بحوالہ
یزید علماء ومحدثین کی نگاہ میں
دن بدن جیسے جیسے معلومات کاانفجار ہورہاہے ویسے ہی ویسے ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں جن سے ماضی قریب کے علماء ناواقف تھے۔ماضی قریب میں رافضیوں یاشیعہ حضرات کی یزید کی تکفیر اورلعن طعن سے بچنے کی تاکید کی اوراس سلسلے میں محتاط روش کی تاکید کی کہ اپنی زبان کو یزید کے ذکر سے آلودہ ہی نہ کیاجائے۔
ان حضرات علماء کرام کے دور میں اس طرح کی کوئی بات سامنے نہ آئی تھی کہ یزید کو امیر یزید رحمتہ اللہ علیہ اورحضرت امیرالمومنین یزید رضی اللہ عنہ سے گرانبار کیاجائے۔اگران حضرات کے دورمیں ایسی کوئی تحریر سامنے آتی تویہ علماء کرام اس طرزفکر کابھی رد کرتے۔لیکن یہ طرز فکر جس کی ویسے تو جڑیں ماضی می٘ں کافی گہری ہیں اورجس کارشتہ ناصبیت سے جاملتاہے ۔دورحاضر میں کافی نئی ہیں اوربیس تیس سال پرانی ہیں۔
ان حالات میں محسوس کیاگیاکہ یزید کے تعلق سے علماء کرام نے جوکچھ لکھاہے کہاہے اسے اختصارکے ساتھ پیش کردیاجائے اورمانعین کے دلائل کابھی جائزہ لیاجائے تاکہ واضح ہوسکے کہ اس بارے میں حق کیاہے اورباطل کیاہے۔
اللھم ارناالحق حقا وارزقنااتباعہ وارناالباطل باطلاًوارزقنااجتنابہ۔
حضرت ابن عباس کا حضرت حسینؓ سے قریبی رشتہ تھا۔انہوں نے حضرت حسین کو کوفہ جانے سے بہت روکابھی تھا اورسمجھایابھی تھا۔لیکن بہرحال تقدیر میں جولکھاگیاتھاوہ پوراہوا۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں اپنی خلافت کا اعلان کیاتو حضرت ابن عباس بھی مکہ میں موجود تھے انہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔یزید کو حضرت ابن عباس کے انکار بیعت کی خبرپہنچی تو یہ سمجھ کر یہ میرے طرفدار ہیں ان کو اپنی حمائت میں کام کرنے کاایک خط لکھا۔جس کا جواب حضرت عبداللہ بن عباس نے سخت تہدیدانہ انداز میں لکھااوراس میں صراحتاًقتل حسینؓ کی نسبت یزید کی جانب کی۔
آپ بھی یہ خط پڑھئے۔
وقد ذكر ابن الأثير في كامله رسالة ابن عباس ليزيد بعد مقتل الحسين (), وطلب يزيد لمودته وقربه بعد امتناع ابن عباس عن بيعة ابن الزبير: ((أما بعد فقد جائني كتابك فأما تركي بيعة ابن الزبير فوالله ما أرجو بذلك برك ولا حمدك ولكن الله بالذي أنوي عليم وزعمت أنك لست بناس بري فأحبس أيّها الإنسان برك عني فإني حابس عنك بري وسألت أن أحبب الناس إليك وأبغضهم وأخذلهم لابن الزبير فلا ولا سرور ولا كرامة كيف وقد قتلت حسيناً وفتيان عبد المطلب مصابيح الهدى ونجوم الاعلام غادرتهم خيولك بأمرك في صعيد واحد مرحلين بالدماء مسلوبين بالعراء مقتولين بالظماء لا مكفنين ولا مسودين تسفي عليهم الرياح وينشي بهم عرج البطاح حتى أتاح الله بقوم لم يشركوا في دمائهم كفنوهم وأجنوهم وبي وبهم لو عززت وجلست مجلسك الذي جلست فما أنسى من الأشياء فلست بناس اطرادك حسيناً من حرم رسول الله إلى حرم الله وتسييرك الخيول إليه فما زلت بذلك حتى أشخصته إلى العراق فخرج خائفاً يترقب فنزلت به خيلك عداوة منك لله ولرسوله ولأهل بيته الذين أذهب الله عنهم الرجس وطهرهم تطهيراً فطلبت إليكم الموادعة وسألكم الرجعة فاغتنمتم قلة أنصاره واستئصال أهل بيته وتعاونتم عليه كأنكم قتلتم أهل بيت من الترك والكفر, فلا شيء أعجب عندي من طلبتك ودي وقد قتلت ولد أبي وسيفك يقطر من دمي وأنت أحد ثاري ولا يعجبك إن ظفرت بنا اليوم فلنظفرن بك يوماً والسلام)) انتهى. (الكامل في التاريخ : 3 / 466 و467)
