• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین کی طرف سے نکاح سے قبل طلاق ۔ ایک سوال

شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
زید اور سلمہ کے متعلق ان کے والدین کے درمیان یہ بات طے ہوئی کہ اگر زید نے سلمہ کے ساتھ کبھی بھی ملاقات کی یا کسی بھی طرح سے رابطہ کیا تو کبھی بھی باہم نکاح کرنے کی صورت میں سلمہ پر طلاق مغلظہ پڑے گی-
اس کی شرعی حیثیت مسلک سلفی اور حنفی میں کیا ہے؟ کس مسلک میں یہ طلاق مشروع ہے،،

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیوخ مذکورہ بالا سوال میں اس بات پر بھی روشنی ڈالیں کہ؛ طلاق کا دینا نہ دینا معاملہ تو بیوی اور شوہر کے درمیان ہے، یہ ان کے والدین کے مابین طے شدہ شرط سے ان کی اولاد کے مابین طلاق کیسے واقع ہوگی؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
زید اور سلمہ کے متعلق ان کے والدین کے درمیان یہ بات طے ہوئی کہ اگر زید نے سلمہ کے ساتھ کبھی بھی ملاقات کی یا کسی بھی طرح سے رابطہ کیا تو کبھی بھی باہم نکاح کرنے کی صورت میں سلمہ پر طلاق مغلظہ پڑے گی-
اس کی شرعی حیثیت مسلک سلفی اور حنفی میں کیا ہے؟ کس مسلک میں یہ طلاق مشروع ہے،،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس مسئلہ کا حل درج ذیل احادیث میں واضح ہے :

سنن ابن ماجہ ميں ہے :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا طَلَاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ، وَلَا عِتْقَ قَبْلَ مِلْكٍ»
مسور بن مخرمہ رضي اللہ عنہما کہتے ہيں کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”نکاح سے پہلے طلاق نہيں، اور ملکيت سے پہلے آزادي نہيں“

صحيح ابن ماجہ ميں الباني کہتے ہيں :
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ البانی ؒ ارواء الغليل ميں لکھتے ہيں :
(2070)(وعن المسور بن مخرمة مرفوعا: " لا طلاق قبل نكاح ولا عتاق قبل ملك " رواه ابن ماجه.
* صحيح.
أخرجه ابن ماجه (2048) من طريق على بن الحسين بن واقد حدثنا هشام بن سعد عن الزهرى عن عروة عن المسور بن مخرمة به.
قال البوصيرى فى " الزوائد " (ق 128/1) : " هذا إسناد حسن , على بن الحسين وهشام بن سعد مختلف فيهما ".
وهو كما قال , وسبقه إلى تحسينه شيخه الحافظ ابن حجر فقال فى " التلخيص " (3/212) : " رواه ابن ماجه بإسناد حسن , وعليه اقتصر صاحب " الإلمام " (رقم 1163) لكنه اختلف فيه على الزهرى , فرواه على بن الحسين هكذا.
وقال حماد بن خالد عن هشام بن سعد عن الزهرى عن عروة عن عائشة "
وللحديث شواهد كثيرة يرتقى بها إلى درجة الصحة , وقد مضى ذكر الكثير منها برقم (1751) ,
ارواء الغليل المجلد 7 ص 152

