• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ حرہ میں مسجد نبوی میں اذان بند ہونے سے متعلق روایات کا جائزہ

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سعیدبن عبدالعزیز سے نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ جب ایام حرہ کا واقعہ پیش آیا تو تین دنوں تک مسجد نبوی میں اذان اوراقامت نہیں ہوئی ، اورسعیدبن المسیب ان دنوں مسجد نبوی ہی میں ٹہرے رہے آپ کہتے ہیں جب نماز کا وقت ہوجاتا تو قبر نبوی سے اذان کی آواز سنائی دیتی اورمیں یہ آواز سن کر اقامت کہتا اورنماز اداکرتا۔


یہ رویات سعیدبن المسیب کے حوالے سے دولوگوں نے بیان کیا ہے

سعيد بن عبد العزيز،التنوخى
أبو حازم، سلمة بن دينار۔
محمد بن سعيد القرشی المخزومى
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سعيد بن عبد العزيزکی روایت


امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا مروان بن محمد، عن سعيد بن عبد العزيز، قال: لما كان أيام الحرة لم يؤذن في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبي صلى الله عليه وسلم فذكر معناه[سنن الدارمي 1/ 227]۔

یہ روایت مرسل ہے کیونکہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ واقعہ حرہ کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
واقعہ حرہ 63 ہجری میں پیش آیا (عام کتب تاریخ).

اور’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ کی پیدائش 90 ہجری میں ہوئی ہے ، امام ذہبی فرماتے ہیں:
وُلِدَ: سَنَةَ تِسْعِيْنَ، فِي حَيَاةِ سَهْلِ بنِ سَعْدٍ[سير أعلام النبلاء 8/ 32]۔

یعنی موصوف واقعہ پیش آنے کے 27 ستائیس سال بعدپیداہوئے پھر ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ واقعہ کسی اورسے سناہے اوراس کانام نہیں لیا ، لہٰذا روایت مرسل ہے۔

یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ نے یہ روایت ’’سعیدابن المسیب‘‘ سے سنی ہو کیونکہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ کی پیدائش 90 ہجری میں ہوئی ہے جیساکہ اوپر حوالہ پیش کیا گیا اوران کے پیداہونے کےتقریبا تین سال بعد ہی ’’سعیدابن المسیب‘‘ کی وفات ہوگئی ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ، وَعَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ: تُوُفِّيَ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ.[سير أعلام النبلاء ط الرسالة 4/ 246]۔

معلوم ہوا کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ’’سعیدبن عبدالعزیز‘‘ نے یہ روایت ’’سعیدابن المسیب‘‘ سے سنی ہو۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابوحازم سلمہ بن دینار کی روایت


امام ابن سعدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا الوليد بن عطاء بن الأغر المكي قال: أخبرنا عبد الحميد بن سليمان عن أبي حازم قال: سمعت سعيد بن المسيب يقول: لقد رأيتني ليالي الحرة وما في المسجد أحد من خلق الله غيري، وإن أهل الشام ليدخلون زمرا زمرا يقولون: انظروا إلى هذا الشيخ المجنون، وما يأتي وقت صلاة إلا سمعت أذانا في القبر ثم تقدمت فأقمت فصليت وما في المسجد أحدغيري.[الطبقات الكبرى لابن سعد 5/ 132]۔


ومن طريق ابن سعد أخرجه ابن الجوزي في (مثير العزم الساكن 2/ 301) به ،وأخرجه ا بن خزيمه في تاريخه (4/ 119) و اللالكائي في (كرامات الأولياء 9/ 183) وأبونعيم في (دلائل النبوة ص: 567)كلهم من طريق محمد بن سليمان بن لوين عن عبدالحميد به


اس روایت کا مرکزی راوی ’’عبد الحميد بن سليمان الخزاعى‘‘ ضعیف ہے۔

امام دارقطنی نے اسے ضعفاء ومتروکین میں‌ ذکر کیا ہے۔
عبد الحميد بن سليمان مدني [الضعفاء والمتروكون للدارقطني ص: 27]۔

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يكن عبد الحميد بن سليمان أخو فليح بن سليمان بثقة،[معرفة الرجال لابن معين 1/ 57]۔

امام علی ابن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان فُلَيْح، وأخوه عبد الحَمِيْد، ضَعِيْفٌين[سؤالات محمد بن عثمان بن أبي شيبة لعلي بن المديني - الفاروق ص: 48]۔

امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان أخو فليح ، ليس بقوي [الجرح والتعديل 6/ 14]۔

امام ابوزرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف الحديث [الجرح والتعديل: 6/ 14، وسندہ صحیح]۔

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان أخو فليح ضعيف [الضعفاء والمتروكين ص: 72]۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كَانَ مِمَّن يخطىء ويقلب الْأَسَانِيد فَلَمَّا كثر ذَلِك فِيمَا روى بَطل الِاحْتِجَاج بِمَا حدث صَحِيحا لغَلَبَة مَا ذكرنَا على رِوَايَته[المجروحين لابن حبان 2/ 141]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان اخو فليح عن أبي الزناد ضعفوه جدا[المغني في الضعفاء للذهبي ص: 44]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عبد الحميد بن سليمان الخزاعي الضرير أبو عمر المدني نزيل بغداد ضعيف[تقريب التهذيب ص 249]
.


’’ محمد بن سعيد القرشی ‘‘


پیش کردہ روایت کو سعیدابن المسیب سے ’’ محمد بن سعيد القرشی ‘‘ نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی حقیقت بھی ملاحظہ :

امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعيد عن أبيه قال: كان سعيد بن المسيب أيام الحرة في المسجد لم يبايع ولم يبرح، وكان يصلي معهم الجمعة ويخرج إلى العيد، وكان الناس يقتتلون وينتبهون وهو في المسجد لا يبرح إلا ليلا إلى الليل. قال فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر حتى أمن الناس وما رأيت خبرا من الجماعة .[الطبقات الكبرى لابن سعد 5/ 132]

یہ روایت موضوع ہے ، اس میں کئی علتیں ہیں:
پہلی علت:
''محمد بن سعید'' کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ، لہٰذا یہ نامعلوم التوثیق ہے۔
دوسری علت:
''طلحہ بن محمد '' مجہول ہے ۔
امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی277 ) نے کہا:
لا اعرف طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم 4/ 476]۔
تیسری علت:
امام ابن سعد کا استاذ ''محمدبن عمر '' کذاب ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی 204)نے کہا:
کتب الواقدی کذب[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:٢٠٨ وسندہ صحیح]۔
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی234)نے کہا:
ولا أرضاہ فِی الحدیث، ولا فِی الأنساب ولا فِی شیء .[تاریخ بغداد: ٥٢١٤ ]۔
امام سحاق بن راہَوَیْہ رحمہ اللہ (المتوفی 237)نے کہا:
عندی ممن یضع الحدیث [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:٢٠٨ وسندہ صحیح]۔
امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی507)نے کہا:
أجمعوا علی ترکہ[معرفة التذکرة لابن القیسرانی ص 163]۔
ان تینوں علتوں کی بنیاد پر یہ روایت موضوع ہے۔
 
Last edited:

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی جان۔ قبوری شریعت کی تشہیر میں مصروف برصغیر کے دونوں مشہور گروہ اس روایت کو قبروں سے فیض پانے کی دلیل کے طور پر اس زبان زد عام روایت کو پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔ آمین۔
 
Top