محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
امی ابو کیا میں زنا کرلوں ؟
منه کالا کرلوں ؟
نھیں تو پھر تم ھی بتاؤ میں کیا کروں ؟
اپنے والد کو کتنی دفعه کھ چکا ھوں که ابو میری شادی کروادیں ، تو کھتے ھیں تجھے کیا جلدی ھے ؟
یار ابو کو خود سمجھنا چاھیۓ که ایک نوجوان آدمی کو کیا جلدی ھوتی ھے ، میں گناه سے بچنا چاھتا ھوں یار ، میں بچنا چاھتا ھوں ...................اتنا کھ کر وه نوجوان رکا ، تو میں نے اسکی آنکھوں میں نمی کی ایک ھلکی سی لھر تیرتی دیکھی-
کل سے سوچ رھا ھوں که یه صرف ایک نوجوان کا مسئله نھیں ، اندازه کیجیۓ ! ایک ایسے ماحول میں جو جنسی ترغیبات سے دہک رھا ھوں ، بھڑک کر شعلے ماررھا ھو اور جن شعلوں کی لپٹ نوجوان بچوں کے چھروں تک آرھی ھو ، کیا والدین کو اپنی ذمه داری کا احساس نھیں کرنا چاھیۓ !
ذیاده تر والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں بچوں کی شادی میں تاخیر په تاخیر کرتے چلے جاتے ھیں که جی اتنے اتنے زیور نھیں بنائیں گے اور فلاں شادی ھال لاکھوں میں بک نھیں کرینگے تو لوگ کیا کہیں گے , لیکن وه یه بھول جاتے ھیں که اگر خدا نخواسته بچے زنا میں مبتلا ھوگۓ تو الله سبحان و تعالی کیا کہیں گے...!
دنیا کے دستور پورے کرکے بمشکل 30 , 32 سال کی عمر میں تب شادی کردی جاتی ھے , جب بیٹا جوانی کی رعنائیاں کھو چکا ھوتا ھے , اور اسے بیوی سے رغبت باقی نھیں رھی ھوتی , یوں ھنستا بستا گھر جھنم بن جاتا ھے ,
اندازه کیجیۓ ! 15 سال کی عمر میں جوان ھونے کے بعد 30 سال تک پھنچنے کے اس زمانے میں نوجوان پر کیا کیا قیامتیں نه گزرتی ھونگی , اس کے پاس بس دو ھی آپشن ھوتے ھیں :
یاتو وه گناه سے اپنے آپ کو بچا کر روز اپنے ھی خواھشات کا قتل کرکے ھر لمحه جیتا اور ھر لمحه مرتا ھے ,
اور یا وه گناھوں کی اندھی وادی میں بھٹک کر ایسا گم ھوجاتا ھے که جب واپس آتا ھے تو اسکی گٹھڑی میں سواۓ حسرت و افسوس کے اور کچھ نھیں ھوتا ..
اور اس سب کی ذمه داری ان والدین پر عائد ھوتی ھے جو اپنی ناک اونچی رکھنے کیلیۓ اپنے جوان بچوں کو پستیوں میں دھکیل دیتے ھیں .....
خدارا ! لوگوں کی فکر چھوڑیۓ , اپنے بچوں کی فکر کیجیے
Copied
منه کالا کرلوں ؟
نھیں تو پھر تم ھی بتاؤ میں کیا کروں ؟
اپنے والد کو کتنی دفعه کھ چکا ھوں که ابو میری شادی کروادیں ، تو کھتے ھیں تجھے کیا جلدی ھے ؟
یار ابو کو خود سمجھنا چاھیۓ که ایک نوجوان آدمی کو کیا جلدی ھوتی ھے ، میں گناه سے بچنا چاھتا ھوں یار ، میں بچنا چاھتا ھوں ...................اتنا کھ کر وه نوجوان رکا ، تو میں نے اسکی آنکھوں میں نمی کی ایک ھلکی سی لھر تیرتی دیکھی-
کل سے سوچ رھا ھوں که یه صرف ایک نوجوان کا مسئله نھیں ، اندازه کیجیۓ ! ایک ایسے ماحول میں جو جنسی ترغیبات سے دہک رھا ھوں ، بھڑک کر شعلے ماررھا ھو اور جن شعلوں کی لپٹ نوجوان بچوں کے چھروں تک آرھی ھو ، کیا والدین کو اپنی ذمه داری کا احساس نھیں کرنا چاھیۓ !
ذیاده تر والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں بچوں کی شادی میں تاخیر په تاخیر کرتے چلے جاتے ھیں که جی اتنے اتنے زیور نھیں بنائیں گے اور فلاں شادی ھال لاکھوں میں بک نھیں کرینگے تو لوگ کیا کہیں گے , لیکن وه یه بھول جاتے ھیں که اگر خدا نخواسته بچے زنا میں مبتلا ھوگۓ تو الله سبحان و تعالی کیا کہیں گے...!
دنیا کے دستور پورے کرکے بمشکل 30 , 32 سال کی عمر میں تب شادی کردی جاتی ھے , جب بیٹا جوانی کی رعنائیاں کھو چکا ھوتا ھے , اور اسے بیوی سے رغبت باقی نھیں رھی ھوتی , یوں ھنستا بستا گھر جھنم بن جاتا ھے ,
اندازه کیجیۓ ! 15 سال کی عمر میں جوان ھونے کے بعد 30 سال تک پھنچنے کے اس زمانے میں نوجوان پر کیا کیا قیامتیں نه گزرتی ھونگی , اس کے پاس بس دو ھی آپشن ھوتے ھیں :
یاتو وه گناه سے اپنے آپ کو بچا کر روز اپنے ھی خواھشات کا قتل کرکے ھر لمحه جیتا اور ھر لمحه مرتا ھے ,
اور یا وه گناھوں کی اندھی وادی میں بھٹک کر ایسا گم ھوجاتا ھے که جب واپس آتا ھے تو اسکی گٹھڑی میں سواۓ حسرت و افسوس کے اور کچھ نھیں ھوتا ..
اور اس سب کی ذمه داری ان والدین پر عائد ھوتی ھے جو اپنی ناک اونچی رکھنے کیلیۓ اپنے جوان بچوں کو پستیوں میں دھکیل دیتے ھیں .....
خدارا ! لوگوں کی فکر چھوڑیۓ , اپنے بچوں کی فکر کیجیے
Copied