مطلب یہ کہ : مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا : نکاح سے پہلے طلاق نہیں ، اور مالک بننے سے پہلے آزادی نہیں) یہ حدیث صحیح ہے ،امام بوصیری نے زوائد ابن ماجہ میں اور حافظ ابن حجر ؒ نے (التلخیص الحبیر ) میں اسے حسن کہا ہے،
اور اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں جن کے سبب یہ روایت صحیح کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت درج ذیل ہے :
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، ح وحدثنا ابن الصباح، حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد، قالا: حدثنا مطر الوراق، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا طلاق إلا فيما تملك، ولا عتق إلا فيما تملك، ولا بيع إلا فيما تملك»، زاد ابن الصباح، «ولا وفاء نذر إلا فيما تملك»،
سنن ابي داود 2190 ، و جامع الترمذي 1181
علامہ حافظ زبير علي زئي ؒ سنن ابي داود کي تخريج ميں لکھتے ہيں :
اسنادہ حسن ،رواہ ابن ماجہ ، والترمذي وقال حسن صحيح ، وصححہ في تحفۃ المحتاج حديث ۔۔، والذہبي في تلخيص المستدرک
(سنن ابي داود معہ انگلش ترجمہ جلد ۳ ص۳۵ )طبع دار السلام
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضي اللہ عنہما کہتے ہيں کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”طلاق صرف انہيں ميں ہے جو تمہارے نکاح ميں ہوں، اور آزادي صرف انہيں ميں ہے جو تمہاري ملکيت ميں ہوں، اور بيع بھي صرف انہيں چيزوں ميں ہے جو تمہاري ملکيت ميں ہوں“۔ ابن صباح کي روايت ميں اتنا زيادہ ہے کہ (تمہارے ذمہ) صرف اسي نذر کا پورا کرنا ہے جس کے تم مالک ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال الالبانی في الارواء
(1751) - (حديث: " لا طلاق , ولا عتاق ولا بيع فيما لا يملك ابن آدم " (2/113) .
* صحيح.
أخرجه أبو داود (2190 , 2191 , 2192) والترمذى (1/222) وابن ماجه (2047) وابن أبى شيبة (7/79/1 ـ 2) والطحاوى فى " مشكل الآثار " (1/280 ـ 281) وابن الجارود (743) والدارقطنى (430 ـ 431) والحاكم (2/305) والبيهقى (7/318) والطيالسى (2265) وأحمد (2/189 , 190 , 207) وأبو نعيم فى " أخبار أصبهان " (1/295) من طرق كثيرة عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: " لا طلاق إلا فيما تملك , ولا عتق إلا فيما تملك , ولا بيع إلا فيما تملك , ولا وفاء نذر إلا فيما تملك ".
وهذا لفظ أبى داود.
ولفظ الترمذى وكذا أحمد فى روايته: " لا نذر لابن آدم فيما لا يملك , ولا عتق له فيما لا يملك , ولا طلاق له فيما لا يملك ".
وقال الترمذى فى " باب ماجاء لا طلاق من قبل النكاح ": " حديث حسن , وهو أحسن شىء روى فى هذا الباب ".
قلت: وإسناده حسن , للخلاف المعروف فى حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده.
وللحديث شواهد , منها عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:


--------------------------------
و قال الهيثمي في مجمع الزوائد
عن جابر بن عبد الله أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: «لا طلاق إلا بعد نكاح، ولا عتاق إلا من بعد ملك».
رواه الطبراني في الأوسط، وهذا لفظه، والبزار بنحوه، ورجال البزار رجال الصحيح.

