حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
واقعہ حرہ اور سیدنا علی ابن حسین رضی اللہ عنہ۔
امیر یزید رحمہ اللہ کے خلیفہ بننے کے بعد مدینہ میں جب ان کی مخالفت ہوئی اور قریش نے عبداللہ بن مطیع اور انصار نے عبداللہ بن حنظلہ کو اپنا سردار منتخب کیا تو عثمان بن محمد اموی مروان بن حکم اور باقی اموی جن کی تعداد مدینہ میں ایک ہزار کے قریب تھی کچھ تو مدینہ سے نکل گئے اور باقی امیر مروان بن حکم کی حویلی میں پناہ گزین ہوگئے ان حالات میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ (زین العابدین) نے امویوں کا ساتھ دیا امیر مروان رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر اپنا تمام قیمتی سامان حفاظت کے لئے آپ کے پاس بھیجدیا آپ نے ان تمام حالات کی خبر عبدالمالک بن امیر مروان رضی اللہ عنہ کے ذریعہ امیر یزید رحمہ اللہ کو لکھ بھیجی اور امیر مروان رضی اللہ عنہ کو اپنے ہاں پناہ دی۔۔۔
مسلم بن عتبہ کو مدینہ روانہ کیا اور خصوصی طور پر نصیحت کی کہ علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے نہایت نرمی کا سلوک کرنا، وہ میرا ہمدرد اور وفادار ہے مسلم رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈالا اور تین روز تک لوگوں کو سمجھایا مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔۔۔
٢٧ ذی الحجہ ٦٢ھ واقعہ کربلا سے تقریبا تین سال بعد یہ واقعہ پیش آیا مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسلم بھی عقبہ رضی اللہ عنہ اس لشکر کے سالار اعظم تھے تمام لشکر چار دستوں پر مشتمل تھا ایک دستے کے حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ انفرازی دوسرے کے حضرت روح بن زنباح الجذامی رضی اللہ عنہ اور تیسرے کے حضرت عبداللہ بن عصام الاشعری جو روایان حدیث میں شمار ہوتے ہیں اور چوتھے دستے کے حصصین بن نمیز کمانڈر تھے (الاستیعاب الاصابہ)۔۔۔
فوج کی تعداد صرف چار ہزار تھی (کتاب التبنیعہ الاشراف مسعودی) اس لشکر کی اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر مشتمل تھی اور جو تابعی تھے وہ بھی اکثر جہادوں میں اسلام کی سربلندی کے لئے حصہ لے چکے تھے۔۔۔
حضرت امیر مسلم رضی اللہ عنہ سالار لشکر کی عمر نوے سال تھی اور تین دن تک اعلان کرتے رہے کہ شورش ختم کرو امیرالمومنین یزید رحمہ اللہ تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتے مگر شورش پسندوں نے اس کے جواب میں مخلظات کہنا شروع کردیا۔۔۔
تمام سادات بنوامیہ اپنے قریشی دوستوں کے ساتھ مدینہ کے عامل عثمان بن محمد کے ساتھ امیر مروان رضی اللہ عنہ کی حویلی میں پناہ گزین ہوگئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنے بھی سمجھایا مگر باغیوں کا سرغنہ ابن مطیع باز نہ آیا (بلاذری، الانساب والاشراف)۔۔۔
بلکہ باغیوں نے گالیوں کے ساتھ تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی مجبورا حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے جوابی حملے کا حکم دے دیا اور انصار کے مقتدر قبیلہ بنوعبداللہ الاشہل نے فوج کو شہر میں داخلے کا راستہ دے دیا۔۔۔
مشہور شیعہ مورخ امام طبری لکھتا ہے کہ ابھی لڑائی جاری تھی کہ ناف شہر سے تکبیروں کی آوازیں ہوئی۔۔۔
ہوایہ کہ قبیلے بنوحارثہ نے بھی بنوعبداللہ الاشہل کی طرح باغیوں کے مقابلے میں اہل شام کا ساتھ دیا صرف پانچ چھ سرغہ قتل ہوئے آٹھویں صدی ہجری تک ک مورخین نے اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا مگر دور حاضر کے مجدد اعظم کو امیر یزید رحمہ اللہ کا فسق وفجور ڈھونڈنے کے لئے ایک ہزار عفت مآب کنواریوں کو زنا میں ملوث کرکے دکھانے کے لئے آٹھویں صدی کے مورخ ابن اثیر کی ایک بےسند روایت کے سہارے ایسے شرمناک الفاظ لکھنے سے ذرہ بھر شرم نہ آئی۔۔۔(تفصیل کے لئے حقیت خلافت وملوکیت مرتبہ محمو احمد عباسی دیکھئے)۔۔۔
مدینہ کی شورش فرد کرنے کے بعد امیر مسلم مکہ کی طرف روانہ ہوکر راستہ میں فوت ہوگئے اور امیر حصص رضی اللہ عنہ نے علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو کہا لایئے ہاتھ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرتا ہوں انہوں نے انکار کردیا پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ میرے ساتھ دمشق چلئے میں میں امر خلافت آپ کے ہاتھ پر مستحکم کرا دوں گا مگر انہوں نے دمشق جانے سے انکار کردیا۔۔۔
یہ ہے واقعہ حرہ کی اصل صورت جسے دور حاضر کے خود ساختہ مجدد اعظم نے اپنی جبلی فطرت اور نسلی عصبیت سے بگاڑ کر شیعیت کی وکالت کا حق نمک ادا کیا ہے۔۔۔
