• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین کے لئے سوچنے کا مقام

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
امی ابو کیا میں زنا کرلوں ؟
منه کالا کرلوں ؟
نھیں تو پھر تم ھی بتاؤ میں کیا کروں ؟
اپنے والد کو کتنی دفعه کھ چکا ھوں که ابو میری شادی کروادیں ، تو کھتے ھیں تجھے کیا جلدی ھے ؟
یار ابو کو خود سمجھنا چاھیۓ که ایک نوجوان آدمی کو کیا جلدی ھوتی ھے ، میں گناه سے بچنا چاھتا ھوں یار ، میں بچنا چاھتا ھوں ...................اتنا کھ کر وه نوجوان رکا ، تو میں نے اسکی آنکھوں میں نمی کی ایک ھلکی سی لھر تیرتی دیکھی-
کل سے سوچ رھا ھوں که یه صرف ایک نوجوان کا مسئله نھیں ، اندازه کیجیۓ ! ایک ایسے ماحول میں جو جنسی ترغیبات سے دہک رھا ھوں ، بھڑک کر شعلے ماررھا ھو اور جن شعلوں کی لپٹ نوجوان بچوں کے چھروں تک آرھی ھو ، کیا والدین کو اپنی ذمه داری کا احساس نھیں کرنا چاھیۓ !
ذیاده تر والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں بچوں کی شادی میں تاخیر په تاخیر کرتے چلے جاتے ھیں که جی اتنے اتنے زیور نھیں بنائیں گے اور فلاں شادی ھال لاکھوں میں بک نھیں کرینگے تو لوگ کیا کہیں گے , لیکن وه یه بھول جاتے ھیں که اگر خدا نخواسته بچے زنا میں مبتلا ھوگۓ تو الله سبحان و تعالی کیا کہیں گے...!
دنیا کے دستور پورے کرکے بمشکل 30 , 32 سال کی عمر میں تب شادی کردی جاتی ھے , جب بیٹا جوانی کی رعنائیاں کھو چکا ھوتا ھے , اور اسے بیوی سے رغبت باقی نھیں رھی ھوتی , یوں ھنستا بستا گھر جھنم بن جاتا ھے ,
اندازه کیجیۓ ! 15 سال کی عمر میں جوان ھونے کے بعد 30 سال تک پھنچنے کے اس زمانے میں نوجوان پر کیا کیا قیامتیں نه گزرتی ھونگی , اس کے پاس بس دو ھی آپشن ھوتے ھیں :
یاتو وه گناه سے اپنے آپ کو بچا کر روز اپنے ھی خواھشات کا قتل کرکے ھر لمحه جیتا اور ھر لمحه مرتا ھے ,
اور یا وه گناھوں کی اندھی وادی میں بھٹک کر ایسا گم ھوجاتا ھے که جب واپس آتا ھے تو اسکی گٹھڑی میں سواۓ حسرت و افسوس کے اور کچھ نھیں ھوتا ..
اور اس سب کی ذمه داری ان والدین پر عائد ھوتی ھے جو اپنی ناک اونچی رکھنے کیلیۓ اپنے جوان بچوں کو پستیوں میں دھکیل دیتے ھیں .....
خدارا ! لوگوں کی فکر چھوڑیۓ , اپنے بچوں کی فکر کیجیے
Copied
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

لمحہ فکریہ والدہن کے لئے
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
ذیاده تر والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں بچوں کی شادی میں تاخیر په تاخیر کرتے چلے جاتے ھیں که جی اتنے اتنے زیور نھیں بنائیں گے اور فلاں شادی ھال لاکھوں میں بک نھیں کرینگے تو لوگ کیا کہیں گے , لیکن وه یه بھول جاتے ھیں که اگر خدا نخواسته بچے زنا میں مبتلا ھوگۓ تو الله سبحان و تعالی کیا کہیں گے...!
والدین غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں
دنیا کے دستور پورے کرکے بمشکل 30 , 32 سال کی عمر میں تب شادی کردی جاتی ھے , جب بیٹا جوانی کی رعنائیاں کھو چکا ھوتا ھے , اور اسے بیوی سے رغبت باقی نھیں رھی ھوتی , یوں ھنستا بستا گھر جھنم بن جاتا ھے ,
افسوس کا مقام ہے کہ کچھ عرصہ سے مغربي کلچر ، ثقافت و مزاج کي پیروي کرتے ہوئے بعض افراد نے ہمارے معاشرے ميں بھي ديرسے شادي کرنے کي رسم ڈال دي ہے ،جب کہ اسلام اس نظریہ کا سراسر مخالف ہے۔ اسلامي اعتبار سے شادي جس قدرنوجواني کے زمانے سے قريب ہو، اتنا ہي بہتر ہے۔ ظاہر سي بات ہے کہ جب بےجا اخراجات مثلا باقاعدہ ايک عليحدہ گھر ہو، مستقل طور پر کوئي نوکري يا کاروبار ہو يا ديگر ہزارہا مسائل ازدواجي زندگي سے منسلک کر دئیے جائيں گي تو لا محالہ شادي ميں تاخير کا مسئلہ پيش آئے گا۔ جبکہ ان ميں سے ايک بھي شرط ازدواجي زندگي شروع کرنے کے لئے ضروري نہيں ہے۔اگر مذکورہ بےجا اخرجات ميں حقيقي طور پر کمي کر لي جائے تو يقينا شادياں اپنے صحيح اور مناسب وقت پر انجام پذير ہونے لگيں گي اور شريعت اسلامي ميں بھي اس بات کي بہت تاکيد کي گئي ہے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

ﺷﺎﺩﯼ !

ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺟﺐ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ، ﺁﺩﮬﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺁﺩﮬﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﻮ ﮐﻢ ﮐﻮ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﺁﺩﮬﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﮍﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ، ﺟﻮ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﮑﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﮈﮬﻮﻧﮉ ﻟﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭘﯿﭽﯿﺪﮔﯿﺎﮞ ﭘﯿﺪ ﺍﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺧﺎﺹ ﮐﺮ ﺫﮨﻨﯽ ﮨﻢ ﺁﮨﻨﮕﯽ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ۔۔۔
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ ﻗﺼﻮﺭ ۔ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﺎ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﮩﯿﺰ ﮐﯽ ﺭﺳﻢ ﮐﻮ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﺎﯾﺎ، ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺷﮩﻨﺸﺎﮨﯽ ﺧﺮﭼﮯ ﮐﯿﮯ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﻻﻝ ﮔﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﻝ ﻻﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ۔۔۔۔۔۔۔

ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺗﺤﺎﺷﮧ ﺍﺿﺎﻓﮧ ، ﭘﮭﺮ ﻓﻀﻮﻝ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ، ﺟﮩﯿﺰ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ، ﻏﺮﺽ ﺍﻥ ﺳﺐ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﻧﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﮩﻨﮕﺎ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ، ﭘﮭﺮ ﺩﮬﻮﻡ ﺩﮬﺎﻡ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ، ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﺗﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺉ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﺍﭘﺮﭨﯽ ﺑﯿﭽﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺉ ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﻗﺮﺽ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﻗﺮﺽ ﺳﮯ ﮐﯽ ﮔﺊ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮑﻮﻥ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔

ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ، ﺳﺐ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﺎ ﺣﻞ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ، ﻭﺭﻧﮧ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﭽﯿﺪﮔﯿﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ!
 
Top