-------------------------
وقال ابن حجر في التلخيص الحبيرقلت وفي الباب عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال الترمذي هو أحسن شيء روي في هذا الباب وهو عند أصحاب السنن بلفظ "ليس على رجل طلاق فيما لا يملك" الحديث1، ورواه البزار من طريقه بلفظ لا طلاق قبل نكاح ولا عتق قبل ملك وقال البيهقي في الخلافيات قال البخاري أصح شيء فيه وأشهره حديث عمرو بن شعيب -----
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے حاشيہ میں درج ہے :
أخرجه أبو داود 2/640، كتاب الطلاق: باب الطلاق قبل النكاح، حديث 2190، والترمذي 2/326، كتاب الطلاق واللعان: باب ما جاء لا طلاق قبل النكاح، حديث 1192، وابن ماجة 1/660، كتاب الطلاق: باب لا طلاق قبل النكاح، حديث 1047، والطيالسي 1/314 -منحة، وابن الجارود رقم 743، والطحاوي في مشكل الآثار 1/280-281، والبيهقي 7/318، كتاب الخلع والطلاق: باب الطلاق قبل النكاح، من طريق عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده.
قال الترمذي: حديث حسن صحيح وهو أحسن شيء روي في هذا الباب.
وقال في العلل الكبير ص 173، رقم 302: سألت محمدا عن هذا الحديث فقلت: أي حديث في هذا الباب أصح.
فقال: حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده اهـ.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان احادیث سے واضح ہے کہ شادی سے پہلے تو ہونے والا شوہر بھی طلاق نہیں دے سکتا ، تو اس کے والدین ، و اولیاء کیسے قبل از نکاح طلاق کا فیصلہ کرسکتے ہیں ،
لہذا اگر ان دونوں نے نکاح کرلیا تو ان کے والدین کا یہ فیصلہ ان کے نکاح پر اثر انداز نہیں ہوگا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام بخاری فرماتے ہیں:
بَاب لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّکَاحِ وَقَوْلُ اللہِ تَعَالٰى { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمْ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا }
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ جَعَلَ اللہُ الطَّلَاقَ بَعْدَ النِّکَاحِ وَيُرْوٰى فِي ذٰلِکَ عَنْ عَلِيٍّ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَعُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ وَأَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَعَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ وَشُرَيْحٍ وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَالقَاسِمِ وَسَالِمٍ وَطَاوُسٍ وَالْحَسَنِ وَعِكْرِمَةَ وَعَطَاءٍ وَعَامِرِ بْنِ سَعْدٍ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَنَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ وَمُجَاهِدٍ وَالْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَعَمْرِو بْنِ هَرِمٍ وَالشَّعْبِيِّ أَنَّهَا لَا تَطْلُق۔

باب
نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے، ارشادِ الہٰی ہے ’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرتے ہو، پھر تم نے انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دیدی ہو تو ان کے ذمہ تمہاری کوئی عدت واجب نہیں ہے جس کی گنتی تمہیں شمار کرنی ہو، لہٰذا انہیں کچھ تحفہ دیدو اور انہیں خوبصورتی سے رخصت کردو‘‘،
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد رکھا ہے اور اس سلسلہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبد الرحمٰن، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، ابان بن عثمان، علی بن حسین، شریح، سعید بن جبیر، قاسم، سالم، طاؤس، حسن، عکرمہ، عطاء، عامر بن سعد، جابر بن زید، نافع بن جبیر، محمد بن کعب، سلیمان بن یسار، مجاہد، قاسم بن عبد الرحمن، عمرو بن ہرم اور شعبی رحمہم اللہ سے روایت منقول ہے کہ (مذکورہ بالا صورت میں) عورت کو طلاق نہیں ہوتی۔
(صحیح البخاری ، کتاب الطلاق )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ المُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ، (الا حزاب:۴۹)
"اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو،پھر ان کو مباشرت سے پہلے طلاق دے دو تو۔۔۔"
اس آیت کے تحت
حافظ ابنِ کثیر(۷۷۳-۷۰۱ھ)اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں:
وقد استدلّ ابن عبّاس وسعید بن المسیّب والححسن البصری وعلیّ بن الحسین زین العابدین، وجماعۃ من السلف بھذہ الآیۃ علی أ نّ الطلاق لا یقع إ َلاإ ذاتقدَمہ نکاح، لأ نَ اللہ تعالی قال:ؕ إ ذَانکَحْتُمْ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَکلَّقْتُمُو ھُنَّ)، فعقّب النکاح بالطلاق ، فدلّ، علی أنّہ لا یصحّ ولا یقع قبلہ، وھذا مذھب الشافعی وأحمد بن حنبل وطا ۂفۃ کثیرۃ من السلف والخلف۔‘‘
"سیدنا ابنِ عباس ، امام سعید بن مسیب، حسن بصری ، علی بن حسین زین العابدینؒ اور سلف کی ایک جماعت نے اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کیا ہے
کہ طلاق اس وقت تک واقع نہیں ہوتی، جب تک اس سے پہلے نکاح نہ ہو چکا
ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں
سے نکا ح کرو، پھر ان کو طلاق دو)۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو (لفظ ثم سے ) نکاح کے بعد ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح سے پہلے طلاق دُرست نہیں ، نہ ہی ایسی طلاق واقع ہوتی ہے۔ امام شافعیؒ امام احمد بن حنبل ؒاور سلف وخلف
کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب ہے" (تفسیر ابن کثیر : ۱۹۴/۵)
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نکاح سے پہلے دی جانے والی طلاق کا حکم