واللہ اعلم۔
امیر یزید رحمہ اللہ کے خلیفہ بننے کے بعد مدینہ میں جب ان کی مخالفت ہوئی اور قریش نے عبداللہ بن مطیع اور انصار نے عبداللہ بن حنظلہ کو اپنا سردار منتخب کیا تو عثمان بن محمد اموی مروان بن حکم اور باقی اموی جن کی تعداد مدینہ میں ایک ہزار کے قریب تھی کچھ تو مدینہ سے نکل گئے اور باقی امیر مروان بن حکم کی حویلی میں پناہ گزین ہوگئے ان حالات میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ (زین العابدین) نے امویوں کا ساتھ دیا امیر مروان رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر اپنا تمام قیمتی سامان حفاظت کے لئے آپ کے پاس بھیجدیا آپ نے ان تمام حالات کی خبر عبدالمالک بن امیر مروان رضی اللہ عنہ کے ذریعہ امیر یزید رحمہ اللہ کو لکھ بھیجی اور امیر مروان رضی اللہ عنہ کو اپنے ہاں پناہ دی۔۔۔
مسلم بن عتبہ کو مدینہ روانہ کیا اور خصوصی طور پر نصیحت کی کہ علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے نہایت نرمی کا سلوک کرنا، وہ میرا ہمدرد اور وفادار ہے مسلم رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈالا اور تین روز تک لوگوں کو سمجھایا مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔۔۔
٢٧ ذی الحجہ ٦٢ھ واقعہ کربلا سے تقریبا تین سال بعد یہ واقعہ پیش آیا مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسلم بھی عقبہ رضی اللہ عنہ اس لشکر کے سالار اعظم تھے تمام لشکر چار دستوں پر مشتمل تھا ایک دستے کے حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ انفرازی دوسرے کے حضرت روح بن زنباح الجذامی رضی اللہ عنہ اور تیسرے کے حضرت عبداللہ بن عصام الاشعری جو روایان حدیث میں شمار ہوتے ہیں اور چوتھے دستے کے حصصین بن نمیز کمانڈر تھے (الاستیعاب الاصابہ)۔۔۔
فوج کی تعداد صرف چار ہزار تھی (کتاب التبنیعہ الاشراف مسعودی) اس لشکر کی اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر مشتمل تھی اور جو تابعی تھے وہ بھی اکثر جہادوں میں اسلام کی سربلندی کے لئے حصہ لے چکے تھے۔۔۔
حضرت امیر مسلم رضی اللہ عنہ سالار لشکر کی عمر نوے سال تھی اور تین دن تک اعلان کرتے رہے کہ شورش ختم کرو امیرالمومنین یزید رحمہ اللہ تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتے مگر شورش پسندوں نے اس کے جواب میں مخلظات کہنا شروع کردیا۔۔۔
تمام سادات بنوامیہ اپنے قریشی دوستوں کے ساتھ مدینہ کے عامل عثمان بن محمد کے ساتھ امیر مروان رضی اللہ عنہ کی حویلی میں پناہ گزین ہوگئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنے بھی سمجھایا مگر باغیوں کا سرغنہ ابن مطیع باز نہ آیا (بلاذری، الانساب والاشراف)۔۔۔
بلکہ باغیوں نے گالیوں کے ساتھ تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی مجبورا حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے جوابی حملے کا حکم دے دیا اور انصار کے مقتدر قبیلہ بنوعبداللہ الاشہل نے فوج کو شہر میں داخلے کا راستہ دے دیا۔۔۔
مشہور شیعہ مورخ امام طبری لکھتا ہے کہ ابھی لڑائی جاری تھی کہ ناف شہر سے تکبیروں کی آوازیں ہوئی۔۔۔
ہوایہ کہ قبیلے بنوحارثہ نے بھی بنوعبداللہ الاشہل کی طرح باغیوں کے مقابلے میں اہل شام کا ساتھ دیا صرف پانچ چھ سرغہ قتل ہوئے آٹھویں صدی ہجری تک ک مورخین نے اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا مگر دور حاضر کے مجدد اعظم کو امیر یزید رحمہ اللہ کا فسق وفجور ڈھونڈنے کے لئے ایک ہزار عفت مآب کنواریوں کو زنا میں ملوث کرکے دکھانے کے لئے آٹھویں صدی کے مورخ ابن اثیر کی ایک بےسند روایت کے سہارے ایسے شرمناک الفاظ لکھنے سے ذرہ بھر شرم نہ آئی۔۔۔(تفصیل کے لئے حقیت خلافت وملوکیت مرتبہ محمو احمد عباسی دیکھئے)۔۔۔
مدینہ کی شورش فرد کرنے کے بعد امیر مسلم مکہ کی طرف روانہ ہوکر راستہ میں فوت ہوگئے اور امیر حصص رضی اللہ عنہ نے علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو کہا لایئے ہاتھ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرتا ہوں انہوں نے انکار کردیا پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ میرے ساتھ دمشق چلئے میں میں امر خلافت آپ کے ہاتھ پر مستحکم کرا دوں گا مگر انہوں نے دمشق جانے سے انکار کردیا۔۔۔
یہ ہے واقعہ حرہ کی اصل صورت جسے دور حاضر کے خود ساختہ مجدد اعظم نے اپنی جبلی فطرت اور نسلی عصبیت سے بگاڑ کر شیعیت کی وکالت کا حق نمک ادا کیا ہے۔۔۔
واللہ اعلم۔