- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
محترم بھائی @اقبال جاوید الهندي نے فقہی سوالات کے سیکشن میں سوال کیا ہے کہ :
سوال :
ایک بھای کے والد کی الیکٹرانک کے سامان کی دکان ہے لیکن اس کے والد اس دکان میں ساتھ ہی شگریٹ تمباکو بھی فروخت کرتے ہیں؟ تو کیا وہ بھای اپنے والد کے ساتھ مل کر انکے مال سے کھا سکتا ہے؟ وہ بھا ی کچھ کام نہیں کرتا الگ وہ اپنے والد کے ماتحت ہے تو اسکو کیا کرنا چاہیے؟ وہ دکان میں الیکٹرانک سمان مارکیٹ سے لینا کا کا کرتا ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ جس كے مال ميں حلال وحرام ملا جلا ہو اس كے مال سے كھانا جائز ہے اور ہرطرح كےمعاملات كرنےجائز ہيں ، لیکن اس سے بچنا اولي اورافضل ہے .
اور فرمان باري تعالي ہے:
( ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب )
{اور جوكوئي اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرے اللہ تعالي اس كےليے نكلنے كا راستہ بنا ديتا ہے اور اسے روزي وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھي نہيں ہوتا}
آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ حرام خوري كا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اگر كچھ بھي نہ ہو پھر بھي حرام كھانے والےشخص كي دعا كبھي قبول نہيں ہوتي جيسا كہ صحيح مسلم ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي حديث ہے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبًا ... ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ له " رواه مسلم برقم 1015
بلاشبہ اللہ تعالي پاك ہے اور پاكيزہ چيز ہي قبول فرماتا ہے ... ايك ايسے شخص كا ذكر كيا گيا جس نے بہت طويل اور لمبا سفر طے كيا اس كے بال بكھرے ہوئے اور پراگندہ حالت ميں وہ آسمان كي جانب ہاتھ بلند كيے يارب يارب كہے اور اس كا كھانا حرام كا اس كا پينا حرام كا اور اس كا لباس بھي حرام كا اوراس كي غذا ہي حرام خوري ہے تواس كي دعا كہاں قبول ہو . صحيح مسلم ( 1015 )
اور آپ كے والد كا اس حرام ذرائع سے مال كمانے كوعلماء كرام حرام كمائي ( مالامحرما لكسبہ ) كا نام ديتےہيں يعني اس نے حرام طريقے سے مال كمايا ہے ، اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ يہ مال صرف كمائي كرنے والے پر حرام ہے .
ليكن جوشخص يہ مال كسي مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرے اس پر حرام نہيں مثلا اگر آپ كے والدآپ كو ہديہ ديں يا پھر خرچہ وغيرہ ديں تو آپ كےليے يہ حرام نہيں .
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتے ہيں :
بعض علمائے كرام كا كہنا ہے كہ: حرام كمائي كا گناہ صرف كمائي كرنے والے پرہے نہ كہ كمائي كرنےوالے شخص سے حاصل كرنےوالے پرجس نے مباح اور جائزطريقہ سے حرام كمائي والے شخص سے حاصل كيا،
بخلاف اس چيزكے جوبعينہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب كردہ چيز وغيرہ .يہ قول قوي اور وجيہ ہے اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كےليے ايك يہودي سے غلہ خريدا تھا ، اور خيبرميں ايك يہودي عورت كي جانب سے ہديہ كردہ بكري كا گوشت كھايا ،
اور يہودي كي دعوت قبول كي .
يہ معلوم ہونا چاہيے كي اكثر يہودي سود ليتے اورحرام خور ہيں ، اور اس قول كي تقويت رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل قول سے بھي ہوتي ہے :
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بريرہ رضي اللہ تعالي عنہا پر صدقہ كيےگئےگوشت كےبارہ ميں فرمايا : ( وہ اس كےليےتوصدقہ اوراس كي جانب سے ہمارے ليے ہديہ ہے ) ديكھيں القول المفيد علي كتاب التوحيد ( 3 / 112 )
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھي كہنا ہے :
جوخبيث اور حرام طريقہ سے كمايا گيا ہو مثلا دھوكہ اور فراڈ سے حاصل كردہ ، يا پھر سود كے ذريعہ يا جھوٹ وغيرہ كے ذريعہ حاصل كردہ مال يہ كمانے والے پر حرام ہے اس كے علاوہ كسي اور پر حرام نہيں اگراس نے مباح اور جائز طريقہ كےساتھ حرام كمائي والے سے حاصل كيا ہو . اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم يہوديوں سے لين دين كرتے تھے حالانكہ وہ حرام خور اور سود ليتے ہيں ، تويہ اس بات كي دليل ہے كہ
كمائي كرنے والے كےعلاوہ كسي اورپر يہ حرام نہيں . تفسير سورۃ البقرۃ ( 1 / 198 )
تواس بنا پر آپ اپنے والد كي وارثت حاصل كرسكتے ہيں ، اور يہ آپ كے ذمہ نہيں كہ انہوں نے جوكچھ ديا ہے اس كا حساب وكتاب كرتے پھريں يا پھر جوديا ہے وہ واپس كريں ، ليكن اگر آپ اس كے مال سے نہ كھانے كي استطاعت ركھتے ہيں تويہ اولي اور بہتر اور اسي ميں ورع وتقوي ہے .