عمار خان ناصر

سوال: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے یا کسی بھی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق، تو کیا ایسی صورت میں نکاح کے بعد طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جواب: حنفی فقہا کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر نکاح سے پہلے آدمی طلاق دے دے تو وہ نکاح کے بعد واقع ہو جائے گی۔ اس کے مقابلے میں جمہور صحابہ، جمہور تابعین، جمہور محدثین اور فقہا کی رائے یہ ہے کہ ایسی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔ احناف کا استدلال اس ضمن میں بعض صحابہ کے فتووں سے ہے، جبکہ جمہور کے موقف کے حق میں صاف اور صریح احادیث موجود ہیں جو حسب ذیل ہیں: عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : لا طلاق فی ما لا یملک ولا عتاق فی ما لا یملک (مستدرک حاکم، ۰۲۸۲) ”آدمی جس عور ت کا مالک نہ ہو، اس کو دی گئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں اور جس غلام کا مالک نہ ہو، اس کو آزاد کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔“ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’من طلق ما لا یملک فلا طلاق لہ‘ (مستدرک ۲۲۸۷) یعنی جس شخص نے اس عورت کو طلاق دی جو اس کی ملکیت میں ہی نہیں تو اس کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔


جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لا طلاق لمن لم یملک ولا عتاق لمن لم یملک (مستدرک حاکم، ۹۱۸۲) ”جو شخص عورت کا مالک نہ ہو، اس کی کوئی طلاق نہیں اور جو شخص غلام کا مالک نہ ہو، اس کے آزاد کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔“

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: لا طلاق الا بعد نکاح (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۵۶۴۱) ”طلاق، نکاح کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔“ سیدنا علی سے ایک شخص نے پوچھا کہ میں نے یہ کہا ہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے۔ سیدنا علی نے کہا، اس سے شادی کر لو۔ طلاق نہیں ہوگی۔ (بیہقی، ۰۶۶۴۱)

عبد اللہ بن عباس کو بتایا گیا کہ عبد اللہ بن مسعود کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے تو طلاق ہو جائے گی۔

ابن عباس نے کہا کہ ابن مسعود ایسا نہیں کہہ سکتے، اور اگر انھوں نے کہا ہے کہ ایک عالم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموہن‘ یعنی جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انھیں طلاق دو۔ یہ نہیں کہا کہ پہلے طلاق دے دو اور پھرنکاح کرو۔ (مستدرک، ۱۲۸۲)

تابعین کے دور میں ایک شخص نے غصے میں یہ کہہ دیا کہ اگر میں اپنی چچا زاد بہن سے نکاح کروں تو اسے طلاق۔ اس کے بعد اس نے باری باری اس کے بارے میں اکابر فقہاے تابعین سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابوبکر بن عبد الرحمن، عبید اللہ بن عبد اللہ اور عمر بن عبد العزیز سے دریافت کیا۔ ان سب نے کہا کہ طلاق نہیں ہوگی۔ (بیہقی، ۶۶۶۴۱)

