• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" واقعہ معراج اور ایک "نئے محقق "منکر حدیث کے شبھات اور غلط فہمیوں کا ازالہ" (مضون کامل)

شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90

یہ واقعہ اصطلاحا ”معراج“ اور ”اسراء“ کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔
قرآن مجید صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ ) سے مسجد اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصی تک براق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔
قارئین کرام قرآن اور حدیث میں جو معلومات واقعہ معراج کے حوالہ سے ائی ہے ان معلومات کو دیکھ کر منکر حدیث طرح طرح کا اعتراض کرتے ہے اور واقعہ کے ظہور سے ہی انکار کر بیٹھتے ہے۔ اسی سلسلے میں ایک مضمون کی طرف ایک بھائی نے توجہ کرائی اس مضمون میں ایک منکر حدیث دوست لکھتے ہے۔
*********************************************************
"مسجدِ اقصی"
{اب سوال یہ ہے کہ 71 عیسوی کے بعد اور واقعہ معراج سے پہلے ہیکل سلیمانی کا دوبارہ تعمیر ہونا ثابت کیا جائے تا کہ وہاں نبی کریم کا نماز پڑھانا درست تسلیم کیا جا سکے۔
اور اگر بالفرض محال بالفرض محال تسلیم کر ہی لیا جائے کہ یہ کسی دور میں دوبارہ تعمیر ہوا تھا اور وہاں نبی کریم نے معراج کی نماز پڑھائی تھی تو پھر واقعہ معراج کے بعد حضرت عمر فاروق کی آمد سے پہلے اس کا دوبارہ منہدم ھونا ثابت کیا جائے! کیونکہ یہ مسلمہ ہے حضرت عمر فاروق نے ایسی "بابرکت" جگہ اور کلیسا کو چھوڑ کر کھلے میدان میں نماز ادا کی تھی}​

ازالہ:
اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کے مسجد اقصی کی عمارت منھدم تھی لہزا وہاں نبیﷺ انبیاء کو نماز کیسے پڑھا سکتے ہے۔ گویا مسجد موجود ہونے کی صورت میں ہی واقعہ پیش آسکتا ورنہ نہیں۔ اس پر ان گزارشات میں جواب ملاحظہ کی جئے۔
اعتراض کی بنیاد اس پر کھڑی ہے کہ مسجد اقصی تھی ہی نہیں، تو نماز کہاں پڑھی؟
تو جواب یہ ہے کہ مسجد اقصی کے کھنڈرات موجود تھے، اس کے آثار و کھنڈرات کو لوگ پہچانتے تھے، کہیں محراب داؤدی تھی، تو کہیں صخرہ (نہ قبۃ الصخرہ)، غرض اس طرح کے معالم اور بھی تھے، بلکہ آج کی عمارت تک میں رومن عہد کی تعمیر کے آثار اور پتھر موجود ہیں، اور سب سے بڑی بات جگہ کی تعیین تھی، اور معروف تھی، جبھی اس کے ایک حصے کو نصاری نے مزبلہ(کوڑا گھر) بنا رکھا تھا۔۔ اور سوچنے کی بات ہے کہ خود نصاری کا بھی تو یہ مقدس مقام تھا، اس لئے ظاہر ہے کہ پوری مسجد کو تو انہوں نے ہرگز کوڑے کرکٹ کا ڈھیر نہ بنایا ہوگا۔۔ خود قران کریم میں ان کے اختلاف قبلہ کا ذکر موجود ہے۔۔۔
اور اگر بالفرض یہ تعیین نہ ہوتی، تب بھی تو یہ ایک معجزانہ سفر تھا، جس میں آپ کے قائد جبریل تھے، تو کیا وہ باذن الہی جگہ کی تعیین پر قادر نہیں تھے؟؟ یہ عجیب وغریب اعتراض ہے۔۔!!
ان کی مشکل یہ ہے کہ یہ تاریخ سے اپنے مطلب مطلب کی باتیں تو لے لیتے ہیں، بلکہ تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ لے کر اپنے فضول سے استدلالات کی بنیاد کھڑی کرلیتے ہیں، مگر وہی تاریخ جب ان کے موقف کے پڑخچے اڑاتی نظر آتی ہے، تو تاریخ میں سارے کیڑے نظر آنے لگتے ہیں۔۔۔
ذرا اس حدیث پر غور فرمائیں:
وأخرح البخاري (3886) ، ومسلم (170) (276) من حديث جابر بن عبد الله أن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: "لما كذبتني قريش، قمت في الحجر، فجلا الله لي بيتَ المقدسِ، فطفقت أخبرهم عن آياته وأنا أنظر إليه"
اس میں ہے کہ جب قریش نے معراج کے واقعے پر آپ کو جھٹلایا تو حطیم میں کھڑے تھے کہ اللہ نے آپ کے نظروں کے سامنے بیت المقدس کو ظاہر فرمادیا تو آپ انہیں اس کی "آیات" بتانے لگے۔۔
یہاں لفظ آیات، علامات اور نشان سے خود ہی ظاہر ہے کہ وہاں بیت المقدس کے نشانات تھے، آثار تھے، ۔۔۔
ان کی تحقیق پر کوئی داد کیوں نہیں دیتا کہ یہ حضرات اتنے کمزور دلیل سے قرآن کے واقعہ کا انکار کرتے ہے۔ پھر ان سے کیا توقعع کی جاسکتی ہے قرآن کو ہی بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے اپنے من مانا مفہوم قرآن میں شامل کرنے کہ چمپئن اور دلیل بھی ایسی دیتے کے لوگ حیران رہ جائے۔
*********************************************************
"مسجد الحرام"
حدیث ''مسجد حرام اور بیت المقدس کی تعمیر میں 40 سال کا وقفہ'' پر اعتراض اور اس کا جواب
{اسی سلسلے میں موصوف فرماتے ہے کہ بخاری کی حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسجدِ الحرام اور مسجدِ اقصی کی تعمیر میں صرف 40 سال کا وقفہ ہے لیکن موضوف کے بقول یہ وقفہ ایک تاریخی غلطی ہے کیونکہ کعبہ سب سے پہلی مرتبہ ابراھیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اور ان کے تقریباً ایک ہزار سال بعد سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی کو تعمیر کیا اس سے واضح ہوا کہ یہ ایک تاریخی غلطی ہے اگر حقیقتاً مسجد اقصیٰ ایک مرتبہ پہلے بن چکی تھی، تو تاریخی ثبوت لائیے، اور کچھ قرآنی ایت بھی ذکر کی }​

ازالہ:
