- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
ایک سکول ميں پرنسپل کی طرف سے والدين کو بھیجا گيا ایک خط ۔۔ غور سے پڑھيے گا اور پھر اس پر سوچيے گا بھی ۔
محترم والدين ۔۔۔
آپ کے بچوں کے امتحان قريب ہيں اور مجھے اندازہ ہے کہ آپ لوگ اس وقت کس قدر ٹينشن میں ہوں گے کہ آپ کا بچہ امتحان ميں اچھے نمبروں سے پاس ہو ۔
ليکن براۓ مہربانی يہ یاد رکھيے گا کہ امتحان دينے والے بچوں ميں سے کوئی بچہ آرٹسٹ ہو گا جس کو ميتھس ميں نمایاں کارگردگی دکھانے کی قطعا" ضرورت نہيں ۔
کوئی بچہ بزنس مين ہو گا جس کو انگلش ادب ميں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی ۔
کوئی موسیقار ہو گا جس کو کیمسٹری سیکھنے کی چنداں حاجت نہيں ۔
کوئی کھلاڑی ہو گا جس کی فزيکل فٹنس، فزکس سيکھنے سے زیادہ ضروری ہے ۔
اگر آپ کا بچہ اچھے نمبر ليتا ہے توبہت اچھی بات ہے لیکن اگرنہيں لیتا تو براۓ کرم ان سے ان کا اعتماد اورہمت مت چھينيے ۔
ان کو بتايے کہ 'کوئی بات نہيں يہ صرف امتحان تھا يہ زندگی کے بڑے کاموں ميں سے ايک چھوٹا ساکام تھا ۔'
ان کو بتايے کہ کوئی بات نہيں اگر تمہارا نتيجہ بہت اچھا نہيں رہا ليکن اپ پھر بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتے ہيں اوراس نتیجے کی وجہ سے ناراض نہيں ہيں ۔
آپ سے گذارش ہے کہ ایسا ضرور کیجيے اور جب آپ ايسا کريں گے تو آپ اپنے بچے کو دل سے آگے بڑھتا دیکھیں گے اور ترقی کرتا ديکھيں گے ۔
اگر آپ ان کا ساتھ ديں تو ۔۔۔ ایک امتحان يا کم نمبر ان بچوں سے ان کی قابليت اور ان کے خواب نہيں چھين سکتے ۔
آخر ميں ایک بات جو یاد رکھنے والی ہے کہ صرف ڈاکٹرز اورانجينئرز ہی دنیا میں خوشحال زندگی نہيں گزار رہے ۔
پرخلوص تمناؤں کے ساتھ
پرنسپل
اس خط ميں جس بات کی نشاندہی کی گئی ہے بدقسمتی سے وہ ہمیں ہر گھر ميں نظر آتی ہے ۔ امتحان والدين کے ليے عزت ، بےعزتی کا مسئلہ بن جاتے ہين ۔ مقابلہ بازی بچوں کوزہنی دباؤ کا شکار کر دیتی ہے ۔ پھر والدين کے اونچے اونچے خواب بچے کی ذاتی قابليت اور اہلیت کو کمزور کر ديتے ہيں ۔
اگر بچے کے رحجان کو ديکھتے ہوۓ اس کی صحيح رہنمائی کی جاۓ اور اس کی حوصلہ افزائی کی جاۓ تو ہم ملک کو اچھے کارآمد شہری دے سکتے ہيں جو نہ صرف خود کامیاب ہوں گے بلکہ ملک و قوم کی ترقی ميں اپنا حصہ بنے۔۔"
محترم والدين ۔۔۔
آپ کے بچوں کے امتحان قريب ہيں اور مجھے اندازہ ہے کہ آپ لوگ اس وقت کس قدر ٹينشن میں ہوں گے کہ آپ کا بچہ امتحان ميں اچھے نمبروں سے پاس ہو ۔
ليکن براۓ مہربانی يہ یاد رکھيے گا کہ امتحان دينے والے بچوں ميں سے کوئی بچہ آرٹسٹ ہو گا جس کو ميتھس ميں نمایاں کارگردگی دکھانے کی قطعا" ضرورت نہيں ۔
کوئی بچہ بزنس مين ہو گا جس کو انگلش ادب ميں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی ۔
کوئی موسیقار ہو گا جس کو کیمسٹری سیکھنے کی چنداں حاجت نہيں ۔
کوئی کھلاڑی ہو گا جس کی فزيکل فٹنس، فزکس سيکھنے سے زیادہ ضروری ہے ۔
اگر آپ کا بچہ اچھے نمبر ليتا ہے توبہت اچھی بات ہے لیکن اگرنہيں لیتا تو براۓ کرم ان سے ان کا اعتماد اورہمت مت چھينيے ۔
ان کو بتايے کہ 'کوئی بات نہيں يہ صرف امتحان تھا يہ زندگی کے بڑے کاموں ميں سے ايک چھوٹا ساکام تھا ۔'
ان کو بتايے کہ کوئی بات نہيں اگر تمہارا نتيجہ بہت اچھا نہيں رہا ليکن اپ پھر بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتے ہيں اوراس نتیجے کی وجہ سے ناراض نہيں ہيں ۔
آپ سے گذارش ہے کہ ایسا ضرور کیجيے اور جب آپ ايسا کريں گے تو آپ اپنے بچے کو دل سے آگے بڑھتا دیکھیں گے اور ترقی کرتا ديکھيں گے ۔
اگر آپ ان کا ساتھ ديں تو ۔۔۔ ایک امتحان يا کم نمبر ان بچوں سے ان کی قابليت اور ان کے خواب نہيں چھين سکتے ۔
آخر ميں ایک بات جو یاد رکھنے والی ہے کہ صرف ڈاکٹرز اورانجينئرز ہی دنیا میں خوشحال زندگی نہيں گزار رہے ۔
پرخلوص تمناؤں کے ساتھ
پرنسپل
اس خط ميں جس بات کی نشاندہی کی گئی ہے بدقسمتی سے وہ ہمیں ہر گھر ميں نظر آتی ہے ۔ امتحان والدين کے ليے عزت ، بےعزتی کا مسئلہ بن جاتے ہين ۔ مقابلہ بازی بچوں کوزہنی دباؤ کا شکار کر دیتی ہے ۔ پھر والدين کے اونچے اونچے خواب بچے کی ذاتی قابليت اور اہلیت کو کمزور کر ديتے ہيں ۔
اگر بچے کے رحجان کو ديکھتے ہوۓ اس کی صحيح رہنمائی کی جاۓ اور اس کی حوصلہ افزائی کی جاۓ تو ہم ملک کو اچھے کارآمد شہری دے سکتے ہيں جو نہ صرف خود کامیاب ہوں گے بلکہ ملک و قوم کی ترقی ميں اپنا حصہ بنے۔۔"