واللہ تعالي اعلم , مزيد تفصيل كے ليے آپ مندرجہ ذيل كتب ديكھيں احكام القرآن لابن العربي ( 1 / 324 ) المجموع ( 9 / 430 ) الفتاوي الفقھيۃ الكبري
للھيتمي ( 2 / 233 ) كشاف القناع ( 3 / 496 ) سوال نمبر (21701)
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
https://islamqa.info/ar/45018
سوال :
ایک بھای کے والد کی الیکٹرانک کے سامان کی دکان ہے لیکن اس کے والد اس دکان میں ساتھ ہی شگریٹ تمباکو بھی فروخت کرتے ہیں؟ تو کیا وہ بھای اپنے والد کے ساتھ مل کر انکے مال سے کھا سکتا ہے؟ وہ بھا ی کچھ کام نہیں کرتا الگ وہ اپنے والد کے ماتحت ہے تو اسکو کیا کرنا چاہیے؟ وہ دکان میں الیکٹرانک سمان مارکیٹ سے لینا کا کا کرتا ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ جس كے مال ميں حلال وحرام ملا جلا ہو اس كے مال سے كھانا جائز ہے اور ہرطرح كےمعاملات كرنےجائز ہيں ، لیکن اس سے بچنا اولي اورافضل ہے .
اور فرمان باري تعالي ہے:
( ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب )
{اور جوكوئي اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرے اللہ تعالي اس كےليے نكلنے كا راستہ بنا ديتا ہے اور اسے روزي وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھي نہيں ہوتا}
آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ حرام خوري كا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اگر كچھ بھي نہ ہو پھر بھي حرام كھانے والےشخص كي دعا كبھي قبول نہيں ہوتي جيسا كہ صحيح مسلم ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي حديث ہے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبًا ... ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ له " رواه مسلم برقم 1015
بلاشبہ اللہ تعالي پاك ہے اور پاكيزہ چيز ہي قبول فرماتا ہے ... ايك ايسے شخص كا ذكر كيا گيا جس نے بہت طويل اور لمبا سفر طے كيا اس كے بال بكھرے ہوئے اور پراگندہ حالت ميں وہ آسمان كي جانب ہاتھ بلند كيے يارب يارب كہے اور اس كا كھانا حرام كا اس كا پينا حرام كا اور اس كا لباس بھي حرام كا اوراس كي غذا ہي حرام خوري ہے تواس كي دعا كہاں قبول ہو . صحيح مسلم ( 1015 )
اور آپ كے والد كا اس حرام ذرائع سے مال كمانے كوعلماء كرام حرام كمائي ( مالامحرما لكسبہ ) كا نام ديتےہيں يعني اس نے حرام طريقے سے مال كمايا ہے ، اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ يہ مال صرف كمائي كرنے والے پر حرام ہے .
ليكن جوشخص يہ مال كسي مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرے اس پر حرام نہيں مثلا اگر آپ كے والدآپ كو ہديہ ديں يا پھر خرچہ وغيرہ ديں تو آپ كےليے يہ حرام نہيں .
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتے ہيں :
بعض علمائے كرام كا كہنا ہے كہ: حرام كمائي كا گناہ صرف كمائي كرنے والے پرہے نہ كہ كمائي كرنےوالے شخص سے حاصل كرنےوالے پرجس نے مباح اور جائزطريقہ سے حرام كمائي والے شخص سے حاصل كيا،
بخلاف اس چيزكے جوبعينہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب كردہ چيز وغيرہ .يہ قول قوي اور وجيہ ہے اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كےليے ايك يہودي سے غلہ خريدا تھا ، اور خيبرميں ايك يہودي عورت كي جانب سے ہديہ كردہ بكري كا گوشت كھايا ،
اور يہودي كي دعوت قبول كي .
يہ معلوم ہونا چاہيے كي اكثر يہودي سود ليتے اورحرام خور ہيں ، اور اس قول كي تقويت رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل قول سے بھي ہوتي ہے :
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بريرہ رضي اللہ تعالي عنہا پر صدقہ كيےگئےگوشت كےبارہ ميں فرمايا : ( وہ اس كےليےتوصدقہ اوراس كي جانب سے ہمارے ليے ہديہ ہے ) ديكھيں القول المفيد علي كتاب التوحيد ( 3 / 112 )
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھي كہنا ہے :
جوخبيث اور حرام طريقہ سے كمايا گيا ہو مثلا دھوكہ اور فراڈ سے حاصل كردہ ، يا پھر سود كے ذريعہ يا جھوٹ وغيرہ كے ذريعہ حاصل كردہ مال يہ كمانے والے پر حرام ہے اس كے علاوہ كسي اور پر حرام نہيں اگراس نے مباح اور جائز طريقہ كےساتھ حرام كمائي والے سے حاصل كيا ہو . اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم يہوديوں سے لين دين كرتے تھے حالانكہ وہ حرام خور اور سود ليتے ہيں ، تويہ اس بات كي دليل ہے كہ
كمائي كرنے والے كےعلاوہ كسي اورپر يہ حرام نہيں . تفسير سورۃ البقرۃ ( 1 / 198 )
تواس بنا پر آپ اپنے والد كي وارثت حاصل كرسكتے ہيں ، اور يہ آپ كے ذمہ نہيں كہ انہوں نے جوكچھ ديا ہے اس كا حساب وكتاب كرتے پھريں يا پھر جوديا ہے وہ واپس كريں ، ليكن اگر آپ اس كے مال سے نہ كھانے كي استطاعت ركھتے ہيں تويہ اولي اور بہتر اور اسي ميں ورع وتقوي ہے .
واللہ تعالي اعلم , مزيد تفصيل كے ليے آپ مندرجہ ذيل كتب ديكھيں احكام القرآن لابن العربي ( 1 / 324 ) المجموع ( 9 / 430 ) الفتاوي الفقھيۃ الكبري
للھيتمي ( 2 / 233 ) كشاف القناع ( 3 / 496 ) سوال نمبر (21701)
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
https://islamqa.info/ar/45018