جناب صحیح بخاری کا تو اعتبار کیا جاسکتا ہے، یہاں ہر چیز باسند ہے، رہی تاریخ تو اس کا اعتبار کیسے ہوسکتا ہے، وہاں الا ماشاء اللہ ہر چیز بے سند ، من گھڑت، لہٰذا ہم تو یہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کی مدت صحیح ہونی چاہیے، اور تاریخ کی غلط لیکن بات در حقیقت یہ ہے کہ نہ صحیح بخاری کی مدت غلط ہے نہ تاریخ کی، جناب کو غلط فہمی ہوگئی، تاریخ میں بنائے ابراہیم علیہ السلام اور بنائے سلیمان علیہ السلام کی درمیانی مدت کا ذکر ہے، اور صحیح بخاری میں ان دونوں کی بنائے اولین کی درمیانی مدت کا بیان ہے۔
تاریخی ثبوت کی ہمیں کیا ضرورت؟ تاریخ کا کیا اعتبار؟ کتاب جو پیش کی جا رہی ہے، وہ صحیح بخاری ہے، سند جو پیش کی جا رہی ہے، وہ ٹھوس و مستند ہے، کتاب بھی اصح الکتب بعد القرآن، مقبول انام، اور سند بھی ٹکسالی بھلا اس کو تقویت دینے کے لیے کسی تاریخ کے ضعیف، غیر مستند حوالہ کی ضرورت ہے؟ ہاں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ فلاں تاریخی واقعہ کے لیے صحیح بخاری سے تائیداً کوئی روایت پیش کیجئے، لیکن اس کا عکس بالکل نامناسب اور لا یعنی ہے۔
حدیث زیر بحث اور تاریخ:
ہمیں ضرورت تو نہیں کہ صحیح بخاری کی تائید میں کوئی کتاب یا روایت پیش کریں، لیکن موصوف کی خاطر یہ مطالبہ بھی پورا کیے دیتے ہیں، امام قرطبی فرماتے ہیں:
قدروی ان اول من نبی البیت اٰدم
بے شک روایت کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے کعبہ کو آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔
(حاشیہ نسائی مرتبہ اشفاق الرحمن صاحب مطبوعہ مکتبہ رحیمہ دہلی ص۸۰)

مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ عطاء سعید بن مسیب وغیرہما کہتے ہیں:
ان اٰدم بناہ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۱۷۳)
اس کو آدم علیہ السلام نے بنایا ہے۔

اشفاق الرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں:
قال الحافظ ابن حجر فی کتاب التیجان لابن ھشام ان اٰدم لما بنی الکعبۃ امرہ اللہ تعالی بالسیر الی بیت المقدس وان یبنیہ فبناہ ونسک فیہ ۔ (حاشیہ نسائی ص۸۰)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ابن ہشام کی کتاب التیجان میں ہے کہ جب آدم علیہ السلام کعبہ تعمیر کرچکے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بیت المقدس کی صرف جانے کا حکم دیا، اور اس کو بنانے کا حکم دیا پس آدم علیہ السلام نے اس کو بنایا اور اس میں عبارت کی۔
لہٰذا حدیث زیر بحث میں جن عمارتوں کا ذکر ہے، وہ آدم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارتیں ہیں، نہ کہ ابراہیمی اور سلیمانی عمارتیں لیجئے اب تو تاریخ سے بھی حدیث کی تائید ہوگئی، مووصوف ذرا تحقیق سے کام لیتے تو یہ غلط فہمی نہ ہوتی، اس کی مزید تائید کے لیے مندرجہ ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں:
عن ابن عباس قال لمامر رسول اللہ ﷺ بوادی عسفان حین حج قال یا ابا بکرای واد ھذا قال وادی عسفان قال لقدمر بہ ھود وصالح علی بکرات حمر خطمھا اللیف ازرھم العباء واردیتھم النمار یلیون یحجون البیت العتیق۔ (مسند امام احمد فتح ربانی جز ۲۰، ص۴۲)
یعنی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کرتے وقت وادی عسفان سے گزرے، تو آپ نے دریافت فرمایا، اے ابوبکر یہ کون سی وادی ہے، انہوں نے عرض کیا یہ وادی عسفان ہے، آپ نے فرمایا، یہاں سے یہود اور صالح علیہ السلام بھی سرخ اونٹنیوں پر گزرے ہیں... وہ حج کرتے تھے اس بیت عتیق (یعنی کعبہ) کا۔
کیونکہ ان دونوں پیغمبروں کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہے، لہٰذا کعبہ حضرت ابراہیم سے پہلے بھی موجود تھا۔
حدیث زیر بحث اور صحیح بخاری
صحیح بخاری کی حدیث مذکورہ مع اپنے سیاق و سباق کے خود اس کی تشریح کے لیے کافی ہے، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا سوال ملاحظہ فرمائیے، وہ پوچھتے ہیں:
ای مسجد وضع فی الارض اول
روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی۔
اس سوال کے بعد بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد بنائے ابراہیمی ہے کیا ابراہیم علیہ السلام سے پہلے مساجد نہیں تھیں، ضرور تھیں، لہٰذا سوال اپنی جگہ پر واضح ہے کہ انسانی آبادی کے بعد جو مسجد سب سے پہلے بنائی گئی وہ کونسی تھی، اور یہ وہی مسجد ہوسکتی ہے جس کو آدم علیہ السلام نے بنایا ہو، لہٰذا حدیث مذکورہ اعتراض سے بالکل خالی ہے۔

حدیث زیر بحث اور قرآن مجید
تاریخی مطالبہ تو ھم نے پورا کر دیا۔ اب ہم حدیث کی تائید میں قرآن مجید کی آیات پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ } (اٰل عمران)
سب سے پہلا گھر جو انسانوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا وہ ، وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور عالمین کے لیے ہدات۔
