HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
مجھے واقعہ حواب کے متعلق ان حدیثوں کی تحقیق درکار ہے، جسمیں رسول اکرم ﷺ نے سیدہ عائشہ رض کو جمل میں نکلنے پر تنبیہ فرمائی تھی
1) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
” رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل میں یہ حدیث دو طریقوں سے نقل ہوئی ہے:
۔2) حدثنا يحيى، عن إسماعيل، حدثنا قيس، قال لما أقبلت عائشة بلغت مياه بني عامر ليلا نبحت الكلاب قالت أي ماء هذا قالوا ماء الحوأب قالت ما أظنني إلا أني راجعة فقال بعض من كان معها بل تقدمين فيراك المسلمون فيصلح الله عز وجل ذات بينهم قالت إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا ذات يوم كيف بإحداكن تنبح عليها كلاب الحوأب
یحییٰ نے اسمعیل سے، انہوں نے قیس سے روایت کیا ہے کہ جب (حضرت)عائشہ بنی عامر کے پانی پر پہنچیں تو انہوں نے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنی۔ (حضرت) عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے اور انہیں بتایا گیا کہ یہ حواب کا مقام ہے۔ اس پر حضرت عائشہ نے کہا : “میں واپس جا رہی ہوں”۔ کچھ لوگوں نے اُن سے کہا کہ نہیں آپ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ اور پھر مسلمان دیکھیں گے کہ آپ اور اللہ کس طرح ان میں صلح کرا دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے: “تو تم (ازواج) کیا کرو گی جب تم حواب کے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنو گی؟”
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، المجلد السادس
3) حدثنا محمد بن جعفر، قال حدثنا شعبة، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم، أن عائشة، قالت لما أتت على الحوأب سمعت نباح الكلاب فقالت ما أظنني إلا راجعة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا أيتكن تنبح عليها كلاب الحوأب فقال لها الزبير ترجعين عسى الله عز وجل أن يصلح بك بين الناس
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، المجلد السادس
www.ansar.org شیعہ حضرات کی رد میں بنائے جانی والی سب سے مقبول ویب سائٹ ہے۔ آئیے اسی ویب سائٹ کے عالم کی گواہی دیکھتے ہیں کہ حواب کے کتوں والی یہ حدیث “صحیح” ہے۔سوال و جواب کے سیکشن میں اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ عالم لکھتا ہے:
“امام احمد بن حنبل نے اس واقعہ کو دو طرح نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ صحیح ابن حبان، مستدرکِ حاکم اور دیگر تاریخی کتب میں بھی موجود ہے۔
یہ حدیث صحیح اور سچی ہے۔
[FONT=Times New Roman, serif]اب میرے اس زمن میں یہ سوالات ہیں
1) کیا ان حدیثوں میں واقعی سیدہ عائشہ رض کی توہین والی کوئی بات ہے؟
2) کیا ان حدیثوں کے ذریعے یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ سیدہ عائشہ رض جمل کی جنگ میں غلطی پر تھیں؟
3) روافض ان حدیثوں کے ذریعے سیدہ عائشہ رض کو بہت مطعون کرتے ہیں، اس سلسلے میں انکو کیا جواب دینا چاہئے؟
4) ان احادیث کی اسنادی کیفیت کیا ہے؟ اور کن کن علمائے سلف نے اس صحیح قرار دیا ہے؟ جسکے نتیجے میں روافض کو یہ باتیں کہنے کی جرات ہوتی ہے؟
5) اوپر حدیث نمبر 1 میں ایک لائن لکھی ہوئی ہے "[/FONT]
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔"
اسکا مفہوم کیا ہے؟
6) ان تمام روایتوں کی بنیاد پر تاریخ طبری میں جو روایت موجود ہے، اسی حواب والے معاملے میں، کیا وہ بھی صحیح بیان کیا جاتا ہے اور نہین تو پھر اسمیں کیا سقم ہے؟
7) ویسے تو شیعہ علماء کی کہی ہوئی بات ہم پر حجت نہین ہے لیکن ایک شیعہ عالم نے جو یہ بات کہی ہے اسمیں کیا حقیقت ہے "
“امام احمد بن حنبل نے اس واقعہ کو دو طرح نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ صحیح ابن حبان، مستدرکِ حاکم اور دیگر تاریخی کتب میں بھی موجود ہے۔
یہ حدیث صحیح اور سچی ہے۔"
(نوٹ: واضح رہے کہ مذکورہ بالا یہ احادیث میں نے ایک شیعہ ویب سائٹ سے کاپی کی ہیں، اس لئے اگر اسمیں کسی کو کوئی تہین صحابی رض کا معاملہ ملے تو اسمیں میری کوئی غلطی نہ مانا جائے، میں تو ان احادیث کے متعلق سولات کرنے کے لئے انکو اسی طرح کاپی پیسٹ کیا ہے جسطوح وہ موجود تھیں۔
1) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
” رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل میں یہ حدیث دو طریقوں سے نقل ہوئی ہے:
۔2) حدثنا يحيى، عن إسماعيل، حدثنا قيس، قال لما أقبلت عائشة بلغت مياه بني عامر ليلا نبحت الكلاب قالت أي ماء هذا قالوا ماء الحوأب قالت ما أظنني إلا أني راجعة فقال بعض من كان معها بل تقدمين فيراك المسلمون فيصلح الله عز وجل ذات بينهم قالت إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا ذات يوم كيف بإحداكن تنبح عليها كلاب الحوأب
یحییٰ نے اسمعیل سے، انہوں نے قیس سے روایت کیا ہے کہ جب (حضرت)عائشہ بنی عامر کے پانی پر پہنچیں تو انہوں نے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنی۔ (حضرت) عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے اور انہیں بتایا گیا کہ یہ حواب کا مقام ہے۔ اس پر حضرت عائشہ نے کہا : “میں واپس جا رہی ہوں”۔ کچھ لوگوں نے اُن سے کہا کہ نہیں آپ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ اور پھر مسلمان دیکھیں گے کہ آپ اور اللہ کس طرح ان میں صلح کرا دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے: “تو تم (ازواج) کیا کرو گی جب تم حواب کے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنو گی؟”
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، المجلد السادس
3) حدثنا محمد بن جعفر، قال حدثنا شعبة، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم، أن عائشة، قالت لما أتت على الحوأب سمعت نباح الكلاب فقالت ما أظنني إلا راجعة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا أيتكن تنبح عليها كلاب الحوأب فقال لها الزبير ترجعين عسى الله عز وجل أن يصلح بك بين الناس
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، المجلد السادس
www.ansar.org شیعہ حضرات کی رد میں بنائے جانی والی سب سے مقبول ویب سائٹ ہے۔ آئیے اسی ویب سائٹ کے عالم کی گواہی دیکھتے ہیں کہ حواب کے کتوں والی یہ حدیث “صحیح” ہے۔سوال و جواب کے سیکشن میں اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ عالم لکھتا ہے:
“امام احمد بن حنبل نے اس واقعہ کو دو طرح نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ صحیح ابن حبان، مستدرکِ حاکم اور دیگر تاریخی کتب میں بھی موجود ہے۔
یہ حدیث صحیح اور سچی ہے۔
[FONT=Times New Roman, serif]اب میرے اس زمن میں یہ سوالات ہیں
1) کیا ان حدیثوں میں واقعی سیدہ عائشہ رض کی توہین والی کوئی بات ہے؟
2) کیا ان حدیثوں کے ذریعے یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ سیدہ عائشہ رض جمل کی جنگ میں غلطی پر تھیں؟
3) روافض ان حدیثوں کے ذریعے سیدہ عائشہ رض کو بہت مطعون کرتے ہیں، اس سلسلے میں انکو کیا جواب دینا چاہئے؟
4) ان احادیث کی اسنادی کیفیت کیا ہے؟ اور کن کن علمائے سلف نے اس صحیح قرار دیا ہے؟ جسکے نتیجے میں روافض کو یہ باتیں کہنے کی جرات ہوتی ہے؟
5) اوپر حدیث نمبر 1 میں ایک لائن لکھی ہوئی ہے "[/FONT]
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔"
اسکا مفہوم کیا ہے؟
6) ان تمام روایتوں کی بنیاد پر تاریخ طبری میں جو روایت موجود ہے، اسی حواب والے معاملے میں، کیا وہ بھی صحیح بیان کیا جاتا ہے اور نہین تو پھر اسمیں کیا سقم ہے؟
7) ویسے تو شیعہ علماء کی کہی ہوئی بات ہم پر حجت نہین ہے لیکن ایک شیعہ عالم نے جو یہ بات کہی ہے اسمیں کیا حقیقت ہے "
“امام احمد بن حنبل نے اس واقعہ کو دو طرح نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ صحیح ابن حبان، مستدرکِ حاکم اور دیگر تاریخی کتب میں بھی موجود ہے۔
یہ حدیث صحیح اور سچی ہے۔"
(نوٹ: واضح رہے کہ مذکورہ بالا یہ احادیث میں نے ایک شیعہ ویب سائٹ سے کاپی کی ہیں، اس لئے اگر اسمیں کسی کو کوئی تہین صحابی رض کا معاملہ ملے تو اسمیں میری کوئی غلطی نہ مانا جائے، میں تو ان احادیث کے متعلق سولات کرنے کے لئے انکو اسی طرح کاپی پیسٹ کیا ہے جسطوح وہ موجود تھیں۔