• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدہ کی ایذا رسانی حرام ہے

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بلوغ المرام کتاب الجامع کے دوسرے باب ‘ باب البر والصلۃ کی تیسری حدیث درج ذیل ہے
وعن المغیرۃ ابن شعبۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال
اس اللہ حرم علیکم عقوق الامھات وواد البنات ومنعا وھات وکرہ لکم قیل وقال وکثرۃ السوال واضاعۃ المال (متفق علیہ)

مغیرہ بن شعبۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
بے شک اللہ نے تم پر حرام کر دیا ہے ماؤں کو ستانا‘ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا اور خود کچھ نہ دینا اور دوسروں سے کہنا لا مجھے دے اور تمہارے لیے ناپسند کیا قیل و قال کرنا اور زیادہ سوال کرنا اور مال ضائع کرنا (متفق علیہ)
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اس حدیث میں والدہ کا دل دکھانے کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔حالانکہ ماں باپ دونوں کے ساتھ ہی احسان کا حکم ہے۔۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے کیونکہ وہ اولاد کے لیے مشقت زیادہ اٹھاتی ہے

وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِوٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر لى وَلِوٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ ﴿١٤
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (14)


صحیحین کی ایک حدیث میں آپ ﷺنے تین دفعہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی اور چوتھی دفعہ باپ کا ذکر فرمایا ۔۔۔۔ماں کا تذکرہ خاص طور پر اس لیے بھی کیا کہ کمزور ہونے کی وجہ سے اولاد اسے زیادہ ستاتی ہے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

وواد البناتاہلِ جاہلیت عام طور پر بیٹیوں کو اس لیے زندہ درگور کر دیتے کہ جنگ میں دشمن کے ہاتھ نہ آئیں ۔۔۔۔اور اس لیے بھی کہ لڑکے تو کما کر دیں گے ۔۔۔جنگ میں معاون بنیں گے ۔۔جبکہ لڑمیاں تو نرا بوجھ ہیں ۔۔۔پال پوس کر جوان کرو ۔۔۔۔بھاری جہیز دے کر شادی کرو اور پھر ساری عمر داماد کے نخرے اٹھاؤ۔۔۔لہذا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس ٹنٹنے کو آغاز سے ہی ختم کر دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔اسی کو آپﷺ نے واد البنات سے موسوم کیا ہے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
جاہلیت کا دور تو بیت چکا ۔۔۔۔ہم اپنے تئیں ترقی یافتہ اور ماڈرن دور میں داخل ہو چکے ہیں ۔۔۔اس کے باوجود آئے دن ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ بیٹی پیدا کرنے کے” جرم“ میں خاوند نے اپنے گھر والوں کی مدد سے بیوی کو ایسے اور ایسے سزا دی۔۔۔۔جاہل عوام کو تو چھوڑیے اچھے خاصے سمجھ دار اور دین دار لوگ بیٹی کی پیدائش پر افسردہ دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بیٹے کی خواہش فطری طور پر ہر ایک کو ہوتی ہے ۔۔۔۔آپﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات پر آپﷺ کے رنج والم میں ڈوبے الفاظ‘ کفار کا آپﷺ کو ابتر ہونے کا طعنہ دینا اور اللہ تعالی کا آپﷺ کو سورۃ کوثر کے ذریعےتسلی و دلاسہ دینااسی فطری خواہش کانتیجہ ہے ۔۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود اللہ تعالی نے آپﷺسےتمام نرینہ اولاد لے کر مادینہ اولاد پسند فرمائی اور تاقیامت آپﷺ کے نام کو زندہ رکھنے کی بشارت دی ۔۔۔حضرت عمران کی بیوی حضرت حنہ کے ہاں جب حضرت مریم کی پیدائش ہوئی اور انھوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو اللہ تعالی نےفرمایا
لیس الذکر کالانثی
لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا
یہی مریم تھیں جن کو اللہ نے ایک عظیم معجزے کے لیے منتخب فرمایا۔۔۔حضرت عیسی کی کنواری والدہ بنیں اور اس واحد عورت ہونے کا شرف پایا جس کا صرف نام ہی کئی مقامات پر قرآن میں موجود نہیں بلکہ ایک سورت بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔۔۔لا ریب لیس الذکر کالانثی
ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو الا ماشاء اللہ یہی بیٹیاں ہوتی ہیں جو ماں باپ کی حقیقی غم گسار اور آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوتی ہیں جبکہ بیٹے جن کواللہ سے مانگ مانگ کر لیا ہوتا ہے ‘ بیٹیوں سے زیادہ پیار دیا ہوتا ہے اور بعض اوقات ان کے منہ کا نوالہ ان بیٹوں کے منہ میں ڈالا ہوتا ہے اپنے بیوی بچوں میں مگن ہو کر بوڑھے ماں باپ کو بھلا بیٹھتے ہیں۔۔۔۔اس وقت یہی بیٹیاں ان کو سہارا دیتی ہیں جن کی پیدائش پر یہ اللہ سے شکوے کرتے نہ تھکتے تھے

عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺ سے سنا
من کان لہ ثلاث بنات فصبر علیھن واطعمھن وسقاھن وکساھن من جدتہ کن لہ حجابا من النار یوم القیامۃ (ابن ماجہ)

جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ صبر وشکر سے انھیں کھلائے پلائے اور اپنی حیثیت کے مطابق لباس فراہم کرے تو وہ روز قیامت اس کے لیے آگ سے ڈھال بن جائیں گی
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ومنعا وھات خود کسی کو کچھ نہ دینا اور دوسروں سے ہر چیز کا تقاضا کرنا ۔۔۔۔۔جس طرح بعض لوگوں کا یہ وتیرہ ہوتا ہے کہ تم آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔۔۔۔یہ نہایت خسیس طرزعمل ہے اسی لیے آپﷺ نے بطورِخاص اس کا تذکرہ فرما کر اس سے منع فرمایا ہے۔۔۔مومن کو فراخ اور کشادہ ہونا چاہیے جس کا دھیان بٹورنے اور سمیٹنے کی طرف نہیں بلکہ دینے اور تقسیم کرنے کی طرف ہونا چاہیے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قیل وقال اگرچہ یہ دونوں الفاظ افعال ہیں لیکن یہ محاورتا اسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔۔۔۔اس سے مراد بلاضرورت بحث مباحثہ ہے۔۔یا دین کے بارے میں لوگوں کے اختلاف کو بیان کرتے چلے جانا ۔۔فلاں امام نے یوں کہا بعض علماء یہ فرماتے ہیں ‘ ایک قول یہ بھی ہے وغیرہ وغیرہ
واضح رہے کہ اگر اس مباحثہ کا مقصد مقابل کو نیچا دکھانا یا اس کے قول کو باطل ثابت کر کے اپنی انا کو تسکین پہنچانا ہو تو یہ قیل و قال ہے ۔۔۔۔ہاں اگر اگر نیت نیک ہو اور مقصد دین کے اصل حکم تک پہنچنا ہو تو یہ جائز ہے
ہمارے ہاں ایسے بحث مباحثے کا کلچر بہت عام ہے ۔۔۔ہم میں سے ہر ایک کو اپنے کو ٹٹول کر یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس سب کے پیچھے ہمارا مقصد کیا ہے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
کثرۃ السوال اس میں کئی چیزیں شامل ہیں
1۔ آپﷺ کے زمانے میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ سوال کرنا اس لیے منع تھا کہ کسی کے سوال کرنے سے مسلمانوں کے لیے وہ چیزیں حرام نہ ہو جائیں جو سکوت کی وجہ سے جائز تھیں
لا تسئلوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم
ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں

2۔ایسے سوال کرنا جن کا وجود ہی نہیں محض فرضی صورتیں ہیں یا ابھی تک وجود میں ہی نہیں آئیں ۔۔۔۔سلف صالحین اسے نا پسند فرماتے تھے۔۔فقہ کی کسی کتاب کو اٹھا کر دیکھ لیجیے ایسی مثالیں آپ کو جابجا مل جائیں گی

3۔بلا ضرورت لوگوں کے حالات کی جستجو کرنا ۔۔۔ان کے ذاتی معاملات کے متعلق سوال کرنا۔۔۔خوامخواہ کا تجسس نا پسندیدہ عمل ہے

4۔علماء کو پھنسانے یا نیچا دکھانے کے لیے سوال کرنا اکرام مسلم اور اکرام علم کے خلاف ہے

5۔لوگوں سے مال یا دوسری چیزیں مانگنا ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ سے بیعت کی کہ تم لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے ۔۔۔ان میں سے کئی حضرات نے اس عہد کی اتنی پابندی کی کہ اگر گھوڑے سے ان کا کوڑا گر جاتا تو کسی کو پکڑانے کے لیے نہ کہتے بلکہ خود اتر کر پکڑتے اور دوبارہ سوار ہوتے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
واضاعۃ المال مال ضائع کرنا‘ ناجائز جگہوں پر خرچ کرنا یااپنی حیثیت یاموقع کی مناسبت سے بڑھ کر خرچ کرنا ۔۔۔مال کو ضائع کرنا ہے
 
Top