اگر اس سے مراد بنائے ابراہیمی ہے، تو جو اعتراض حدیث پر تھا، وہی قرآن پر ہوگا، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے سیکڑوں پیغمبر دنیا میں تشریف لائے، کیا کسی نے مسجد نہیں بنائی؟ سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے مسجد بنائی، یہ بات بالکل قرین قیاس نہیں ہوسکتی،معلوم نہیں آپ حضرات کس وجہ سے اس قسم کا اعتراض قرآن پر نہیں کرتے اور پھر اس کی صحت کا انکار نہیں کرتے، غالباً اس کی وجہ یہی ہوگی کہ آپ اپنے گمان میں یہ سمجھتے ہیں کہ پھر ہمیں مسلمان کون کہے گا حدیث کی مخالفت اور قرآن کی موافقت سے بہرحال نادان لوگ ہمیں مسلمان تو سمجھ لیتے ہیں، اور ہماری بات سن لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں اگر قرآن کا انکار کریں، یا اس پر اعتراض کریں، تو کوئی کچھ سنے گا ہی نہیں حالانکہ آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں، آپ مسلمان رہ کر بھی قرآن کا انکار کرسکتے ہیں، کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں، قیامت پر فرشتوں پر کتب سماوی پر اور رسولوں پر ہمارا ایمان ہے، لیکن یہ قرآن وہ قرآن نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا، اس میں تحریف ہوچکی ہے، اور مسلمانوں کا ایک جم غفیر اس تحریف پر ایمان رکھتا ہے اور خود قرآن کی عبارت بھی اس کی شاہد ہے، وہ یہ کہ ہم اس بات پر کبھی یقین نہیں کرسکتے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کوئی مسجد تھی ہی نہیں اوریہ کہ روئے زمین پر سب سے پہلی مسجد بنائے ابراہیمی ہے یہ ایک تاریخی غلطی ہے، جو کسی دشمن اسلام نے پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے کے لیے قرآن میں داخل کردی ہے، وغیرہ وغیرہ ، کاش یہ لوگ حدیث کا انکار کرنے سے پہلے قرآن پر بھی نظر ڈال لیتے۔
حدیث زیر بحث کی تائید میں ایک اور قرآنی شہادت
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
{ وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } (البقرۃ)
اور وہ وقت یاد کرو جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کعبہ کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے، اور وہ دعا کر رہے تھے کہ ہمارے رب اس خدمت کو ہم سے قبول فرما، بیشک تو سمیع و علیم ہے۔
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں، اول بنیادیں پہلے سے موجود تھیں جن کو اٹھایا جا رہا تھا یعنی کعبہ کبھی پہلے تعمیر ہوچکا تھا، جس کی بنیادیں باقی رہ گئی تھیں، حافظ عماد الدین ابن کثیر لکھتے ہیں:
وفی ھذا السیاق ما بدل علی ان قواعد البیت کانت مبنیۃ قبل ابراھیم (تفسیر ابن کثیر جاول، ص۱۷۹)
یعنی اس سیاق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ کی بنیادیں تعمیر ابراہیم علیہ السلام سے پہلے موجود تھیں۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
القواعد التی کانت قواعد البیت قبل ذلک
یعنی کعبہ کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں (تفسیر ابن کثیر جلد اول ، ص۱۷۹)
دوم کعبہ کی تعمیر میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی شریک تھے دوسری آیت میں ارشاد باری ہے:
{ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّم } (ابراہیم)
(ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں) اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد کو اس بنجر وادی میں تیرے باحرمت گھر کے پاس آباد کردیا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کے آباد کرنے سے پہلے وہاں کوئی باحرمت مسجد موجود تھی، جس کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے حضرت اسمٰعیل کو وہاں آباد کیا گیا، آباد کرنے کا واقعہ اسمٰعیل علیہ السلام کی شیر خوارگی کے زمانہ میں واقعہ ہوا تھا، ظاہر ہے کہ اس وقت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ کعبہ کی عمارت وہاں موجود نہ تھی، کیونکہ وہ تو بعد میں نبی اور اسمٰعیل علیہ السلام کی جوانی کے زمانہ میں بنائی گئی وہ بھی اس تعمیر میں شریک تھے، اگر آباد کرنے کا واقعہ بعد کا واقعہ ہے، تب تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کرنے کے بعد اس باحرمت گھر کی قربت و برکت حاصل کرنے کے لیے حضرت اسمٰعیل کو وہاں آباد کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آباد پہلے کیا گیا، اور کعبہ بعد میں بنایا گیا، آباد اس لیے کیا گیا کہ یہاں اللہ کا باحرمت گھر تھا، ورنہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں آباد کرنے کا کوئی مقصد نہیں نظر نہیں آتا، کسی دوسری اچھی جگہ بھی آباد کیا جاسکتا تھا، اور وہاں مسجد تعمیر ہوسکتی تھی، لہٰذا ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بہت پہلے ہوچکی تھی، مرور ایام سے یا طوفان نوح میں اس کی عمارت منہدم ہوگئی تھی، صرف بنیاد باقی رہ گئی تھی اور اسی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام نے ازسر نو کعبہ کی تعمیر کی تھی ، اس کی مزید تائید میں قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیے، اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کو حکم دیتا ہے۔
{ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ } (حج )
اور حج کرنے کے لیے لوگوں میں اعلان کردو۔
پھر فرمایا:
{ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ } (حج)
اے ابراہیم! جب لوگ حج کرنے آئیں اور قربانی کرچکیں تو پھر وہ نہائیں دھوئیں، اپنی نذریں پوری کریں اور اس بیت قدیم کا طواف کریں۔
(بیت عتیق کے معنی پرانا گھر، مفتاح اللغات) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو جو حج کا حکم دیا، تو اس کعبہ کو بیت قدیم کہا، اگر یہ ابراہیم علیہ السلام ہی نے بنایا ہوتا تو بیت جدید کہنا چاہیے تھا، بیت قدیم کہنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ گھر بہت پرانا تھا، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے صدیوں پہلے بنایا گیا تھا۔

اب بیت المقدس کے متعلق قرآن کا فیصلہ سنیے:
