• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وتر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
وتر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم

تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ -سعودی عرب


صحیح قول کی روشنی میں وتر کی نماز کا حکم سنت موکدہ ہے اور یہ رات کی آخری نماز ہے ۔ نبی ﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ رات کی سب سے آخری نماز وتر کو بنایا جائے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا(صحیح البخاری:998)
ترجمہ: وتر رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھا کرو۔
آپ کا اکثر معمول بھی یہی تھا چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، حَتَّى يَكُونَ آخِرَ صَلَاتِهِ الْوِتْرُ(صحیح مسلم:740)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ر ات کو نماز پڑھتے حتیٰ کہ ان کی نماز کا آخری حصہ وتر ہوتا۔ (اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی تھا) -
اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی حکم ہے کہ ایک رات میں دو مرتبہ وتر نہیں پڑھنا ہے بلکہ ایک ہی بار پڑھنا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا وِترانِ في ليلةٍ(صحيح أبي داود:1439)
ترجمہ: ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں۔
گزشتہ حدیث سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہے اس کے باوجود نبی ﷺ سے وتر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے ۔اس سلسلے میں متعدد احادیث آئی ہیں ، دوچندکا یہاں ذکر کرتا ہوں ۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " كَانَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ يُوتِرُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالإِقَامَةِ مِنَ صَلَاةِ الصُّبْحِ(صحیح مسلم:738)
ترجمہ:ابو سلمہ سے ر وایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوا ل کیا تو انھوں نے کہا آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، آٹھ رکعتیں پڑھتے پھر (ایک رکعت سے) وتر ادا فرماتے، پھر بیٹھے ہوئے دو رکعتیں پڑھتے، پھر جب رکوع کرنا چاہتے تو اٹھ کھڑے ہوتے اور رکوع کرتے، پھر صبح کی نماز کی اذان اور اقامت کے درمیا دو رکعتیں پڑھتے۔
ایک ودسری حدیث میں ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا:
إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يوترُ بتِسعِ رَكَعاتٍ ، ثمَّ يصلِّي رَكْعتينِ وَهوَ جالِسٌ ، فلمَّا ضَعُفَ :أوترَ بسبعِ رَكَعاتٍ ، ثمَّ صلَّى رَكْعتينِ وَهوَ جالسٌ(صحیح النسائی:1721)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نو رکعات وتر پڑھتے تھے پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے تھے ، جب آپ کمزور ہوگئے تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے پھر بیٹھ کر دو رکعت نماز ادا کرتے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا فرماتے تھے ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے ۔
وَعَنْ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ هَذَا السَّهَرَ جُهْدٌ وَثِقَلٌ فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَإِنْ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ وَإِلَّا كَانَتَا لَهُ» . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
ترجمہ:حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ جاگنا مشقت اور بوجھ ہے جب تم میں سے کوئی وتر پڑھے تو دورکعتیں پڑھ لے اگر رات میں اٹھ بیٹھا تو خیر ورنہ یہ رکعتیں اسے کافی ہیں۔
٭اس کو دارمی نے روایت ہے ۔ اس حدیث کی سندکو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے(هداية الرواة:1238)
آخرالذکر حدیث کے بارے میں بعض اہل علم یہ کہتے ہیں یہاں پر دو رکعت سے مراد یہ ہے کہ سفر میں صرف ایک رکعت پہ ہی اکتفا نہ کرے بلکہ پہلے دو رکعت پڑھے پھر ایک رکعت پڑھے کیونکہ بعض روایات میں ھذاالسھر کی جگہ ھذا السفر بھی آیا ہےجیسے ابن حبان اور ابن خزیمہ وغیرہ۔ اور دوسرا مطلب وتر کے بعد دو رکعت ادا کرنا بھی ہے ۔
المہم ان چند روایات سے ہمیں وتر کے بعد دو رکعت پڑھنے کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے اس لئے اگر کوئی نبی ﷺ کی اقتداء میں وتر کی نماز کے بعد دو رکعت ادا کرنا چاہے تو بلاشبہ وہ دورکعت نماز ادا کرسکتا ہے مگر اس عمل کو معمول نہیں بنانا چاہئے کیونکہ نبیﷺ نے یہ عمل کبھی کبھار کیا ہے ، اکثر معمول آپ کا یہ رہا کہ آپ نے وتر کو ہی رات کی آخری نماز بنائی ہے جیساکہ سطوربالا میں قولی و فعلی حدیث کی روشنی میں بتایا گیا ہے۔
جس کسی کو رات میں قیام اللیل کرنے کا ارادہ ہو وہ عشاء کے بعد وتر نہ پڑھے ، پہلے قیام اللیل کرلے پھر آخر میں وتر پڑھے تاہم اس بات کی گنجائش ہے کہ وتر پڑھنے کے بعد بھی نوافل ادا کرسکتے ہیں اس لئے کبھی آپ وتر پڑھ کر سوگئے اور رات میں قیام اللیل پڑھنے کے لئے اٹھے تو آپ قیام کرسکتے ہیں لیکن چونکہ آپ نے ایک مرتبہ وتر ادا کرلی ہے تو دوبارہ آپ وتر ادا نہیں کریں گے ۔ اوپر اس کی دلیل گزری ہے ، اور اس بارے میں ایک صحابی کا عمل بھی ذکر کردیتا ہوں ۔
عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، قال: زَارَنَا أَبِي طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ فَأَمْسَى بِنَا وَقَامَ بِنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَأَوْتَرَ بِنَا، ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدٍ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى بَقِيَ الْوِتْرُ، ثُمَّ قَدَّمَ رَجُلًا , فَقَالَ لَهُ: أَوْتِرْ بِهِمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ"( صحيح النسائي :1678)
ترجمہ:قیس بن طلق کہتے ہیں ہمارے والد طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں ایک دن ہماری زیارت کی اور ہمارے ساتھ انہوں نے رات گزاری، ہمارے ساتھ اس رات نماز تہجد ادا کی، اور وتر بھی پڑھی، پھر وہ ایک مسجد میں گئے، اور اس مسجد والوں کو انہوں نے نماز پڑھائی یہاں تک کہ وتر باقی رہ گئی، تو انہوں نے ایک شخص کو آگے بڑھایا، اور اس سے کہا: انہیں وتر پڑھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”ایک رات میں دو وتر نہیں“۔
وتر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھنے کا اب مسئلہ پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ اصل تو یہی ہے کہ وتر کو ہی رات کی آخری نماز بنانا ہے ،یہی افضل عمل ہےاس لئےاسی کو اپنا معمول بنانا چاہئے تاہم کوئی کبھی کبھار وتر کے بعد دو رکعت ادا کرنا چاہے تو وتر کے بعد دو رکعت ادا کرنا جائز ہے اور اسی طرح کوئی وتر پڑھنے کے بعد قیام اللیل کرنا چاہے تو قیام اللیل بھی کرسکتا ہے مگر دوبارہ وتر نہ پڑھے ۔
 
Top