• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین کی خدمت بھی جہاد ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
والدین کی خدمت بھی جہاد ہے

عَنْ عَبْدِالله بْنِ عَمْرٍ وقَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللهﷺ فَاسْتَأْذَنَہٗ فِیْ الْجِہَادِ فَقَالَ اَحَیٌّ وَّالِدَاکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ(مشکوۃ کتاب الجہاد)۔

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو حضرت پاکﷺ نے پوچھا کہ تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ عرض کیا جی ہاں تو حضرت پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم والدین کی خدمت کر کے جہاد کرو یعنی والدین کی خدمت کرو اور تمہارا یہی جہاد ہے۔

اب اس حدیث شریف میں والدین کی خدمت کرنے کو جہاد قرار دیا ، تو معلوم ہوا کہ صرف قتال ہی جہاد نہیں بلکہ والدین کی خدمت کرنا بھی جہاد ہے ۔


جواب نمبر ۱:

اس میں شک نہیں کہ حقوق العباد میں سب سے بڑا حق والدین کی خدمت ہے ۔ اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی کو بتلایا گیا ۔

والدین کے ان حقوق یا خدمتِ والدین پر وارد شدہ فضائل اور نافرمانی کا بہت بڑا جرم ہونا اپنی جگہ پر مسلم ہے مگر اس سے مطلقاً والدین کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دینا کسی بھی طرح درست نہیں ۔

کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ کا معنی متعین ہے اور وہ ہے قتال فی سبیل اللہ۔ باقی رہا یہ اشکال کہ پھر حدیث شریف میں والدین کی خدمت کو جہاد کیوں قرار دیا گیا تو اس کا آسان اور سیدھا سا جواب یہ ہے کہ حضرت پاک ﷺ صرف نبی ہی نہ تھے بلکہ نبی و رسول ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی ، قاضی ، امام ، خطیب ، مبلغ اور امیر المجاہدین بھی تھے۔ اگرچہ آپ ﷺ کا اصل منصب تو نبوت ہی تھا مگر امت کو تعلیم دینے کے لئے ان باقی سارے مناصب پر حضرت پاک ﷺ ہی فائز تھے۔

صحابی ِرسول ﷺ تو جہاد کی نیت کے ساتھ حاضر ہوئے مگر حضرت پاک ﷺ نے انکی تشکیل بجائے میدان ِجنگ کے والدین کی خدمت پر کر دی لہٰذا اس صحابی کا والدین کی خدمت کرنا صرف اس بنیاد پر جہاد نہیں تھا کہ والدین کی خدمت کرنا جہاد ہے بلکہ وہ اس بنیاد پر جہاد تھا کہ وہ امیر کی اطاعت و تشکیل کے اندر تھے ۔

حیلے بہانے کر کے بچائے جو جان کو
دراصل ذاتِ حق سے محبت نہیں اسے
مانا کہ والدین کی خدمت بھی ہے جہاد

لیکن محاذِ جنگ سے نسبت نہیں اسے

توضیح:

والدین کی خدمت تو بہت بڑی بات ہے اگر امیر المجاہدین کسی شخص کو عین میدان جنگ سے پیچھے بھیج دیں اور بیت الخلاء کی صفائی پر لگا دیں تو یہ بیت الخلاء کی صفائی بھی جہاد ہی کہلائے گی بایں معنی کے اس پر بھی جہاد کا مکمل ثواب ملے گا ۔

یہ واقعہ صرف اس صحابی ؓ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اسکی اور بھی بہت سی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں ۔

مثال:

حضرت عثمان ؓ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں اور حضرت پاک ﷺ نے انکو بدر کے مالِ غنیمت میں سے برابر کا حصہ بھی دیا حالانکہ حضرت عثمانؓ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنی بیوی اور حضرت پاک ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیماری کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال میں مشغول تھے مگر ان کو بدریوں میں شمار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت عثمان ؓبیوی کی تیمارداری کے لئے خود نہیں ٹھہرے تھے بلکہ حضرت پاک ﷺ نے انکی تشکیل فرمائی تھی ۔

تو کیا اس حدیث شریف کی وجہ سے کوئی شخص بھی اپنی بیوی کی خدمت اور بیمار پرسی کو جہاد کہتا ہے جب کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ ایک طرح حضرت عثمانؓ کا واقعہ زیادہ مضبوط ہے کیونکہ ان کو مالِ غنیمت سے حصہ بھی ملا حالانکہ جنگ میں شریک بھی نہیں تھے ۔

تاریخ میں حضرت عثمان ؓکے علاوہ مزید آٹھ ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام ملتے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے کے باوجود بدری کہلاتے ہیں وہ صرف اس وجہ سے کہ انکی تشکیل خود حضرت پاکﷺ نے فرمائی تھی ۔ وہ آٹھ صحابہ رضی اللہ عنہم یہ ہیں ۔

(۱)حضرت طلحہ ؓ (۲) حضرت سعید بن زید ؓ(۳) حضرت ابو لبابہ انصاریؓ(۴) حضرت عاصم بن عدیؓ (۵) حضرت حارث بن حاطبؓ(۶) حضرت حارث بن صمہؓ (۷) حضرت خوات بن جبیرؓ(۸) حضرت جعفر ؓ۔

خلاصہ کلام:

لہٰذا اس حدیث شریف کی بناء پر بغیر امیر کی اجازت اور تشکیل کے جہاد کو چھوڑ کر از خود والدین کی خدمت میں لگے رہنا اور اس خدمت کو جہاد سمجھ کر میدانِ جنگ سے منہ موڑنا اور پھر خود کو مجاہد کہنا یا کہلوانا اپنے آپکو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔

‘‘ خیال است و محال است وجنوں’’​

مسئلہ

اگر جہاد فرض عین ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر بلکہ ان کے روکنے کے باوجود بھی جہاد میں جانا ضروری ہے ہاں کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ والدین بھی بخوشی اجازت دیں اور اولاد کے جہاد کے اجرو ثواب میں شریک ہو جائیں ۔ اور اگر جہاد فرضِ کفایہ ہو تو بھی والدین کی اجازت اس وقت ضروری ہے جب کہ والدین کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہ ہو ۔ اور اگر والدین کی خدمت کرنے والا ہو اور والدین صرف محبت کی وجہ سے اولاد کو جہاد سے روکتے ہوں تو والدین کی اجازت ضروری نہیں۔ (فیض الباری شرح صحیح بخاری)
 
Last edited:
Top