جب آگ کی تلاش میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر پہنچے تو آواز آئی:
{ اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی } (طٰہ)
اے موسیٰ میں تمہارا رب ہوں، تم اپنی جوتیاں اتار دو، تم مقدس میدان میں کھڑے ہو۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ طور پہاڑ اور اس کا میدانی علاقہ پہلے سے مقدس تھا، اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ جب وہاں پہلے سے کوئی بیت مقدس چلا آرہا ہو، جس کی وجہ سے آس پاس کا علاقہ بھی محترم قرار دے دیا گیا ہو، پس اس آیت سے ظاہر ہوا کہ سلیمان علیہ السلام تو کجا موسیٰ علیہ السلام سے بھی بہت پہلے یہاں کوئی بیت مقدس موجود تھا، جس کی وجہ سے تمام قرب و جوار کا علاقہ بابرکت و باحرمت تھا، اسی برکت اور حرمت کا ذکر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں بھی موجود ہے:
{ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ } (بنی اسرائیل)
پاک ہے وہ جو لے گیا راتوں رات اپنے بندے کو کعبہ سے بیت المقدس، وہ بیت المقدس جس کے آس پاس علاقے کو ہم نے بابرکت بنایا ہے۔
غرض یہ کہ بیت المقدس اور اس کے آس پاس کا علاقہ مقدس و بابرکت تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جوتیاں اتار دو، دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ فَانْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ۔وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ } (الاعراف)
ہم نے قوم فرعون سے انتقام لیا، اور ان کو دریا میں غرق کردیا، اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور اس سے غفلت برتی، اور ہم نے کمزور قوم کو اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا، جہاں کہ ہم نے برکت رکھی تھی، اور بنی اسرائیل پر تیرے رب کی نعمت پوری ہوگئی۔
اس آیت میں بھی شام وفلسطین کی برکت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام ہجرت کرکے وہیں چلے گئے تھے، اور یہ برکت اس سرزمین میںموسیٰ علیہ السلام سے قبل ایک زمانہ سے چلی آرہی تھی۔
ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ یٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہُ لَکُمْ } (المائدہ)
(حضرت موسیٰ نے فرمایا) اے قوم ارض مقدس میں داخل ہو جاؤ، یہ اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کا اس سرزمین کو مقدس فرمانا، اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے، جب وہ زمین پہلے سے مقدس چلی آرہی ہو، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب تک وہاں کوئی بیت مقدس نہ ہو، محض زمین مقدس نہیں ہوسکتی پس ثابت ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے صدیوں پہلے اس سرزمین میں بیت المقدس تعمیر ہوچکا تھا، قرآن سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا، ہاں یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے بیت المقدس کو تعمیر کیا گیا تھا، اور اگر ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کو بنایا تھا، تو یہ بنائے ثانیہ ہوگی نہ کہ بنائے اولیں، اس لیے کہ بنائے اولین تو موسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے بن چکی تھی۔
اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ حدیث زیر بحث میں کعبہ اور بیت المقدس کی بنائے اولیں کا ذکر ہے جو ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام سے بہت پہلے بنائی گئی تھیں، اور ان دونوں بنائے اولیں کی درمیانی مدت چالیس سال تھی، کاش آپ قرآن مجید کا غور سے مطالعہ فرماتے تو ان دونوں عمارتوں کی بنائے اولین کا ثبوت انہیں قرآن ہی میں مل جاتا، اور یہ غلط فہمی نہ ہوتی، حقیقت یہ ہے کہ حدیث فہمی میں غلطی ہوتی ہی اس وقت ہے جب کہ اس ضمن میں قرآن مجید سے پوری طرح واقفیت نہیں ہوتی۔
*********************************************************
"واقعہ معراج پر منکر حدیث اور دیگر حضرات کی تاویلات پر تبصر"
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ۝
پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ جس کے ماحول کو ہم نے برکت دے رکھی ہے (اور اس سے غرض یہ تھی) کہ ہم اپنے بندے کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں ۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ سورہ الاسراء : 1
واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کے دلائل
جمہور امت کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا۔ محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہ تھا۔ تاہم بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعہ معراج کا انکار ہی کر دیتے ہیں اور واقعہ اسراء چونکہ قرآن میں مذکور ہے۔ اس لیے اس کی غلط سلط تاویل کر لیتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
١۔ واقعہ کا آغاز (سُبْحَانَ الَّذِی) جیسے پرزور الفاظ سے کیا جارہا ہے اور یہ لفظ عموماً حیرت و استعجاب کے مقام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمایاں اظہار کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ واقعہ محض ایک خواب یا کشف ہی ہوتا تو ابتدا میں یہ الفاظ لانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔
٢۔ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف جسم پر ہوتا ہے اور نہ روح پر۔