اس میں آپ خط کشیدہ نشان دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح حضرت ابن عباس نے صراحتاًیزید پر قتل حسین کا الزام لگایاہے اورخط کا لب ولہجہ کس طرح طیش وغضب کا ہے اورہرہرلفظ سے یزید سے بیزاری ٹپک رہی ہے۔
قال ابن حجر المكي في (الصواعق المحرقة ص134): ثم قلد أبي الأمر وكان غير أهل له, ونازع ابن بنت رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فقصف عمره وانبتر عقبه وصار في قبره رهيناً بذنوبه, ثم بكى وقال: إن من أعظم الأمور علينا علمنا بسوء مصرعه وبئس منقلبه, وقد قتل عترة رسول الله (صلى الله عليه وسلم), وأباح الخمر, وخرب الكعبة...).
جولوگ حضرت محمد بن حنیفہ کے قول سے استشہاد کرکے یزید کو معصوم قراردیتے ہیں وہ حضرات یزید کے اپنے بیٹے کے اس قول کو کس کھاتے میں رکھتے ہیں۔یہ سمجھنے سے میں آج تک قاصر ہوں۔اس میں دیکھاجاسکتاہے کہ کہ یزید کے بیٹے نے صراحتا اپنے والد کے بارے میں اقرارکیاہے کہ اس نے رسول پاک کی اولاد کو قتل کیا،شراب کو جائز کیا(بمعنی شراب پیتاتھا)اورخانہ کعبہ کی حرمت وعظمت کو پامال کیا۔اگرایساشخص فاسق نہ ہوتو پھر فسق کیلئے اورکیاچیز لازمی ہوتی ہے۔ہم دلدادگان یزید سے اتناتوپوچھ ہی سکتے ہیں کہ جو بات وہ ابن حنفیہ کے تعلق سے دوسروں پر الزام دیتے ہیں وہ خود یزید کے بیٹے کے اس قول کی روشنی میں اپنے طرز عمل کا جائزہ کیوں نہیں لیتے۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو پانچواں خلیفہ راشد کہاجاتاہے۔انہوں نے اپنے بے مثل عدل وانصاف سے دوبارہ دورفاروقی لوگوں کو یاددلادیا ۔حضرت عمربن عبدالعزیز جوخود اموی ہیں اوریہ سارے واقعات تقریباان کی نگاہوں یابچپن کے ہوں گے اورزمانہ ان کا یزید اورحضرت حسین اورواقعہ حرہ وغیرہ سے بالکل قریب ہے۔ ان کی مجلس میں کسی نے یزید کو امیر المومنین کہا انہوں نے یزید کوامیر المومنین کہنے والے کو 20کوڑے لگوائے۔
وَرَوَى: مُحَمَّدُ بنُ أَبِي السَّرِيِّ العَسْقَلاَنِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ عَبْدِ المَلِكِ بنِ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنْ نَوْفَلِ بنِ أَبِي الفُرَاتِ، قَالَ:
كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بنِ عَبْدِ العَزِيْزِ، فَقَالَ رَجُلٌ: قَالَ أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ يَزِيْدُ. فَأَمَرَ بِهِ، فَضُرِبَ عِشْرِيْنَ سَوْطاً. (سیراعلام النبلاء4/41)
اگریزید صالح اورنیک شخص تھااوراتنانیک تھاکہ اسے رضی اللہ عنہ کہاجاتاہے تو پھرمذکورہ شخص کو کوڑے لگوانے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز صحیح تھے یاغلط ۔اگر غلط تھے توکسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ وہ کہتاکہ یزید تو بڑانیک اورپاک شخص ہے ۔اس کو امیر المومنین کہنے والے کو کوڑے لگواکر آپ نے بڑاظلم کیاہے۔