امام محمد نے نقل کیا ہے کہ تابعین کے دور میں اسی طرح کے ایک واقعہ میں حجاز یعنی مکہ اور مدینہ کے علما سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ایسی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔ (کتاب الآثار، ۸۰۵) خود امام ابوحنیفہ کے استاد حماد اور ان کے استاد ابراہیم نخعی کی رائے یہ تھی کہ اگر اس شخص نے کسی خاص عورت کا نام لیا ہو یا کسی خاص قبیلے کا ذکر کیا ہو تو پھر طلاق ہو جائے گی، لیکن اگر اس نے مطلقاً ہر عورت کے بارے میں یہ کہا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ (مصنف عبد الرزاق، ۱۷۴۱۱) امام ترمذی نے لکھا ہے کہ صحابہ میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور یہ فتویٰ حضرت علی، ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ تابعین میں سے سعید بن مسیب، حسن بصری،سعید بن جبیر، علی بن الحسین، قاضی شریح اور جابر بن زید وغیرہ سے مروی ہے۔ (ترمذی، ۱۸۱۱) یہی فتویٰ حضرت عائشہ کا بھی ہے۔ (بیہقی، ۵۶۶۴۱) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اصل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ کے سامنے وہ احادیث نہیں تھیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی طلاق کو لغو قرار دیا ہے، چنانچہ امام محمد نے اپنی کتابوں میں بعض صحابہ یعنی سیدنا عمر اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ کے فتووں ہی سے استدلال کیا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ ان صحابہ کے سامنے بھی آپ کا یہ ارشاد نہیں تھا۔ امام محمد کا طریقہ یہ ہے کہ اگر احناف کی رائے کے خلاف کوئی حدیث منقول ہو تو وہ اس کی بھی باقاعدہ تشریح کرتے ہیں، لیکن اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے موطا، کتاب الآثار اور الحجة علیٰ اہل المدینہ میں کسی جگہ بھی ان احادیث کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

بعد کے حنفی فقہا کے سامنے جب یہ احادیث آئیں تو انھوں نے ان کی تاویل سے کام لیا اور کہا کہ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح کی طرف نسبت کیے بغیر یہ کہے کہ فلاں عورت کو طلاق ہے تو ایسی طلاق نہیں ہوگی، لیکن اگر وہ یہ کہے کہ جب میں اس سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے تو طلاق ہو جائے گی۔
لیکن یہ تاویل خود احناف کے اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ ایک تو کسی شخص کا کسی اجنبی عورت کو خواہ مخواہ طلاق دے دینا کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں جس کی وضاحت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت محسوس فرماتے۔ ایسی صورت میں اس کے کلام کا لغو ہونا بالکل واضح ہے۔ یہ سوال پیدا ہی تب ہوتا ہے جب وہ نکاح کے ساتھ مشروط کر کے کسی عورت کو طلاق دے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صورت کا حکم بیان فرمایا ہے، وہ یہی صورت ہے نہ کہ پہلی صورت۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے یہ کہ بعض روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بیان ہی اس موقع پر کیا جب کسی شخص نے کہا کہ اگر میںفلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کہا کہ میں جس دن فلاں عورت سے نکاح کروں، اسے طلاق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس نے اس عورت کو طلاق دی ہے جس کا وہ مالک ہی نہیں (دارقطنی، ۴/۶۱) یعنی اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ، میری والدہ نے مجھے اپنی ایک رشتہ دار خاتون سے نکاح کرنے کے لیے کہا تو میں نے کہا کہ اگر میں اس سے نکاح کروں تو اسے تین طلاقیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس سے پہلے تم اس کے مالک تھے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، اس سے نکاح کر سکتے ہو۔ (دارقطنی، ۴/۹۱) ان روایات کی سند اگرچہ ضعیف ہے، لیکن ضعیف حدیث سے اگر کسی صحیح حدیث کی تشریح میں مدد لی جائے تو وہ قابل قبول ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ کا اصول بھی یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو صحابہ کے فتووں اور قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو نقل کرنے والے دو صحابیوں سیدنا علی اور عبد اللہ بن عباس نے بھی ان کا مطلب یہی سمجھا ہے اور اسی بنیاد پر یہ فتویٰ دیا ہے کہ ایسی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔ جو صحابی کسی حدیث کا راوی ہو، اس کے فہم کا فقہا کے ہاں خاص اعتبار ہوتا ہے، جبکہ یہاں حدیث کا یہ مفہوم سمجھنے والے سیدنا علی اور عبد اللہ بن عباس جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی ہیں۔

تعارف : مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
- See more at: http://www.mukaalma.com/article/ammarnasir/45#sthash.T1ngfF6t.dpuf
 
Top