٣۔ اگر واقعہ کے بعد کافروں کا تکرار ثابت ہوجائے تو وہ خرق عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
( وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ۝) 54- القمر:2) ''اور یہ (کافر) جب کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے چلا آتا''
اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کو آپ نے یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کا خوب مضحکہ اڑایا کہ مکہ سے بیت المقدس کا ٤٠ دن کا سفر ہے اور یہ آمدورفت کا ٨٠ دن کا سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے۔ اور اس بات کو (نعوذ باللہ) آپ کی دیوانگی پر محمول کیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ بیت المقدس کا سفر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کچھ سوالات پوچھنا شروع کردیئے۔ اس وقت آپ حطیم میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹادیئے تو آپ مسجد اقصیٰ کو سامنے دیکھ کر کافروں کے سوالوں کے جواب دیتے گئے جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کی حدیث سے واضح ہے جو قبل از مذکور ہے۔ اور جن لوگوں نے اسے خواب کا واقعہ سمجھا ان کی دلیل اسی سورہ کی آیت نمبر ٦٠ کے درج ذیل الفاظ ہیں:
(وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا ) (17- الإسراء:60) ''اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا تو یہ محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا''
روحانی سفرسمجھنے والوں کی تردید:۔ اس آیت میں لفظ رء یا چونکہ خواب کے لیے بھی آتا ہے اس لیے ان لوگوں کو روحانی سفر کا اشتباہ ہوا اس مسلک کی کمزوری کی تین وجوہ ہیں ۔
١۔ لغوی لحاظ سے رء یا کا اطلاق ہر ایسے واقعہ پر ہوسکتا ہے جو آنکھ سے دیکھا گیا ہو خواہ یہ دیکھنا بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں ۔
٢۔ اگر یہ واقعہ خواب ہی ہوتا تو اس میں لوگوں کے لیے کوئی آزمائش نہیں ۔ ایسا خواب ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔
٣۔ یہ مسلک جمہور امت کے مقابلہ میں شاذ ہے۔
منکرین حدیث کی تاویلات اور ان کا رد:۔ اور منکرین حدیث آیت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اسراء سے مراد آپ کا واقعہ ہجرت ہے جس کا آغاز رات کو ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ سے مراد دور کی مسجد یعنی ''مسجد نبوی'' ہے۔ یہ تاویل کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً
١۔ بخاری کی صحیح روایت کے مطابق ہجرت کے سفر کا آغاز سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کے گھر سے ہوا تھا جبکہ اس واقعہ کا آغاز مسجد حرام سے ہوا۔
٢۔ واقعہ ہجرت بخاری کی اس روایت کے مطابق دوپہر کی کڑکڑاتی دھوپ کے وقت ہوا تھا جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں مگر معراج کا آغاز رات کو ہوا۔
٣۔ واقعہ ہجرت ایک رات یا راتوں رات نہیں ہوا تھا بلکہ اس سفر میں پندرہ دن اور پندرہ راتیں لگ گئے تھے جبکہ معراج کا واقعہ ایک ہی رات میں ہوا تھا۔
٤۔ مسجد اقصیٰ کے عرفی مفہوم کو چھوڑ کر اس کے لغوی معنیٰ دور کی مسجد مراد لینا خلاف دستور فلہٰذا باطل ہے۔
٥۔ مسجد نبوی کی تو تعمیر ہی بہت بعد ہوئی پھر یہ آپ کے سفر کی آخری منزل کیسے بن سکتی ہے۔
6. نبیﷺ نے اس سفر میں جبریل علیہ السلام کو (عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى:النجم) جنت کے قریب دیکھا۔ تو یہ سفر مدینہ کی طرف کیسے ہوسکتا ہے ؟
*********************************************************
"مضمون نگار کا احادیث میں تضاد کا ڈھنڈورا پیٹنا اور اس کا جواب"
{جب نبیﷺ کا معراج و اسراء کا سفر شروع ہوا اس حوالہ سےکچھ روایات میں یہ بیان ہے کہ نبیﷺ ام ہانی رضی اللہ عنہ بنت ابو طالب کہ گھر آرام فرما رھے تھے اور کچھ میں ہے کہ نبیﷺ مسجد الحرام میں تھے ۔ کچھ روایت میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر ملے کچھ میں ہے ساتویں آسمان پر ملیں اور کچھ اور اختلاف بھی ذکر کئے جو کہ احادیث میں وارد ہے ان معلومات سے وہ یہ نتیجہ اخذ کر تے ہیں کیونکہ احادیث میں اختلاف ہے اس لئے یہ واقعہ سرے سے رونما نہیں ہوا}۔
ازالہ
پہلا جواب :محترم کیا کسی روایت میں یہ بیان ہوا کہ یہ واقعہ رونما نہیں ہوا اور کسی میں یہ بیان ہو کہ یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ ہوتا ہے تضاد نا کہ راویان نے بیان کرنے میں جو اختلاف کیا وہ تضاد ہے۔۔ اگر بیان کرنے میں اختلاف ہوا بھی تو اس سے دین کا کونسا اھم رکن ناقص رھ گیا ؟ ایک روایت میں یہ بیان ہوا ہے کے نبیﷺ سے عصر کی نماز میں بھول ہوئی دوسری میں یہ ذکر ہے کہ ظہر کی نماز میں بھول ہوہی اور رکعت رھ گئی اور پھر نبیﷺ نے سجدہ صھو کیا۔۔ اب بتائے اس معمولی سے اختلاف سے کیا کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ واقعہ رونما نہیں ہوا؟ اور اس واقعہ سے اصل دین کے احکام تو مل گئے جو کہ مقصود ہے کہ اگر نماز میں بھول جاو تو سجدہ صحھو کر لو۔ اب اس میں یہ اختلاف کہ نبیﷺ سے بھول ظہر یا عصر میں ہوئی تھی اگر ھمیں نہیں بھی معلوم تب بھی دین کے احکام میں کوئی کمی پیشی نہیں آئی اگر اس طرح ھم اصل واقعہ کا انکار کر بیٹھے گے تو لوگ شائد ھمیں مجنون باور کرنے لگے گیں ۔
