔

نوٹ


آیتِ کریمہ ﴿فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِٱلسُّوقِ وَٱلْأَعْنَاقِ﴾ کے کتبِ تفاسیر میں دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں، ایک معنی یہ کہ سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کی گردنوں اور ٹانگوں کو کاٹ دیا، دوسرا معنی یہ کہ آپ نے ان کی گردن پر از راہِ محبت ہاتھ پھیرا۔
اس مختصر تحریر میں ہم نے پہلا قول بطورِ قولِ مختار پیش کر دیا ہے، دیگر اقوال، اس کے قائلین، دلائل، صحت وضعف، وجوہِ ترجیح، وغیرہ امور سے گریز کیا ہے۔

گھوڑوں کا استعمال

سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے جنہیں ذبح کر دیا گیا، ظاہر ہے وہ آپ کے لیے سفر وحضر میں سواری کے کام آتے تھے، اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے بھی یہی گھوڑے، اپنے عام معمولات کے لیے بھی یہی گھوڑے، مگر تعلق باللہ میں حائل ہونے کی وجہ سے ان کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا!!
اب ( سواری ) کے لیے آپ کے پاس کوئی گھوڑا نہیں، کوئی سواری نہیں!

قربانی کی قدردانی اور عمدہ صلہ

ابو قتادہ اور ابو الدَّھما رحمہما اللہ کہتے ہیں: ہم اہل بادیہ میں سے ایک شخص کے پاس آئے تو اس بدوی نے ہم سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار میرے ہاتھ کو تھام لیا اور مجھے وہ باتیں سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی تھیں، آپ نے یہ بھی فرمایا:
«إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا اِتِّقَاءَ الِله عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا أَعْطَاكَ اللهُ خَيْرًا مِنْهُ» بے شک اللہ تعالیٰ کے ڈر کی وجہ سے تم جس چیز کو چھوڑ دو گے تو اللہ عزوجل تمھیں اس سے بہتر عطا فرمادے گا۔

( مسند أحمد: ٣٤/٣٤٢، رقم: ٢٠٧٣٨، مؤسسة الرسالة، شیخ شعیب ارناؤوط نے کہا: إسناده صحيح، اور شیخ البانی نے ( الضعيفة: ١/٦٢، رقم: ٥ ) میں مذکورہ رقم کے تحت لائی گئی حدیث کے ضمن میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے، الفاظ میں کچھ تغیر ہے، اور اس کا درجہ اس طرح بیان فرمائے ہیں: سنده صحيح على شرط مسلم ).

بے مثال سواری

حافظ ابن القیم الدمشقي (ت 751ھ) رحمہ اللہ اپنی کتاب ( عُدَّة الصابرين وذخيرة الشاكرين: ص 322 ) کے اواخر میں اللہ رب العزت؛ بندۂ مؤمن کی قربانیوں کے کس درجہ قدردان ہیں اس کو متعدد مثالوں سے بیان فرمائے ہیں، سلیمان علیہ السلام کا قصہ بطورِ مثال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ولما عقَر نبيَّه سليمانُ الخيلَ غضبًا له، إذ شغلتْه عن ذكرِه، فأراد أن لا تشغلَه مرةً أخرى، أعاضَه عنها متن الريح.
جب سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کو رب کی خاطر ناراض ہو کر ان کے کونچیں کاٹ دیں تاکہ دوبارہ وہ گھوڑے اپنے اور رب کے درمیان حائل نہ ہوں، تو اللہ تعالی کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ سواری کے لیے گھوڑوں کی جگہ اپنے بندے سلیمان کے لیے بطورِ سواری ہواؤں کو مسخر کردیا۔


آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں حافظ عماد الدین ابن کثیر (ت 774ھ) رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں کہتے ہیں:
لمَّا خرج عنها لله تعالى عوَّضه الله تعالى ما هو خيرٌ منها وهي الريح التي تجري بأمره رُخاءً حيث أصاب، غُدُوُّها شهْرٌ ورواحُها شهْرٌ، فهذا أسرَعُ وخيرٌ مِن الخيل.
جب آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر گھوڑوں کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھوڑوں سے بہتر چیز عطا فرمادی اور وہ ہوا تھی کہ آپ جہاں جانا چاہتے وہ آپ کے حکم سے نرمی سے چلتی تھی، اور اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ ہوتی اور شام کی منزل بھی مہینے بھر کی ہوتی تھی۔ تو یہ ہوا گھوڑوں کے مقابل زیادہ تیز بھی تھی اور بہتر بھی۔
 
Top