دوسرا جواب: قرآن نے بھی واقعہ معراج کی تفصیل بیان نہیں کی، صرف کچھ معلومات بیان کی اور خاموش ہوگیا، اب بتائیے یہ قرآن کی بیان کردہ معلومات اس واقعہ کا ثبوت ہے یا احادیث میں تفصیلات؟ قرآن و حدیث میں دین کی نفی ہوتی ہیں، اور جہاں تک دین و عبرت کی باتیں ہوتی ہیں، وہاں تک ان میں تفصیل ہوتی ہے اور جہاں باتوں سے دین و عبرت کا تعلق نہیں ہوتا، وہاں صرف اشارے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات حقیقت کو بالکل مستور رکھا جاتا ہے، مثلاً اصحاب کہف کی تعداد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مختلف اقوال بیان کیے اور پھر بھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنے ہیں، بس اتنا کہہ دیا کہ ان کی صحیح تعداد کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ تین مختلف غلط اقوال بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ صحیح تعداد بیان کردی جاتی، تینوں مختلف اقوال کا بطلان بھی ہو جاتا، اور صحیح تعداد بھی معلوم ہوجاتی لیکن اہم واقعہ لیکن پھر بھی قرآن یہ نہ بتا سکا کہ وہ کتنے تھے کیا اب ہم یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ '' یہی وہ وحی ہے جس ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے'' ہرگز ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ ایسی باتیں منہ سے نکالیں، ایسی غیر ضروری چیزوں کو وقعت نہیں دیتا، تعداد کا تعلق دین سے نہیں ہے، لہٰذا اس سے خاموشی برتی گئی تو کوئی اعتراض نہیں، اسی طرح ابراھیم چھٹے آسمان ہر ،ملیں یا ساتویں پر، دو پیالیں پیش کئے گئے یا چار کیونکہ ان باتوں کا تعلق دین سے نہیں، اگر ھمیں نا بھی معلوم ہو تو بھی دینی احکام میں کسی قسم کا نقص نہیں آتا۔
محترم جن احادیث کو وحی کہا جاتا ہے، وہ تو وہ احادیث ہیں، جن سے دینی احکام شبہ ہوتے ہیں، جن کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے ہوتا ہے، ان حادیث میں جو معلومات ہے وہ تو صحابہ کا فعل ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اختلاف نقل نہیں کیا، اب اگر یہ بلکل صحیح معلومات محفوظ نہ بھی ہوں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض راویان نے بیاں کرنے میں غلطی کی انہوں نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق واقعہ لوگوں تک پہنچایا اور بیان کرنے میں معمولی سا اختلاف ہوگیا اور اللہ کو یہی منظور تھا اس سے اصل واقعہ پر کیا اثر پڑتا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ احادیث میں جو کچھ ہو، بس صحیح اور مطابق واقعہ ہو، تو یہ نہیں ہوسکتا، یہ چیز تو قرآن میں بھی نہیں ہے، قرآن میں کافروں کے غلط اقوال نقل ہوئے ہیں، شیطان کا غلط قیاس موجود ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ '' اغوتینی'' شیطان نے کہا کہ اے اللہ تو نے ہی مجھے گمراہ کیا ہے، پھر تو قرآن میں اس غلط قیاس کی تردید ہے، نہ اس گمراہی کے الزام کی تغلیط، اسی طرح اصحاب کہف کی تعداد کے سلسلہ میں تین غلط اقوال نقل کئے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص غلطی کرے، اور اس غلطی کو ایک سچا آدمی نقل کردے تو اس سچے آدمی پر کوئی حرف نہیں آتا، لوگوں کے غلط اقوال نقل کرنے سے قرآن کو غلط نہیں کہہ سکتے، اسی طرح کسی شخص کی غلطی یا غلط فہمی بیان کرنے سے کتب حدیث غلط نہیں ہوسکتیں، راویان حدیث نے واقعہ بتانے میں کچھ اختلاف کیا،، محدثین نے اس اختلاف کو نقل کردیا، تو اس سے نفس حدیث پر کیا اثر پڑتا ہے ۔
جس طرح اصحاب کہف کی تعداد میں اختلافی اقوال قرآن میں بیان ہوئے کیا کوئی ان اختلافی اقوال کو پیش کر کے اصحاب کہف کے واقعہ سے انکار کر سکتا ہے ؟
اگر نہیں تو اسی طرح احادیث میں کچھ معمولی سا اختلاف کہ مثلاً ابراھیم چھٹے آسمان پر ملے یا ساتویں ، 2 پیالیں پیش کئے گئے یا چار وغیرہ اس سے اصل واقعہ پر کیا اثر پڑتا ہے اور اس سے کوئی واقعہ معراج،ملاقاتِ ابراھیمی اور پیش کئے گئے مشروب سے کیسے انکار کر سکتا ہے۔ اگر کوئی انکار کریں تو اس کا مطلب وہ قرآن پر بھی اعتراض کرسکتا ہے۔ نعوذ باللہ من ہذہ الخرافات
تیسرا جواب: در اصل پہلا اور دوسرا جواب مضمون نگار کے یہ کہنے پر کہ احادیث میں اختلاف ہے اس بات کو فرض اور تسلیم کر کے جواب دیا گیا جبکہ اصل میں ان معمولی اختلافات پر شارحین احادیث نے عمدہ تطبیق رقم کی ہے جو کہ پیاسے کی پیاس بجا سکتی ہے یعنی اصل میں کوئی معمولی سا بھی اختلاف سرے سے موجود ہی نہیں ان اختلاف کا بہترین جواب اس کتاب میں موجود ہے۔
لنک:http://ia600607.us.archive.org/23/items/Waqia-Meraj-aur-Uss-k-Mushahidat/Waqia-Meraj-aur-Uss-k-Mushahidat.pdf
مزید براں، اسی موضوع پر کے احادیث باھم متضاد ہوتی ہے یا قرآن کے خلاف ہوتی ہے اس کا بہترین جواب ھم اپنے ان دو مضامیں میں دے چکے ہیں۔ ملاحظہ کی جئے
پہلی قسط:
https://www.facebook.com/AntiMunkireHadith/photos/pb.379020948831938.-2207520000.1407722618./703183063082390/?type=3&src=https%3A%2F%2Ffbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net%2Fhphotos-ak-xpf1%2Ft1.0-9%2F10411333_703183063082390_5806594376662970842_n.jpg&size=960%2C363&fbid=703183063082390
دوسری قسط:
https://www.facebook.com/AntiMunkireHadith/photos/pb.379020948831938.-2207520000.1407722618./704112696322760/?type=3&src=https%3A%2F%2Ffbcdn-sphotos-f-a.akamaihd.net%2Fhphotos-ak-xfp1%2Ft1.0-9%2F10374456_704112696322760_5945310578206331148_n.jpg&size=960%2C446&fbid=704112696322760
تنبیہ: مضمون نگار نے اس ضمن میں کچھ ضعیف(غیر ثابت شدہ) روایات کو بھی پیش کیا جیسے مثلاً عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت کہ نبیﷺ کو روحانی معراج کروائی گئی نا کہ جسمانی ایسی روایت کا جواب بھی کتاب میں بخوبی مل جائے گا۔
*********************************************************
*********************************************************
"نمازیں کیسے فرض ہوئی حدیث واقعہ معراج پر اعتراضات"
مضمون نگار نے اس حوالہ سے بھی اعتراضات کئے اس کا مفصل جواب اس لنک میں ملاحظہ فرمائے۔

*********************************************************
"نبیﷺ کی سیرت پر سنگین الزام"
{مضمون نگار کا فرمانا ہے کہ واقعہ معراج کی رات نبیﷺ اپنی کزن ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر پر آرام فرما رھے تھے اور انہی ام ہانی رضی اللہ عنہا سے نبیﷺ نکاح فرمانا چاھتے تھے مگر نبیﷺ کے دشمن ہبیرہ سے ان کا نکاح ہوا تھا اندازہ لگائے جس خاتون سے کوئی نکاح کرنا چاھے اسی کہ گھر پر رات گزارے تو اس کہ کردار پر کیا کیا انگلیاں اٹھی گی ؟ ۔ دشمنان اسلام ایسی ہی روایات کی بنیاد پر توہین آمیز کتابیں اور فلمیں بناتے ہی}
ازالہ: حضرت ام ہانی کا اصل نام " فاختہ " تھا اور بعض نے " عاتکہ " بیان کیا ہے ۔ یہ ابوطالب کی بیٹی اور حضرت علی کی حقیقی بہن ہیں ، ان کے خاوند کا نامہ ہبیرہ تھا ۔ یہ بڑی عظمت و فضیلت کی مالک صحابیہ ہیں مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی زیادہ ترتبلیغی جدوجہد کا مرکز انہیں کا مکان تھا۔ مضمون نگار کو غلط فہمی ہوئی اور اپنے حق میں کوئی حوالہ بھی نقل نہیں کیا خیر ام ہانی رضی اللہ عنہ کو نکاح کا پیغام نبیﷺ نے اس وقت بھیجا جب ہبیرہ سے ان کی جدائی ہوگئی تھی نکاح کہ پیغام پر ام ہانی رضی اللہ عنہا کے الفاظ قابل غور ہے اور آپ کہ مرض کہ شفایابی کے لئے کافی ہو سکتے ہے۔
جب نبیﷺ نکاح کا پیغام بیجا وہ کہنے لگی
فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ وَلِي عِيَالٌ (رواہ احمد)
اے اللہ کے رسولﷺ میں تو بوڑھی ہو چکی ہو اور میرے چھوٹے چوٹے بچے ہے۔
تو آپ کا تو فرمانا تھا کہ یبیرہ کے نکاح سے پہلے نبیﷺ خواہشِ نکاح رکھتے تھے؟ لیکن یہاں صورت حال تو دوسری ہے یہاں تو وہ بوڑھی اور ضعیف ہوچکی ہے اور ظاہر ہے خاوند سے جدائی بھی ہوگئی تھی اسی صورت میں نکاح کا پیغام بھیجا گیا جس سے ثابت ہوا ہبیرہ کے نکاح سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں پیغام نکاح بھیجا گیا اب آپ کا کہنا تھا کہ واقعہ معراج کے وقت ام ہانی رضی اللہ عنہا کا نکاح ہبیرہ سے ہوچکا تھا اور اگر نبیﷺ ان کے گھر پر رات بسر کر رھے تھے تو نبیﷺ کی سیرت پر سنگین الزام عائد ہوتا ہے جبکہ نکاح کا پیغام نا صرف نکاح الاول بلکہ واقعہ معراج(چونکہ نکاح کا پیغام یبیرہ سے جدائی کے بعد کا ہے اس سے ظاہر ہے پیغام نکاح واقعہ معراج کے بھی بعد کا ہے کیونکہ واقعہ معراج میں تو یبیرہ ان کے شوہر تھے؟) اور ان کے بوڑے اور ضعیف ہونے کے بعد کا ہے ۔
اب یہ اشکال رھ گیا کے نبیﷺ ام ہانی رضی اللہ عنہ کے گھر پر کیو تھے تو جیسا کہ میں نے عرض کیا زیادہ تر نبیﷺ تبلیغی سرگرمیاں ان کے گھر پر ہی ہوا کرتی تھی اس غرض سے نبیﷺ وہاں آرام فرما رھے تھے تو کیا اشکال اکثر ہجرت مدینہ سے قبل اسی طرح چھپ کر تبلیغی سرگمیاں اور مشاورت ہوا کرتی تھی۔ ام ھانی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رات کے وقت اپنے چھت پر تھی اور نبیﷺ کی تلاوت قرآن سن رھی تھی نبیﷺ مسجد الحرام میں تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان کا گھر کعبہ کے قریب تھا ممکن ہے نبیﷺ رات کے وقت مسجد الحرام میں عبادت یا تہجد یا تلاوت کی غرض سے جانا چاھتے ہو چونکہ ام ہانی رضی اللہ عنہ کا گھر کعبہ کہ بلکل قریب پر تھا انہی کے گھر کچھ دیر آرام فرما رھے ہو کہ کچھ دیر بعد عبادت کی غرض سے مسجد االحرام تشریف لے جاونگا ؟ کیا یہ عین ممکن نہیں۔
مضمون نگار سے ایک سوال:
آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر پر محرم موجود نہیں تھے ؟
اب بھی اعتراض ہے تو قرآن میں بیان ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کی ازواج نے ان کی خیانت کی (فَخَانَتٰهُمَا )( سورہ التحریم:10) اب اس خیانت سے کوئی یہ مراد لے کہ اُن کی ازواج سے زنا سرزد ہوا تھا تو آپ کیا جواب دینگے یہی کہ صرف خیانت کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ نا فرمانی کے معنی میں ہے اپنی طرف سے اپنی گندی زہنیت مت شامل کریں۔ تو یہی جواب اس واقعہ معراج کا بھی شامل کر لی جئے کہ گندی زہنیت کا منہ بولتا ثبوط مت دیں جو بات موجود ہی نہیں اس پر اعتراض کیسا۔
ایک اور ایت ملاحظہ کی جئے جب فرشتہ لوط علیہ السلام کی قوم کے پاس پہنچے تو قوم کے مرد ان سے بد فعلی کرنا چاھتے تھے ان فرشتوں کے دفاع میں لوط علیہ السلام نے فرمایا
قَالَ هَؤُلاَءِ بَنَاتِي إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
لوطؑ نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں!
اب اگرکوئی اس ایت سے یہ اعتراض دھر دے کہ قوم کے مردوں کے ثامنے بنا نکاح کے لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کو پیش کر دیا تھا کیا یہ پیغمبر کی سیرت پر سنگین الزام نہین اور ان ناپاک مردوں کے ثامنے انجان مردوں کو بچانے کے لئے اپنی بیٹیوں کو پیش کرنا کیا صحیح تھا؟ ھم یہی کہے گے کہ یہ آپ کی گندی زہنیت کا منہ بولتا ثبوط ہے پیغمبر کی سیرت ان اعتراضات سے پاک ہوتی ہے۔​

منکریں حدیث احباب کی فقہ میں تو عریانیت سے بھری فلمیں اور ڈرامیں جائز بلکہ باعث ثواب ہے ۔ آپ حضرات تو خواتین کے پردہ کے منکر نہیں؟ خواتین سے میل جول اور مصاحفہ تو آپ کے ہاں جائز ہے، پھر انصاف پسند منکر حدیث اس واقعہ پر کیسے اعتراض کر سکتا ہے ؟ منکرین حدیث احباب کے قلم مبارک سے اتنا مہذب اعتراض پر ھم حیران و پریشان ہے۔
اصل واقعہ کیا تھا؟ در اصل ہبیرہ یا واقعہ معراج کے بعد نبیﷺ نے ام ہانی رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھیجا نکاحِ پیغام بھیجنے کی وجہ کیا تھی اوپر کی روایات میں خوب واضح ہے کے نبیﷺ کی غرض یہ تھی کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا اس بڑھاپے جبکہ ان کے بچے بھی چوٹے ہے یہاں تک کے ایک روایت میں بیان ہوا ام ہانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا
فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ وَضَعُفْتُ أَوْ كَمَا قَالَتْ فَمُرْنِي بِعَمَلٍ أَعْمَلُهُ وَأَنَا جَالِسَةٌ
یا رسول اللہ میں بوڑھی اور کمزور ہوگئی ہوں مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو میں بیٹھے بیٹھے کر لیا کروں؟ نبیﷺ نے فرمایا سبحان اللہ پڑھا کرو،
تو نبیﷺ اس بڑھاپے اور کمزوری میں ان کا سہارہ بننا چاھتے تھے آخر نبیﷺ یہ پیغام کیو نا بھیجتے یہ انہی جناب ابو طالب کی بیٹی تھی جنہوں نے نبیﷺ کی حفاظت اور دفاع میں اپنی جان دینے سے بھی گرزیز نہیں کیا بچن میں پرورش کی تو اپنے حقیقی بیٹوں سے بڑھ کر بہت دی نبیﷺ بس اسی احسان کو چکانا چاھتے تھے نکاحِ پیغام سے احسان و کرم مقصود تھا خاتون اس وقت بوڑھی تھی اس پر بے چارے مستشرقین کیا اعترض کر سکتے ہے اب ھم نے اس مرض کی شفا یابی کے لئے سامان کر دیا ہے جو چاھے فیض یاب ہو جائے۔
*********************************************************
خلاصہ: مضمون نگار نے انتہائی کمزور استدلال سے واقعہ معراج کا انکار کرنے کی کوشش کی کہیں کہا کہ مسجد الاقصی منہدم تھی لہذا واقعہ معراج نہیں ہوا ، کہیں کہا مسجد الحرام میں اور مسجد الاقصی کی تعمیر میں 40 سال کا وقفہ تاریخی اور قرآنی بیان کے اعتبار سے غلط ہے، کہیں کہا ملاقاتِ ابراھیمی اور پیالہ مشروب کی وضاحت میں اختلاف ہے ، کہیں کہا ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر پر نبیﷺ کیوں آرام فرما رہے تھے۔ لہٰزا ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعہ معراج رونما نہیں ہوا۔ اس طرح کہ بے معنی اعتراضات تو غیر مسلم بھی کرتے ہیں کہیں کہا جاتا هے قرآن عربی میں کیوں نازل ہوا اور دوسرے لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا ، کہیں کہا جاتا ہے قرآن کے تراجم(عبداللہ چکڑالوی اور غلام احمد پرویز) میں اختلاف ہے اسے لئے قرآن منزل من اللہ نہیں، کہیں کہا جاتا ہے کیونکہ موسی اور عیسی علیہما السلام کے نام قرآن میں محمدﷺ کے نام سے زیادہ مرتبہ آئے ہیں اس لئے یہ قرآن موسی اور عیسی کو افضل ثابت کرتا ہے اسی بنا پر اس قرآن کو بائبل سے ماخوذ کہتے ہیں ؟،
کہیں کہا جاتا ہے محمد نے گیارہ بیویاں رکھی۔ اس طرح کے لغو اعتراضات سے تو پھر قرآن بھی نہیں بچتا کیا آپ اس طرح کے اعتراض دیکھ کر قرآن کے منکر ہوجاتے ہیں یا اس کا مدلل جواب تلاش کرتے ہیں ؟
اگر ہاں تو پھر احادیث پر یہ سوتیلاسلوک کیوں ؟
ممکن ہے آپ حضرات قرآن پر اعتراض دیکھ کر قرآن ہی کے منکر ہوجاتے ہوں جیسے احادیث کو دیکھ کر اگر یہ گھمبیر مرضِ کسی کو لاحق ہو تو فکر نا کریں قرآن و صحیح حدیث کا دفاع اور اس کے جواب
ہم سے حاصل کر لیا کیجئے اور سینہ تان کر غیر مسلموں کو جواب دیجئے۔۔
آخری گزارش: واقعہ معراج اور اس کے مشاھدات کا انکار کرنا در اصل اللہ کے ہر ایک بات پر قادر ہونے سے انکار کرنا ہے کیا آپ لوگ اللہ تعالی کو ان اللہ علی کل شیء قدیر نہیں مانتے ؟ اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے ؟ بہت سے سائنسی معجزات قرآن نے 1400 سو سال پہلے بیان کئے کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے ؟ اس وقت کونسی ٹکنولوجی ایڈوانس تھی ؟ موجودہ دور میں بھی آپ اس واقعہ کی جھلک محسوس کر سکتے ہے انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے اور مریح پر بھی تحقیق جاری ہے سٹلائٹ کو وہاں بھیجا جا رھا ہے۔۔ اور انفورمیشن ٹکنولوجی کی سیٹلائٹس ہر وقت خلا میں تیر رھی ہے۔ 1400 سو سال پہلے اس ایڈوانس ٹکنولوجی کو کوئی سمجھ سکتا تھا اگر نہیں تو کیا اس کو انکار کر دینا چاھئے تھا ؟ اگر نہیں تو پھر واقعہ معراج کا کیو انکار کیا جا رھا ھے؟ کہی ایسا نا ہو کہ کم علمی میں ھم گناہگار ہو جائے اور اللہ کے سامنے سخت باز پرس ہو۔
*********************************************************
حواشی
استفادہِ جواب از کتب
تفہیم القرآن
تفسیر تیسیر القرآن
تفہیم الاسلام
واقعۂ معراج اور اس کے مشاہدات
شرح مشکاۃ​
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
Top